لالہ موسی۔۔عامر عثمان عادل

میرا پہلا اور آخری عشق
پہلا اس لئے کہ میرا ننھیال یہاں ہے
اور آخری اس لئے کہ اب سسرال بھی یہیں ہے۔

شہر سارے ہی بھلے ہیں مگر لالہ موسی کی کیا بات ہے،جس کے گلی کوچوں میں میرے بچپن کے سنہرے دن بیتے،دور ماضی کے جھروکوں سے وہ سارے پل آج بھی یوں روشن اور تابندہ جیسے کل کی بات ہو۔

فیصل سٹریٹ میں ننھیالی گھر جو ہمارے لئے خوشیوں کا جزیرہ تھا جس کی جگہ آج مارکیٹ کھڑی ہے۔
نانا جان جنہیں ہم پیار سے اباجی کہتے اور زمانہ مولانا عبدالخالق جامعی وقت کے نامور عالم خطیب سراپا شفقت ، محبت اور انکسار،سحر کی نورانی گھڑیوں میں وقت تہجد ان کی قرآت اور پرسوز دعائیں ہمیں کچی نیند سے بیدار تو کرتیں مگر روح کو سیراب کر جاتیں۔

نانی امی کا لاڈ پیار جو مقناطیس کی مانند ہمیں اپنی جانب کھینچ لے جاتا۔میں اور عرفان احمد صفی ہم جولی بھی تھے اور ہم جماعت بھی ظہیر جونیئر سکول پیدل چل کر جاتے تو راستے میں چاٹ بیچتا جمالا اور چورن والے طوطے ہمارے منتظر ہوتے چورن سے زیادہ ہمیں اس بات کا مزا آتا کہ طوطا ہماری ہتھیلی سے ایک آنے کا سکہ اپنی چونچ سے اچک کر اگلے طوطے کو پاس کرتا وہ اس سے اگلے کو اور یوں آخری طوطا اس سکے کو اپنے مالک کو تھما دیتا ۔ چورن والا پڑیا اٹھاتا اور طوطا اسے چونچ میں لے کر اگلے طوطے کو ، یوں تین طوطوں سے ہوتا ہوا چورن ہماری ہتھیلی میں مین  بازار میں جہاں آج کل باٹا سروس کی دوکانیں ہیں ملک شیک کی ایک ریڑھی سجی ہوتی پہلوان دلبہار ملک شیک۔۔ملک شیک سے زیادہ بڑے بڑے گرز پکڑے پہلوانوں کی تصویروں میں کشش ہوتی۔

میں اور صفی صاحب آنہ آنہ جمع کرتے جس دن آٹھ آنے ہو جاتے ہماری عیش ہوتی ایک گلاس لیتے جسے آدھا آدھا پی لیتے جس میں شیک سے زیادہ جھاگ ہوتی۔داروغوں کا لیمن سوڈا ، فقرو کی دودھ دھی ، بٹ بیکری کی آدھی ڈبل روٹی ، تازہ کلچے یہ سب ہمارے چارم تھے۔داروغوں سے کھاری سوڈے کی بوتلیں آتیں گرمیوں کی دوپہر صحن میں دستر خوان بچھتا اور پیالوں میں دودھ سوڈا ہمیں سیراب کر جاتا۔

کارنر سویٹس کے رس گلوں اور سموسہ چاٹ نے ہمیں ذائقے سے آشنا کرایا۔میاں جی کا قلفہ فالودہ چھوٹی سی دنیا کی ایک بڑی عیاشی ہوا کرتا۔منجھلے ماموں ( ماسٹر عبد الجلیل ) سے گھنٹوں منت بھری فرمائشوں کے بعد ٹرے میں سجے فالودے کے پیالے گھر آتے تو چین آتا،رات کو چوبارے کی تیسری منزل پہ سونے کے لئے لیٹتے تو جی ٹی روڈ سے گذرنے والی ٹریفک کی آوازیں ، ریل کے انجن کی کوک ہمیں لوریاں سناتے۔
1977 کی تحریک نفاذ نظام مصطفے کے دوران پتہ چلا مرکزی رہنما ٹرین مارچ کی صورت لالہ موسی سے گزرتے ہوئے اسٹیشن پر رکیں گے۔ہم بھی بھاگم بھاگ جا پہنچے گویا یہ ہمارے سیاسی شعور کی پہلی دستک تھی۔
استقبالی ہجوم ، جذباتی نعرے تالیاں سیٹیاں سب کچھ ہمارے لئے نیا تھا۔

گھگو گھوڑے دو دو آنے
ایہہ لید پکانے دو دو آنے
ایتھے لیڈر سارے دو دو آنے

محترمہ بے نظیر بھٹو اور نصرت بھٹو کے خلاف کچھ نعرے ایسے تھے جو یہاں نقل نہیں کئے جا سکتے۔
اسی تحریک کے دوران ایک روز عید گاہ روڈ پر احتجاجی ہجوم پر پولیس کا لاٹھی چارج بھی ہم نے دیکھا جس میں شیخ تاج دین بھنڈاری شدید زخمی ہوئے۔ہمیں اعزاز یے کے  اس لاٹھی چارج میں ہم نے بھی اپنی پشت پہ لاٹھیاں کھائیں۔

Advertisements
julia rana solicitors london

لالہ موسی میں قد آور رہنماؤں کی تقریروں کی ہمیں ایسی چاٹ لگی کہ بھاگ بھاگ جلسے اٹینڈ کرنے لگے۔ان میں نمایاں شیخ حفیظ اللہ صدیقی اور نوازش علی شیخ شامل ہیں
اس شہر کے ریلوے اسٹیشن کے ساتھ ہماری کتنی ہی جذباتی یادیں وابستہ ہیں۔یہ شہر بے مثال وقت کے ساتھ ساتھ کئی کروٹیں لے چکا ہے،جو کاروبار کے ساتھ سیاست کا بھی مرکز ہے۔
اس کے مسائل اپنی جگہ،لیکن یہ ہماری رگوں میں لہو بن کر دوڑتا ہے۔
ہمیں اس کے گلی کوچوں سے پیار ہے۔کیونکہ ان گلیوں میں ہمارے معصوم بچپن کے نقش ثبت ہیں!

Facebook Comments

عامر عثمان عادل
عامر عثمان عادل ،کھاریاں سے سابق ایم پی اے رہ چکے ہیں تین پشتوں سے درس و تدریس سے وابستہ ہیں لکھنے پڑھنے سے خاص شغف ہے استاد کالم نگار تجزیہ کار اینکر پرسن سوشل ایکٹوسٹ رائٹرز کلب کھاریاں کے صدر

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply