• صفحہ اول
  • /
  • نگارشات
  • /
  • کیا آپ جانتے ہیں کہ عورت مارچ کب ناگزیر ہو جاتا ہے؟ ۔۔نورالعلمہ حسن

کیا آپ جانتے ہیں کہ عورت مارچ کب ناگزیر ہو جاتا ہے؟ ۔۔نورالعلمہ حسن

کیا آپ جانتے ہیں ،عورت مارچ کب ناگزیر  ہوجاتا ہے؟

١۔ جب دین کی سمجھ رکھنے والی عورتیں بھی وراثت میں بیٹیوں کا حصہ نہ ملنے پر اپنے گھر، خاندان اور معاشرے میں آواز نہیں اٹھاتیں. جب وہ اپنی بہوؤں اور بھاوجوں کے حق مہر نہ ملنے پر صمُٗ ب بکم ُُٗبیٹھی  رہتی ہیں، گویا اپنا، اپنی بچیوں اور بہنوں کا معاشی استحصال ہونے دیتی ہیں.
٢۔ جب دین کی سمجھ رکھنے والی عورتیں، جنسی ہراسگی اور جسمانی استحصال کی وجہ سے ماری جانے والی بچیوں اور عورتوں کے لیے انصاف کے حق میں پُرزور احتجاج نہیں کرتیں، بلکہ فیسبک پوسٹوں اور واٹس ایپ میسجز پر محض اُن شرعی احکامات کی جانب ترغیب دینے پر اکتفا کر لیتی ہیں کہ جو ایسے واقعات سے اپنی بچیوں کو بچانے میں ایک کردار ادا کر سکتے ہیں.
٣۔جب دین کی سمجھ رکھنے والی عورتیں، اُن بچیوں اور لڑکیوں کے جنسی استحصال کے بارے میں گفتگو کو اہمیت نہیں دیتیں کہ جو پردہ نہ کرتی ہوں بلکہ بسااوقات پردہ نہ کرنے والی خواتین کو ان کے نسوانی اور انسانی حق سے محروم بھی سمجھتی ہیں. گویا کہ ایسی عورتوں اور بچیوں پر ہونے والی زیادتی کو وہ حق بجانب سمجھتی ہیں.
٤) جب دین کی سمجھ رکھنے والی عورتیں، گھریلو تشدد کے واقعات میں اپنی ہی بہنوں کی غلطیاں تلاش کرتی ہیں اور ایسے واقعات میں اپنی ذات اور اپنے وجود کو فنا کر دینے والی لڑکیوں کے بارے میں کچھ کہنا ضروری نہیں سمجھتیں.
٥) جب دین کی سمجھ رکھنے والی عورتیں اپنے بیٹوں اور بھائیوں کو نظر کا پردہ کرنے کی ترغیب نہیں دیتیں بلکہ صرف اپنی دینی بہنوں کو پردے کی ترغیب دے کر اپنے گھر کے لڑکوں کی وجہ سے کسی دینی بہن اور بیٹی کے معاشرتی استحصال کو نظرانداز کرتی ہیں.
٦)جب دین کی سمجھ رکھنے والی عورتیں اپنی بچیوں کو اُن حقوق کی تعلیم ہی نہیں دیتیں کہ جو انہیں ان کے دین نے دیے ہیں، نتیجتاً وہ عورتیں اپنی کم علمی کی وجہ سے  اس معاشرے میں منافق اور پدرشاہی سوچ رکھنے والے مردوں کو برا سمجھنے کی بجائے، دین کا جھوٹا لیبل لگا کر عورتوں پہ کیے جانے والے ظلم پر، اپنے دین ہی سے بدظن ہو جاتی ہیں.
٧)جب دین کی سمجھ رکھنے والی عورتیں اپنی بہنوں کی ذہنی، جسمانی اور نفسیاتی صحت کو ایک غیراہم موضوع سمجھ کر کنارے لگا دیتی ہیں. (“میرا جسم میری مرضی” کا نعرہ بظاہر بیہودہ سہی  لیکن ایک بہت اہم مسئلے کی جانب نشاندہی بھی تھا جسے ہم سب نظرانداز کرتے ہیں، سوال یہ ہے کہ ہم نے ہر بار اس نعرے کی ظاہری ساخت ہی پر کیوں بات کی اور اس کی اصل میں موجود آواز، جو کہ عورت کی جسمانی صحت کی بابت تھی، پہ کوئی متبادل شائستہ نعرہ کیوں نہیں دیا؟

یاد رہے جب تک آپ بلاتخصیص اور بلاتعصب اپنے جھنڈے تلے ان موضوعات کو، ان مظلوم بہنوں کو، جائے پناہ نہیں دیں گی وہ کہیں اور جائے پناہ تلاش کرتی رہیں گی. اپنی معصومیت میں وہ ان تانیثی تحاریک کا حصہ بنتی رہیں گی جن کے گٹھ جوڑ ایک پرائی تہذیب سے ملتے ہیں. ان مظلوموں کی آواز بننا ہمارا فرض ہے اور جب ہم یہ فرض نہیں نبھائیں گے تو یقیناًکوئی اور ان کا ہمدرد بن کے معاشرے میں اپنے شیطانی مقاصد پورے کرنے کے لیے راہیں تلاش کر لے گا. اپنائیت، کشادہ دلی اور سچی ہمدردی سے مزین اپنے کردار کے ذریعے اس معاشرے میں اپنی بہنوں کا سہارا بنیے اور انہیں خود پر اور آئندہ نسلوں پر ظلم کرنے سے بچائیے ورنہ “میرا جسم میری مرضی” کی تقلید میں اگر وہ سب خاندانی نظام سے آزادی کو اپنا بنیادی حق سمجھ بیٹھیں تو اس معاشرے کی تباہی کی واحد ذمہ دار نہ ہوں گی.
یاد کریں کہ صحابیات رضی اللہ عنہما کا دینی معاشرہ کیا ہے۔وہ خواتین کے مسائل پوچھنے کے لیے بار بار رسول الله صلی الله علیہ والہ وسلم سے رجوع کیا کرتیں تھیں،وہ خواتین کے حقوق کے بارے میں باربار سوال کرتیں گویا کہ ان کی آواز بنتیں۔ وہ آزادئ اظہارِ رائے کی بہترین مثال بنتیں، وہ حصولِ علم کے ذریعے اپنے اندر دینی سمجھ، سماجی شعور اور سیاسی بلوغت پیدا کرتیں اور اس قابل بنتیں کہ معاشرے کے مردوں پر بھی سبقت لے جائیں۔گھر کی ملکہ بھی بنیں اور معاشرے کی مصلح بھی. یہ ہے وہ فیمنزم جس کا تصور آپ کو اسلام دیتا ہے، یعنی صرف اور “صرف اللہ کی طے کردہ حدود و قیود” میں رہتے ہوئے ہر طرح کی ذہنی، سماجی، سیاسی اور جسمانی آزادی اور یہی وہ فیمنزم ہے جو فی زمانہ معروف فیمنزم کے مقابلے پر متبادل ہونا چاہیے.
اگر مغربی تانیثی تحریکیں اس قدر زور و شور سے “آپ” کے مسائل پر آواز اٹھاتے اتنی حاوی ہورہی ہیں کہ خود آپ کی آواز بھی اس کے پیچھے کیموفلاج ہو کر اپنا وجود کھونے اور معدوم ہونے لگی ہے تو یہ وقت اپنی خامیوں پر سوچنے کا ہے.
مسائل میرے گھر کے ہیں تو کوئی اور ثالث  بن کر کیسے آ گیا؟
کیونکہ میں اپنے گھر میں بروقت مصالحت کے لیے کھڑی نہیں ہوئی. فیمنزم اگر سمِ قاتل ہے تو پھر اس کا فوری تدارک بھی ضروری ہے اور یہ بھی اہم ہے کہ ہم اپنی بہنوں کو اس کا صحیح اور مستعد متبادل فراہم کریں تاکہ وہ خود کو کسی موڑ پر اس معاشرے میں اکیلا محسوس کرتے ہوئے ہر ایرے غیرے کی  ثالثی قبول نہ کر لیں.
اب ریڈیکل فیمنزم یا متبادل   فیمنزم۔۔فیصلہ آپ کا!

Advertisements
julia rana solicitors london

(اس مضمون میں دین کی سمجھ رکھنے والی خواتین سے مراد وہ تمام خواتین ہیں جو پاکستان میں فیمنزم کی حالیہ معروف شکل کی مخالفت کرتی ہیں اور اس کا ساتھ دینے والی خواتین کو بے راہ رو اور مضحکہ خیز سمجھتی ہیں لیکن اس سلسلے میں اپنا کردار ادا نہیں کرتیں )

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply