بھارت : تاریخی مساجد اور مسلم دورکے شاہکار نشانہ پر(1)۔۔افتخار گیلانی

جنوبی ایشیاء میں جہاں اسوقت پاکستان ایک سیاسی اور آئینی بحران سے گزر رہا ہے، سری لنکا ایک بدترین اقتصادی بحران کا سامنا کر رہا ہے، وہیں بھارت میں حکمران بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) اور اسکے ہمنوا اصل ایشوز سے عوام کی توجہ ہٹانے کیلئے ہندو توا کا چورن کامیابی کے ساتھ بیچ کر ایک کے بعد ایک جذباتی نان ایشوز ابھار کر ملک کی سب سے بڑی اقلیت مسلمانوں کو کٹہرے میں کھڑا کررہی ہے۔ حجاب پہننے، حلال گوشت کی فروخت ، مساجد میں اذان کیلئے لاوڈ اسپیکروں کا استعمال جیسے تنازعے تھمنے کے بعد اب بس سانس ہی لے رہے تھے، کہ ہندو قوم پرستوں نے یکے بعد دیگرے مسلم دور کی شاہکار یادگار تاج محل، دہلی میں سلاطین کی یادگار قطب مینار، وزیر اعظم نریندر مودی کے حلقہ انتخاب بنارس یا وارانسی میں موجود تاریخی گیان واپی مسجد اور آگرہ سے 50کلومیٹر دور متھرا کی عید گاہ مسجد پر دعوی کرکے بتایا کہ یہ سبھی عمارتیں عہد قدیم میں ہندو عبادت گاہیں تھیں، اس لئے ان کی وہی حیثیت واگزار کرائی جائے۔

تاج محل پر دعویٰ کسی ایر غیر ے سیاسی اٹھائی گیرے نے نہیں ، بلکہ ریاست اتر پردیش میں حکمران بی جے پی کے عہدیدار اور ترجمان رجنیش سنگھ نے درج کروایا۔ ان کا کہنا ہے کہ تاج محل کی بنیاد ایک مندر تیجو محل پر رکھی گئی ہے۔ حیرت تو یہ ہے، کہ جے پور کے شاہی گھرانہ کی مہارارنی دیا کماری، جو فی الوقت بی جے پی کی ممبر پارلیمنٹ ہے، نے اس میں سر ملاکر دعویٰ کیا کہ مغل بادشاہ شاہجہان نے ان کے خاندان سے یہ زمیں زبردستی ہتھیا لی تھی۔ مغل دور میں اگر کسی نے سب سے زیادہ فائدہ اٹھایا، تو یہ جے پور کا شاہی گھرانہ تھا۔ اس کے اراکین مغلوں کے سپہ سالار، وزیر، دیوان اور افسران تھے اور اپنی بیٹیاں مغل حکمرانوں کو رشتے میں دیتے تھے۔ دیا کماری کی ایک الیکشن مہم میں نے ان کے ہمراہ کور کی تھی۔ مجھے یاد ہے کہ مسلمان علاقوں میں وہ اپنے خاندان کے مغل فرمانرواں کے ساتھ تعلقات کو خوب بیچتی تھی۔ مسلمان دیہاتی بھی انکا استقبال سادگی میں یہ نعرے لگاتے ہوئے کرتے تھے۔ ’’دیکھو دیکھو کون آئی ہے، ماما جی کی بیٹی آئی ہے۔‘‘ ماما جی کا مطلب راجہ مان سنگھ ، جو جہانگیر کے ماموں تھے۔ کاش اس راجپوت خاندان کے بجائے مغلوں نے بھارت کے اصل باشندوں دلتوں، اور دیگر پسماندہ طبقات کو بااختیار بنایا ہوتا اور اسلام کے آفاقی سماجی برابری اور انصاف کے پیغام کو عام کیا ہوتا،، تو جنوبی ایشیاء کاسماجی نقشہ ہی الگ ہوتا۔

خیر فی الوقت جس قضیہ نے سب سے زیادہ مسلمانوں کو مضطرب کر کے رکھ دیا ہے، وہ جنوبی ایشیا کے قدیم شہر دریائے گنگا کے للتہ گھاٹ سے چند فاصلے پر واقع گیان واپی مسجد ہے۔ یہ ایک طرح سے بابری مسجد کا ری پلے ہو رہا ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ اس کے مسلمانوں کے ہاتھ سے جانے کا راستہ صاف ہو گیا ہے۔ ستم ظریفی تو یہ ہے کہ وارانسی کے سول جج روی کمار دیواکے ذریعے مقرر کی گئی سروے ٹیم کی پورٹ تیار ہونے سے قبل ہی عدالت نے تسلیم کرلیاکہ مسجد کے وضو خانہ میں ایک بڑا شیو لنگ موجود ہے۔اتنا ہی نہیں سپریم کورٹ نے بھی اسے شیو لنگ ہی کہہ دیا۔مورتی اور شیو لنگ میں واضح فرق ہوتا ہے۔ مورتی یا مجسمہ کسی بھگوان کی شکل و شباہت کو ظاہر کرتی ہے، جبکہ شیو لنگ پتھر سے بنا ایک ستون ہوتا ہے۔ اسکی کوئی واضح شکل و شباہت نہیں ہوتی ہے۔ ہندو عقیدہ کے مطابق یہ بھگوان شیو کے عضو مخصوص کو ظاہر کرتا ہے۔ وضو خانہ کے اندر ملے جس پتھر کو شیو لنگ بتایاگیا اس میں اوپر سے نیچے تک سوراخ ہیں اور اوپری حصہ چار پانچ حصوں میں کٹا ہوا ہے۔

مسجد کمیٹی کادعویٰ ہے کہ وہاں فوارہ لگا تھا اور اس کی بنیاد کوشیو لنگ بتایاجارہا ہے۔ اس مسجد کے بارے میں بتایا جاتا ہے کہ اسے مغل شہنشاہ اورنگزیب عالمگیر نے سترہویں صدی میں تعمیر کرایا تھا لیکن تاریخی طور پر یہ بات ثابت نہیں ہے۔ کیونکہ بعض مخطوطوں کے مطابق مغل شہنشاہ جلال الدین اکبر کے عہد حکومت میں بھی یہ مسجد موجود تھی۔مورخین کا کہنا ہے کہ آسام پر فوج کشی کی واپسی کے بعد جب اورنگ زیب کی فوجوں نے اس شہر میں پڑاؤ ڈالا،تو اسکے راجپوت کمانڈروں کی بیویاں مندر میں پوجا کرنے کیلئے گئیں۔ رات تک جب گجرات کے کچھ علاقہ کے مہارانا گیان سنگھ کی رانی اور اس کی دو داسیاں واپس نہیں لوٹیں ، تو اگلی صبح مندر کے تہہ خانہ کی تلاشی کے دوران گیان سنگھ نے دیوار سے لگے بھگوان گنیش کے بت کو جھنجھوڑ ڈالا، تو اسکے نیچے تہہ خانے کو جاتی سیڑھیاں نظر آئیں۔ نیچے جا کر پتہ چلا کہ کچھ کی مہارانی ادھ موئی پڑی تھی اور اسکے کپڑے تار تار تھے۔ اورنگ زیب نے یہ کیس کچھ کے راجا کے حوالے کر دیا، جس نے مندر کے برہمن پجاریوں کو احاطہ کے اندر ہی موجود کنوئیں میں پھینکوا کر، اوپر سے کنواں بند کرا دیا اور اسکے اوپر مندر کو ازسر نؤ تعمیر کرادیا ۔ مغل بادشاہ کو خوش کرنے کے لئے اس مندر کی دیوار سے متصل ایک مسجد بھی تعمیر کرائی ۔مگر کچھ تاریخ دانوں کا خیال ہے کہ اس نے مسجد کی مرمت کروائی، کیونکہ یہ پہلے سے ہی موجود تھی۔

Advertisements
julia rana solicitors london

یہ بھارت میں واحد مسجد ہے جو اپنے سنسکرت نام یعنی گیان واپی( علم کا کنواں) کے نام سے موسوم ہے۔ ادھر متھرا کی شاہی عید گاہ مسجد کے خلاف بھی دائر پٹیشن بھی ضلع عدالت نے منظور کر لی ہے۔متھرا کی شاہی عید گاہ کی مسجد کیلئے بھی دعویٰ کیاگیا ہے ۔ تقریباً ساڑھے تیرہ ایکڑ زمین پر یہ عید گاہ مسجد بنی ہوئی ہے وہ زمین مسلمانوں کی نہیں ہے ۔ اس معاملے میں ہندو فریق کی جانب سے یہ دعویٰ نہیںکیا گیا ہے کہ مندر توڑ کریہ عید گاہ مسجد بنائی گئی تھی۔ مسجد کی زمین کو ٹھاکر جی (بھگوان کرشن) کی ملکیت بتایا کر مطالبہ کیا گیا ہے کہ اسکو کرشن جنم بھومی مندر کے حوالے کیا جائے۔یہاں یہ ذکر بھی ضروری ہے کہ متھر کی عید گاہ مسجد کے سلسلہ میں کئی سال قبل فریقین کے درمیان ایک سمجھوتہ بھی ہوا تھا، جسکے مطابق دونوں عباد ت گاہیں قائم رہیں گی۔ اس سلسلہ میں کوئی تنازعہ کھڑا نہیں کیا جائیگا۔ اب کہاجارہا ہے کہ وہ سمجھوتہ غلط تھا،اس لئے ہندو فریق اب اسے نہیں مانتے۔(جاری)بشکریہ 92 نیوز

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply