فاعل اور فاعلِ حقیقی۔۔ڈاکٹر اظہر وحید

معلوم تھا “تقدیر اور تدبیر” ایسے دقیق موضوع پر محض ایک نشست اور ایک مضمون بجائے تشفی کے تشنگی کو شدید تر کرنے کا موجب بن جائے گا۔ اس موضوع پر برادرم جمیل احمد عدیل کا ایک سوال نما تبصرہ موصول ہوا، اور یہ تبصرہ اس مضمون کو مزید آگے بڑھانے کا محرک ثابت ہوا۔ لکھتے ہیں ’’ڈاکٹر صاحب ! متمول اسلوب میں دنیا کے سب سے پیچیدہ قضیے پر شرح و بسط کے ساتھ رقم کی گئی تحریر، بہت پسند آیا طرز استدلال کہ اس میں روایتی روش سے کنارا کرتے ہوئے اس نکتے پر مرکوز ہوا گیا ہے کہ’’تقدیر‘‘ کوئی مرقومہ دستاویز نہیں ہے بلکہ قوانین خدا وندی کے مجموعے کا عنوان ہے … صرف اس تناظر کو اور کشاد سے ہمکنار کرنے کے لیے ان آیات مبارکہ کی تصریح ناگزیر ہے جن میں خدا کا فاعل ہونا عام طور پر پر متصور ہے، مثلاً “اللہ جسے ہدایت دے اسے کوئی گمراہ نہیں کر سکتا اور جسے گمراہ کر دے اسے کوئی ہدایت نہیں دے سکتا”

Advertisements
julia rana solicitors

جمیل احمد عدیل صاحب نے ایک بہت ہی پُر جمال نکتے کی طرف توجہ مبذول کروائی ہے، اِس پر نوکِ قلم کا تھرکنا لازم ٹھہرا۔ تقاضائے عدل بھی یہی کہ اس پر مزید قلم فرسائی کی جائے۔
الٰہیات کے باب میں یہ ایک اہم نکتہ ہمیشہ سے زیرِ بحث ہے کہ فاعل کون ہے؟ اگر یہ زندگی اور کائنات متحرک ہے تو اِس کو حرکت میں لانے والا اور پھر اسے فطری حرکیات و کلیات پر رواں دواں رکھنے والا محرکِ اولیٰ کون ہے؟ سچ پوچھیں تو حادث کے لیے روا نہیں کہ وہ قدیم کے متعلق بات کرے۔ قدیم کی بات بھی قدیم ہو گی ‘جس تک حادث کی رسائی ممکن نہیں۔ ہاں! وہ جو حَدث اور قِدَم کے برزخ میں قیام پذیر ہیں، جو شاہدین ہیں… جو قدیم اور حادث دونوں کے شاہد ہیں… جو مقامِ اعراف پر متمکن ہیں… وہی اس بابت کچھ کلام کرنے کا اِذن رکھتے ہیں… سو! انتہائی ادب کے ساتھ اِذن کا اِذن پاتے ہوئے کچھ نکات سپردِ قلم کرنے کی جراتِ رندانہ کر رہا ہوں۔
ذاتِ بحت… ذاتِ قدیم… جو وحدہ‘ لاشریک ہے، جو کسی اسم اور جسم کی محتاج نہیں ‘ جو اَزل سے پہلے اور اَبد کے بعد تک ہے، جس کیلئے زمان اور مکان کی کچھ قید نہیں… جو فطرت نہیں بلکہ فطرت کو تخلیق کرنے والا ہے ،جو فاطر ہے، جو قوانین بنا کر فطرت کو حدود آشنا کرتا ہے، لیکن خود کو قوانین تک محدود نہیں کرتا، اور اپنی شان یوں بیان کرتا ہے ہے کہ’’فعّال لّما یُرید‘‘… وہ جو چاہتا ہے کرتا ہے، یعنی وہ صرف فاعل نہیں بلکہ فعّال ہے …لیکن اسی نے اپنی ایک اور شان اور آن یوں بھی بیان کی ہے ’’الآن کما کان‘‘…”وہ جیسا تھا ویسے ہے”… اب اگر اسے فاعل مان لیا تو اُس کی شان متاثر ہوتی ہے، کیونکہ فاعل کیلئے دو حالتیں لازم ہیں، ایک فعل کے انجام دینے سے پہلے اور دوسرا فعل کے بعد… اور یہ شانِ توحید کے خلاف ہے کہ اس کی حالت متغیر ہو۔ ’’کل یومٍ ھو فی شان‘‘…کہ ہر یوم میں اُس کی شان جدا ہے، یہ قصہ ٔصفات ہے۔ یوم ایک دائرۂ تخلیق ہے، ہر دائرۂ تخلیق میں اُس کی صفات کا اظہار ایک الگ طرز اور طریق پر ہوتا ہے … بحر ایک یوم ہے، برّ ایک دوسرا یوم ، نباتات ایک یوم ہیں ، جمادات ایک دوسرا یوم ، حیوانات دونوں سے جدا یوم… اور یوں ہر یوم میں اُس کی صفات کا ایک الگ جلوہ دکھائی دیتا ہے۔
رازق بہت سے ہیں، لیکن رازقِ حقیقی وہی ہے‘ وہ خود کو خیرالرازقین کہتا ہے… خالق بہت سے ہیں ‘وہ خود کو احسن الخالقین کہتا ہے، رب بھی متفرق ہیں… والدین ہمارے رب ہیں، قرآن کی رو سے’’ربیانی صغیراً‘‘… والد اگر مجازی خالق ہے اور والدہ ربیہ ہے … ہماری ربوبیت پر مامور… تو وہ مالک الملک‘ رب الارباب ہے۔ کیا خوبصورت نکتہ ہے کہ خلق چاہے کوئی کرے‘ وہ منسوب اَحسن الخالقین سے ہو گی۔ خواہ ہمیں رزق کسی ذریعے سے پہنچے ‘ کوئی انسان ہماری ربوبیت کرے‘ سب کا سب منسوب کیا جائے گا‘ خیرالرازقین کی طرف… رب الارباب کی جانب۔ خواہ مالک کوئی ہو‘ مالکِ حقیقی وہی رہے گا…یہ مالک الملک کی شان ہے کہ ’’الیوم‘‘ میں ملک سارے کا سارا اُسی کا ہے…’’ لمن الملک الیوم‘‘۔ وہ اپنی تخلیق کے دائروں میں …گنے چنے ایام میں … نیابت دیتا ہے، اپنا خلیفہ مقرر کرتا ہے، ذمہ داریاں اور فرائض انسانوں اور فرشتوں میں تفویض کرتا ہے… فرشتہ بے خطا ہوتا ہے، جواب دہی سے آزاد ہے۔ انسان نے خود یہ اَمانت بڑھ کر اٹھائی ہے، وہ من مانی کر سکتا ہے ، اس لیے جواب دہ ہے۔ یعنی ہر نظر آنے والا فاعل ‘محض مجازی فاعل ہے‘ حقیقی نہیں …حق اور حقیقت صرف ایک ہے، واحد ہے، بلکہ اَحد ہے… یکتا و لاشریک …اُس کا کوئی شریک نہیں!! اُس کے ساتھ شریک ہونے کا زعم ہوتا ہے ‘ یا وہم!! اِس زعم اور وہم سے آزاد شعور ہی حقانیت کے دائروں میں پرواز کر سکتا ہے۔
خالقِ کائنات نے ایک نظام بنایا اور اِس نظام کو چلانے کیلئے قوانین بنائے ‘ اِن قوانین کو سنتِ الہیہ سے تعبیر کیا جاتا ہے… لیکن اس نے اپنی ذات ، مراد اور منشا کو اِن تمام قوانین سے بالا رکھا ہے … وہ اپنے بندوں سے ذاتی سطح پر مخاطب ہوتا ہے، دُعا بھی ایک ذات کی ذات کے حضور عرض پردازی ہے۔ ایک صاحب ِ ایمان و عرفان کا تعلق نظام سے زیادہ نظام بنانے والے کی ذات سے ہوتا ہے۔ ایمان اور عرفان کا تعلق سراسر ذات کے ساتھ ہوتا ہے… صفات اور عالمِ صفات سے نہیں۔ ہم اُس ذات کو اُس وقت بھی اللہ مانتے تھے ‘ جب ابھی اُس نے بساطِ زمان و مکاں پر کچھ بھی خلق نہ کیا تھا،اور وہ ہمارا اُس وقت بھی مالک و معبود ہوگا ‘جب وہ بساطِ تخلیق یکسر سمیٹ لے گا۔ صاحبِ نہج البلاغۃ کا فرمان حق ہے”جس نے اُسے صفات سے پہچانا ‘ اس نے شرک کیا”
اَمر اور خلق دونوں اُسی کے ہیں۔۔۔۔ “الا لہُ الخلق والامر”۔ وَحی اَمر سے ہے، اِس کی تشریح اور فہم خلق کی دنیا سے تعلق رکھتے ہیں۔ بادشاہ کی طرف سے جب کسی مملکت میں منادی کی جائے گی تو ایسے ہی کہا جائے گا‘ دیکھو! ہم نے فلاں اور فلاں باغی اور سرکش کو کیسے لٹکا دیا۔ جب رعایا کی سطح پر بات ہوتی ہے تو یوں بتلایا جاتا ہے کہ فلاں نے فلاں جرم کیا جس کی پاداش میں فلاں قانون کے تحت اُسے لٹکا دیا گیا۔ یہ بادشاہ کے جلال و عظمت کے منافی ہے کہ اُس کی مملکت میں کسی جزا اور سزا کو محض قوانین کا کرشمہ قرار دیا جائے۔اگر سب کچھ قوانین کے سپرد کر دیا جائے تو شفا، شفاعت ، دُعا اور رحمت کا تصور ختم ہو کر رہ جائے گا۔
اُس نے فجور اور تقویٰ دونوں اِلہام کر دیے ہیں ‘ نفس ِ انسانی پر… اب نفسِ انسانی مسئول ہے، جواب دہ ہے کہ اُس نے کس گھاٹی کا انتخاب کیا ۔ اِنسان خارج میں محدود اور مجبور ہو سکتا ہے‘ لیکن وہ اپنی نیت اور اِرادے میں سو فیصد آزاد ہے۔ اِسی لیے نیت کو عمل سے زیادہ اہمیت دی گئی ہے ‘ بلکہ اعمال کا انحصار ہی نیت پر کیا گیا ہے۔
یہ ایک حقیقت ہے کہ انسانی شعور تقدیر اور تدبیر دونوں پر بیک وقت نہیں سوچ بچار کر سکتا۔ تقدیر کی کتاب کھولتا ہے تو تدبیر کا باب بھول جاتا ہے، جب تدبیر کے میدان میں اُترتا ہے تو تقدیر کی کتاب اور نصاب فراموش کر بیٹھتا ہے۔ دریائے زیست کے دو کنارے ہیں …ایک کانام تقدیر ہے ‘ ایک کا تدبیر۔ زندگی کا دریا ان دونوں کناروں کے بیچ میں بہہ رہا ہے۔ ہم ایک وقت میں ایک ہی کنارے کی سیر کر سکتے ہیں… انسانی حیات میں تدبیر کے کنارے پر کھڑے موج میلہ کرتے ہوئے دوسرا کنارہ نظر نہیں آتا۔
دوسری طرف دُور اُس پار تقدیر کے ساحل پر محوِ خرام سیاح منشا و مشیت کی مہیب لہروں کو دیکھ کر اس قدر سہم جاتے ہیں کہ تدیبر کی ناؤ کا خیال ہی اُن کے خانۂ شعور سے محو ہو جاتا ہے۔
بس بیچ کا راستہ یہی ہے… اور اسی میں بچاؤ ہے… کہ اپنی تمام تر ذمہ داریوں کو پوری اہلیت، کوشش اور دیانت داری سے سرانجام دیا جائے… اور کوشش کی اس شجرکاری کے مکمل ہونے کے بعد اِس پر لگنے والے پھول اور پھل سب کو اپنے مالک کا عطیہ اور فیصلہ سمجھ کر قبول کر لیا جائے۔ تدبیر تقدیر کی معاونت کرے یا تقدیر تدبیر کی… آخری فیصلہ اُسی کا ہے۔ کھڑی شریف کے عارف میاں محمد بخش علیہ الرحمۃ اِس بابت ایک دانائی کا کلیہ عنایت کر گئے ہیں:
مالی دا کم پانی دینا بھر بھر مشکاں پاوے
مالک کا کم پھل پْھل لانا، لاوے یا نہ لاوے
اگر مجھے اپنی مرضی اور نفس کی تدبیر پر چلنا ہے تو قدم قدم پر تقدیر اور تدبیر دست بگریباں نظر آئیں گے۔ اگر مجھے اِس زندگی میں اپنی مرضی کرنے سے غرض نہیں ‘ تو میرے لیے تقدیر اور تدبیر ہم معنی ہیں… کہ
ع ہم اُس کے ہیں‘ ہمارا پوچھنا کیا

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply