ماں کا لعل…..!

آج سارا دن بارش ہوتی رہی. میں سردی کی وجہ سے سارا دن اپنے ہی کمرے میں گرم کمبل میں دبک کے بیٹھا رہا. شام کے وقت میں چائے پینے کے لیے باہر نکلا. باہر بارش کی وجہ سے گلیاں کیچڑ سے بھری پڑی تھیں. بارش رکی نہیں تھی اور ابھی بھی ہلکی ہلکی جاری تھی. ایسے میں ٹھنڈی ہوا نے اس سرد موسم کو مزید سرد بنا دیا تھا. میں باہر نکل کے تھوڑا سا گھبرایا لیکن پھر سوچا چائے لازمی پینی ہے، سو کسی طرح سردی اور کیچڑ دونوں سے بچ بچاکر قریبی ڈھابے پر پہنچا اور چائے کا آرڈر دیا. گرم کوٹ، اوپر اونی ٹوپی اور پاؤں میں جرابوں کے ساتھ گرم بوٹ ہونے کے باوجود مجھے سردی لگ رہی تھی. میں نے دونوں ہاتھ کوٹ کی جیبوں میں ڈالے اور کوٹ کو مزید اندر کی طرف دبایا اور سکڑ کر بیٹھ گیا. چائے آئی اور میں ہاتھ میں چائے کا کپ لے کر بھاپ اڑاتی گرم گرم چائے کے سپ لینے لگا. زندگی اپنی تمام تر مشکلات و تکالیف کے باجود بہت خوبصورت ہے. ایک سرد شام میں اکیلے بیٹھ کر اپنی من پسند سوچوں میں ڈوب کر گرم گرم چائے پینے کا اپنا ہی لطف ہے. ان چند ساعتوں کا مجھے تو ایسا لطف آتا ہے کہ میں اکثر باقاعدہ شام کی چائے کا انتظار کرتا ہوں. گرم چائے کی چسکیاں لیتے ہوئے میں سوچوں میں گم تھا کہ ایک سردی سے کانپتی سی آواز نے اپنی طرف متوجہ کیا، ایک چھوٹا سا بچہ کچھ کہہ رہا تھا.
میں نے پوچھا کیا کہہ رہے ہو؟
بچے نے کہا بھائی انڈہ کھاؤ گے؟
میں نے بچے کا بغور جائزہ لیا. وہ بہت کم عمر تھا. پاؤں میں جرابوں کے بغیر عام سے جوتے جو سردی سے بچانے کے لیے ناکافی تھے. کوٹ البتہ اس نے پہن رکھا تھا. سردی سے وہ ہلکا ہلکا کانپ رہا تھا اور زیادہ سردی سے اس کی آواز بھی نہیں نکل رہی تھی. میں نے دو انڈے اس سے خریدے اور وہ چلا گیا!
وہ تو چلا گیا مگر مجھے سوچنے پر مجبور کرگیا کہ یہ بھی کسی ماں کا لعل ہوگا. اور ماں بے چاری خود اس کو اس طوفانی بارش والی انتہائی سرد شام میں باہر بھیجتی ہوگی. اور ایسا کرتے ہوئے اس پر کیا گزرتی ہوگی؟
میں پچیس سال کا ہوگیا ہوں مگر میری ماں آج بھی مجھے فون کرکے کہتی ہے بیٹا سردی بہت زیادہ ہے. میں آپ کے لیے بہت فکرمند ہوں. اتنی سردی میں باہر زیادہ نہ نکلا کرو!
اس کے ساتھ ساتھ مجھے ٹوپی سر پر کرنے، کوٹ پہننے اور ایسی ہی اور بہت ساری تاکید کرتی ہے!
اور میں سوچتا ہوں میری ماں بھی ناں کتنی سادہ ہے، کتنی بھولی ہے، میں اب بچہ نہیں رہا. سردی لگے گی تو خود ہی انتظام کرلوں گا. پتہ نہیں اس کو اتنی فکر کیوں ہے. لیکن یہ بچہ جو انڈے بیچ ریا تھا یہ تو واقعی میں بہت چھوٹا تھا. اس کی ماں اتنی سردی میں اسے کیسے بھیجتی ہوگی؟
کیا اسے فکر نہیں ہوتی ہوگی؟
یہی سب سوچتا ہوا میں اپنے کمرے میں واپس آگیا.
کمرے میں موجود دوست کے ساتھ انڈہ جب کھا رہا تھا تو اسے بھی اپنے خیالات سے آگاہ کیا. دوست بولا زیادہ سوچنے کی ضرورت نہیں. یہ بھی مارکیٹنگ کا ایک طریقہ ہے. میں گارنٹی سے کہہ سکتا ہوں اگر وہ زیادہ کم عمر بچہ نہ ہوتا تو آپ نے کبھی بھی یہ انڈے نہیں خریدنے تھے. مارکیٹنگ کے اس طریقے سے ان کی فروخت دوگنا ہوجاتی ہے. منافع کے علاوہ جو لوگ ترس کھاکر اسے پیسے دے دیتے ہیں وہ الگ سے ہوتے ہیں.
تاہم اس سب کے باوجود وہ ایک ماں کا چھوٹا سا بچہ ہی ہے. کسی ماں کو کتنا ہی پیسہ کیوں نہ نظر آئے وہ پھر بھی اپنے بچے کو ایسے نہیں بھیجے گی. ہر کسی کی کوئی نہ کوئی مجبوری ہوتی ہے. افف یہ مجبوریاں انسان سے کیا کیا نہیں کرواتیں.

Facebook Comments

ناصر جاوید
ایک سیدھا سا دل و جان سے محب وطن پاکستانی.....

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply