• صفحہ اول
  • /
  • نگارشات
  • /
  • سلسلہ ہائے اہلِ بیت رسول اللہﷺ/ہماری مائیں/حضرت خدیجہ رض (3)۔۔محمد جمیل آصف

سلسلہ ہائے اہلِ بیت رسول اللہﷺ/ہماری مائیں/حضرت خدیجہ رض (3)۔۔محمد جمیل آصف

عرب میں عورتوں کو یہ آزادی حاصل تھی کہ وہ اپنی شادی کے متعلق معاملات پر خود بات کرسکتی تھیں ۔
مولانا منظور نعمانی اپنی کتاب ،معارف_الحدیث میں لکھتے ہیں
“نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے نفیسہ کے پیغام کا ذکر حضرت ابو طالب سے کیا اور اس پر انہوں نے خوشی کا اظہار کیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے نفیسہ کو جواب دے دیا اگر خدیجہ اس پر آمادہ ھیں تو میں بھی راضی ہوں ۔
نفیسہ نے آکر اس کی اطلاع حضرت خدیجہ رضی اللہ تعالٰی عنہا کو دی، پھر حضرت خدیجہ رضی اللہ تعالٰی عنہا نے نفیسہ ہی کے ذریعے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو بلوا کر براہ راست بھی آپ سے بات کی، اس گفتگو میں ہی طے ہو گیا آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے خاندان کے بزرگوں کو لے کر فلاں دن میرے یہاں آ جائیں ” ( معارف حدیث جلد نمبر 8 صفحہ 275)
مقررہ تاریخ پر حضرت ابوطالب روسائے خاندان کو لے کر جن میں حضرت حمزہ رضی اللہ تعالٰی عنہ بھی شامل تھے حضرت خدیجہ رضی اللہ تعالٰی عنہا کے مکان پر پہنچ گے حضرت خدیجہ کے چچا عمرو بن اسد اور ورقہ بن نے نوفل نے بارات کا استقبال کیا ۔
حضرت ابو طالب نے خطبہ نکاح پڑھا جسے علامہ طاہر القادری نے اپنی کتاب سیرت حضرت خدیجہ الکبریٰ رضی اللہ تعالٰی عنہا میں نقل کیا ہے
” تمام تعریفیں اللہ کے لیے ھیں جس نے ہمیں حضرت ابراہیم کی اولاد حضرت اسماعیل کی نسل سردار معد کی صلب اور سردار مضر کی اصل سے پیدا فرمایا اور ہمیں خانہ کعبہ کا خادم اور ہمیں حرم شریف کا منتظم بنایا ہمیں ایسا گھر دیا جس کا حج کیا جاتا ہے اور ایسا حرم دیا جو امن کا گہوارہ ہے اور ہمیں لوگوں پر حاکم بنایا ۔
میرا بھتیجا محمد بن عبداللہ علم و حکمت اور فضل و شرف میں بے مثل ہے اگرچہ اس کے پاس ظاہری مال کم ہے  مگر اس مال کی حیثیت ہی کیا یہ تو ایک ڈھلتی چھاؤں ہے انکی نسبی قرابت داری سے آپ آگاہ ہیں چنانچہ انہوں نے خدیجہ بنت خویلد کے ساتھ رشتہ ازدواج میں منسلک ہونے کی خواہش کی ہے اور اتنا اتنا مہر معجل اور مئوجل ( بیس اونٹ) ادا کیا ہے ان کا مستقبل درخشاں اور عالی شان ہے ”
جب حضرت ابو طالب نے خطبہ ختم کر چکے تو ورقہ بن نوفل نے خطبہ پڑھا
” تمام تعریفیں اللہ کے لیے ہیں جس نے ہمیں ایسا ہی پیدا کیا جیسا کہ آپ نے بتایا اور ان لوگوں پر فضیلت عطا فرمائی جن کو آپ نے شمار فرمایا بے شک ہم عرب کے قائد و سردار ہیں اور آپ اس سیادت کے اہل ہیں کوئی خاندان آپ کی فضیلت کا منکر نہیں ہے اور نہ  ہی کوئی آپ کے فخر و شرف کو چیلنج کرتا ہے ۔ بات یہ ہے کہ ہمارے دل میں آپ کے ساتھ رشتہ داری قائم کرنے کی خواہش و رغبت پیدا ہوئی ہے ۔ پس تم گواہ ہو جاؤاے گروہ قریش! کہ میں نے “400 دینار حق مہر” کے عوض محمد بن عبداللہ کے ساتھ خدیجہ بنت خویلد کا نکاح کر دیا ۔
یہ ازدواجی خطبہ پڑھ کر ورقہ بن نوفل چپ ہو گے حضرت ابو طالب نے کہا ۔ اے ورقہ میں چاہتا ہوں خدیجہ کے نکاح میں اس کا چچا بھی آپ کے ساتھ شامل ہو جائے ۔
یہ سن کر عمرو بن اسد نے اسی طرح کیا بولے
“اے گروہ قریش! تیار ہو جاؤں کہ میں نے محمد بن عبداللہ کے ساتھ خدیجہ کا نکاح کردیا”
حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے نکاح قبول کیا اور روسائے قریش نے گواہی دی ( زرقانی علی المواہب)
نکاح کے وقت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی عمر مبارک 25 سال تھی ۔
حضرت خدیجہ الکبریٰ رضی اللہ تعالٰی عنہا کی عمرکی تحقیق کےدوران انکی عمر کے بارےمیں دو روایات ہیں ۔ کتاب طبقات ابن سعد( ت۲۱۱ھ)جس میں ایک روایت میں انہوں نے حکیم بن حزام سے روایت کیا ہے کہ نکاح کے وقت خدیجہ رضی اللہ تعالٰی عنہا کی عمر (40) سال تھی اور ایک روایت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے چچا زاد بھائی ابن عباس رضی اللہ تعالٰی عنہا سے روایت کیا ہے کہ نکاح کے وقت خدیجہ رضی اللہ تعالٰی عنہا کی عمر 28 سال تھی لیکن یہ دونوں روایات کمزور ہے پہلی روایت کے سند میں واقدی اور دوسری کی سند میں ھشام الکلبی ہے اور جرح وتعدیل کے کتابوں میں دونوں کو متروک الحدیث کہا گیا ہے۔
اجماع امت یہی ھے آپ رضی اللہ تعالٰی عنہا کی عمر مبارک بوقت نکاح 40 سال تھی ۔
آپ رضی اللہ تعالٰی عنہا کو اس شادی سے جتنی خوشی اور مسرت ملی اس کا احوال مختلف کتب میں آتا ھے مولانا طاہر القادری سیرت خدیجہ رضی اللہ تعالٰی عنہا میں لکھتے ہیں
“تمام غلام آزاد کردیئے تاکہ یہ شادی ان کے لیے یادگار بن جائے اور ساری زندگی خوش ہوتے اور دعائیں دیتے رہیں ۔ کنیزوں کو حکم دیا خوب دف بجا بجا کر مسرت کا اظہار کریں
آپ رضی اللہ تعالٰی عنہا نے آپ کی شریک حیات بننے کی خوشی میں ساری دولت آپ کے قدموں میں ڈھیر کردی ۔ ”
یہاں سے حضرت خدیجہ رضی اللہ تعالٰی عنہا کا وہ مثالی کردار طبقہ نسواں کے لیے افق پر طلوع ہوتا ہے ۔ یہ زندگی کا حصہ قیامت تک کے لیے ایک وفا شعار بیوی کا استعارہ بن کر چمکتا رہے گا ۔

آپ رضی اللہ تعالٰی عنہا نے عرض کی
” میرے آقاصلی اللہ علیہ وسلم! آپ اس کے مالک ھیں جس طرح چاھیں تصرف فرمائیں میرا اس میں کوئی عمل دخل نہیں ہوگا ۔”

Advertisements
julia rana solicitors london

نکاح کے بعد نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے دعوت ولیمہ کا اہتمام کیا ایک روایت کے مطابق
ایک اونٹنی، ایک روایت کے مطابق دو اونٹنیوں سے رشتے داروں اور احباب کی ضیافت کی گئی
جاری ہے….

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply