بدن (62) ۔ دفاعی خلیات/وہاراامباکر

امیون سسٹم کے مرکزی کردار پانچ طرح کے سفید خون کے خلیات ہیں۔ لمفوسائیٹ، مونوسائیٹ، بیسوفل، نیوٹروفل اور ایسنوفِل۔ یہ سب اہم ہیں لیکن امیونولوجسٹ کے لئے سب سے دلچسپ لمفوسائیٹ ہیں۔ یہ شاید جسم کے سب سے ہوشیار خلیات ہیں۔ ان ننھے خلیوں کا کام کسی بھی غلط شے کی پہچان کرنا اور فوری اور ٹارگٹڈ ردِ عمل کے لئے ہر چیز کو متحرک کرنا ہے۔

Advertisements
julia rana solicitors london

لمفوسائیٹ دو اقسام کے ہیں۔ بی ٹائپ اور ٹی ٹائپ۔ بی ٹائپ ہڈی کے گودے میں بنتے ہیں۔ ٹی ٹائپ بنتے تو گودے میں ہی ہیں لیکن یہ باہر تھائمس سے آتے ہیں۔ یہ چھوٹا سا عضو سینے میں دل سے ذرا اوپر اور پھیپھڑوں کے درمیان میں ہے۔ بہت عرصے تک یہ نامعلوم تھا کہ یہ کرتا کیا ہے۔ یہاں پر ڈھیروں مردہ امیون سیل پائے جاتے تھے۔ 1961 میں ژاک ملر نے یہ اسرار معلوم کیا۔ تھائمس ٹی سیلز کی نرسری ہے۔ ٹی سیل امیون سسٹم میں ایلیٹ فورس ہیں۔ اور تھائمس میں وہ لمفوسائیٹ مردہ پائے جاتے تھے جو اس فورس میں شامل ہونے کا ٹیسٹ پاس نہیں کر سکتے تھے۔ یہ ایک اہم دریافت تھی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ٹی سیل خود مزید دو اقسام کے ہیں۔ مددگار ٹی سیل (helper T cell) اور قاتل ٹی سیل (killer T cell)۔ جیسا کہ نام سے ظاہر ہے کہ قاتل ٹی سیلز کا کام حملہ آور کو قتل کرنا ہے۔ جبکہ مددگار خلیے بی سیل کی مدد کرتے ہیں۔ میموری ٹی سیل پرانے حملہ آوروں کو یاد رکھتے ہیں اور اگر یہ دوبارہ نظر آ جائیں تو فوری ردِ عمل کو منظم کرتے ہیں۔
اور یہ انتہائی چوکس ہیں۔ مجھے خسرہ دوبارہ نہیں ہو گا۔ کیونکہ میرے اندر کسی جگہ پر میموری ٹی سیل موجود ہیں جو کئی دہائیوں سے مجھے اس کے دوسرے حملے سے محفوظ رکھے ہوئے ہیں۔ اگر کہیں پر یہ جراثیم دوبارہ نظر آ گئے ہیں تو فوری طور پر بی سیل کو ہدایات دے کر اینٹی باڈی تیار کروا دے گا۔ اور یہ حملہ آور جراثیم کو تلف کر دیں گے
اینٹی باڈوز بڑی زیرک چیزیں ہیں۔ یہ پرانے حملہ آوروں کو فٹا فٹ ختم کر دیتی ہیں۔ اور یہ وجہ ہے کہ بہت سی ایسی بیماریاں ہیں جو آپ کو صرف ایک ہی بار بیمار کر سکتی ہیں۔ اور ان کی یہ صلاحیت ویکسین کے لئے بہت اہم ہے۔ مجھے پولیو یا کالی کھانسی بھی نہیں ہو گی کیونکہ اس کی مدافعت ویکسین کے ذریعے حاصل کی تھی۔ اور میرے جسم میں میموری ٹی سیل موجود ہیں جن کی مدد سے میرا جسم ان کے خلاف کامیاب دفاع کر لے گا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
جراثیم کے پاس ہمارے امیون سسٹم کو چکمہ دینے کے کئی طریقے ہیں۔ مثلاً، کنفیوز کر دینے والے کیمیائی سگنل بھیج کر۔۔۔ یا بے ضرر جراثیم کا بھیس بنا کر۔۔۔ کئی ایجنٹ، جیسا کہ ای کولائی یا سالمونیلا، امیون سسٹم کو اس طرح سے چکمہ دیتے ہیں۔
ایسے بہت سے پیتھوجن ہیں جو انسان کو ضرر پہنچاتے ہیں اور یہ ارتقا کے ہتھیار سے ہمارے اندر گھس جانے کے نت نئے طریقے بناتے ہیں۔ سوال یہ نہیں کہ ہم بیمار کیوں پڑتے ہیں بلکہ یہ کہ ہم اتنا کم کیوں بیمار پڑتے ہیں۔ اور امیون سسٹم کا کام صرف بیرونی حملہ آوروں سے نپٹنا نہیں بلکہ ہمارے اپنے خلیات کو قتل کرنا بھی ہے، اگر وہ ٹھیک behave نہ کریں۔
(جاری ہے)

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply