نہاتی دھوتی رہ گئی تےنک اُتے مکھی بہہ گئی/احمد شہزاد

میاں صاحب کی سیاسی ولادتِ باسعادت جنرل جیلانی اور جنرل ضیا الحق کی عسکری چھتری تلے ہوئی ، ان کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ یہ قسمت کے دھنی ہیں ، اقتدار کی راہداریوں سے بار بار نکالے جانے کے باوجودکچھ عرصے بعد اقتدار کے سنگھاسن پر براجمان ہوجاتے رہے ۔ 2024 کا الیکشن انہی کی خواہش پر دو چیف کی رضا مندی سے شرمندہء تعبیر ہوا، انہیں باور کرایا گیا کہ آپ کے بغیرالیکشن کمپین نہیں چلے گی۔ مقتدر حلقوں کا اشارہ پاتے ہی میاں صاحب کشاں کشاں کھچے چلے آئے جیسے “پکے” دھاگے سے بندھے سرکار چلے آتے ہیں ۔ ویسے تو میاں صاحب نے کئی بار اسٹبلشمنٹ سے چوٹ کھائی ہے ، جیسے ڈھیٹ عاشق محبوبہ کی گلی میں مار کھانے کے باوجود بار بار چکر لگانے سے باز نہیں آتا اسی مصداق میاں صاحب بھی بار باراسی کے در پر جاتے ہیں بقول میر تقی میر
بار بار اُسی کے در پر جاتا ہوں
حالت اب اضطراب کی سی ہے
اس بار جیسے ہی خاص اشارہ ہوا میاں صاحب سمجھے یہ ” نکے ہُندیاں دا پیار اے” یعنی اسٹبلشمنٹ اپنی غلطیوں ، کوتاہیوں اور ناانصافیوں کا ازالہ کرنا چاہتی ہے اور انہیں اس بار بڑی آن بان شان سے اقتدار کی بر مالا پہنائی جائے گی۔ پھر موصوف اپنا حصہ لینے ساڑھے چار سال بعد لندن سے تشریف لے ہی آئے ۔ ن لیگ کے رہنماؤں اور میڈیا کمپین نےیہ باور کرا دیا تھا کہ الیکشن کی بساط ہی ظلِ سبحانی کے چوتھی بار وزیرِ اعظم بننے کے لیے بچھائی گئی ہے ۔
میاں صاحب سہانے خواب اور رنگین سپنوں کی فضا میں بہت اُونچا اُڑتے ہوئے اقتدار کے سنگھاسن پر قدم رنجہ فرمانے کی جانب اس لیے گامزن ہوئے تھے کہ عمران خان کو مختلف مقدمات میں پابندِ سلاسل کر کے لیونگ پلینگ فیلڈ قائم کر دی گئی تھی لیکن بڑی عدالت کے ایک فیصلے بقول غالب
پھر کھلا ہے درِ عدالتِ ناز
گرم بازارِ فوجداری ہے
کی بدولت نہ صرف ان کی مخالف جماعت کو انتخابی نشان سے یک جنبشِ قلم محروم کیا بعد ازاں مقبول رہنما کو پے در پے مقدمات کی بنا پر سزاؤں میں بھی جکڑ دیا گیا ۔ان عوامل نے میاں صاحب کی مشکلات کو ایسا آسان کیا کہ تحریکِ انصاف کے امیدوار قسم قسم کے انتخابی نشان پر الیکشن لڑنے پرمجبور کر دیئے گئے ۔ میاں صاحب کے لیے میدان کھلا تھا۔سیاسی مبصرین کے ساتھ ساتھ مقتدرہ کا خیال تھا کہ اب مرزا یار سنجیاں گلیوں میں دیوانہ وار نہ صرف چلے گا بلکہ دوڑتے ہوئے پہلی پوزیشن بھی حاصل کر لے گا۔
پھر 8 فروری کا دن بھی آن پہنچا۔ ن لیگ اپنے تئیں دو تہائی کا راگ الاپ کر یہی سمجھ بیٹھی کہ اس بار دو تہائی سے اُوپر کامیابی ان کے حصے میں لکھ دی گئی ۔ ن لیگ خوش گمانی کی فضا میں اُڑ ہی رہی تھی کہ آزاد روش کی ایسی آندھی چلی کہ جس نے اس کے قدم ہی اکھاڑ کے رکھ دیئے، نہ صرف قدم اکھڑے بلکہ اوندھے مُنہ زمیں کے بل آ گری۔ ابتدائی نتائج کے آتے ہی وکٹری سپیچ کی حسرت لیے میاں صاحب اور دیگر ن لیگی قیادت دبک کر بیٹھ گئی۔ ن لیگ عوامی غیض و غضب کا شکار ہو ہی جاتی لیکن 8 فروری کی رات “غیبی”مدد کی بدولت نتائج کی تبدیلی سے اگلے دن کچھ حوصلہ پیدا ہوا ، میاں صاحب مانسہرہ کے ساتھ ساتھ لاہور سے بھی اُڑ کر فضا میں ہی معلق ہو جاتے اگر خلائی مخلوق ہاتھ نہ تھام لیتی ۔ 9 فروری کو غیبی مدد پا کر ن لیگ کی کچھ جان میں جان آئی ۔رات گئے دوسرے نمبر پر آنے کے باوجود طوعاً و کرہاً وکٹری سپیچ تو کر ڈالی مگر دل سے ایک ہی صدا نکلی
“عادت ہی بنا لی ہے تم نے تو منیر اپنی”
اخبارات میں جہازی سائز کے فرنٹ پیج کے اشتہارات اور ٹی وی کمپین پر چوتھی بار وزیرِ اعظم کا اتنا واویلا کیا گیا کہ میاں صاحب کی جماعت انہیں چوتھی بار وزیراعظم بنا چکی تھی ایسے میں اقتدار کا ہُما جو ان کے سر پر بیٹھنا تھا وہ اس سے محروم رہ گئے ۔میاں صاحب تو یہ بھی نہیں کہہ سکتے کہ “میں لُٹی گئی جے ” ۔ بہر حال اقتدار کی اس محرومی پر پنجابی کا ایک محاورہ نہ جانے کیوں ذہن میں آ رہا ہے
” نہاتی دھوتی رہ گئی تےنک اُتے مکھی بہہ گئی”

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply