اُسامہ بن لادن۔۔عمار رشید

فضائے شہر عقیدوں کی دھند میں ہے اسیر
نکل کے گھر سے اب اہل ِنظر نہ جائیں کہیں

دلاوروں اور سرفروشوں کی کہانیاں بھی عجیب ہوتی ہیں سبھی کی داستانوں میں ایک قسم کی مماثلت بھی پائی جاتی ہے۔وہ صرف خواب دیکھنے پر یقین نہیں رکھتے بلکہ خوابوں کی آبیاری کرنا بھی جانتے ہوتے ہیں ۔ دلاوروں کے سردار امام حسین سے لے کر ٹیپو سلطان تک ناقدین کی آرا ءکا شکار رہے کبھی “ تعبیر کی غلطی “ کہا گیا تو کبھی “ فساد فی الارض” قرار دیا گیا ۔ اقبال نے شائد اسی لئے کہا تھا

؀عقل عیار ہے سو بھیس بدل لیتی ہے

اسامہ بن لادن کی کہانی بھی کچھ ایسی ہے جب وہ روسی استعمار کے خلاف سر بکف تھا تو ملت عرب و عجم اسے “مجاہد “ اور “ freedom fighter “ قرار دے رہی تھی اس کی سحر انگیز کہانیاں آپکو معروف کالم نگاروں کی تحریروں میں نظر آتی تھیں ۔ لیکن جب اس نے امریکی استعمار کے خلاف آواز بلند کی تو ملت عرب و عجم یو ٹرن لئے کھڑی تھی کالم نگاروں کی بوقلمونیاں ماند پڑنے لگیں اور وہ بھی about turn اور یو ٹرن لے کر کل کے “freedom fighter” کو “عالمی دہشتگرد “اور دافع حرمین شریفین قرار دینے لگے ۔

۱۹۹۰ میں عراق نے کویت پر حملہ کر دیا اور شاہ فہد نے سعودی عرب میں امریکا کی ایما پر آنے کی دعوت دے دی ۔ اسامہ بن لادن امریکہ کی حرمین شریفین آمد کا سخت مخالف تھا اس نے شاہ فہد سے ملاقات میں مجاہدین کی مدد سے حفاظت کا عندیہ دیا لیکن سعودی قیادت امریکی دباؤ کے آگے سر نہ اٹھا سکی ۔ یوں ۱۹۵۷ میں پیدا ہونے والا اسامہ بن لادن جو ایک متمول خاندان سے تعلق رکھتا تھا جس کا باپ شاہ فیصل کا ذاتی دوست تھا قریباً  ۳۳ سال کی عمر میں اپنے ہی ملک میں اجنبی بن گیا ۔ عالمی دباؤ پر اسکی سعودی شہریت ختم کر دی گئی تھی ۔ ۱۹۹۲ سے ۱۹۹۶ تک سوڈان میں پناہ لی اور بلآخر ۱۹۹۶ میں سوڈان پر شدید دباؤ کے باعث افغانستان پہنچ گیا ۔اس کے اوپر عالمی طاقتیں زمین تنگ کر رہی تھیں ۔ اس سب کے باوجود یہ حقیقت بھی اپنی جگہ ہے کہ روس کے خاتمے کے بعد تن تنہا امریکی استعمار کو چیلنج کرنے والا کوئی اور نہیں اسامہ بن لادن ہی تھا ۔

۱۹۹۶ میں افغانستان میں معروف صحافی رابرٹ فسک نے افغانستان میں اسامہ بن لادن کا انٹریو لیا جس میں اسامہ نے کچھ ایسے سوالات اٹھائے جن کے جواب مغربی دنیا دینا نہیں چاہتی اور اپنے ان کا سامنا کرنے سے قاصر تھے رابرٹ فسک کہتا ہے کہ اسے خود پر اعتماد تھا اور مرعوبیت سے بہت پرے وہ ایک آزاد مرد تھا اس نے کہا تھا میرا ملک امریکی کالونی بن گیا ہے بن لادن نے مجھ سے پوچھا تھا کیا یورپی افراد نے دوسری جنگ عظیم میں تسلط کی مخالفت نہ کی تھی ؟ جب اسرائیل میں ساٹھ یہودی مارے گئے تو تمام دنیا چند روز میں اکٹھی ہو کر اس اقدام کی مخالفت کرتی ہے جبکہ چھ لاکھ عراقی بچوں کی موت ویسا ردعمل حاصل نہیں کر پاتی ؟ رابرٹ فسک کہتا ہے انٹریو ختم کرنے سے پہلے میں نے اس خدشہ کا اظہار کیا کہ اب اسکی زندگی کے لئے محفوظ جگہیں بہت کم ہیں ۔ اس نے مسکرا کر کہا “ خطرہ میری زندگی کا حصہ ہے “۔

۱۹۹۸ میں سوڈان اور افغانستان پر امریکی کروز میزائلوں سے حملہ کیا گیا اور بتایا گیا کہ یہ حملے بن لادن کو ختم کرنے کے لئے کئے گئے تھے، ۹ اکتوبر ۲۰۰۱ میں۹/۱۱ ہو گیا اور نیویارک اور واشنگٹن میں ہونے والی دہشت گردی کے اقدام کو محض ایک گھنٹے کے اندر بن لادن کے ساتھ منسوب کر دیا گیا اور چند دنوں کے اندر اندر دنیا کے قریباً چالیس بڑے ملکوں نے دنیا کے پسماندہ ترین ملک افغانستان پر حملہ کر دیا ۔بن لادن اس میں ملوث تھا یا نہیں، ہولوکاسٹ کی طرح یہ بھی ایک سمسیا ہے۔ بہر حال ۹/۱۱ کے بعد دنیا بدل کے رہ گئی اور انجانے اور ان دیکھے دشمن کیخلاف مسلم ممالک میں جنگیں شروع کروا دی گئیں۔

قدیم کہانیوں سے لے کر رہتی دنیا تک دلاوروں اور سرفروشوں کی موت میں بھی مماثلت ملتی رہے گی ۔ انہیں بزدلوں ، کم ظرفوں اور غداروں کا ہمیشہ سے سامنا رہتا ہے، ٹیپو سلطان کی شہادت اگر اپنوں کی غداری کی وجہ سے ہوئی تو اسامہ کو بھی ایسے ہی کم ظرفوں کا سامنا تھا ۔استعمار ان غداروں کے احسان کو کبھی نہیں بھولتا، ہندوستان کے نامور غداروں کی اولاد سکندر مرزا کی جلا وطنی میں مملکت برطانیہ نے مدد کی اور جتلایا بھی کہ  آپ میر جعفر کی اولاد ہیں۔ آپ لوگوں کی مدد کے بغیر انگریز اقتدار کبھی مستحکم نہ ہو سکتا ۔ سکند مرزا کے بیٹے کو عالمی مالیاتی ادارے میں اعلیٰ  عہدے پر فائز کیا گیا ۔

یہ سوال اپنی جگہ اہم رہے گا کہ کیا استعمار کا مقابلہ عسکری تحریکوں سے کیا جا سکتا ہے یا نہیں ؟ اور یہ سوال بھی اٹھائے جاتے رہیں گے کہ ریاستیں اپنے مفادات کی خاطر کس قدر سفاکی کا مظاہرہ کرتی ہیں جو استعمار کا ساتھ دیتے ہوئے کبھی نوجوان ذہنوں کو “ جہاد “ کے لئے تیار کرتی ہیں اور امریکی استعمار کے ایک اشارے پر اپنے تئیں “اثاثہ “ سمجھے جانے والے لوگ کیسے (most valued target ) ہدف بن جاتے ہیں۔
بہرحال تاریخ جب بھی امریکی استعمار کیخلاف لڑنے والوں کا ذکر کرے گی بن لادن کا نام ضرور آئے گا اور ہر آنے والا دن تاریخ میں اسکا نام روشن اور نقش گہرا کرتا جائے گا۔

در جہاں نتواں اگر مردانہ زیست
ہمچو مرداں جاں سپر دن زندگیست

Advertisements
julia rana solicitors london

[اگر دنیا میں جواں مردوں کی طرح زندہ نہیں رہا جا سکتا ، تو پھر بہادروں کی طرح جان قربان کرنا ہی زندگی ہے]

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply