مسائل اور ان کا حل ہماری سوچ میں پنہاں ہے۔۔عاصمہ حسن

زندگی اللہ تعالٰی کا عطا کردہ ایک حسین تحفہ ہے اور وہ تمام نعمتیں جو ہمیں عطا کی گئی ہیں ‘ جن کا ہم شمار تک نہیں کر سکتے اور بعض اوقات ان کو ہم خاطر میں بھی نہیں لاتے اور ناشکرے پن کی آخری حد کو پہنچ جاتے ہیں وہ اس کے رحیم و کریم ہونے کو ظاہر کرتی ہیں ـ ان میں سب سے بڑی نعمت صحت و تندرستی ہے ‘ ہمارے جسم کے تمام اعضاء کا صحیح حالت میں ہونا اور ان کا درست کام کرنا وہ دولت ہے جس کا کوئی نعم البدل نہیں ـ اگر ہم ایک لمحے کے لئے سوچیں کہ ہمارے ہاتھ ‘ پاؤں ‘ آنکھ ‘ ناک ‘ کان یا جسم کا کوئی بھی حصہ صحیح کام نہ کرتا یا ہم معزور ہوتے تو ہماری کیا زندگی ہوتی ـ اس کا احساس تبھی ہوتا ہے جب کوئی ایک بھی عضو تکلیف میں مبتلا ہوتا ہے ـ
اللہ تعالٰی کا خاص کرم ہے کہ اس نے ہمیں اشرف المخلوقات بنایا ہے اور صحت و تندرستی عطا فرمائی ہے ـ دماغ اور پھر سوچنے اور سمجھنے کی صلاحیت عطا کی ہے ـ ہر انسان کو اللہ تعالٰی نے دوسرے انسان سے نہ صرف مختلف بنایا ہے بلکہ منفرد صلاحیتوں سے بھی نوازا ہے ـ
اب اگر ہم بات کریں درپیش مسائل کی تو سوچیں کہ مسائل کا سامنا اس دنیا میں کس کو نہیں کرنا پڑتا ـ ہمیں دیکھنے میں لوگ بہت خوشحال نظر آتے ہیں اور مقابلے میں اپنے حالات بہت نازک محسوس ہوتے ہیں ـ کہتے ہیں نہ کہ دور کے ڈھول سہانے ‘ وہی بات ہو جاتی ہے کہ ہمیں کیا معلوم کہ کون کن حالات سے گزر رہا ہے اور نہ ہی ہم یہ سب جاننے میں کوئی خاص دلچسپی رکھتے ہیں ـ کیونکہ ہم بحیثیت انسان خودغرض واقع ہوئے ہیں ـ صرف اپنا بھلا اور فائدہ چاہتے ہیں اب بے شک ہمیں دوسروں کا حق مارنا ہی کیوں نہ پڑے ـ
زندگی کے تمام رنگ خوبصورت ہیں بس فرق صرف ہمارے دیکھنے میں ہے کہ ہم کس زاویے سے ‘ کس رنگ کی عینک سے اس دنیا کو اور درپیش مسائل کو دیکھتے ہیں ـ اس حقیقت سے منہ نہیں موڑا جا سکتا کہ ہر بندہ کسی نہ کسی پریشانی میں گھِرا ہوتا ہے ـ زندگی کے کئی محاذ پر تن تنہا اور نا پسندیدہ حالات سے لڑ رہا ہوتا ہے ـ اب چاہے کوئی امیر ہو یا غریب ‘ کامیاب انسان ہو یا ناکام ‘ چھوٹا ہو یا بڑا’ جوان ہو یا بوڑھا سب کو مشکل حالات کا سامنا رہتا ہے ـ یہ ہماری سوچ ہی ہے جو نہ صرف ہمیں دوسروں سے منفرد بناتی ہے بلکہ اسی سوچ کی بدولت ہم ان مسائل کا تجزیہ کرتے ہیں اور یہی سوچ ہمیں حالات سے لڑنے کا حوصلہ عطا کرتی ہے ـ
اب سوچ بھی دو طرح کی ہوتی ہے ایک مثبت اور دوسری منفی’ جو ہمارے ذہن کے ساتھ ساتھ ہماری پوری زندگی پر ‘ حالات و واقعات پر اثر انداز ہوتی ہے ـ ہماری کامیابی وناکامی سے لے کر صحت و تندرستی تک سب ہماری سوچ پر منحصر ہوتا ہے ـ
اس کی مثال اس طرح سے لی جا سکتی ہے کہ اگر میں مسلسل ایک ہی بات سوچوں کہ میرے مسائل اور تکالیف بہت زیادہ ہیں ـ میں بدنصیب ہوں ـ میرے پاس کچھ نہیں ہے اور ان تمام درپیش مسائل اور مصائب کے سامنے میں بے بس و لاچار ہوں ـ دنیا جہان کی تمام خامیاں مجھ میں ہیں ـ میں ایک ناکارہ انسان ہوں جس میں کسی قسم کی کوئی صلاحیت نہیں’ نہ ہی میں کوئی کام ڈھنگ سے کر سکتی ہوں ‘ تو ہمیشہ یاد رکھیں کہ ہر حال میں مسائل جیت جائیں گے’ مجھ پر حاوی ہو جائیں گے ـ کیونکہ میری منفی سوچ میرے حوصلے پست کر دے گی اور ان مسائل سے لڑنے کی طاقت سلب کر لے گی ـ میں حالات کے آگے جھک جاؤں گی ‘ ڈھیر ہو جاؤں گی ـ ڈپریشن کا شکار ہو جاؤں گی اور آخر کار یہ تمام خامیاں مجھ میں نہ ہونے کے باوجود میری شخصیت کا حصہ بن جائیں گی ـ اس کے برعکس اگر میں یہ سوچوں کہ یہ عارضی پریشانیاں ہیں ‘ مشکل وقت نکل جائے گا اور یہ کہ اللہ تعالی کی طرف سے آزمائیش ہے اور وہی اس مشکل سے نکالنے والا ہے ـ وہ عظیم ذات اپنے بندے پر اس کی برداشت اور استطاعت سے زیادہ بوجھ نہیں ڈالتی ‘ میں اس کڑے وقت سے باہر نکل آؤں گی کیونکہ مجھ میں صلاحیت کے ساتھ ساتھ قوتِ برداشت اور صبر کا مادہ ہے ـ اللہ تعالی نے مجھے خاص صلاحیتوں سے نوازا ہے جن کو میں بروئے کار لا کر مسائل پر غالب آسکتی ہوں اور یہ مشکلات مجھے سبق سکھانے کے لئے آئیں ہیں تو یقین کریں کہ اس سوچ کی بدولت ایک واضح تبدیلی دیکھنے کو ملے گی ـ وہ صلاحیتیں نہ ہونے کے باوجود صرف ایک مثبت سوچ اور یقین’ کامیابی سے ہمکنار کرے گی ـ یہ اللہ تعالی پر توکل’ بھروسے کے ساتھ ساتھ ہماری مثبت سوچ کی بدولت ہی ممکن ہو پاتا ہے ـ یہ حقیقت ہے کہ ہم وہی ہیں جو ہم سوچتے ہیں ـ ہماری شخصیت کو بنانے اور سنوارنے میں ہماری سوچ کا نمایاں عمل دخل ہوتا ہے ـ
ہماری خوشیاں ‘ ہمارا سکون سب ہماری سوچ میں پنہاں ہے ـ ہماری سوچ ہی ہے جو ہمارے مستقبل کا تعین کرتی ہے ـ تھوڑے میں خوش ہونا اور شکرگزار ہونا سیکھ لیں زندگی کے آدھے مسائل کم ہو جائیں گے ـ مسائل سے ڈٹ کر مقابلہ کرنا سیکھیں ـ ہمیشہ یہ سوچیں کہ مسائل نہیں ہم طاقتور ہیں اور ان مشکل حالات سے نکالنے والا میرا رب سب سے بڑا ہے ـ کیونکہ اگر ہم اپنی مشکلات کو طاقتور سمجھ لیں گے تو وہ ہمیں مایوسی اور ناکامی کے دہانے پر لے جائیں گے ـ
قرآن مجید میں ارشاد ہوتا ہے کہ : ” بے شک ہر مشکل کے ساتھ آسانی ہے ـ ” (الشرح6)
اب ایسا نہیں ہے کہ ہم آنکھیں بند کر کے بیٹھ جائیں اور صرف سوچتے رہیں کہ سب اچھا ہے اور یہ وقت نکل جائیں گا ـ عقلمندی یہ ہے کہ ہم ان مسائل کو اپنے حواس پر طاری نہ کریں اور جسمانی و دماغی طور پر پرسکون رہ کر ان کے سدِباب کا سوچیں اور مناسب حکمت عملی اپناتے ہوئے ان کا مقابلہ کریں ـ کسی بھی کام کی شروعات سے پہلے اچھی طرح جانچ پڑتال کریں ‘ تمام تفصیلات اور معلومات اکٹھی کریں ‘ متعلقہ لوگوں سے ملیں ‘ بات چیت کریں ان کے تجربات کی روشنی میں بہتر منصوبہ بندی کریں اس کے ساتھ ساتھ ممکنہ چیلنجز سے نمٹنے کے لئے حکمتِ عملی تیار کریں ـ کبھی بھی ایک منصوبے پر انحصار نہ کریں پلان دو اور تین تیار رکھیں ـ کیونکہ حالات کبھی بھی ویسے نہیں ہوتے جیسا کہ ہم سوچتے ہیں اور نہ ہی نتائیج ہماری مرضی کے مطابق ہوتے ہیں ـ
ہمیشہ یاد رکھیں کی اس دنیا میں ایسا کوئی نہیں جس کو مسائل کا سامنا نہ ہو ـ لیکن بہت کم لوگ ایسے ہوتے ہیں جو خود پر اور اپنی سوچ پر قابو رکھ پاتے ہیں اور درپیش مسائل کے سامنے ڈٹ کر آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر کھڑے ہو جاتے ہیں ـ اپنے اسی مضبوط ارادے اور مستقل مزاجی کی بدولت وہ خندہ پیشانی سے حالات کا مقابلہ کرتے ہوئے کامیابی حاصل کرتے ہیں ـ
کسی کو بھی کامیابی رات و رات حاصل نہیں ہو جاتی ـ کامیابی کا سفر سالوں کی ریاضت اور محنت پر مشتمل ہوتا ہے اور مسائل و مصائب کے کئی بلند و بالا پہاڑ عبور کر کے وہ اپنی منزل تک پہنچتے ہیں ـ
اگر آپ کامیاب ہونا چاہتے ہیں چاہے زندگی کے کسی بھی شعبہ سے تعلق رکھتے ہیں تو بس اپنی سوچ کو مثبت رکھیں اور اپنے دیکھنے کے زاویے کو بدلیں ـ تنہائی میں اپنا جائزہ لیں اور سوچیں کہ ہم اس پریشانی سے تکلیف سے کیسے باہر نکل سکتے ہیں ـ محمد ناصر افتخار اپنی کتاب ” خود سے خدا تک ” میں لکھتے ہیں کہ “ہمارے ذہن کی عادت ہے کہ وہ معمولی بات کو بھی بڑا کر کے دکھاتا ہے اور ہم چونکہ کمزور اعصاب کے مالک ہیں اس لئے ہمارا ردِعمل بے پناہ ہیجان کی صورت میں سامنے آتا ہے ـ اور ہم درست فیصلہ کرنے کی صلاحیت کھو دیتے ہیں ـ”
اگر تکلیف یا پریشانی آ گئی ہے تو اس کو برداشت کرنا اور صبر کرنا سیکھیں ـ ہر آنے والے نئے دن کو کھلے دل کے ساتھ خوش آمدید کہیں ـ شکرگزاری بڑھا دیں اور اپنا کسی سے موازنہ کیے بغیر چلتے جائیں ـ لوگوں کی نہیں اپنے دل کی سنیں ـ دل کا مطمئن اور خوش ہونا زیادہ اہمیت رکھتا ہے نہ کہ لوگوں کا خوش ہونا اور تعریف کرنا ـ خود کو بدل لیں انشاءاللہ منزل تک پہنچ جائیں گے اور کامیابی آپ کے قدم چومے گی ـ

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply