رودادِ سفر (16)خضر اور چائنیز بابے۔۔شاکر ظہیر

ہم نے رہائش کےلیے ایک چھوٹا سا ایک فلیٹ کرایے پر لیا تھا جو پانچویں  منزل پر تھا ، جس میں مَیں اور میری بیوی رہتے تھے۔ دو چھوٹے چھوٹے کمرے ایک واش روم ، ایک بڑا کچن اور ایک چھوٹا سا ہال تھا ۔ پورے گھر میں مَیں نے کارپٹ بچھائی تھی ۔ یہ فلیٹ ہول سیل مارکیٹ سے بہت قریب تھا اور یہ کالونی ہول سیل مارکیٹ کے بالکل سامنے ، شاید پانچ سات منٹ کے پیدل فاصلے پر   اور اس کالونی میں بھی سکاف مارکیٹ تھی اور کچھ لوگوں نے یہاں اپنی دوکان کے سامان کےلیے گودام بھی بنائے ہوئے تھے ۔ یہ نئی بنی کالونی تھی یہاں پہلے کھیت تھے ۔ لیکن جیسے جیسے کاروبار بڑھ رہا تھا دوسرے علاقوں کے لوگ بھی روزگار کےلیے یہاں ا رہے تھے ، اس لیے آبادی بھی بڑھ رہی تھی جن کےلیے نئی نئی کالونیاں بھی بن رہی تھیں جو اب اس بڑی ہول سیل مارکیٹ ( Futain ) کے اردگرد ہی بن رہی تھیں ۔ کالونی کی دوسری طرف پچھلی سڑک پر بہت بڑے بڑے گودام تھے جہاں سے کنٹینر لوڈ ہو کر دوسرے ممالک جاتے تھے ۔ کالونی میں شام کو چھوٹی سی مارکیٹ بھی لگتی تھی جہاں لوکل اردگرد کے کسان اپنی اگائی سبزی زمین پر رکھ کر بیچتے تھے ۔

میری بیوی بہت شوق سے کھانا بناتی تھی اور اس کی وہ نو مسلم سہیلی میمونہ جو وہیں نزدیک کسی عرب شخص کی ٹریڈنگ کمپنی میں کام کرتی تھی اکثر میری بیوی اسے فون کرکے بلا لیتی تھی کہ کھانا ہمارے ساتھ کھانا ۔ اس سے مل کر وہ دلی خوشی محسوس کرتی کہ میمونہ کا رویہ بالکل نیچرل ہوتا تھا ، کوئی بناوٹی بات نہیں تھی ۔ وہ کھل کر بات کرتی تھی ۔ اس نے بتایا کہ اس کے شوہر کا جو پہلے ٹیکسی چلاتا تھا شادی کے کچھ عرصہ بعد اس نے کمر درد کا کہہ کر کام چھوڑ دیا اور جو گاڑی میمونہ سے بھی پیسے لے کر خریدی تھی وہ بیچ رہا ہے ۔ یعنی سارا بوجھ اب میمونہ پر تھا ۔
بہرحال وہ دونوں بیٹھی اس تبلیغی عالم کو ڈسکس کر رہی تھیں جس نے نکاح پڑھایا تھا ۔ وہ کچھ دن پہلے درس کےلیے ان کے گھر آیا تھا اور درس میں خاص بات یہ تھی کہ اس عالم نے حدیث میں موجود کسی خضر کا ذکر کیا تھا جن کی لمبی داڑھی ہے اور سبز چوغہ پہنا ہوا ہے ۔ جو صدیوں سے زندہ ہیں اور کہیں بھی پکارنے والے کی پکار پر رہنمائی کےلیے پہنچ جاتا ہے ۔ میری بیوی نے کہا کہ ایسا تو ہماری کہانیوں میں تھا کہ میرے والد سناتے تھے کہ بادلوں میں ایک بزرگ لمبی سفید داڑھی والے رہتے ہیں جو بہت کمالات اور طاقت رکھتے ہیں اور اگر ان کے سامنے اگربتی جلا کر عبادت کی جائے تو وہ بھی پکارنے والے کی رہنمائی کو پہنچ جاتے ہیں ۔ یہ منظر چائنا ٹی وی کے اکثر روایتی ڈراموں میں دکھایا جاتا ہے ۔

میں ایک سائیڈ پر بیٹھا سن رہا تھا ۔ اور سوچ رہا تھا کہ اگر میمونہ کے جانے کے بعد میری بیوی نے ان خضر کے متعلق سوال کر دیا تو میں کیا بتاؤں گا کہ تمہارے بابے میں اور ہمارے بابے میں کیا فرق ہے اور ہمارا بابا کیسے سچا اور تمہارا کیسے جھوٹا ہے ۔ یا تمہارا بابا ہمارے ہی بابے کا چیلا ہے ۔ یہ تصور بابا شاید ہندو مت میں بھی وشنو کے نام سے موجود ہے اور چائنا میں بھی ہندومت ہی کی ایک الگ روایت موجود ہے ، صرف ان کے بابے نے لمبے سفید بال اور لمبی سفید چائنیز سٹائل کی داڑھی رکھی ہے اور اس کے نین نقش چائینز ہیں ۔ جبکہ ہمارے بابے کے نین نقش شاید عربی ہوں گے ۔ میں جو اپنی بیوی کے ساتھ ٹی وی دیکھتے ہوئے اس سے کہتا تھا کہ یہ تمہارے بابے ہر وقت اڑتے ہی رہتے ہیں اردگرد اور کرامتیں ہی دیکھاتے رہتے ہیں ، انہیں کوئی عقلی کام نہیں ہے ۔ اگر تمہارے بابوں کی منت سماجت کی جائے تو جہاز بنانے کی ضرورت پیش نہ آئے یہ ہی لوگوں کو ساتھ اڑا کر ادھر ادھر لے جائیں ۔ یا یہ ہی کوئی سکول کھول لیں جس میں دوسروں کو اڑنے کی ٹرینگ دیں اور وہ جو اتنے بڑے بڑے جہاز حکومت چائنا خرید رہی ہے اور ان کےلیے ائیر پورٹ بنا رہی ہے وہ پیسے بھی بچ جائیں ۔

لیکن اب میرا کرامتوں والا بابا بھی سامنے آ گیا ۔ ایک دوسرا بڑا مسئلہ سامنے آنے والا تھا کہ اس خضر کو عقائد کی فہرست میں میری بیوی نے رکھنا کہاں تھا اور اس سے کیا کام لینا تھا ۔ کیا صرف اس چائنیز بابے کی جگہ اس عربی بابے کو ایڈجسٹ کرنا تھا ؟
میمونہ اکثر اپنے آفس میں موجود نسلی موجود مسلمانوں کی باتیں سناتی رہتی تھی جو میری بیوی کو عجیب ہی لگتی تھی کہ فلاں مارکیٹ والے کے پیسے دینے تھے اور ایک ساتھ کام کرنے والے مسلمان کولیگ نے اسے کیسے چکمہ دے دیا ۔ لیکن یہ ایمانداری اور سچائی ایک اچھا عمل اور یہ چکمہ دینا ایک انتہائی غلط بات ہے کیا یہ شعور غیر مسلموں میں بھی ہو سکتا ہے ۔ اگر ایسا ہے تو پھر اس کا تعلق مذہب سے تو نہ ہوا ناں ۔ میمونہ جو نئی مسلمان تھی اس نے تو معلوم نہیں اس بات کو کہاں ایڈجسٹ کیا لیکن اب میں اپنے بیوی کے سامنے اسے کیسے بیان کروں گا کہ اب اس نے ان باتوں کو کس خانے میں رکھنا ہے ۔

میمونہ کے شوہر کے گھر والے جو تبلیغی جماعت سے تعلق رکھتے تھے میری بیوی کو بالکل پسند نہیں آئے اس کی وجہ اس نے مجھے یہ بتائیں کہ ان ک رویہ بالکل بناوٹی ہے ۔ اس نے بتایا کہ اس کی نند سامنے سامنے تو بہت پارسا بنتی ہے لیکن اس نے کم ازکم چھ شادیاں کی ہوئی ہیں ۔ میری بیوی نے طنزاً مجھے کہا کہ اگلی مرتبہ اگر وہ پارسا میمونہ کی نند ملی تو اس سے پوچھوں گی کہ آج کل کس کے نکاح میں ہو ۔ مجھے کہا کہ تم تو اس دن مجھے بتا رہے تھے کہ شادی بہت بڑی ذمہ داری ہے اور پاکیزہ رشتہ ہے یہ میمونہ کی نند نے اتنے سارے ڈھونڈ کیسے لیے جو اس سے شادی کےلیے بھی تیار ہو گئے ۔ کیا اس نے کاروبار بنایا کہ ہر ایک سے پیسے لے کر آگے کی طرف بڑھ گئی ، ایسے تو نان مسلم چائنیز بھی نہیں کرتے ۔ میں کیا کہتا بس خاموشی سے سنتا رہا ۔

ایک دن میں اور میری بیوی اپنی کالونی میں موجود ایک چھوٹے سے پارک میں بیٹھے ہوئے تھے کہ ایک مسلم خاتون سے ملاقات ہوئی یہ فاطمہ تھیں جن کا تعلق jiaxing شہر سے تھا اور ان کا گھرانہ مسلمان تھا ۔ عمر ان کی کوئی پچاس سال کے قریب تھی ۔ ہم انہیں ساتھ لے کر گھر آ گئے ۔ گھر آ کے میں ایک طرف ہو گیا تاکہ وہ آپس میں کھل کر بات چیت کر سکیں ۔ فاطمہ نے بتایا کہ ان کا گھرانہ مسلمان ہے وہ دو بہنیں ہیں لیکن دونوں نے شادیاں غیر مسلم سے کیں تھیں ۔ اب وہ کسی مسلمان شوہر کی تلاش میں ہیں جو پیسے والا ہو اور اس کا خیال رکھے ۔ میری بیوی نے ان سے کہا کہ اسلام میں عورت کسی غیر مسلم سے شادی کر نہیں سکتی تو آپ کیسے ۔ فاطمہ نے بتایا کہ وہ بس ” ایسے ہی ” مسلمان تھے اب وہ مذہب کو نئے سرے سے سیکھنا چاہتی ہیں ۔ فاطمہ کے جانے کے بعد میری بیوی نے مجھے یہ سب کچھ بتایا اور پھر پوچھا یہ “ایسے ہی ” مسلمان کیا ہوتا ہے ۔ اب میں فاطمہ کا ” ایسے ہی مسلمان ” کی کیا تعریف کرتا ۔ اب کیا میری بیگم نے ” ایسے ہی ” مسلمانوں کو الگ سے فولڈر بنانا تھا لیکن ان کو کس نام دینا تھا ۔

ایک دن میری بیوی نے صبح ہی میرے ساتھ آفس آ گئی ۔ کچھ دیر تو میرے ساتھ ہی بیٹھی رہی پھر تنگ پر کر کہا کہ وہ باہر جا رہی ہے تھوڑی دیر میں واپس آ جائے گی ۔ کوئی دو گھنٹے بعد وہ واپس آئی تو اس کے ساتھ ایک مسلمان خاتون تھیں جس کا نام اس نے خدیجہ بتایا اور ساتھ یہ بھی کہا کہ اس کے شوہر الجیریا کے مسلمان ہیں ۔ گھر آ کر رات کو میری بیوی نے مجھ سے کہا کہ تمہیں پتہ ہے وہ خدیجہ مجھے سے کہا کہ میں اس کے ساتھ پب ( pub ) چلوں وہاں ساتھ اور بھی سہیلیوں کو وہ بلائے گی ۔ میں نے کہا کہ پھر تم نے کیا جواب دیا اس نے کہا کہ میں نے انکار کر دیا کہ میرا شوہر اس کی اجازت نہیں دے گا ۔ میری بیوی نے کہا کہ خدیجہ کے والد عالم ہیں ۔ یہ فقرہ شاید شدید طنز تھا جس پر میں کیا جواب دیتا ۔

یہ جو تین تعارف میری بیوی کے مسلمانوں سے ہوئے انہوں نے میرے بھی ہر عمل ، جیسے نماز کو اس کے سامنے مشکوک بنا دیا کہ جو زیادہ پارسا بنتے ہیں وہ اندر سے ایسے ہی دھوکے باز ہوتے ہیں ۔ اب میں اس حالت میں آ گیا کہ میرا ایک ایک قدم اس کے شکوک و شبہات کو کہیں سے کہیں لے جا سکتا تھا ۔
وہ جو کہتے ہیں کہ اسلام پرفیکٹ ہے ہم مسلمان پرفیکٹ نہیں تو کیا مسلمان پرفیکٹ کو دیکھنے کےلیے کسی کو آسمان پر چڑھنا پڑے گا ؟

Advertisements
julia rana solicitors

جاری ہے

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply