” اُسے خبر ہے کہ تاریخ کیا سکھاتی ہے “۔۔ مظہر حسین سیّد

محمد تو فیق کی زیرِ نظر کتاب ” شمشیرو سناں اوّل ” اپنے نام اور سرورق کی مناسبت سے “اور تلوار ٹوٹ گئی” ” آخری چٹان ” اور “داستانِ مجاہد ” نامی نسیم حجازی کی کتابوں کا تسلسل محسوس ہوتی ہے ۔
مجھے یقین ہے کہ قارئین کی اکثریت نے اس کے نام اور سرورق سے یہی اندازہ لگایا ہو گا اور ممکن ہے کچھ لوگوں نے کتاب کو پڑھنے کی زحمت بھی نہیں کی ہو گی ۔ کیونکہ وہ اس قسم کی کتابوں کے بارے میں بخوبی جانتے ہیں کہ یہ کتابیں کیوں لکھی یا لکھوائی جاتی ہیں ۔
اگر آپ بھی اس کتاب کے بارے میں یہی تاثر رکھتے ہیں تو میں آپ کو دعوے سے کہتا ہوں کہ یہ کتاب آپ کو ایک خوشگوار حیرت سے دوچار کرنے والی ہے ۔
کیا اس کتاب کا مقصد جنگی جنون کو ہوا دے کر عوام کو سستی جذباتیت کا شکار کرنا ہے ۔ جیسا کہ مخصوص مقاصد کے لیے مذکورہ بالا کتابوں میں ہوتا رہا ہے ۔ اس کا سیدھا اور دو ٹوک جواب ہے
” قطعاََ نہیں ”
آپ سوچ رہے ہوں گے کہ میں اس کتاب سے اپنی مرضی کے مفاہیم اخذ کرنے کی کوشش کر رہا ہوں لہذا مناسب معلوم ہوتا ہے کہ اسی کتاب سے ایک اقتباس نقل کر دیا جائے تاکہ میری بات کی تائید ہو سکے ۔

” کُرّہء ارض پر انسان جہالت اور بھوک سے لڑنے کے بجائے اپنی تباہی کا ایسا ہولناک اور ہوش رُبا اہتمام کیوں کر رہا ہے کہ جس سے دنیا کو سو مرتبہ سے زاید راکھ کا ڈھیر بنایا جا سکتا ہے۔ یہ ایک تلخ مگر ٹھوس حقیقت ہے کہ آج صرف دنیا کی واحد سپر پاور امریکہ بہادر کا دفاعی بجٹ 732بلین ڈالر ہے۔ دنیا میں دفاع پر سب سے زیادہ خرچ کرنے والے پانچ بڑے ملک کون سے ہیں؟ دفاعی ساز و سامان تیاراور فروخت کرنے والے صفِ اول کے پانچ ممالک کو ن سے ہیں؟ دنیا میں اسلحہ کے پانچ سب سے بڑے خریدار اور ایکسپورٹر ممالک کون سے ہیں؟ اسلامی ممالک کا دفاعی پیداوار،جدید ٹیکنالوجی کی اس جدوجہد میں کیا حصہ ہے۔؟ اس فہرست میں پاکستان، بھارت کہاں کھڑے ہیں؟ ان کی مجموعی آبادی، دفاعی بجٹ، جی ڈی پی میں اس کی فیصد، ایٹمی ہتھیار وں اور میزائلوں کی تیاری اور تعداد کا سر سری جائزہ ریڑھ کی ہڈی میں سنسنی کی لہر دوڑانے کے لیے کافی ہے۔ یہی وسائل اگر غربت، صحت، تعلیم اور رہائش کی فراہمی پر صرف کیے جائیں تو اس خطہ میں غربت سے نیچے زندگی بسر کرنے والے 60 فیصد عوام کا معیار زندگی قابلِ ذکر حد تک بہتر بنایا جا سکتا ہے کہ احمد ندیم ؔقاسمی کے بقول :
کبھی تو پھول کھلیں گے ضمیرِ آدم میں
اگر یہ سچ ہے کہ مٹی ہے آدمی کا خمیر
( صفحہ نمبر 2)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ویسے تو یہ کتاب پاکستان کی دفاعی تاریخ اور پاکستان آرڈنینس فیکٹری کے آغاز و ارتقا سے متعلق ہے لیکن میں سمجھتا ہوں کہ سماج کا کوئی شعبہ نہیں جو مصنف کے احاطہ ءتحریر سے باہر رہ پایا ہو ۔ یہ کتاب نہ صرف پاکستان بلکہ ترقی کی دوڑ میں پیچھے رہ جانے والے ہر ملک کا سماجی پوسٹ مارٹم ہے ۔
مصنف نے زوال ، پسماندگی اور معاشی زبوں حالی کی جڑیں تلاش کرنے کی کوشش کی ہے ۔ اور سائنسی بنیادوں پر اس کا تجزیہ کیا ہے اور اُن وجوہات کی انتہائی بے باکانہ انداز میں نشان دہی کی ہے ۔ بالادست طبقے کی کارستانیاں ہوں یا نام نہاد مذہبی طبقات کی مکاریاں ، عالمی سامراج کی شاطرانہ چالیں ہوں یا عوام کی اپنی سادہ لوحی مصنف نے کسی پہلو کو بھی نظروں سے اُوجھل نہیں ہونے دیا ۔
ایک اقتباس دیکھیے جو ہمارے لیے آئینے کی حیثیت رکھتا ہے ۔

” رومن کیتھولک اور پاپائیت انسانی استحصال کا بدترین ذریعہ بن چکی تھی وہ رشوت لے کر طاقت ور کے گناہ معاف اور انہیں جنت کے سرٹیفیکیٹ جاری کر رہی تھی۔ حریت فکر پر قدغن مذہب نہیں بلکہ مذہبی پیشوا لگاتے ہیں۔نئی سوچ،اچھوتا خیال،اسٹیٹس کو کے علم برداروں کے لیے موت کا پیغام ہوا کر تا ہے۔سقراط،گلیلیو اس کی مثالیں ہیں۔حرّیتِ فکر کے دروازے بادشاہ اور چرچ کے ناپاک گٹھ جوڑ نے انسانوں کو یہ باور کروا کر بند کر ڈالے تھے کہ بادشاہ خدا کا نائب ہے اور اس کے ہر حکم کی تعمیل دراصل خدا ہی کی خوشنودی کا ذریعہ ہے۔بادشاہ کے احکامات سے بغاوت دراصل خدا سے بغاوت کے مترادف ہے۔برناڈ شا نے کہاتھا” انسان بھی عجیب چیز ہے ایک پتا،ایک مکھی نہیں بنا سکتا لیکن سینکڑوں ہزاروں خدا بنا لیتا ہے۔“ اللہ جب قوموں پر عذاب نازل کرتا ہے تو وہ قومیں ”خدا سازی“ میں مصروف ہو جاتی ہیں۔ ہر نیا خوف انہیں ایک نئے خدا کی طرف لے جاتا ہے اور ہر خدا انہیں ایک نیا خوف تحفے میں دے جاتا ہے۔
کڑی ہے جنگ کہ اب کے مقابلے پہ فرازؔ
امیرِ شہر بھی ہے اور خطیبِ شہر بھی ہے
صفحہ (29)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کیا آج ہماری صورت حال پاپائیت کے اس دور سے مختلف ہے ؟
شایدہمیں اس کا برملا اعتراف کرتے ہوئے شرمندگی محسوس ہو ۔ لیکن حقیقت یہی ہے ۔
مصنف کی اس خوبی کا برملا اعتراف کیا جانا چاہیے کہ اُس نے ہمیں احساسِ برتری کی افیون نہیں دی بلکہ جھوٹے احساسِ تفاخر سے نکال کر ہمارے سامنے ننگی حقیقتیں رکھی ہیں تاکہ اس صورت حال کا کوئی چارہ کیا جائے ۔

اگر اس کتاب کےفنی محاسن کا ذکر کیا جائے تو تحریر کو پُرتاثیر بنانے کے لیے ،مشاہیر و مفکرین کے اقوال اور معیاری اشعار نگینے کی طرح جڑے ہوئے ہیں ۔ خوب صورت نادر اور نایاب تصاویر نے بھی اس کتاب کی خوب صورتی میں اضافہ کیا ہے ۔ صرف ان تصاویر کے حصول کے لیے ہی مصنف کو کتنی محنت اور تگ و دو کرنا پڑی ہو گی اس کا اندازہ لگانا مشکل ہے ۔
تاریخ کو بیان کرتے ہوئے اس کے افادی پہلو کو ترجیح دی گئی ہے ۔ تاکہ تاریخ محض تکرارِ واقعات نہ ہو بلکہ ماضی کو دیکھتے ہوئے حال کا تجزیہ کیا جائے اور مستقبل کی راہیں متعین کی جائیں ۔

تاریخ اور واقعات کو نقل کرتے ہوئے عموماََ بادشاہوں ، سپہ سالاروں اور بالا دست کرداروں کا ذکر ہی کیا جاتا ہے محنت کش طبقات کا ذکر اس طرح حذف کیا جاتا ہے جیسے کہ ان ادوار میں اُن کا وجود ہی نہیں تھا ۔
مصنف نے نہ صرف اس کتاب میں ان کو جگہ دی ہے بلکہ یک طرفہ موقف رکھنے کے بجائے محنت کشوں اور اُن کے رہنماؤں سے براہِ راست ملاقاتیں کی ہیں ۔ اور اُن کا تفصیلی موقف سنا ہے اور پھر جراتِ رندانہ کا مظاہرہ کرتے ہوئے اُسے کتاب میں برملا بیان بھی کیا ہے ۔ مزدوروں کی محنت اور خدمات کا جا بجا اعتراف کرنے کے بعد “پی او ایف کی مزدور تنظیمیں ” کے عنوان سے ایک ذیلی باب بھی باندھا ہے ۔
محمد توفیق کی یہ کتاب مختلف حوالوں سے دلچسپی کا باعث ہے ۔ وہ کتاب کی اہمیت ، افادیت اور کردار سے بخوبی آگاہ ہیں ۔ اس لیے اُنھوں نے اس گھٹن زدہ معاشرے میں تازہ آکسیجن کی فراہمی کی کوشش کی ہے ۔
کتاب کی اہمیت اور افادیت کے حوالے سے اُن کی کتاب سے ہی ایک پیراگراف دیکھیے :

“یورپ میں سائنسی انقلاب اور روشن خیالی کی تحریک کے بعد تین مفکروں کی کتابیں تھیں کہ جنھوں نے دنیا کے بارے میں خیالات اور نظریات کو اُلٹ کر رکھ دیا ۔ ان میں چارلس ڈارون کی کتاب اوریجن آف سپیشز جو 1859 میں شائع ہوئی ، نے انسانی ارتقا کے بارے میں سائنس کی بنیاد پر ثبوت دے کر تخلیق کے عقیدے پر کاری ضرب لگائی جس کی وجہ سے اب تک اس کائنات کو مذہب کی نظر سے دیکھا اور سمجھا جاتا تھا اُس کی نوعیت بدل گئی اور اُس کی جگہ سائنس نے لے لی ۔ یہ اس بات کا سبب بنا کہ کائنات کا مطالعہ سائنسی بنیادوں پر کیا جائے ۔ اب تاریخ کا ایک نیا مکتبہء فکر ، جو بک ہسٹری کے نام سے پہچانا جاتا ہے ۔ کائنات اور اس کے ارتقائی عمل پر تحقیق کر رہا ہے جس کی وجہ سے مفروضوں کی زنجیریں ٹوٹ رہی ہیں ۔ ڈارون کے ہی ایک ہم عصر کارل مارکس اور اس کے ساتھی اینگلز نے 1848 میں کمیونسٹ مینی فیسٹو شائع کروایا ۔ اس کے بعد کارل مارکس کی کتاب ” داس کیپیٹل ” شائع ہوئی ۔ ان دو کتابوں کے تاریخ ، معیشت ، فلسفے اور سیاسیات کے وہ دریچے کھولے جن کی وجہ سے کسان اور سوسائٹی کی پیچیدگیوں کو سمجھنے کی آگاہی پیدا ہوئی ۔ یہ وہ نظریات تھے جو دنیا بھر میں انقلابات کا باعث ہوئے ۔ تیسرا اہم شخص سگمنڈ فرائڈ جس نے انسانی نفسیات کے پیچیدہ اسرارو رموز کھول کر اس کی ذہنی اور نفسیاتی کیفیت کو بے نقاب کیا “۔
صفحہ (41)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
میری دانست میں شعری ادب ہو یا نثری ، وہ دو بنیادی فکری رویّوں کا حامل ہوتا ہے ۔
وہ فرار کی طرف لے جاتا ہے ، زمینی حقائق سے کاٹ کر انسان کو ایک ایسی خوابوں کی دنیا میں لے جاتا ہے جہاں لطف و سرور کی کیفیت ہوتی ہے ۔ حال کو بھلا کر ماضی کے احساس تفاخر کے نشے میں مبتلا کر دیتا ہے ۔ سائنسی حقائق کو نظر انداز کر کے توہمات کی رومانوی فضا میں لے جاتا ہے ۔
اور ایک وہ ادب ہوتا ہے جو زمینی حقائق کو آپ کے سامنے پیش کرتا ہے چاہے وہ حقائق کتنے ہی تلخ اور تکلیف دہ کیوں نہ ہوں ۔ وہ گھسی پٹی روایتی لکیروں پر نہیں چلتا بلکہ تازہ لکیر کھینچنے پر یقین رکھتا ہے ۔
وہ آپ کو افیون دے کر خوابناکی کی کیفیت میں نہیں لے جاتا بلکہ آپ کو جھنجھوڑتا ہے ۔ آپ کے اندر تڑپ جستجو اور لگن پیداکرتا ہے ۔ آپ کو اکساتا ہے کہ آپ نہ صرف حالات کی تلخی کو محسوس کریں بلکہ انھیں بدلنے کے لیے ہرممکن سعی کریں ۔
اک تڑپ اک لگن اک جنوں چاہیے
وہ بھی کیا آدمی جو نرا آدمی

Advertisements
julia rana solicitors london

مجھے یہ کہنے میں کوئی عار نہیں کہ محمد تو فیق کی یہ کتاب اُن کتابوں میں شمار ہو گی جنھوں نے اس معاشرے میں ترقی ، آگاہی ، خوشحالی اور جمہوری روایات کو پروان چڑھانے میں اپنا کردار ادا کیا اور آمریت ، جہالت ،رجعت پسندی اور جمود کے خلاف علمی اور فکری سطح پر بھرپور مزاحمت کی ۔

Facebook Comments

مظہر حسین سیّد
شاعر نثر نگار

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply