• صفحہ اول
  • /
  • سائنس
  • /
  • مریخی صحرا میں بھٹکتے تین ننھے جاسوس۔۔محمد شاہ زیب صدیقی

مریخی صحرا میں بھٹکتے تین ننھے جاسوس۔۔محمد شاہ زیب صدیقی

یہ 9 فروری 2021 کی بات ہے، جب محمد بن راشد اسپیس سینٹر میں متحدہ عرب امارات کی اسپیس ایجنسیز کے درجنوں سائنسدان اور انجینئرز موجود تھے۔ ہر گزرتا سیکنڈ اسپیس سینٹر میں بیٹھے ان سب سائنسدانوں کی بےچینی میں اضافہ کررہا تھا، کیونکہ ان سب کو متحدہ عرب امارات کی طرف سے بھیجے گئے ایک ننھے جاسوس کی جانب سے گرین سگنل کا انتظار تھا۔
بالآخر شام 7 بج کر 42 منٹ پر اِن کو وہ سگنل موصول ہو ہی گیا۔ جس کے بعد متحدہ عرب امارات مریخ کے مدار میں پہنچنے والا دنیا کا پانچواں اور مسلم دنیا کا پہلا ملک بن گیا۔ رواں ماہ یعنی فروری 2021 میں صرف متحدہ عرب امارت ہی نہیں، بلکہ چین اور امریکا کا بھی ایک، ایک خلائی مشن مریخ پر پہنچ چکا ہے۔
دوستو! ہمیں علم ہے کہ سورج کے گرد چکر لگاتے ہوئے ہر 26 مہینوں کے بعد زمین اور مریخ ایک دوسرے کے انتہائی نزدیک آجاتے ہیں۔ سائنسدان اس موقع کا فائدہ اٹھاتے ہوئے مریخ کی جانب مشن لانچ کرتے ہیں تاکہ کم فیول میں مریخ تک پہنچا جاسکے۔ اس موقع کو فلکیاتی زبان میں launch window for Mars کے نام سے جانا جاتا ہے۔ پچھلے سال جولائی اور اگست کے مہینوں میں مریخ اور زمین انتہائی نزدیک آئے ہوئے تھے۔ جس دوران جولائی 2020 میں مریخ کی جانب تین مشنز لانچ کیے گئے۔ ان تینوں میں سے متحدہ عرب امارات کا مشن مریخ کے مدار میں موسمیاتی سیٹلائٹ بھیجنے تک محدود تھا، جبکہ چین اور امریکا کے مشنز نے باقاعدہ وہاں لینڈ کرنا تھا۔
متحدہ عرب امارات کے مریخی مشن کو ’’ال امل‘‘ یا ’’ہوپ‘‘ نام دیا گیا۔ متحدہ عرب امارات کے وزیراعظم کے بقول اس مشن کےلیے یہ نام اس لیے تجویز کیا گیا کہ دنیا بھر میں رہنے والے لاکھوں عرب نژاد انسانوں کو جدت کی جانب ابھارا جائے اور بتایا جائے کہ وہ چاہیں تو بہت کچھ کرسکتے ہیں، یہاں تک کہ مریخ پر بھی پہنچ سکتے ہیں۔ متحدہ عرب امارات کو مریخ تک لے جانے میں بہت سے ممالک نے کلیدی کردار ادا کیا۔ مثلاً امریکا کی تین یونیورسٹیوں نے مل کر اس سیٹلائٹ کو متحدہ عرب امارات کے انجینئرز کی معاونت سے امریکی سرزمین پر بنایا۔ سیٹلائٹ کو مریخی مدار میں پہنچانے کےلیے بھارتی سائنسدان ہر لمحہ موجود تھے اور اپنے تجربات ان کے ساتھ شیئر کررہے تھے، کیونکہ بھارت 2014 میں کامیابی سے منگلیان نامی سیٹلائٹ مریخی مدار میں پہنچا چکا ہے۔ اس مشن کو لانچ جاپان کی جانب سے کیا گیا۔ اس کے علاوہ ناسا کی جانب سے تیار کردہ ’’ڈیپ اسپیس نیٹ ورک‘‘ کے تحت سیٹلائٹ کا زمین سے رابطہ برقرار رکھا گیا۔ یوں یہ مشن کئی ممالک کے تعاون سے متحدہ عرب امارات کے سائنسدانوں نے سرانجام دیا۔
سات ماہ کے سفر کے بعد مکھی کے چھتے جیسی یہ سیٹلائٹ 9 فروری 2021 کی شام کو مریخی مدار میں داخل ہوئی، جس کے بعد تھرسٹرز فائر کرکے اسے سست کیا گیا تاکہ یہ مریخی مدار سے باہر نہ نکلے۔ کچھ ہی دیر میں اس نے گرین سگنلز بھیجے جس کو وصول کرتے ہی سائنسدانوں کی جان میں جان آئی۔ ہوپ سیٹلائٹ اس وقت بھی مریخی مدار میں موجود ہے۔ اس سیٹلائٹ کی بدولت ہمیں مریخ کے مختلف علاقوں کے موسموں کا احوال روزانہ کی بنیاد پر سمجھنے کا موقع ملے گا۔ اس کے علاوہ یہ معلوم ہوگا کہ آج بھی مریخ کی ہوا کیسے خلا میں ضائع ہورہی ہے؟ جس سے معلوم ہوگا کہ ماضی میں سمندروں سے بھرا ہوا مریخ جیسا خوبصورت سیارہ کیوں آج صحرا کا روپ دھار چکا ہے۔ ہوپ سیٹلائٹ سے ملنے والا ڈیٹا مستقبل میں انسانی مشنز کےلیے کلیدی کردار ادا کرسکتا ہے۔
جس دوران مسلم دنیا میں ایک جانب یہ سب چل رہا تھا، عین اس وقت چینی اسپیس ایجنسی میں بھی گہماگہمی کچھ کم نہیں تھی۔ کیونکہ چین کا Tainwen-I مشن بھی مریخ کے قریب تھا۔ متحدہ عرب امارات کے کامیاب مشن نے چینی سائنسدانوں پر دباؤ بڑھا دیا تھا، کیونکہ چین بھی متحدہ عرب امارات کی طرح پہلی بار مریخ تک پہنچنے کی کوشش کررہا تھا۔ دس فروری 2021 کو چینی مشن ’’ٹیان وِن وَن‘‘ مریخی مدار میں داخلے میں کامیاب ہوا۔ جس کے بعد چین مریخی مدار میں پہنچنے والا دنیا کا چھٹا ملک بن گیا۔ یہ مشن تھوڑا پیچیدہ اس لیے بھی ہے کیونکہ یہ مشن تین حصوں میں تقسیم ہے۔ اس میں ایک آربٹر موجود ہے جو مریخی مدار میں چکر لگائے گا۔ اس کے علاوہ لینڈر اور ایک خلائی گاڑی اس مشن کا الگ سے حصہ ہے، جو کہ مئی 2021 میں مریخی سطح پر لینڈ کرے گی۔ اگر چند ماہ بعد چین کامیابی سے مریخ پر لینڈ کرجاتا ہے تو یہ روس اور امریکا کے بعد مریخ کی سطح پر لینڈ کرنے والا تیسرا ملک ہوگا۔ چونکہ اس مشن میں خلائی گاڑی بھی موجود ہے، جس کی وجہ سے چین مریخ پر خلائی گاڑی چلانے والا دنیا کا دوسرا ملک ہوگا۔ اس سے پہلے صرف امریکا وہ واحد ملک ہے جس کی متعدد خلائی گاڑیاں مریخ کی سطح پر موجود ہیں اور بہت سے کامیاب مشن انجام دے چکی ہیں۔
یہ مشن مریخ پر چہل قدمی کرکے مریخی مٹی کا معائنہ کرے گا۔ اس دوران یہ 13 مختلف آلات کی مدد سے مریخی ماحول کو سمجھے گا اور بائیوسگنیچرز تلاش کرے گا۔ یعنی مریخی مٹی میں زندگی ڈھونڈے گا۔ ہمیں علم ہے کہ مریخ کی گریویٹی چاند کی بہ نسبت بہت زیادہ ہے، لہٰذا وہاں سے واپسی ممکن نہیں ہے۔ یہی وجہ ہے کہ مریخ پر جانے والے اولین انسانی مشن ہمیشہ کےلیے وہاں قید ہوجائیں گے، کبھی واپس نہیں آسکیں گے۔ لہٰذا اس مشن کے ذریعے چین مریخ کے ماحول اور گریویٹی کو سمجھنے کی کوشش کرے گا تاکہ مستقبل میں ایسے مشن ترتیب دیے جاسکیں جو مریخ سے مٹی اور پتھروں کے سیمپلز لے کر واپس آسکیں۔ 23 جولائی 2020 کو چینی سرزمین سے لانچ کیا گیا یہ مشن 2021 میں مریخ پر ’’یوٹوپیا پلانشیا‘‘ نامی علاقے میں اترنے کی کوشش کرے گا۔ اس سے قبل ناسا کا ’’وائکنگ ٹو‘‘ بھی اس علاقے میں 1976 میں لینڈ کرچکا ہے۔ تب یہاں پانی برف کی شکل میں جما دکھائی دیا تھا، جس کی وجہ سے یہ جگہ زندگی ڈھونڈنے کےلیے اہم ہے۔ لینڈنگ سے قبل چین سیٹلائٹ کی مدد سے یہاں کی کئی تصاویر بھی لے گا تاکہ لینڈنگ کےلیے موزوں جگہ کا انتخاب ممکن ہوسکے۔ اس مشن کی تیاری میں ارجنٹینا، آسٹریا اور فرانس کی جانب سے چین کی معاونت کی گئی۔ یہ مشن کس حد تک کامیاب رہتا ہے، اس کےلیے ہمیں مئی 2021 تک کا انتظار کرنا پڑے گا۔
جس دوران ایک جانب یہ سب ہورہا تھا، دوسری جانب ایک اور خلائی ایجنسی موجود تھی جس کے ہیڈکوارٹر میں کھلبلی مچی ہوئی تھی۔ کیونکہ اس ایجنسی نے بھی مریخ کی جانب مشن لانچ کیا تھا جو آخری اور پیچیدہ ترین مراحل میں داخل ہوچکا تھا۔ ناسا کی ’’جیٹ پرپلشن لیب‘‘ میں تمام سائنسدان سر جوڑ کر بیٹھ چکے تھے۔ یہ مشن بہت دقیق تھا، کیونکہ اس مشن کے دوران ناسا کی جانب سے صرف خلائی گاڑی ہی نہیں بھیجی گئی بلکہ تاریخ میں پہلی بار ایک ڈرون بھی بھیجا گیا ہے جو مریخ پر اڑ کر خلائی گاڑی کو راستہ تلاش کرنے میں معاونت فراہم کرے گا۔ ڈرون ایک مہینے میں پانچ بار اڑے گا۔ ہر اڑان تین منٹ سے بھی کم کی ہوگی۔ چونکہ مریخ کی فضا کمزور ہے، جس کی وجہ سے یہ ڈرون محض دس میٹر اونچائی تک ہی اڑ سکے گا۔ لیکن ہر فلائٹ میں 600 میٹر تک فاصلہ طے کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ یہ تاریخ میں پہلی بار ہوگا کہ انسان زمین سے باہر کسی اجرام فلکی پر ڈرون اڑائے گا۔ اگر یہ تجربہ کامیاب ہوجاتا ہے تو ناسا مستقبل میں دیگر مشنز کے ساتھ بھی ڈرون بھیجے گا۔
ناسا کا 30 جولائی 2020 کو لانچ ہونے والا ’’مارس پرسیورینس مشن‘‘ 18 فروری 2021 کو جمعرات اور جمعہ کی درمیانی شب پاکستانی وقت کے مطابق رات 1 بج کر 55 منٹ پر مریخی علاقے ’’جزیرو کریٹر‘‘ میں لینڈ کرگیا۔ لینڈنگ سے قبل خلائی راکٹ نے تھرسٹرز آن کرکے مریخ کے مدار میں انٹری کی۔ جس کے بعد یہ مریخ کی سطح کے قریب ہوتا گیا۔ مریخی فضا میں داخلے کے بعد ہیٹ شیلڈ کی مدد سے اس لینڈر کی حفاظت کی گئی۔ کچھ منٹ بعد پیرا شوٹ کھولا گیا۔ رفتار کم ہونے کے بعد ہیٹ شیلڈ پھینک کر اسکائی کرین کی مدد سے خلائی گاڑی کو رسیوں کے ذریعے بحفاظت طریقے سے لینڈ کروایا گیا۔ کامیاب لینڈنگ کروانے کے بعد اسکائی کرین کو اس مقام سے کئی کلومیٹر دور جاکر کریش کردیا گیا۔ اسکائی کرین کے جانے کے بعد ’’پرسیورینس خلائی گاڑی‘‘ نے آلات آن کیے اور ناسا ہیڈ کوارٹر کو مریخ کی پہلی تصویر بھیجی۔
یہ تصویر بلیک اینڈ وائٹ تھی۔ اگرچہ ’’پرسیورینس خلائی گاڑی‘‘ نے بعدازاں متعدد رنگین تصاویر بھیجی ہیں، مگر چونکہ بلیک اینڈ وائٹ تصویر کا سائز رنگین تصویر کی بہ نسبت کم ہوتا ہے، جبکہ رنگین تصاویر کےلیے سائنسدانوں کو کئی گھنٹوں کا انتظار کرنا پڑتا۔ یہی وجہ ہے کہ ناسا کی جانب سے لینڈنگ کی تصدیق کے ساتھ ہی یہ بلیک اینڈ وائٹ تصویر بھی میڈیا کے ساتھ شیئر کی گئی۔ چونکہ ’’پرسیورینس روور‘‘ بنانے والی ٹیم نے ہی ’’کریوسٹی روور‘‘ بھی بنایا تھا، جس کی وجہ سے اس کو ’’کریوسٹی‘‘ کی کاپی قرار دیا جارہا تھا۔ اگرچہ اسے کافی حد تک اپ ڈیٹ کیا گیا ہے۔
ناسا نے لینڈنگ کےلیے ’’جزیرو کریٹر‘‘ کا انتخاب اس لیے کیا کیونکہ تحقیقات بتاتی ہیں کہ یہ وہ مقام تھا جہاں اربوں سال قبل تازہ پانی کھڑا ہوتا تھا۔ یعنی یہ تازے پانی کی جھیل تھی، جہاں ایک جانب سے اس میں پانی داخل ہوتا اور دوسری جانب سے باہر نکل جاتا تھا۔ سائنسدانوں کو لگتا ہے کہ زمین پر زندگی کی شروعات ’’تھرمل وینٹس‘‘ میں ہوئی تھی، جو اسی طرح کے کھڑے پانی میں بنے تھے۔ جس وجہ سے ہمارا خیال ہے کہ مریخ پر بھی اگر زندگی رہی ہوگی تو اس کے نشانات ’’جزیرو کریٹر‘‘ میں لازمی ہونے چاہئیں۔ یہی وجہ ہے کہ اس خلائی گاڑی کے ذریعے پہلی بار مریخ کی سطح کو کھود کر اس کے نیچے موجود مٹی کے سیمپل مختلف ٹیوبز میں جمع کیے جائیں گے، جن میں مریخ پر ممکنہ طور پر رہنے والی زندگی کو ڈھونڈا جائے گا۔
مریخ ہمارے لیے پراسرار اس لیے ہے کہ یہ ماضی میں ہمارے جیسا تھا۔ اس کی مثال آپ ایسے سمجھ سکتے ہیں کہ آپ ایک ایسے شہر میں داخل ہوں جہاں اسکول، اسپتال اور بازار موجود ہوں مگر وہاں کوئی آبادی دکھائی نہ دے رہی ہو تو آپ کو وہاں عجیب سی وحشت محسوس ہوگی۔ آپ سمجھنے کی کوشش کریں گے کہ یہاں ایسا کیا ہوا تھا کہ زندگی کی نشانیاں موجود ہونے کے باوجود ہمیں زندگی نہیں مل رہی؟ بالکل اسی طرح مریخ ماضی میں زمین جیسا تھا، وہاں زندگی کا سارا سامان موجود تھا، مگر آج تک ہمیں وہاں زندگی کے آثار نہیں مل پائے، جس کی وجہ سے یہ سائنسدانوں کےلیے ایک پہیلی بنا ہوا ہے۔
پرسیورینس خلائی گاڑی میں لگے آلات کے ذریعے مریخی سطح کا تجزیہ کرکے ہمیں مریخ کے ماضی کے متعلق معلوم ہوپائے گا کہ وہاں کا ماحول ماضی میں زندگی کےلیے کتنا سازگار تھا؟ پچھلے کروڑوں سال میں مریخ نے اپنی سطح پر کیا کیا ظلم و ستم سہے اور آج اس کی یہ حالت کیسے ہوئی؟ خلائی گاڑی مختلف مقامات پر مریخی سطح کو کھود کر مٹی کے سیمپلز کو چند ٹیوبز میں جمع کرے گی۔ جب کبھی مریخ سے واپسی کےلیے ٹیکنالوجی بنالی جائے گی تو ایک مشن بھیج کر ان سیمپلز کو واپس زمین پر لایا جائے گا اور لیبارٹری میں تجزیہ کرکے مریخ پر یک خلوی زندگی کی موجودگی کا پتہ لگایا جائے گا۔ اس کے علاوہ یہ روور مریخی مٹی کا تجزیہ کرکے معلوم کرے گا کہ اس میں کہیں ایسا کوئی عنصر تو شامل نہیں جو انسانی جسم کےلیے نقصان دہ ہوں؟ یہ خلائی گاڑی چھوٹے پیمانے پر مریخی کاربن ڈائی آکسائیڈ سے آکسیجن کشید کرنے کا بھی تجربہ کرے گی۔ یہ دونوں تحقیقات مستقبل میں بھیجے جانے والے انسانی مشنز کےلیے انتہائی اہم ہوں گی۔
چونکہ مریخ پر کئی کئی ماہ پر محیط گرد و غبار کے طوفان آتے ہیں۔ اس دوران سورج کی کرنوں کا رابطہ مریخی سطح سے منقطع ہوجاتا ہے۔ جس کی وجہ سے سولر پینل کی حامل خلائی گاڑیاں اپنی بیٹری چارج نہیں کرپاتیں، لہٰذا وہ ایکسپائر ہوجاتی ہیں۔ ایسا ہم نے 2018 میں مریخ پر ’’اپرچیونیٹی روور‘‘ کے ساتھ ہوتا دیکھا ہے۔ اس مسئلے کا حل یہ نکالا گیا کہ اس خلائی گاڑی میں تابکاری بیٹری رکھی گئی ہے، جو کہ 14 سال تک چل سکے گی۔ اس دوران چاہے طوفان ہو یا رات کا وقت ہو، روور اپنے امور انجام دے سکے گا۔
عوام میں اس مشن کی آگاہی کےلیے ناسا نے ورچوئل ٹکٹس بھی جاری کیے۔ جس کےلیے 1 کروڑ 9 لاکھ افراد نے رجسٹریشن کروائی۔ رجسٹریشن کروانے والوں کے نام ایک چِپ میں ڈال کر اس خلائی گاڑی کے ہمراہ مریخ پر پہنچائے گئے ہیں۔ ان سب افراد کو ورچوئل ٹکٹس بھی جاری کیے گئے۔ جنوری 2021 میں ناسا کی جانب سے اس کی لینڈنگ کے متعلق ایک اینی میشن بھی جاری کی گئی، جس کا نام 7 Minutes of Terror رکھا گیا۔ کیونکہ اس مشن کی لینڈنگ کے آخری سات منٹ انتہائی کٹھن اور اعصاب شکن تھے۔
نسل انسانی کی جانب سے بھیجے گئے یہ تینوں مشنز اس وقت مریخ پر پہنچ چکے ہیں اور ڈیٹا بھیجنا شروع ہوگئے ہیں۔ یاد رہے کہ یہ تینوں مشنز مستقبل میں مریخ پر انسانی کالونیاں بسانے میں اہم کردار ادا کررہے ہیں۔ لہٰذا آپ جب بھی اپنے لان میں کھڑے ہوکر آسمان پر جگمگاتے سرخ مریخ کو دیکھیں یا پھر آج سے دس سال بعد مریخ پر انسان کو قدم رکھتا دیکھیں تو ان تینوں ننھے جاسوسوں کی داستان اپنی فیملی کو سنانا مت بھولیے گا۔
ان تینوں مشن کے متعلق اُردو ڈاکومنٹری دیکھنے کے لیے
https://youtu.be/AJFcMAuRiz8

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply