​سنسکرت کی “شِشو کتھائیں” (بچوں کی کہانیاں)۔۔ڈاکٹر ستیہ پال آنند

بادل کی آنکھوں میں آنسو

بادل کی آنکھوں میں جلتے
گنتی کے کچھ آنسو ہی تھے
ڈھلک گئے تو
اس کو راحت کا کچھ کچھ احساس ہوا، پر
نیچے دھرتی پر تو جیسے
آگ لگ گئی ایک جھڑی سے
دھوپ نے تب اپنے لاکھوں پنجوں کے نیچے
سائبان سا تان لیا۔۔۔تو
دھر تی نے بھی چین کا ٹھنڈا سانس لیا

دادا جی نے
اگلے دن کی صبح کو
دھوپ کے بالک سے یہ پوچھا
“کیسا تھا اور کیوں تھا ایسا عجب ماجرا؟”
دھوپ کا بالک ہنسنے لگا،
دادا جی، کچھ مت سوچو ، اس میں
ایک راز ہے، ایک بجھارت
جو میں کھول نہیں سکتا ۔۔
یہ دھوپ اور سائے کا جھگڑا ہے”

“کیسا جھگڑا؟ کچھ تو بتاؤ، ننھےبالک

Advertisements
julia rana solicitors

اچھا ، سُن لو۔
دھوپ اور سایہ دن اور رات کے ہی بچے ہیں
سایہ تو دن کو بھی اپنا جلوہ دکھلاتا پھرتا ہے
دھوپ ، مگرکیسے نکلے گی ر ات کو۔۔۔اس کا
منبع تو سورج ہے،
بھرا بھرایا دن کو، رات کو مُر دہ
اسی لیے دونوں نے یہ طے کر رکھا ہے
سایہ اپنے آپ نہیں پیدا ہو سکتا
کوئی عمارت، پیڑ کوئی
، دیوار کسی گھر کی یا بادل
ہو گا تو سایہ بھی ہو گا
انت بات بس اتنی سی ہے
“ر ات کا بیٹا، سایہ، دن کو تب پھیلے گا
جب اس کو دِن پھیلنے دے گا !

Facebook Comments

ستیہ پال آنند
شاعر، مصنف اور دھرتی کا سچا بیٹا

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply