حامد یزدانی کے “خاکی تھیلے” میں چھپے راز…..ڈاکٹر خالد سہیل/حامد یزدانی

افسانے پر تبصرہ۔۔۔ڈاکٹر خالد سہیل
ڈاکٹر خالد سہیل
اصحاب کہف گہری نیند سے جاگے اور کچھ خریدنے بازار گئے تو انہیں شہر کے لوگوں نے بتایا کہ ان کے سکے پرانے اور متروک ہو چکے ہیں۔یہ بات سن کر اصحاب کہف کو اندازہ ہوا کہ وہ ایک طویل عرصے تک سوتے رہے ہیں۔

اصحاب کہف کی طرح حامد یزدانی کے افسانے”خاکی تھیلے”کا ہیروجب کرونا وبا کے ختم ہونے کےبعد بازار جاتا ہے اور اپنے محبوب کیفے میں داخل ہوتا ہے تو اسے احساس ہوتا ہے کہ کرونا وبا کی وجہ سے بہت کچھ بدل چکا ہے ۔۔۔خارجی طور پر بھی اور داخلی طور پر بھی۔۔۔سماجی طور پر بھی اور نفسیاتی طور پر بھی۔۔۔معاشی طور پر بھی اور معاشرتی طور پربھی۔۔۔

کرونا وبا کی پہلی لہر آئی تو لوگ اپنے اپنے گھروں میں قید ہوگئے

شہر سنسان اور گلیاں ویران ہو گئیں

لوگوں کی آنکھوں میں خوف اور دلوں میں ڈر کے سائے گہرے ہونے لگے

وہ ایک دوسرے سے ملتے تو دور دور سے آنکھوں ہی آنکھوں میں ایک دوسرےسے کہتے

؎ کیا تم نے کبھی اپنا مقدر نہیں دیکھا

       ہر گھر میں جو بستا ہے یہاں ڈر نہیں دیکھا

ہر شہر میں ایک انجانا اور ان دیکھا وائرس کسی چور دروازے سے گھس آیا تھا ایسا وائرس جو موت کی خبر لے کر آیا تھا۔

لوگ حیران تھے پریشان تھے وہ نہیں جانتے تھے کہ یہ وائرس یہ موت کا فرشتہ کہاں سے آیاہے ؟ کس نے بھیجاہے؟ کیا یہ کسی عالمی سازش کا حصہ ہے؟

وائرس کی پہلے لہر کے بعد دوسری پھر تیسری اور پھر چوتھی لہر آئی

وائرس سے بچنے کے لیے انفرادی اور اجتماعی طور پر مقامی اور بین الاقوامی حفاظتی تدابیر کی گئیں

لوگوں نے مختلف رنگوں اور سائزوں کے ماسک پہننے شروع کر دیے۔

پہلے وہ روایت اور منافقت کے ماسک پہنتے تھے اب کاغذ اور کپڑے کے ماسک پہننے لگے۔

ایک دوسرے سے فاصلہ رکھنا شروع کر دیا۔

نہ کوئی دوست ہاتھ ملاتا ’ نہ کوئی آشنا گلے ملتا اور نہ ہی کوئی محبوب بوسہ دیتا۔

وقت کے ساتھ ساتھ وائرس سے بچنے کے لیے ڈاکٹروں اور سائنسدانوں نے مختلف قسم کی ویکسینز بنانی شروع کر دیں۔

خوف و ہراس کی فضا قدرے کم ہوئی تو لوگوں نے دوبارہ زندگی کے معمولات میں حصہ لینا شروع کیا۔

لوگوں نے جب اپنے پسندیدہ کلب ’ رستورانٹ اور کیفے میں جانا شروع کیا تو انہیں اندازہ ہوا کہ وہ عمارتیں باہر سے نہ بدلنے کے باوجود اندر سے بہت بدل چکی تھیں۔

حامد یزدانی کے افسانے کا ہیرو اپنے پسندیدہ کیفے میں جاتا ہے تو حیران بھی ہوتا ہے اور پریشان بھی۔۔۔۔کیفے میں سب کچھ بدل چکاہے۔

وہ جب میزبان مہ جبیں دوشیزہ سے پوچھتا ہے

“وہ وہ فرنیچر کیا ہوا جویہاں ہوتا تھا؟”

تو وہ پری وش اسے چہک چہک کر بتاتی ہے

“اس جان لیوا وبا کی وجہ سے کیفے بند ہوا تو خوش قسمتی سے ہمیں رینوویشن کا موقع مل گیا۔ دیکھیے سب کچھ نیا کر دیا ہے۔ دیواروں کے رنگ و روغن سے لے کر چھت’ فرش اور میز ’ کرسی تک سب کچھ بالکل نیا اور دلکش ۔۔۔نہیں کیا؟”

میزبان جس بات سے سکھی ہے مہمان اسی بات سے دکھی ہے۔میزبان کو نیا پسند ہے اور مہمان کو پرانا۔

اس مکالمے کے بعد مہمان اور افسانے کے قاری کو احساس ہوتا ہے کہ جب تک ہم زندگی میں کسی چیز کو کھوتے نہیں اس وقت تک ہمیں اس چیز یا اس شخص کی اہمیت ’ افادیت اور معنویت کا پوری طرح اندازہ نہیں ہوتا۔

ہیرو کا ان پرانی کرسیوں’ میزوں’دیواروں اور تصویروں سے ایک رشتہ تھا خاص رشتہ لیکن وبا کے بعد رینوویشن کے بعد وہ رشتہ ختم ہو چکا ہے۔

حامد یزدانی رقم طراز ہیں

‘”اب وہ سارے لفظ جو یہاں بیٹھ کر سوچے اور جو مناظر ان کرسیوں پر بیٹھ کر دیکھے تھے اب انہیں کہاں ڈھونڈوں! ان کرسیوں میزوں پر میرا اتنا کچھ تھا میرا لمس تھا ان پر ۔۔۔وہ کیا ہوا!”ہیرو کے اس واقعے’ اس واردات اور اس سانحے سے ماضی کے پرانے زخم تازہ ہو جاتے ہیں۔اسے یاد آنے لگتا ہے کہ اس کے بچپن اور نوجوانی میں اس کے ساتھ ایسے ہی واقعات پیش آئے۔ اسے بتایا گیا کہ وہ اب ایک نئے گھر میں رہے گا۔ اس سے اس کا مانوس ماحول چھین لیا گیا اور اس سے کسی نے پوچھا تک نہیں۔

“بس ایک دن بتا دیا جاتا ہے۔کوئی پوچھتا ہی نہیں مجھ سے “

حامد یزدانی ہمیں اس افسانے کے حوالے سے بتاتے ہیں کہ انسان کتنا عاجز اور کتنا مجبور ہے۔ لوگ اس کا ماحول اور اس کی زندگی بدل دیتے ہیں اور وہ خاموش رہتا ہے۔افسانے کا ہیرو کہتا ہے

‘مجھے یاد ہے میرے بچپن کے سبھی سکے ایک ایک کر کے متروک ہو گئے تھے‘حامد یزدانی کا یہ جملہ پڑھ کر مجھے اصحاف کہف کے متروک سکے یاد آنے لگے۔افسانے کے ہیرو کا سب سے بڑا نفسیاتی المیہ اس جملے میں پوشیدہ ہے۔ حامد یزدانی لکھتے ہیں“سب کچھ پھنکوا دیا۔۔۔یہاں گزرا سارا وقت بھی کوڑے میں پھینک دیا۔ مجھ سے پوچھا تک نہیں”کرونا وبا نے انسانوں کی ذات اور شخصیت کے بہت سے پہلوؤں کو اجاگر کیا اور ہم پر منکشف کیا۔

ہمارے محبوب رستورانٹ ’ کلب اور کیفے یا بند ہو گئے یا بدل گئے اور ہم نہ کچھ کہہ سکے اور نہ ہی کچھ کر سکے۔ ہماری محبوب شاموں کی یادوں کو بے وقعت سمجھ کر کوڑے میں پھینک دیا گیا اور ہم خاموش تماشائی بنے رہے۔

کسی بھی کلب ’کسی بھی رستورانٹ اور کسی بھی کیفے کے مالک کو اندازہ نہ تھا کہ ان کرسیوں ’میزوں’ دیواروں اور تصویروں کے ساتھ کتنے لوگوں کی کتنی خوشگوار اور دلگداز یادیں وابستہ ہیں۔

حامد یزدانی نے اپنے افسانے۔۔خاکی تھیلے۔۔۔میں کرونا وبا کی نفسیاتی اور سماجی حقیقتوں اور آزمائشوں کا تخلیقی اظہار کیا ہے۔

آج سے چند برس یا چند دہائیاں بعد جب کوئی طالب علم کرونا وبا کے اردو ادب پر اثرات پر تحقیق کرے گا اور کرونا وبا کی کوکھ سے پیدا کی گئی تخلیقات کو یکجا کرے گا تو اس مجموعے میں حامد یزدانی کا یہ افسانہ ایک نمایاں مقام پائے گا۔ میں حامد یزدانی کو ایسا شاہکار افسانہ لکھنے پر مبارکباد پیش کرتا ہوں۔

ڈاکٹر خالد سہیل

٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭

خاکی تھیلا

افسانہ: حامد یزدانی

”We Are Open“

اُس وقت ٹورانٹوسے کچھ دُور واقع قصبہ واٹر ڈاؤن میں ہوا بند تھی اورجولائی کا نارنجی سورج غروب ہونے والا تھاجب وہ شخص ایک خاکی تھیلا اپنے پہلو میں دبائے کیفے کے رنگین شیشے جڑے چوبی دروازے کے دائیں طرف،سرخ اینٹوں کی دیوار کے ساتھ، فٹ پاتھ پر، جسے یہاں سائڈ واک کہتے ہیں،اُس سفید بورڈ کو دیکھ کرچلتے چلتے بے ساختہ یا بے اختیار یا کہہ لیجیے کہ یک دم رُک گیا تھاجس پر کیفے کھل جانے کا اعلان درج تھا:

وی  آر  اوپن ۔

’ آخرِ کار کیفے کھل ہی گیا‘۔۔۔اپنے پہلو میں دبائے خاکی تھیلے کی طرف بامعنی انداز میں دیکھتے ہوئے اُس شخص نے سوچا۔

آپ پوچھیں گے کہ کیا واقعی اُس نے یہ سوچا تھااور اس نے سوچتے ہوئے کیا تھیلے ہی کی طرف دیکھا تھا؟میں کہوں گا کہ ہاں مجھے پتہ ہے اس نے یہی سوچا تھا۔اور میں یقین سے کہہ سکتا ہوں کہ اس نے رکنے کے حوالے سے بے ساختہ، بے اختیار اور یک دم وا لی بات بھی سوچی تھی۔ وہ بھی زبان، گرامر اور صحتِ املا وغیرہ کا رسیا جوتھا۔ نہیں، نہیں اس نے مجھے بتایا نہیں۔ بس میں جانتا ہوں۔مجھے معلوم ہے۔ جب اس نے کبھی بتایا ہی نہیں تو مجھے کیسے معلوم ہے؟کیا میں نے کبھی اُس سے پوچھا تھا؟ نہیں، ایسا موقع ہی کبھی نہیں آیا تھا۔ آتا یا آئے بھی کیسے! میں نے کبھی بھی اپنے کسی کردارسے اس کے بارے میں پوچھا ہی نہیں۔ وہ کیوں؟ وہ اِس لیے کہ مجھے کبھی اس کی ضرورت ہی محسوس نہیں ہوئی۔ جتنا مجھے اپنے کرداروں کے بارے میں جاننا ہوتا ہے اتنا مجھے معلوم ہوتا ہے تو پوچھنے کی کیا ضرورت ہے۔ کیسے معلوم ہوتا ہے جب وہ بتاتے نہیں؟جاننا بتانے سے مشروط ہے کیا؟ تو اور کیسے جان سکتے ہیں ہم دوسروں کے بارے میں؟بھئی کئی ذرائع ہو سکتے ہیں جاننے کے۔دوسرے لوگ اور۔۔اور ان کی اپنی وضع قطع، چال ڈھال، بول چال،پہناوا اور ان کا طرزِ عمل، رویہ، ردِ عمل اور  بہت کچھ ہوتا ہے۔ اگر آپ واقعی دیکھنے کا ہنر جانتے ہوں تو بہت کچھ جان سکتے ہیں ورنہ برس ہا برس انتہائی قریب رہنے والوں کے بارے میں بھی دراصل آپ کو    قطعی کچھ معلوم نہیں ہوتا۔ اور سوچیں تو جاننے اور معلوم ہونے میں بھی فرق ہے۔ جی۔۔۔ جاننا اور چیز ہے اور معلوم کرنایا ہونا اور شے ہے۔ یہ چیز اور شے بھی بس وضاحت کے لیے کہنا پڑ رہا ہے مطلب یہ کہ دونوں مختلف ہیں۔ نہیں، نہیں محض زبان کے ہندی اور عربی گھرانوں سے تعلق ہی کی بات نہیں۔ لفظ کی صورت اور سیرت، اس کے استعمال اور اس کی تاثیر اور دوسرے الفاظ سے اس کا برتاؤ، اس کاسبھاؤ۔۔۔بہت کچھ ہوتا ہے اس میں۔ ہاں بالکل، الفاظ کی ہستی ہوتی ہے، شخصیت ہوتی ہے تو لازم ہے کہ ان کی نفسیات بھی ہوگی اور ان کے نفسیاتی مسائل بھی اور الجھنیں بھی ہوں گی۔ ان کا بھی کوئی ڈاکٹر خالد سہیل ہوگا۔ ہاں، ہاں وہ سائیکالوجسٹ نہیں سائکی ایٹرسٹ ہیں، جانتا ہوں۔ تحلیلِ نفسی وغیرہ تو کرتے ہی ہوں گے۔ وہ کیا کرتے ہیں کیا نہیں، یہ میں ان سے پوچھ کیوں نہیں  لیتا؟ ضرورت نہیں ہے۔ ضروری ہوا تو پوچھ لوں گا۔لیکن ایک بات تو طے ہے کہ نفسیات شخصیت کے بند دروازے کھولنے میں مددضرور کرتی ہے۔

اب وہ شخص کیفے کے دروازے کے دائیں کواڑ پر پلاسٹک ٹیپ کی مددسے چپکے کاغذی ا وقات نامے کا جائزہ لے رہا تھا۔

پیرسے جمعہ: دس سے تین بجے تک

ہفتہ اور اتوار: دس سے پانچ تک

اور پھر وہ سر کو ہلکی سے جنبش دیتے ہوئے بائیں والے یعنی کھلے کواڑ سے کیفے کے اندر داخل ہوگیا تھا۔ دروازہ عبور کرتے ہی دائیں طرف لکڑی کی چھوٹی سی بھوری میز پر ہاتھ کو جراثیم سے پاک کرنے والے محلول کی بوتل اور کچھ کتھئی رنگ کے کاغذی رومال پڑے تھے۔بوتل سے نکلے سفیدی مائل محلول کے چندچپچپے قطرے بھی میز کی سطح پر گرے ہوئے تھے۔بائیں طرف ہال میں کچھ کچھ فاصلے پر میز کرسیاں سجی ہوئی تھیں۔چار چار کرسیوں میں گِھری ہر میزپرایک ننھا سا گلدان،سفید نمک اور کالی مرچ کی چھوٹی چھوٹی شیشیاں اوردومینیو کارڈز رکھے تھے۔ میز کرسی کے سلسلے سے کچھ آگے دائیں طرف سفید سے رنگ کا صوفہ۔

نیا اور چمک دار فرنیچر۔۔۔!  وہ وہیں کھڑا رہ گیا۔ کچھ حیران حیران سا۔ لیکن اس سے پہلے کہ وہ کچھ کہتا کپڑے کے بنے زرد ماسک سے منہ ڈھانپے کاؤنٹر کے پیچھے کپ ترتیب دیتی ہوئی لڑکی اس سے مخاطب ہوگئی تھی:

” ہیلو۔۔۔ہائے، خوش آمدید! میں آپ کے لیے کیا کر سکتی ہوں؟‘‘

انگریزی جملے کالہجہ لڑکی کے آبائی وطن کی چغلی کھا رہا تھا۔

پولینڈ سے؟ چیک ری پبلک سے؟شاید یوکرین سے!ہے بہرحال مشرقی یورپ سے“۔اس نے سوچا۔

اب شاید آپ ہنس رہے ہوں کہ وہ بھی میری طرح دوسروں کے بارے میں اندازے ہی لگاتا ہے۔ پوچھ کر ٹھیک ٹھیک جان لینے کے بجائے!  تو میں کہوں گا:دوسروں کے آبائی وطن کے بارے میں پوچھنا کینیڈا میں معیوب سمجھا جاتاہے۔ خود مجھ سے کوئی پوچھے کہ آپ کہاں سے ہیں تو مجھے قطعی اچھا نہیں لگتا۔ مجھے لگتا ہے کہ یاتو ایسا میرے جنوب ایشیائی  نقوش کی وجہ سے پوچھا جارہا ہے یا پھر میرا انگریزی کا تلفظ ابھی تک شمالی امریکا کے لہجے سے ہم آہنگ نہیں ہوا۔ تو اس سے کیا فرق پڑتا ہے؟ بھئی، بیس برس ہوگئے ہوں جہاں، ایک پوری نسل بوڑھی اور دوسری جوان ہو کر تیسری نسل کی پرورش کررہی ہووہاں اگراب بھی استفسار کیا جائے کہ کہاں سے ہیں تو افسوس نہ ہو گا کیا!؟ بھئی، کینیڈین ہوں، یہاں کا شہری ہوں اور اگر شہر کا پوچھنا چاہتے ہیں تو ہیملٹن سے ہوں۔ کافی نہیں کیا!۔ مگر نہیں صاحب، تسلی نہیں ہوتی سوال کرنے والے کی۔ کہے گا کہ وہ تو ٹھیک ہے مگر بنیادی طور پر کہاں سے ہیں۔ بتائیے کہاں سے ہے انسان  بنیادی طور پر، کون نہیں جانتا! لیکن دراصل انھیں تویہ جاننا ہے کہ میں پاکستان سے ہوں یا ہندوستان سے تاکہ ان معلومات کی روشنی میں مجھ سے مناسب سلوک روا رکھ سکے۔میں تو باقاعدہ چڑ جاتا ہوں جب کام کی بات چھوڑ کر اصل وطن کے بارے میں تفتیش شروع ہوتی ہے۔میرا خیال ہے پوچھنے والے کو معلوم ہوتا ہے کہ اس کے سوال کا کیا جواب ہے مگر وہ مجھ سے جاننا چاہتا ہے۔ جانے کیوں! یہ بھی یقیناًکوئی نفسیاتی مسئلہ ہے یہاں۔۔۔ کچھ  یا شاید بہت سے لوگوں کا۔جیسے اس لڑکی کا پہلا جملہ سنتے ہی خاکی تھیلے والا شخص اس کے آبائی وطن اور اس کی مادری زبان کے بارے میں سوچنا شروع ہو گیا تھا۔ کیاوہاں کام کرنے والے افراد کے بارے میں جاننے کے لیے کوئی کیفے میں جاتا ہے!  سوچئے۔ بھئی، جس کام گئے ہیں وہ کیجیے اور اپنی راہ لیجیے۔

لڑکی کاؤنٹر کے پیچھے سے ابھی تک اسے دیکھ رہی تھی۔اس کی پیشہ ورانہ نیم مسکان  کی جھلک اس کی آنکھوں میں ماند نہ پڑی تھی۔ اس نے سوچا ہوگا کہ وہ شخص آرڈر دینے کے لیے کچھ غور کررہا ہے۔

آپ اب یہی سوچ رہے ہیں نا  ضروری ہے کیا کہ لڑکی نے ایسا ہی سوچا ہو؟ ہوسکتا ہے وہ یہ سوچ رہی ہو کہ اندر داخل ہوتے ہی اس شخص نے جراثیم کُش محلول سے ہاتھ کیوں صاف نہیں کیے؟یا شاید یہ کہ اس نے کپڑے کے بجائے ڈسپوزیبل ماسک کیوں پہنا ہوا ہے؟یا یہ کہ آدھےبازوؤں والی دھاری دارسفید اور نیلی شرٹ سے باہر جھولتے اس کے بازو اتنے دبلے کیوں ہیں؟ کوئی یہ کیسے سوچ سکتا ہے کہ وہ لڑکی کیا سوچ رہی ہے؟ جب تک کہ وہ خود نہ بتائے اور وہ خود کیوں بتائے گی کسی کو جب تک کہ کوئی اس سے پوچھے گا  نہیں۔ جواب تو سوال کے ساتھ مشروط ہوتا ہے ناں؟ اور اس شخص نے کاؤنٹر والی لڑکی کے سوچنے کے بارے میں کیا سوچا یہ کوئی تیسرا کیسے جان سکتا ہے؟ تو میری بات سنئے، میں جان سکتا ہوں۔۔۔کیونکہ میں دوسرا یا تیسرا نہیں بلکہ پہلا ہوں۔ یہ میری کہانی ہے، کہا ناں یہ میرے کردار ہیں۔ میں ان کے بارے میں کافی کچھ جانتا ہوں۔ دراصل یہ میں ہی جانتا ہوں کہ وہ کیا جانتے ہیں۔ تو اس میں کیا عجیب ہے۔

کچھ عجیب سا لگ رہا ہے آج یہ کیفے“۔۔۔ اتنے میں وہ شخص بڑبڑایا تھا۔ پھر کاؤنٹر کے پیچھے کھڑی لڑکی کی طرف دیکھتے اور فرنیچر کی طرف اشارہ کرتے ہوئے بولا: ”وہ،وہ فرنیچر کیا ہوا جو یہاں ہوتا تھا؟‘‘

’’اس جان لیوا وبا کی وجہ سے کیفے بند ہوا تو خوش قسمتی سے ہمیں رینوویشن کا موقع ملا گیا۔ دیکھئے، سب کچھ نیا کردیا ہے۔ دیواروں کے رنگ و روغن سے لے کرچھت،فرش اورمیز کرسی تک سب کچھ بالکل نیا اور دل کش۔۔۔ نہیں کیا؟ َلیکن معذرت کہ ابھی آپ یہاں اندربیٹھ نہیں سکیں گے۔ فی الحال ٹیک آؤٹ کی سہولت ہی ملے گی۔ ہوسکتا ہے اگلے ہفتے سے آپ یہاں بیٹھ کر بھی اپنے من پسند مشروب سے لطف اندوز ہو سکیں۔ ہمارے شہر میں ابھی حکومت نے کرونا وائرس کے حوالے سے احتیاط کادوسرا مرحلہ ختم نہیں کیا۔شاید اگلے ہفتے تک۔۔۔‘‘

’’یہ، یہ اِدھر دو  رکلائنر چیئرز  ہوتی تھیں، اِدھر کھڑکی کے پاس۔۔۔ اور ان چئیرزکے اوپر دیوار پر پت جھڑ والی پینٹنگ جو ذرا سی ٹیڑھی لگی ہوئی تھی، وہ۔۔۔“؟ وہ کھڑکی کی طرف مُڑ  کر اشارہ کرتے ہوئے کہہ رہا تھا۔

’’جی میں نے کہا نا، وہ سارا پرانا فرنیچر ہم نے پھنکوا دیا ہے کوڑے میں اور اس کی جگہ یہ نیا، بالکل نیا۔۔۔۔:“  لڑکی خوش ہوکر بتا رہی تھی۔خوش ہو کر؟ اس کپڑے کے ماسک میں چھپے ہونٹ دیکھے بغیر اس کی خوشی کے بارے میں۔۔۔!  بالکل پتہ چل سکتا ہے جناب۔ خوشی کا تعلق ہونٹوں سے نہیں لہجے سے لگایا جاتا ہے۔ لہجے سے؟ تو کیسی تھی اس کی خوشی؟ پولش یاچیک یا پھر یوکرینیئن؟ ایسا ہی لہجہ تھا   نا  اس کی انگریزی کا! وہ زبان کے لہجے کی بات تھی یہ تو احساس کی بات ہے۔ خوشی تو احساس ہے۔ ٹھیک ہے احساس ہے مگر اظہار کے بغیر احساس کا ادراک بھی کیسے ہو سکتا ہے؟  ہو سکتا ہے۔  انسان محسوس کرنے والا ہو تو ہو سکتا ہے۔ اور پھر مجھ سے کچھ چھپا نہیں۔ یہ ماسک مجھ سے کچھ چھپانہیں سکتا، نہ خوشی، نہ غم۔ مجھ پر تو سب کھلا ہے۔ یہ سارا ماحول، یہ سب کردار۔۔۔ سب مجھ پر عیاں ہیں۔۔۔میں؟میرا کیا!میں تو۔۔میں تو بنانے والا ہوں، تخلیق کار ہوں اس سب کا۔۔۔ میرا کیا!کیا مطلب؟یہ سب تو وہی کچھ سوچتے اور کرتے ہیں جو میں چاہتا ہوں اور کیا چاہیے مجھے !  میں۔۔۔! میں کیا سوچتا ہوں!؟ یہ کیسی سوچ ہے بھلا! میں کیا سوچتا ہوں!؟۔ بات توسب ان کرداروں کی ہے، اس ماحول کی ہے جو میرا بنایا ہواہے۔ شکر ہے میں کینیڈا میں ہوں۔ پاکستان میں ہوتا تو کوئی ڈاکٹر سہیل احمد خان میرے پیچھے بھی اپنی کسی طالبہ کو لگا دیتے کہ پتہ لگاؤ یہ لکھاری کیا سوچتا ہے اور اس پر  ایم  فل کا تھیسز لکھو۔۔۔ اوہو، ایم فل کا تھیسز! گویا دریافت کیے جانے کی، اہم سمجھے جانے کی خواہش بھی کہیں اندر بند ہے!  انسان ارے انسان! کیا کچھ بند  ہے تیرے خاکی تھیلے میں!؟

’’پورے پچاسی دن بند رہا ہے یہ کیفے! میں آتے جاتے کھڑکیوں میں سے جھانک کر دیکھتا رہا ہوں۔ یہی سمجھتا رہاکہ کچھ صفائی وغیرہ چل رہی ہے مگر، مگر یہ تو صفایا ہی ہو گیا۔۔۔سب کچھ ہی۔۔۔“ وہ بڑبڑاتا جارہا تھا۔

’’یہ ضروری تھا۔۔۔ بہت عرصے سے سوچ رہے تھے۔ موقع نہیں مل رہا تھا۔بالآخر وبا نے یہ رکا ہوا کام کروا دیا۔ ہے نا عجیب بات!“ لڑکی چہکی تھی۔

’’وہ اُدھر آخری دیوار کے ساتھ گھسا پٹا سبز رنگ کاصوفہ ہوتا تھا،کشادہ، آرام دہ سا۔۔۔اور اس کے ساتھ پلاسٹک کا بھوراکتّا بیٹھاہوتا تھا۔ وہ۔۔۔ نابینا افراد کے مددگار کتوں کی بھلائی کے لیے چندے والا کتا جس کے سر میں بچوں کے گلّے کی طرح پیسے ڈالنے کی جھری سی بنی ہوئی تھی۔میری بیٹی اکثر اس میں  لُونی، ٹونی یا کوارٹر کا سِکّہ ڈالتی تھی۔ ڈائیم، نکل یا سینٹ،میرا مطلب ہے پینی اس نے کبھی نہیں ڈالی تھی۔ اب تو خیر پینی کا سکہ ہی متروک ہوچکا ہے۔وہ اب چلتا نہیں مگرپھر بھی میں نے سنبھا ل رکھا ہے ایک سکّہ اپنے بٹوے میں۔مجھے یاد ہے میرے بچپن کے سبھی سکّے ایک ایک کرکے متروک ہوگئے تھے۔ بس ایک دن بتا دیا جاتا تھاکہ فلاں سکے کا استعمال بند کردیا گیا ہے اور بس۔یہ بہت پہلے کی بات ہے اور کہِیں اور کی مگر پینی یا سینٹ کا سکہ تو یہاں چلتا رہا ہے ابھی کچھ سال پہلے تک۔۔۔ اور، اور وہ بچوں کے کھلونوں کا رنگ دارصندوق۔۔۔اُدھر، اُدھر کونے میں۔۔۔سب پھنکوا دیا!  میرا یہاں گزرا سارا وقت بھی کُوڑے میں پھینک دیا، مجھ سے پوچھا تک نہیں۔کتنا بے وقعت ہے سب کچھ اِن لوگوں کے لیے!  اپنائیت اور یادیں کچھ اہمیت بھی رکھتی ہیں یا نہیں! چھوٹا تھا تب ایک دن بس مجھے بتادیا گیا کہ گھر تبدیل کیا جارہا ہے۔چھوٹے سے بڑے گھر میں جارہے ہیں۔ مگر ان پرانے کمروں کے سیمنٹ کے ٹھنڈے فرش پر لیٹا بچپن،صحن میں امرود کے پیڑ پر بیٹھی چڑیاں،برآمدے کی دیوار پر لگی سبزکائی، رات کو چھت کے شہتیر سے لٹک کر ڈرانے والی چھپکلی، الماری کے دروازوں پر پنسل سے بنایا عید کی صبح کا منظر، وہ غبارے اور کھلونے اٹھائے بچے، سڑک کے پار ایک گنبد اور دو مینار والی مسجد،مٹھائی کی دکانیں، آسمانی جھولے اور پھر دھائیں، دھائیں جنگ، فوجی، ٹینک، پرچم۔۔۔وہ سب مناظر، وہ سب لمحات۔۔۔نئے بڑے گھر میں کیسے جائیں گے سب میرے ساتھ؟ لیکن کسی نے مجھ سے نہیں پوچھا۔ہمیشہ سے یہی ہو رہا میرے ساتھ۔ بس ایک دن بتا دیا جاتا ہے۔ کوئی پوچھتا ہی نہیں مجھ سے۔کیا کوئی جانتا بھی ہے کہ میں ہُوں۔۔۔پتہ نہیں۔۔۔ اب وہ سارے لفظ جو یہاں بیٹھ کرسوچے اورجو مناظران کرسیوں پر بیٹھ کر دیکھے تھے اب انھیں کہاں ڈھونڈوں!ان کرسیوں میزوں پر میرا اتنا کچھ تھا،میرا لمس تھا ان پر۔ وہ کیا ہوا؟ کوئی یہ بتائے گا؟ عجیب ہے۔۔۔  ہاں، عجیب تو ہے۔۔۔  اور یہ روشنی اتنی زیادہ ہے اب یہاں، اتنی تیز۔آنکھوں کو الجھن ہو رہی ہے۔ کیا اچھا باقی ہے اب یہاں۔۔۔‘‘

’’سب کچھ اچھا ہے ہمارے یہاں۔کیا پسند کریں گے آپ؟ رین فارسٹ سے درآمدہ ڈارک روسٹ کافی یا گرین ٹی لاٹے؟ پمکن سپائس فلیور آج کی خصوصی پیش کش ہے اورہمارے ہاں کے ایپل فرٹرز  تو آپ کو معلوم ہی ہوگا  پورے علاقے میں مشہور ہیں۔ بالکل تازہ بناتے ہیں ہم۔ آپ کی آنکھوں کے سامنے۔‘‘

’’سامنے،ہاں وہ سامنے دیوار پر جوایمسٹرڈم کی بلیک اینڈ وائٹ تصویر تھی کائزرزکراخت نہر کے  پُل پر آگے پیچھے کھڑے سائیکلوں والی۔۔۔ وہ بھی۔‘‘

’’جناب، آپ جانتے ہی ہیں بہت پرانی تھی وہ اور پھر۔۔۔“  لڑکی نے بڑے صبر سے وضاحت کرنا چاہی۔

’’جانتا ہوں، میں آتا رہا ہوں یہاں جب یہ کیفے۔۔۔کیفے ہوتا تھا۔ رسٹک سا، پرانے فرنیچر کی خوشبو والا، کچھ کچھ جھولتے میزوں والا اور وہ پلاسٹک کا بھورا مدد گار کتّا۔۔۔میں سب جانتا ہوں۔۔۔مجھ سے کچھ چھپا نہیں۔۔۔لیکن اب یہ۔۔۔وہ نہیں۔‘‘

’’کون، کیا نہیں؟ کیا کہنا چاہتے ہیں آپ؟میں کچھ سمجھی نہیں۔ اس رینوویشن کی بات کررہے ہیں آپ یا۔۔۔؟‘‘

وہ لڑکی کی پوری بات سنے بغیرخاکی تھیلا سنبھالے خود کلامی سی کرتاہوا باہر کی طرف بڑھنے لگا۔

رنگین شیشے جڑے دروازے کا بایاں کواڑ ابھی تک کھلا تھا۔ اُسے عبور کرکے اس نے قدم سائڈ واک پر رکھا اور ایک نظر چوک کے باقی تین کونوں پر ڈالی، رائل بنک، ڈچ مین بار اینڈ گرِل، کنسائنمنٹ سٹور۔۔۔ تینوں کونے جوں کے توں تھے،بظاہر۔

باہر سے تو یہ کونا بھی نہ بدلا تھا۔کیفے کادروازہ ویسے کا ویسا ہی تھا۔۔۔ مگر اندر کی تبدیلی۔۔۔وہ تو اندر جاکر ہی معلوم کی جاسکتی ہے۔ اُن بند دروازوں کے اندر کیا کچھ بدلا ہے۔ کون جانے! اور مجھ میں مزیدجاننے کی ہمت نہیں۔۔۔کیا مجھے معلوم ہے کہ اِس خاکی تھیلے میں کیا بند ہے!؟  اس نے سوچا۔

لیکن مجھے تومعلوم ہے اور شایدکچھ کچھ آپ کو بھی۔

سائڈ واک  پر کھڑے کھڑے اس نے سر کو ہلکا سا جھٹکا دیااور سرخ اینٹوں کی دیوار کے ساتھ ”وی  آر  اوپن“ کے سفید بورڈ کو نظر انداز کرتے ہوئے دائیں طرف مُڑگیا۔

سیاہ کوڑا دان کے پہلو میں ایستادہ رنگا رنگ پھولوں کی معلق ٹوکری اٹھائے وکٹورین دور کے لیمپ پوسٹ نے دیکھا کہ ایک خاکی تھیلا کشاں کشاں بڑھ رہا تھا ولیج تھیئٹر سے دُور نِک وِک بُک شاپ کی طرف۔۔۔ کسی کو بغل میں دبائے۔لیکن کسے!؟

میں نہیں جانتا۔۔۔اور مجھے جاننا بھی نہیں کیونکہ مجھے ضرورت نہیں یہ جاننے کی۔

Advertisements
julia rana solicitors london

میرے خیال میں توآپ کے لیے بھی اتنا ہی جان لینا کافی ہے کہ اُس وقت ٹورانٹو سے کچھ دور واقع قصبہ واٹر ڈاؤن میں ہوا بند تھی اورجولائی کا نارنجی سورج غروب ہونے والا  تھا۔

 

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply