عدم برداشت اور شدت پسندی

معاشرے میں بڑھتے ہوئے عدم برداشت کے ماحول اور اس کے سدباب کے لیے ٹھوس بنیادوں پر کام کرنے کی ضرورت کو سامنے رکھتے ہوئے کچھ گزارشات احباب کی خدمت میں پیش کر رہا ہوں۔ امید ہے کہ پسند فرمائیں گے۔
میانہ روی ، رواداری، تحمل مزاجی ، ایک دوسرے کو برداشت کرنا، معاف کر دینا اور انصاف کرنا یہ وہ خوبیاں ہیں جن کی وجہ سے معاشرے میں امن و چین کا دور دورہ ہوتا ہے۔ جن معاشروں میں ان خوبیوں کی کمی ہو تی ہے وہاں بے چینی ، شدت پسندی ، جارحانہ پن ، غصہ، تشدد، لاقانونیت اور بہت سی دیگر برائیاں جڑ پکڑ لیتی ہیں، معاشرے کا ہر فرد نفسا نفسی میں مبتلا نظر آتا ہے، یہ نفسا نفسی معاشرے کی اجتماعی روح کے خلاف ہے اور اسے گھن کی طرح چاٹ جاتی ہے۔ بدقسمتی سے پاکستانی معاشرے میں بھی گزشتہ کئی سالوں سے عدم برداشت کے رجحان میں خوفناک اضافہ دیکھنے میں آ رہا ہے ۔ یوں دکھائی دیتا ہے جیسے افراد کی اکثریت کی قوت برداشت ختم ہو چکی ہے اور رواداری جیسی اعلیٰ صفت معاشرے سے عنقا ہو چکی ہے ۔ ہر فرد دوسرے کو برداشت کرنے کے بجائے کھانے کو دوڑتا ہے، بے صبری ، بے چینی اور غصہ ہر کسی کے ماتھے پر دھرا دکھائی دیتا ہے۔ آج ہمیں ہر طرف افراتفری ، بے چینی اور پریشانی نظر آتی ہے فرد کا فرد سے اعتبار اٹھ چکا ہے ہر شخص دوسرے کوشک کی نگاہ سے دیکھتا ہے یوں محسوس ہوتا ہے جیسے معاشرہ ٹوٹ پھوٹ کی آخری انتہاؤں پر ہے۔ بظاہر خوبصورت دکھنے والی عمارت اندر سے زنگ آلود ہو چکی ہے المیہ دیکھئے معاشرتی ٹوٹ پھوٹ کی طرف ارباب اختیار کی نظر بھی نہیں جا رہی، کسی بھی معاشرے عروج بنیادی قدروں کی پسادری کا مرہون منت ہوتا ہے اور اگر یہ قدریں ختم ہو جائیں تو اس کا زوال شروع ہو جاتا ہے ، تحمل اور روادری پُرامن معاشروں کی عمارت کی بنیادی اینٹ قرار پاتی ہیں اور جس معاشرے میں تحمل اور رواداری اٹھ جائے وہ انسانی معاشرہ کم اور جنگلی معاشرے کا نقشہ زیادہ پیش کرتا ہے۔
سب سے پہلے تو یہ سمجھنا چاہیے کہ عدم برداشت اور شدت پسندی کیا چیزیں ہیں۔یہ ایک ایسی دما غی کیفیت ہے جہاں کوئی انسان ہر چیز، ہر انسان اور ہر واقعہ کو صرف ایک ہی زاویہ سے دیکھتا ہے اور صرف اپنے آپ کو ہی درست سمجھتا ہے ۔ یہ کیفیت اس حد تک بڑھ جاتی ہے کہ اس مرض کے شکار انسان اپنے خلاف یا اپنے خیالات یا عقائد کے خلاف ہر آدمی کو کافر سمجھ کر اسے قتل کرنا عین عبادت سمجھتے ہیں۔ 1980کی دہائی تک پاکستان ایک پر امن ملک تھا پھر آہستہ آہستہ عدم برداشت اس حد تک پروان چڑھی کہ اب پورا ملک سولی پر ٹنگا ہے۔ امن و امان مخدوش ہو چکا ہے۔نہ کسی کی زندگی محفوظ ہے نہ عزت اور نہ پراپرٹی۔اس عدم برداشت کے کلچر نے ٹارگٹ کلنگ، بھتہ خوری ،لوٹ مار اور ڈاکہ زنی جیسی برائیوں کو جنم دیا ہے جو اب کسی صورت کنٹرول میں نہیں آ رہیں ۔عدم برداشت شدت پسندی کو جنم دیتی ہے اور اسکی کئی وجوہات ہیں مثلاً جہالت،علم کی کمی ،ہمیشہ خود کو درست سمجھنا،کم فہمی، معاشرتی نا انصافی و زیادتی،تشدد،رنگ و نسل یا جنسی امتیاز۔کسی کو کم تر سمجھنا ،تذلیل کرنا وغیرہ وہ باتیں ہیں جن سے عدم برداشت کا کلچر جنم لیتا ہے اور پھر حالات کے تحت پروان چڑھ کر شدت پسندی میں بدل جاتا ہے۔
برداشت اور رواداری زندگی گزارنے کے بنیادی اصول ہیں اور معمولی باتوں پر غصہ پینے سے لے کر زندگی کے مختلف مرحلوں میں اختلافات کو برداشت کرنے تک کی تربیت گھروں اور اسکولوں سے دی جائے تب ہی ایک روادار معاشرے کی تشکیل ممکن ہے۔ عمرانیات کے ماہرین کا کہنا ہے کہ آج کل معاشرے کے 90 فیصد مسائل کی جڑ برداشت نہ کرنا اور عدم رواداری ہے۔ عدم برداشت ہی کی وجہ سے معاشرے میں انتشار، بدعنوانیت، معاشرتی استحصال اور لاقانونیت جیسے ناسور پنپ رہے ہیں۔عدم برداشت انفرادی طور پر بھی لوگوں کو متاثر کرتا ہے اور لوگ بے چینی، جلد بازی، حسد، احساس کمتری اور ذہنی دباؤ کا شکار ہوجاتے ہیں۔ دنیا بھر میں مختلف نفسیاتی و ذہنی بیماریوں میں اضافے کی سب سے بڑی وجہ بھی عدم برداشت ہے۔ ان وجو ہات کو چار مختلف حصوں میں تقسیم کیا جاسکتا ہے۔
1۔ خاندان! کچھ خاندانوں میں معاشرتی طور پر عدم برداشت کا کلچر پایا جاتا ہے۔مثلاً میاں بیوی کا آپس میں عدم تعاون ،ہر وقت لڑائی جھگڑا، ذرا ذرا سی بات پر مار پیٹ، گالی گلوچ ،بچوں کو ناجائز ڈانٹ ڈپٹ،بچوں کی جائز ضروریات کو نظر انداز کرنا وغیرہ وہ عوامل ہیں جو بچے کی شخصیت میں منفی ردعمل پیدا کر تے ہیں۔ایسے بچے سکولوں اور معاشرے میں بھی منفی ردعمل کا مظاہرہ کرتے ہیں۔ ذرا ذرا سی بات پر لڑائی جھگڑا ،مار پیٹ بلکہ ہر چیز میں عدم برداشت کا مظاہرہ کرتے ہیں۔ اپنی ضروریات کے لئے چوری چکاری یا زبردستی کوئی چیز چھیننے سے بھی باز نہیں آتے۔انہی عادات کے ساتھ جب وہ بڑے ہوتے ہیں تو ہر چیز طاقت یا ناجائز عمل سے حاصل کرنا اپنا حق سمجھتے ہیں جو بعد میں معاشرے کے لئے نقصان دہ ثابت ہوتے ہیں۔
2۔ معاشرہ ! معاشرے میں انصاف یا حق نہ ملنا، بلا وجہ تضحیک و نفرت اور حقارت کا نشانہ بننا ، رنگ،مذہب ،جنس یا معاشرتی امتیاز کا شکار ہونا وغیرہ بچے کی پرورش میں منفی ردعمل پیدا کرتے ہیں۔اس ماحول میں پرورش پانے والے لوگ بہت جلد عدم برداشت اور شدت پسندی کا شکار ہو جاتے ہیں۔
3۔ تعلیمی ادارے ! ایک تو ہماری کتب میں بالواسطہ یا بلا واسطہ طور پر نفرت یا مذہبی تعصب پھیلانے والا مواد موجود ہے۔پھر مختلف فرقوں کے لئے مختلف کتب بھی موجود ہیں۔نفرت اور مذہبی تعصب پھیلانے میں بعض اوقات والدین اور تنگ نظر اسا تذہ بھی آہم کردار ادا کرتے ہیں۔ بچے کی شخصی تعمیر میں والدین اور اسا تذہ کا خاص کردار ہوتا ہے لیکن اگر والدین اور اساتذہ ہی بچوں کو صحیح تعلیم نہ دے پائیں تو شدت پسندی کا پیدا ہونا لازمی امر ہے۔ بچہ برداشت کا کلچر ہمیشہ والدین یا اسا تذہ سے ہی حاصل کرتا ہے۔اسی لئے اب پڑھے لکھے لوگ بھی عدم برداشت اور شدت پسندی کا شکار ہوگئے ہیں جسکا ثبوت ہمیں سانحہ صفورا چوک میں ملا، جن میں اعلیٰ تعلیم یافتہ لوگ مجرم تھے بلکہ انجینئر اور وائس چانسلر کے عہدے کے افراد بھی شامل تھے۔
4۔ حکومتی اہلکار اور سیاستدان! یہ لوگ اپنی مقصد برداری کے لئے دہشتگردوں یا شدت پسندوں کے مددگار اور سہولت کار کا کام کرتے ہیں۔کراچی آپریشن نے ثابت کر دیا ہے کہ کچھ اعلیٰ حکومتی اہلکار اور حکمران اس قابل نفرت عمل میں شامل ہیں۔ روحانی سکالر میاں مشتاق عظیمی نے گفتگو کرتے ہوئے کہا ’’ہمارے معاشرے کا عجیب ہی چلن ہو گیا ہے، بچہ والدین کی بات تسلیم کرنے کو تیار نہیں اور اسی طرح والدین بچے کی بات نہیں مانتے ، معاشرے میں افراد کی اکثریت اپنا موقف درست تسلیم کئے جانے پر مصر ہے چاہے وہ صحیح ہے یا غلط ، اس کے لئے انہوں نے طرح طرح کے دلائل گھڑے ہوئے ہوتے ہیں ۔ اسی طرح معاشرے میں عدم تحفظ بہت زیادہ پایا جاتا ہے کوئی فرد جو گھر سے نکلتا ہے اسے یہ پتہ نہیں ہے کہ وہ گھر کو واپس لوٹے گا بھی کہ نہیں۔ عدم برداشت کی ایک وجہ معاشی بدحالی بھی ہے ، بڑھتی ہوئی مہنگائی اور روزگار کے وسیع مواقع نہ ہونے کی وجہ سے بھی افراد کی اکثریت ذہنی دباؤ میں رہتی ہے جس سے انسانی رویے میں غصہ پیدا ہوتا ہے ، جیسے ایک خاتون اگر بازار میں خریداری کرنے جاتی ہے تو اس میں اس وجہ سے غصہ پیدا ہو رہا ہے کہ ہر چیز کی قیمت بڑھتی جا رہی ہے اور اس کی قوت خرید کم ہو رہی ہے۔ایسی ہی بہت سی مثالیں ہمارے ارد گرد بکھری ہیں ،ضرورت ہے کہ اپنے رویوں کو درست سمت میں لیجایا جائے تاکہ معاشرے کا مفید شہری بنا جا سکے۔

Facebook Comments

اکرام الحق
حال مقیم امریکا،آبائی تعلق ضلع گجرات،پاکستان۔ادب سے شغف۔وطن سے محبت ایمان۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply