بہتر ہو گا کہ سپریم کورٹ کو تالے لگا دیئے جائیں ۔۔گل بخشالوی

سپریم کورٹ نے چھانگا مانگا کی سیاست کو دفن کر دیا ۔ آئین کی تشریح کے لئے سپریم کورٹ کے ا کثریتی فیصلے میں کہا گیا ہے کہ پارٹی قیادت کی ہدایت سے انحراف کرنے والے ارکان کا ووٹ شمار نہیں ہوگا آئین اس کی اجازت نہیں دیتا لیکن اراکین اسمبلی اس قانون کو اہمیت نہیں دیتے اس لئے کہ مردہ ضمیر اراکین ِ اسمبلی اپنے پاؤں پر کلہاڑی کیسے مار سکتے ہیں ،وہ اسمبلیوں میں صرف مراعات کے حصول کے لئے آتے ہیں ۔ اگر یہ کہا جائے کہ سپریم کورٹ کا یہ فیصلہ بھی عمران خان کا قوم پر احسان ہے تو غلط نہیں ہو گا عمران خان نے اپنے مختصر دور ِ اقتدار اور تخت ِ اقتدار سے گرائے جانے کے بعد مخلوق ِ خدا پر اعتماد کر کے جس خوبصورتی سے پاکستان کے مردہ ضمیر ایمان فروشوں ، وطن فروش نام نہاد سیاست دانوں ، قلم فروشوں،اداروں اور نظام عدل کو جس خوبصورتی سے بے لباس کیا اس کی قومی سیا ست میں نظیر نہیں ملتی ،پاکستان کے عوام نہیں جانتے تھے کہ مسند ِِِ ا قتدار پر کسی کو کیسے بٹھایا جاتا ہے اور کیسے گرایا جاتا ہے ۔

قائد اعظم محمد علی جناح نے فرنگی کی غلامی سے نجات کے لئے قوم کو جگایا تھا ، ذوالفقار علی بھٹو نے پارلیما نی نظام جمہور یت کے لئے قوم کو بیدار کیا تھا اور تحریک ِ انصاف نے آزاد اور خود مختار پاکستان کے لئے تحریک ِ انصاف کو تحریک ِ پاکستان کا نام دیکر قومی شعور کو صراط مستقیم پر ڈال دیا اور دنیا پر ثابت کر دیا کہ قومو ں کی تعمیر میں مخلوق خدا ہی اصل طاقت کا سر چشمہ ہے ، ہم اس حقیقت سے انکار نہیں کر سکتے کہ اسلامی جمہوریہ پاکستان میں پارلیمانی نظام جمہوریت پر بھونکنے وا لوں نے قوم کو اپنے خوبصورت مستقل سے مایوس کر دیا تھا لیکن اوپر والا ہی خوب جانتا ہے کہ کب کیا او ر کیسے کرنا ہے !
آئین کے آرٹیکل 63 اے کی تشریح سے متعلق سپریم کورٹ کے اکثریتی فیصلے قومی استحکام سے بے پرواہ امریکی غلام قیادت کے دربار یوں کا کہنا ہے کہ  سپریم کورٹ نے صدارتی ریفرنس پر رائے دی ہے اور متعلقہ ادارے اس بات کے پابند نہیں ہیں کہ وہ اس پر عمل درآمد کریں ۔ لیکن اسلامی جمہوریہ پاکستان کے وجود سے محبت کرنے والوں کا کہنا ہے کہ آئین کی تشریح کا اختیار سپریم کورٹ کے پاس ہے اور انہوں نے آئین کے اس آرٹیکل کی جو تشریح کی ہے اور جو رائے دی ہے اس پر تمام ادارے عمل درآمد کرنے کے پابند ہیں۔

پارلیمنٹ میں چھانگا مانگا کی سیا ست کے گیت گانے والے ان قانون دانوں نے نظام عدل کے گیت اس وقت گائے تھے جب عدالتیں رات بارہ بجے کھلیں تھیں لیکن آج ان کی نظر میں سپریم کورٹ بے تو قیر ہوگئی ہے اس لئے کہ فیصلہ ان کی خواہشات کے مطابق نہیں آیا ، آج کہہ رہے ہیں کہ اگر وفاقی کابینہ سپریم کورٹ کی اس رائے کو تسلیم نہیں کرتی تو وفاقی کابینہ کا فیصلہ زیادہ اہمیت کا حامل ہوگا۔ اگر سپریم کورٹ کی اس رائے کو تسلیم کرلیا جائے تو پھر آئین کا آرٹیکل 63 اے ’بے معنی ہو کر رہ جائے گا۔‘اگر ایسا ہی ہے تو پھر بہتر ہو گا کہ سپریم کورٹ کو تالے لگا دیئے جائیں اور قومی وقا ر کے فیصلے امپورٹڈ کرائم کیبنٹ پر چھوڑ دیے جائیں۔

Advertisements
julia rana solicitors

بد قسمتی سے سیاست میں ہمارا قومی مزاج ہی تبدیل ہو چکا ہے ، ہم عدالت سے اپنے حق میں فیصلے پر عدالت کے گیت گاتے ہیں فیصلہ خلاف آجائے تو عدالت ہماری نظر میں بے تو قیر ہو جاتی ہے ، آزاد میڈیا کے علمبردار تو ملازم ہیں وہ اپنے چینل کی پالیسی سے انحراف نہیں کر سکتے ، اور ان کے ساتھ ٹاکروں میں بے پَرکی اڑانے والے تو اپنی اپنی سیاسی جماعت کے درباری ہوتے ہیں تنخواہ دار ترجمان ہوتے ہیں ، لیکن اگر سوچا جائے تو ہم عوام بھی بازاری زبان میں بات کرنے والے کو ہی بڑا لیڈر مانتے ہیں ، اس وقت پاکستان کی تین بڑی سیاسی جماعتوں کی قیادت اور ان کے درباری اپنے مخالفین کے خلاف جس زبان میں بات کرتے ہیں وہ کسی بھی طور پر اسلامی جمہوریہ پاکستان کی زبان نہیں کہلائی جا سکتی۔ خاص کر ان بڑی جماعتوں کی خواتین نے تو حد کر دی ہے ، جب تک ہم بحیثیت قوم اپنے اخلاق اور کردار کو اسلامی جمہوریہ پاکستان کی شان میں نہیں سنواریں گے ہم اپنے دیس کو مدینہ ثانی نہ تو لکھ سکتے ہیں اور نہ کہہ سکتے ہیں۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply