غافلین اور ذاکرین۔۔ڈاکٹر اظہر وحید

چیزیں ضدین سے پہچانی جاتی ہیں۔ وحدت کثرت سے پہچان لی جاتی ہے، ظلمت سے نور کی طرف قدم بڑھائے جا تے ہیں، معصیت سے مغفرت کی یاد دلائی جا تی ہے— فناʻ روؤئے احساس کو مائل بہ بقا کرتی ہے —اور بشریت کو اس نے اپنی پہچان کا ذریعہ بنا دیا ہے۔ احترام ِ آدمیت کرنے والے جانتے ہیں کہ آدم کا بنانے والا اِسی اَمرسے راضی ہوتا ہے۔ اِنسان سے اُنس رکھنے والے بخوبی جانتے ہیں کہ اِنسان کے خالق سے محبت کی طرف قدم بڑھانے کا طریقہ یہی ہے۔ جسے ہم دوئی سمجھتے ہیںʻ درحقیقت یہ وحدیت کی تفہیم کا ایک طریق ہے۔ مجاز اور حقیقت میں دوئی بھی اس طرح ختم ہوتی ہے کہ مجاز حقیقت کا راستہ دکھا دیتا ہے۔

قرآنی اصطلاح میں دیکھیں تو ”غافلین“ کامتضاد ”ذاکرین“ ہے— یعنی ذکر غفلت کوکافور کر دیتا ہے، اور ذکر سے غفلت ʻغافلین میں شامل کر دیتی ہے۔ جس سطح کا ذکر ہوتا ہے ʻاُسی سطح کی غفلت دور ہوتی ہے۔ ذکر ʻیاد ہے— اور یاد روح کا سفر ہے۔ یاد اور ذکر بنیادی طور پرمحبت کے شعبے ہیں۔ دل میں محبت کا جوہر نہ ہوʻ تو کیا یادʻ اور کیا ذکر— یہ سب افعال میکانکی ہو جاتے ہیں۔ کمپیوٹر اور طوطے شاید میکانکی اعتبارسے انسان سے زیادہ ”ذکر“ کر لیتے ہوں گے۔ بات واضح ہوئی کہ ذکر اور یاد ʻقالب سے زیادہ قلب کے اعمال ہیں۔ قلب کا منقلب ہونا اصل انقلاب ہے۔ قلب میں انقلاب برپا ہوگیا تو پورا وجود مشرف بہ ایمان ہو گیا۔ قول اگر قالب کی حد تک رہے تو آدمی صرف مشرف بہ اسلام ہوتا ہے۔ یاد اور ذکر کا درجہ جیسے جیسے قالب سے عروج کرتا ہوا قلب کے اطباق تک پہنچتا ہےʻ درجہِ ایمان بلند سے بلند تر ہوتا جاتا ہے۔ محبوب کی یاد کا سورج جونہی شعور کے اُفق پر طلوع ہوتا ہےʻ محب کا وجود ظلمت سے نکل کر نور میں داخل ہو جاتا ہے۔ یہاں نورʻ نورِ معرفت ہے، اور ظلمت ʻعدم معرفت— یعنی پہچان کا تعلق بھی یاد اور ذکر سے عبارت ہے۔

عجب راز ہےʻ پہچان چہرے کی ہوتی ہے۔ چہرہ ہی یاد اور ذکر کا موجب بنتا ہے۔ ایک وقت تھا —جب صرف چہرہ تھاʻ لیکن اسے کوئی پہچاننے والا نہ تھا— اسے چاہت ہوئی کہ وہ پہچانا جائے— یہ چاہت آئینے کی تخلیق کا باعث ہوئی — سرِ آئینہ عکس مبعوث ہوا۔ عکس پیدا نہیں ہوتا— بس ہوجاتا ہے— ہوئیت سے ہو جاتا ہے— اور اِس کے ہونے میں کوئی وقت نہیں لگتا ہے، یعنی وقت کی پیدائش سے پہلے عکس نموادر ہو سکتا ہے۔ خالق نے اپنے عکس کو دیکھا— اور عکس نے بھی اپنے اصل کو دیکھا۔ مخلوق کی رسائی صرف عکس کی رعنائی تک ہے۔ ویبقیٰ وجہہ ربک ذوالجلالِ والاکرام۔

جیسے پہلے ذکر ہوا — یاد ʻروح کا سفر ہے۔ روح ʻوحدت میں ہے۔ کثرت سے شعورِ وحدت میں پہنچنے کے لیے یاد کی سواری درکار ہے۔ وحدت کے قلزم سے نکلا ہوا بے نام و نشان قطرہ ʻکثرت اور کثافت میں گم ہوگیا ہے— اس کے خانۂ یادداشت سے نسیان کی دھول صاف کرنے کے لیے ذکر سے زیادہ مجرب کوئی نسخہ نہیں۔ قطرے کی یاد جونہی اپنے مرکز و منبع کی طرف منعطف ہوتی ہےʻ اِس کا سفر سوئے قلزم شروع ہو جاتا ہے۔ قطرے اور قلزم کی وحدتِ ثانیہ ہی مدعائے سفر ٹھہرتا ہے۔ یہی اس کی نشاط اور نشاۃ ِ ثانیہ ہے!!

اگر فکر کی توجہ کثرت کی طرف ہو جائے تو ذکر مفقود ہو جاتا ہے، یاد فراموش ہو جاتی ہے اور انسان غافلین میں شمار ہونے لگتا ہے۔ خیال کا رُخ وحدت کی طرف ہو جائے تو ہر دم یاد اور ذکر سے منور ہو جاتا ہے۔ اسی لیے خیال پر توجہ دینے کا حکم ہے، خیال کی نگہبانی کرنے کا بار بار ذکر کیا جاتا ہے۔ خیال کی دولت پر سب دولتیں قربان کی جاتی ہیں۔ دولت کثرت کی علامت ہے، کثرت میں گم ہونے والا یاد گم کر بیٹھتا ہے۔ انسان خود سے— اپنی اصل سے— غافل ہوتا ہے تو خدا سے غافل ہو جاتا ہے۔ یاد کے مسافر کے لیے ”جو دم غافل سو دم کافر“کی وعید ہے۔ ہماری عبادت ذکر سے عبارت ہے۔ نماز کی غایت بھی ذکر بتائی گئی ہے۔ حکم ہے ʻمیرے ذکر کے لیے نماز قائم کرو۔ “اقم الصّلوٰۃ لذکری”

گویا —ذکر مسافرِ حق کو واصلِ حق کرتا ہے۔ ذکر اور فکر ہمنوا ہو جائیں ʻتو سفر آسان ہو جاتا ہے۔ جہاں ذکر خاموش ہوʻ وہاں فکر طاری ہو جاتا ہے اور جہاں فکر دم توڑدے ʻوہاں ذکر جاری ہو جاتا ہے۔ درحقیقت فکر ایک خاموش ذکر ہے ،اور ذکر کی حقیقت فکرِ جلی کی سی ہے۔ جیسے جیسے ہمارا فکر بلند ہوتا ہےʻ ذکر کی ضرورت بڑھتی چلی جاتی ہے۔ ذکر ʻفکر کو بے ربط نہیں ہونے دیتا، اور فکرʻ ذکر کو میکانکی نہیں ہونے دیتا۔ جیسے جیسے شعور بلند ہوتا ہےʻ ذکر کا معیار بڑھتا جاتا ہے۔ ایک صاحب ِ فکر کی زبان سے نکلا ہوا کلمہ شکر ” الحمد للہ“ کبھی کسی جاہل کے پڑھے ہوئے کے برابر نہیں ہوتا۔ تعریف کو حمد میں بدلنے والا عمل انگیز— فکر ہے۔ تعریف بیان کرنے کے لیے تعارف کا ہونا ضروری ہے۔ حمد وہ تعریف ہے ʻجس میں معرفت شاملِ حال ہے۔

معصیت غفلت کا نتیجہ ہے۔ ذاکر جب اپنے ذکر سے غافل ہوتا ہے تو اسے معصیت آن دبوچتی ہے۔ معصیت کی مصیبت میں گرفتارِ بلا ʻیاد اور ذکر بھول چکا ہوتا ہے۔ جب تک وہ توبہ کا -یو-ٹرن -نہ لے لے ʻاسے واپس اپنے ذکر تک رسائی نہیں ملتی۔ معصیت کے گڑھے سے نکلنے کی کمند ذکر ہے۔ شر کے شیطانی چکر vicious circle سے نکلنے کا راستہ ذکر ہے۔ اگر اپنے لمحاتِ فرصت کو ذکر سے منور کرنے کی سعی نہ کی جائے تو فرصت کے سارے اوقات ضائع ہو جاتے ہیں۔ ذکر — حفاظی حصار ہے، شیطانی قوتیں اس حصار میں داخل نہیں ہو سکتیں۔ جب ذاکر اپنے ذکر سے غافل ہوتا ہے تو یہ حصار ٹوٹ جاتا ہے۔
کچھ دیر تیری یاد سے غافل رہا تھا میں
وہ لمحے کر رہے ہیںٗ مجھ کو شرمسار سے

ذاکر اور مذکور کا تعلق بذریہ ذکر ہے۔ ذکر بھول جائے تو تعلق کے تقاضے بھول جاتے ہیں۔ تعلق کا تقاضا محض اطاعت ہی نہیںʻ بلکہ یاد، ذکر اور محبت بھی ہے۔ ذکر وفکر کا” ہما“ جس کے سر پر بیٹھ جاتا ہےʻ وہ اپنے قلب پر نظریں جمائے سلطان کی یاد میں مراقب ہو جاتا ہے۔ مرشدِ خیال حضرت واصف علی واصفؒ کا ایک فکر انگیز شعر ہے:
اپنے مالک سے تعلق کی نئی راہیں بھی ڈھونڈ
صرف سجدوں ہی سے روشن اپنی پیشانی نہ کر

شریعت ذکر کو محفوظ کرنے کی ایک موثر ڈھال ہے۔ فقراء نے شریعت کو ایک قلعہ قرار دیا ہے۔ جب تک سپاہی قلعے کے اندر ہوتا ہےʻ اپنے کھلے دشمن کے تیر و تفنگ سے محفوظ ہوتا ہے۔ اپنے قلعے کا مورچہ چھوڑنے والا اغوا ہو جاتا ہے— ہوا و ہوس کی اندھی گولی کا شکار ہو جاتا ہے۔ طریقت کا سارا راستہ شریعت کے اندر ہی طے ہو جاتا ہے۔ طریقت شریعت کا باطن ہی تو ہے۔ مرشدی حضرت واصف علی واصفؒ کا قول ہے ” شریعت باالمحبت کا نام طریقت ہے“ یعنی احکاماتِ خداوندی کو محبت اور شوق سے بجا لانے کا طریق طریقت ہے ۔

Advertisements
julia rana solicitors london

شارعِ شریعت ʻمحسن انسانیت ʻخاتم النبیینﷺ کُل انسانیت کے لیے ظاہر و باطن کی شفا کا نسخہ لے کر آئے۔ مدینتہ العلمؐ میں ظاہری اور باطنی سب علوم موجود اور محفوظ ہیں۔ یہ طالب کی طلب ہے کہ وہ اپنے لیے کہاں تک طلب کرتا ہے۔ ظاہر کا خوگر لفظ کی حد تک محدود رہتا ہے، باطن کا ذوق و شوق رکھنے والا الفاظ کے پردے میں نہاں معانی تک پہنچتا ہے— اور باطن دَر باطن ʻصفات کی وادی سے گزر کر جلوہ ِذات تک رسائی پاتا ہے۔ جہانِ معانی میں دُوئی کا پردہ اُٹھ جاتا ہے— یکسوئی اور یکتائی میں گم ʻخود کو پالیتا ہے— اور خود کو پا لینا ہی خدا کو پانا ثابت ہو جاتا ہے—” من عرف نفسہ فقد عرف ربہ“

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply