انسان کا خاتمہ؟(1)۔۔ادریس آزاد

نوٹ: یہ مضمون میں نے آج سے سات سال پہلے لکھا تھا۔ تب کوئی بھی یہ بات ماننے کے لیے تیار نہیں تھا کہ انسان کو سؤر کا دل لگائے جانے کی تیاریاں ہورہی ہیں۔ آج جب دل لگ گیا ہے تو مجھے اپنا مضمون یاد آیا۔ ایک بار پھر پڑھیے۔ ہوسکتاہے میری باقی توقعات اور پیشگوئیوں پر اس مرتبہ آپ کی ذرا ہمدردانہ نظر پڑسکے۔
۔۔۔۔۔۔۔
سن 2115 میں انسان نہیں ہونگے۔ اگر ہوئے بھی تو بہت کم ہونگے اور شاید افریقہ کے دور دراز صحراؤں کے کسی اکّا دُکّا گاؤں میں پائے جائیں۔ لیکن اس سے پہلے کہ ہم اِس عجیب و غریب دعوے کو سمجھنے کی کوشش کریں ضروری ہے کہ ہم پہلے یہ جان لیں کہ ’’ٹرانس ہیومن اِزم‘‘ کیا ہے۔
لیکن ٹرانس ہیومن اِزم سے بھی پہلے ہمیں ایک اور ٹرم ’’ٹرانس جینک‘‘ کو سمجھنا ہوگا۔ ٹرانس جینک سے مُراد ہے جینز کا باہمی تبادلہ یعنی جینز کا ایسا تبادلہ جو ایک نوع سے کسی دوسری نوع کے درمیان (لیبارٹری میں) کیا جائے۔ ایسی دو انواع کا آپس میں کسی بھی قسم کا قریبی ربط ضروری نہیں۔ ایک بیکٹیریا اور ایک مینڈک کے درمیان بھی جینز کا تبادلہ کیا جاسکتاہے۔ ہم جانتے ہیں کہ بیکٹیریا ایک یونی سیلولر آرگنزم ہے جبکہ میڈک ایک ملٹی سیلولر جاندار ہے۔ لیکن ہم مینڈک کی خصوصیات کو بیکٹیریا میں یا بیکٹیریا کی خصوصیات کو مینڈک میں آسانی سے منتقل کرسکتے ہیں اور ایسے ٹرانسفر کو ہی ’’ٹرانس جینک‘‘ کہا جاتاہے۔ ایسا کرنے سے مخلوقات عالم میں کیا کچھ تبدیلیاں واقع ہوسکتی ہیں اِن کا مکمل اندازہ لگانا ناممکنات میں سے ہے لیکن اب تک جو جو اندازے لگائے گئے ہیں وہ بھی کائنات کی تاریخ کے سب سے حیران کُن واقعات کہلانے کے بجاطور پر حقدار ہیں۔ جن میں سے ایک یہ دعویٰ بھی ہے کہ، ’’بطور انسان یہ ہماری آخری صدی ہے‘‘۔
اس وقت ترقی یافتہ دنیا کے دو بڑے ادارے ’’ٹرانس جینک‘‘ ریسرچ میں بے پناہ دلچسپی لے رہے ہیں۔ایک مِلٹری اور دوسرا فارماسیوٹکل انڈسٹری۔ امریکن ملٹری اس وقت ’’ٹرانس جینک ریسرچ‘‘ کو فنڈ فراہم کرنے والے ٹاپ تھری اداروں میں شامل ہے۔ اس سلسلے میں امریکی ملٹری کا ادارہ ’’ڈارپا‘‘ پیش پیش ہے۔ ڈارپا (DARPA) سے مراد ہے، ’’ڈیفینس ایڈوانس ریسرچ پراجیکٹس ایجنسی‘‘۔ ڈارپا اب تک ، ملٹری کے مقاصد کے لیے کئی کامیاب تجربے چکی ہے۔ انہوں نے ایک بکری ڈیزائن کی ہے جس کے ڈی این اے کے ساتھ مکڑی کا ڈی این اے ملایا گیا ہے۔ ہم اِس ٹرانس جینک گوٹ کو ’’سپائڈر گوٹ‘‘ بھی کہہ سکتے ہیں۔ اس بکری کی پیداوار سے اُن کا مقصد سپائیڈر سلک کا حصو ہے۔ سپائیڈر سِلک جو مکڑی اپنے لعاب سے بناتی ہے، اِس تجربہ سے قبل صرف مکڑی کے لعاب سے ہی حاصل کیا جاتا تھا۔ یہ دنیا کا مضبوط ترین دھاگہ ہے جو نہ صرف ہر شئے سے ہلکا ہے بلکہ اس کی قوتِ برداشت اور لچک بھی دنیا کے ہر سِلک سے بہتر ہے۔ بکری کے ساتھ مکڑی کے جینز کا اس طرح تبادلہ کیا گیا کہ ڈیزائن شدہ بکریاں اب ایسا دودھ دیتی ہیں جس میں ایک اضافی پروٹین سپائڈر سلک فراہم کرتی ہے۔ جو سِلک مکڑیوں سے حاصل کیا جاتا تھا اب وہ بکری کے دودھ سے حاصل کیا جارہا ہے اور یوں امریکی آرمی نے اپنے لیے نئے ، ہلکے پھلکے بُلِٹ پروف جیکٹس، نئے پیراشُوٹس، نئے رسّے، نئے بیگز اور نئے جال (کارگو نیٹس) بنالیے ہیں جو بڑے سے بڑے بوجھ گرادینے پر بھی نہیں ٹوٹتے۔
حوالہ،
http://www.bbc.com/news/science-environment-16554357
چنانچہ یہ ایک ثبوت ہے، اس بات کا کہ مختلف انواع کے ڈی این اے کے مختلف ٹکڑے کاٹ کرایک دوسرے میں یوں لگائے جاسکتے ہیں جیسے ہم دو مختلف درختوں کی الگ الگ قلمیں آپس میں جوڑ کر ایک تیسرا نیا درخت اپنے گھر میں پیدا کرلیتے ہیں۔سپائیڈر گوٹ کے بعد سے اب تک ٹرانس جینک پروڈکٹس کہیں زیادہ آگے بڑھ چکی ہیں۔ اور ایسی زیادہ تر پروڈکٹس کے لیے امریکن ملٹری کا ادارہ ’’ڈارپا‘‘ لاکھوں ڈالر کے فنڈز مہیا کررہا ہے۔
دوسرا ادارہ جو ’’ٹرانس جینک‘‘ سائنس کو فنڈز دے رہا ہے وہ ملٹری سے بھی زیادہ اہم ہے اور وہ دنیا بھر میں اس ریسرچ کے لیے فنڈز دینے والا سب سے بڑا ادارہ ہے۔ میرا اشارہ فارما سیوٹیکل انڈسٹری کی طرف ہے۔ فارما سیوٹیکل انڈسٹری کو سب سے زیادہ دلچسپی ’’نیوڈرگ تھراپیز‘‘ کے ساتھ ہے۔ انسانوں کے لیے نئے نئے علاج دریافت کرنے اور انسانی صحت کو بہتر سے بہتر بنانے کے مقاصد کے لیے کون فنڈز نہیں دیگا؟ ڈرگ تھراپیز کے لیے ٹرانس جینک ریسرچ کا پراسیس بہت لمبے راستے سے ہوکر آتاہے۔
دراصل فارما سیوٹیکل لیبارٹریز کو ہمیشہ ٹیسٹنگ کا مسئلہ درپیش رہا ہے۔ وہ جب بھی کوئی نئی دوا بناتے ہیں تو اس کا کسی انسان پر پہلا تجربہ ایک بہت بڑا مسئلہ ہوتاہے۔ انہیں اس کام کے لیے بہت پاپڑ بیلنا پڑتے ہیں۔امریکہ میں انہیں ایف ڈی اے سے اجازت لینا پڑتی ہے جو کہ ایک لمبا اور صبرآزما سلسلۂ مراحل ہے۔
چنانچہ فارماسیوٹیکل انڈسٹری کے پیسے سے ٹرانس جینک ریسرچ کے ماہرین جو کام کررہے ہیں اس کے پہلے حصہ میں وہ انسانی ڈین این اے اور کسی جانور کے ڈین این اے کے ملاپ سے ایسا جانور پیدا کرتے ہیں جس میں مخصوص انسانی کوالیٹیز ہوتی ہیں۔ وہ مخصوص انسانی کوالٹیز اس لیے پیدا کی جاتی ہیں کہ ان اجزأ یا اعضأ کو جو انسانی ہیں نئی ادویات کی ٹیسٹنگ کے لیے جانوروں پر آزمایا جاسکے۔ اور اس طرح انسانی جان کو ٹیسٹنگ کے مراحل سے بلاخوف و خطر بچایا جاسکتاہے۔ اس کے علاوہ فارماسیوٹکل انڈسٹری کی بہت زیادہ دلچسپی ’’سٹیم سیل لائینز‘‘ Stem Cell Lines پیدا کرنے میں ہے۔
ٹرانس ہیومن ازم کیا ہے؟ یہ ایک عالمگیر کلچرل تحریک ہے۔ جس کا نصب العین ٹرانس ہیومنز Transhumans پیدا کرناہے۔ یہ بنیادی طور پر دنیا کی توجہ اس آئیڈیا کی طرف مبذول کروانا چاہتے ہیں کہ کہ سائنس کی مختلف فیلڈز کے ملاپ سے ہم جلد (زیادہ سے زیادہ بیس سالوں میں) اس قابل ہونگے کہ لفظ ’’انسان‘‘ کی بنیادی تعریف اور تصور کوہمیشہ کے لیے تبدیل کرسکیں۔ اب محاورۃً نہیں بلکہ حقیقتاً ہم اب انسانی ڈی این اے کی لینگوئج کو دوبارہ لکھ سکنے کے قابل ہوچکے ہیں۔ ہم محض اپنا جینٹک میک اَپ تبدیل کرکے اپنے آپ کو ایک زیادہ ارتقأ یافتہ نوع میں بدل سکتے ہیں۔ ہم ہیومینز یعنی ہوموسیپینز کا ورژن 2.0 تخلیق کرنے پر قادر ہوچکے ہیں۔ اس تحریک کو عام طلبہ یا اساتذہ میں ایچ پلس (H +) کے نام سے جانا جاتاہے، جس کا معنی ہے ہیومنز پلس ۔ ٹرانس ہیومنز اصل میں ایسے انسان ہونگے جنہیں ہم ’’ٹرانزیشنز‘‘ کہہ سکتے ہیں یا اس سے بھی بہتر نام ہوگا، ’’پوسٹ ہیومینز‘‘۔ اور جب ٹرانس ہیومنز سے زمین بھر جائیگی تو پھر ہم۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔جو اِس وقت ہیں یعنی ہماری موجودہ انسانی ساخت اور ہییت مزید انسانی ساخت اور ہییت کہلانے کی اہل نہیں رہیگی۔ یہ انسانی سطح سے کم تر سطح کہلائے گی۔ ہر وہ انسان جو نارمل ہوگا وہ ٹرانس ہیومینز کے مقابلے میں بالکل ایسے ہوگا جیسے آج ہمارے مقابلے میں بن مانس یا چمپنزیز ہیں۔
ان کے استدلال کی بنیاد یہ ہے کہ قدرت نے ہر نوع کے جانداروں کو الگ الگ خصوصیات سے نوازا ہے۔ مثلاً عقاب، شاہین، شکرا اور اس کلاس کے تمام پرندےبہت زیادہ تیز نظر کے مالک ہوتے ہیں۔ وہ میلوں دور تک یوں صاف دیکھ سکتے جیسے ہم اعلیٰ کوالٹی کی دوربین کے ساتھ دیکھتے ہیں۔ اِسی طرح کتے کو فطرت کی طرف سے طاقتور قوتِ شامہ عطا کی گئی ہے۔ کتا چالیس ہزار ہرٹز کی کی آواز سن لیتاہے۔ ڈالفن غالباً اسی ہزاار ہرٹز کی آواز سن لیتی ہے۔ بلی اور چیتے کے پٹھے (Muscles) حیران کن حد تک لچکدار ہیں۔ بلی اونچی سے اونچی چھت سے چھلانگ لگانے کے بعد آرام سے اُٹھ کر کھڑی ہوجاتی ہے۔ شیر میں نسبتاً بے خوفی سب جانوروں سے زیادہ پائی گئی ہے اور اسی وجہ سے شیردل انسان سے مراد بہت بہادر انسان لی جاتی ہے۔ اونٹ میں قوتِ برداشت اور استقامت وافر مقدارمیں موجود ہے۔ غرض ہر جاندار کسی نہ کسی خصوصی انعام سے نوازا گیا ہے۔ چھوٹے چھوٹے جانداروں یعنی جرثوموں سے لے کر بڑے بڑے جانداروں جیسے ہاتھی تک ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ سب کے جینز ہمارے لیے بڑے قیمتی ہیں۔ ان تمام جینز کو انسانی جینز کے ساتھ ملاکر ایسے انسان پیدا کیے جاسکتے ہیں جو عقاب جیسی تیز نظر، کتے جیسی تیز قوتِ شامہ، شیر جیسے دل، چیتے جیسی چستی، بلی جیسی لچک، ہاتھی جیسی حساسیت یا کسی بھی جاندار کی خصوصی صلاحیت کا اکیلا اور یکتا حامل ہوگا۔
آکسفورڈ یونیورسٹی کے پروفیسر ڈاکٹر Nick Bostrom نے اپنے پی ایچ ڈی کے مقالے میں لکھا ہے کہ دیگر مخلوقات اِس کائنات کے بعض ایسے رازوں سے واقف ہیں جن سے ہم انسان اپنے محدود حواس کی وجہ سے واقف نہیں ہوسکتے۔ مثال کے طور پر بعض جانور زلزلے سے پہلے جان جاتے ہیں کہ زلزلہ آنے والا ہے۔ بعض جانور طوفان آنے سے پہلے جان جاتے ہیں کہ طوفان آنے والا ہے ۔ اسی طرح جانوروں کو کئی دفعہ دیکھا گیا ہے وہ بغیر کسی وجہ کے مشتعل ہوجاتے ہیں۔ کتے بلا وجہ بھونکنے لگ جاتے ہیں، یا ڈر جاتے ہیں اوربلاوجہ چارپائی کے نیچے چھپ جاتے ہیں۔ ایسا کیوں ہوتاہے؟ یقیناً ان کے وژن ڈفرنٹ ہونے کی وجہ سے وہ بعض ایسی چیزیں دیکھ لیتے ہیں جو ہم انسان اپنی آنکھوں سے نہیں دیکھ سکتے۔ جنگلی جانوروں میں رات کو دیکھنے کی صلاحیت ہے لیکن ہم انسان بغیر روشنی کے رات کو نہیں دیکھ سکتے۔
ٹرانس ہیومنسٹس تحریک کا کہنا ہے کہ ’’ٹرانس ہیومینز‘‘ ایسے انسان ہونگے جن کو ان تمام صلاحیتوں سے آراستہ کیا جائیگا۔ اور اس پراسیس میں یہ ضروری نہیں کہ ہر ایسا انسان شروع میں بچہ ہو۔
ایک ٹرانس ہیومن بننے کے لیے بعض تبدیلیاں ایسی بھی ہیں جو اب اِس وقت موجود انسانوں کو بعض ’’ٹرانس جینک ادویات‘‘ یا خوراکیں کھلانے سے بھی حاصل کی جاسکتی ہیں۔ ٹرانس ہیومنسٹس اس بات کے حق میں ہیں کہ انسان کے حواس کو عقابوں، کتوں اور دیگر جانوروں کے حواس سے بہتر ہونا چاہیے۔ انسان کا حق ہے کہ وہ قدرت کے چھپے ہوئے رازوں کو جانے اوربہتر سے بہتر زندگی گزارے چنانچہ یہ صرف ٹرانس ہیومن ازم ہی ہے جو انسانوں کو ایسا بلند مرتبہ بلا تردد دلا سکتاہے۔
ٹرانس ہیومنز پیدا کرنے کے لیے صرف بیالوجی اور جینٹکس کے سائنسدان ہی مصروفِ عمل نہیں ہیں بلکہ ٹرانس ہیومن ازم کی بنیادی تعریف میں ہی انٹرڈسپلنری ریسرچ شامل ہے۔ اس میں نیوروفارماکالوجی، نینوٹیکنالوجی، جینٹک انجنئرنگ، سٹیم سیل سائنسز، روبوٹک اسسٹنس، برین مشین انٹرفیسنگ یعنی تقریبا سائنس کی تمام نئی شاخیں جو انسانی جسم کی ساخت اور صلاحیتوں کو بہتر بنانے میں ساتھ دے سکتی ہیں ٹرانس ہیومن ازم کی تحریک میں شامل ہیں۔
ٹرانس ہیومنسٹس تحریک غیر قدرتی تیزی کے ساتھ دنیا میں پھیل رہی ہے۔ ابھی اس تحریک کا آغاز ہوئے چند ہی سال ہوئے لیکن یہ اس وقت تقریباً دنیا کے ہر ملک، ہرقوم اور تمام سیانے مذاہب میں موجود ہے۔ کالج سے یونیورسٹی لیول تک اور بازار سے لے کر ویران جزیروں پر لیٹے ہپّیوں تک سب اس تحریک میں نہایت تیزی کے ساتھ شامل ہورہے ہیں۔ سیانے مذاہب نے بھی آئندہ دو عشروں میں برپا ہونے والی ٹرانس جینک قیامت کا خطرہ بھانپ لیا ہے اور اپنی اپنی تحریکیں بنا لی ہیں۔ اس وقت دنیا میں ’’کرشچئن ٹرانس ہیومنسٹ سوسائٹی‘‘، ’’بدھسٹ ٹرانس ہیومنسٹس ایسویسی ایشن‘‘ اور ’’جیوش ٹرانس ہیومنسٹ ایسویسی ایشن‘‘ موجود ہے۔ اس دوڑ میں کوئی ملک کسی سے پیچھے نہیں رہنا چاہتا اور کوئی سیانا مذہب بھی آنے والے وقت میں فنا نہیں ہونا چاہتا۔ ان تحریکوں کے لیڈرز نے بھانپ لیا ہے کہ آنے والے طوفان کے راستے میں بند باندھنے سے بہتر ہے کہ ’’تم سب سے پہلے ٹرانس ہیومنز بنا جاؤ!‘‘۔ ان تمام ایسویسی ایشنز نے مل کر ایک ورلڈ وائیڈ ایسویسی بنالی ہے۔ ورلڈز ٹرانس ہیومنز سوسائٹی کے صدر کا نام ہے۔ ڈاکٹر جیمز ہیوز (Dr. James Hughes)۔
ٹرانس ہیومنسٹس کا خیال ہے کہ وہ تیزی سے کامیابی کی منزلیں طے کررہے ہیں۔ حال ہی میں انہوں نے اپنی تحریک کا نام بدل کر آئی ای ای ٹی (IEET) رکھ لیا ہے۔ جو ’’انسٹی ٹیوٹ فار ایتھکس اینڈ اِمرجنگ ٹیکنالوجی‘‘ کا مخفف ہے۔ ڈاکٹر جیمز ہیوز اب آئی ای ای ٹی کا صدر اور سی ای او ہے۔ دنیا کے چند بڑے نامور سائنسدان اور بااثر لوگ اس تحریک میں شامل ہوچکے ہیں۔ مثلاً آکسفورڈ یونیورسٹی میں آئی ای ای ٹی کے چیرمین پروفیسر ڈاکٹر نِک باسٹرام (Nick Bostrom) ہیں۔ حال ہی میں رائل سوسائٹی آف سائنسز نے ایک سیمینار کا انعقاد کیا جس کا عنوان تھا، ’’کیا ہم کائنات میں اکیلے ہیں‘‘۔ اس سیمینار میں ٹرانس ہیومنسٹ تحریک کے عالمی صدر ڈاکٹر جیمز ہیوز نے بہت تفصیل کے ساتھ اس خیال پر روشنی ڈالی کہ مستقبل میں ہم ٹرانس ہیومنز کے ذریعے کائنات کا سفر بہت آسان کرنے والے ہیں۔ ایسے انسان ڈیزائن کرنے پر غور کیا جارہا ہے جو زیرو گریوٹی میں کام کرسکیں اور اسی طرح کے دیگر مسائل کو مدنظر رکھتے ہوئے ہم سپیس سائنس کے لیے خصوصی ٹرانس ہیومنز پیدا کرنے والے ہیں۔
ٹرانس ہیومنسٹس تحریک بہت مضبوط اور بہت سیریس تحریک ہے اور پوری دنیا اِسے بہت سیریس لے رہی ہے۔ کالجز، یونیورسٹیز، دیگر ریسرچ ادارے، اور سب اہل علم بہت تیزی کے ساتھ اس تحریک میں شامل ہوتے جارہے ہیں۔اس وقت دنیا کا ملینز نہیں، بلینز بلکہ ٹریلینز ڈالرز اس تحریک کی بدولت ٹرانس ہیومنز پیدا کرنے پر لگاہواہے۔
ٹرانس ہیومینز پیدا کرنے کےلیے کتنے اور کس کے فنڈز استعمال ہورہے؟
جاری ہے

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply