تصفیہ طلب

انسان کو اللہ تعالی نے عقلِ سلیم عطا ء کی تاکہ و ہ ذہن کا استعمال کرکے اپنے تصفیہ طلب امورا ور مسائل کو اپنے وسائل کےمطابق حل کرنے کی بھر پور کوشش کرتے ہوئے خودکوکامیاب کرے۔پاکستان کو معرض موجود میں آئے تقریباً69 برس بیت چکے ہیں لیکن مسائل ہر گزرتے دن کیساتھ بڑھتے جا رہے ہیں۔ ہمارے حکمران اورحکومتیں آئے دن اہم ایشوزکوچھوڑ کر ”نان ایشوز“ کی سیاست پر عوام کو ٹرخاتی ہیں اور اصل مسئلے کو دبانے کی کوشش کرتے ہوئے اس سے پہلو تہی کرتی ہیں۔
مملکت پاکستان میں یوں تو سب مسئلوں پر دانشور حضرات لب کشائی کرتے ہیں اور کسی حد تک اپنی تجاویز کو عملی شکل دینے کی سعی بھی کرتے ہیں لیکن یہ کوششیں آٹے میں نمک کے برابر اکثر نامکمل ہوتی ہیں اوران تجاویز سے بادی النظر میں کوئی بنیادی تبدیلی اور اصلاحات لانا جوئے شیر لانے کے مترادف ہوتا ہے۔آج کی نشست میں ہمیں دیکھنا ہےکہ بنیادی مسائل کونسے ہے؟ ان کا ذمہ دار کون ہے؟ اس کے حل کے لئے کیا ٹھوس اقدامات ضروری ہیں ؟ میرے خیال کے مطابق پاکستان میں انصاف اور ترتیب نام کی کوئی شے وجود نہیں رکھتی ۔اگر بنیادی ڈھانچہ میں انصاف کا توازن ٹھیک کیا گیا تو باقی مسائل با آسانی حل ہو سکتے ہیں۔قانون کی حکمرانی اور آئین کی بالادستی سے زندگی کے ہر شعبہ انقلابی اقدامات ممکن ہوسکتے ہیں۔ انصاف کے علاوہ صحت، تعلیم،اور ہوشربا گرانی نے عوام الناس کی کمر توڑ رکھی ہیں۔اس کے علاوہ دہشت گردی، فرقہ واریت، کرپشن، لوٹ مار، ظلم و جبر، محکمانہ غفلت، شدت پسندی اور بنیاد پرستی جیسی برائیاں نظام مملکت کو کھوکھلا کرنے کا سبب بن رہی ہیں۔ پاکستانی قوانین قرآن و حدیث کے مطابق بنائے گئے ہیں، لیکن مسئلہ ان قوانین کو نافذ العمل بنانے کا ہے۔
پاکستان میں تقریباً ہر محکمے اورہر جگہ تصفیہ طلب امور ہر وقت حکومت اور اپوزیشن کیساتھ چھیڑخانی کرتے ہیں۔ایک بھی ایسا ادارہ مجھے معلوم نہیں جس میں کرپشن، اقرباپروری اور میرٹ کا قتل عام نہ ہوتا ہو۔ ایسا لگتا ہیں جیسے ہم کسی جنگل میں آگئے ہوں” سنا ہے جنگل کا بھی کوئی قانون ہوتا ہے “لیکن ارض پاک میں قانون نام کی کوئی شئے موجود نہیں اور اگر ہے بھی تو صرف غریب اور بے بس عوام کے لئے۔ سرمایہ داراور جاگیردار نے اپنے لئے ڈیڑھ اینٹ کی الگ مسجد بنا رکھی ہے، مسجد جسے کمیونٹی ہونا چاہیے تھا ،فرقہ پرستوں کی آماجگاہ بن چکی ہے۔
مملکت خداداد میں یوں تو بہت سے اِدارے موجود ہیں لیکن وہاں زیادہ تر فائلوں پر اپنا کاروبار چمکایا جاتا ہے، کوئی ایک محکمہ اپنے کام میں سنجیدہ نہیں۔انتظامیہ کا کام پولیس ، پولیس کا کام فوج اور فوج کا کا م رینجرز و ایف سی والےکرتے نظر آتے ہیں۔عدالت اور حکومتیں ایک دوسرے کے دائرہ اختیار کے برخلاف کام کرتی ہیں۔ عدالتیں اگر کسی مقدمہ میں فیصلہ سنا دیں تو حکومت اس پر عمل درآمد کرنے میں روڑے اٹکاتی ہے، کسی کو اپنا کام اور دائرہ کار معلوم ہی نہیں۔ تفویض شدہ قانون اور طاقت میں صوبائی ،ضلعی اور وفاقی حکومتیں ایک دوسرے کا منہ تکتی ہیں۔ سی این ڈبلیو، محکمہ سوئی گیس، محکمہ پٹرولیم اور واپڈاعوام کی ضروریات اور حکومتی نا اہلی کے سبب اپنے دائرہ اختیار سے زیادہ طا قتور اور خون ریز ہیں۔توانائی کی ضروریات الگ طور پرسراٹھائے ہوئی ہیں۔ ملک قرضوں کے گھن چکروں میں پھنسا ہوا ہے۔ خدارا یہ مملکت اب مزید قرض لینے کی متحمل نہیں ہوسکتی ۔غریب گھر کا سودا سلف،بچوں کے اخراجات پورے نہیں کرسکتا، قرض اٹھا کر پچھلا قرض چکاتا ہے یہی حال ہمارے پیارے ملک پاکستان کا ہے ،حکومت قرض پر قرض لئے جا رہی ،بندہ حیران رہ جاتا ہے کہ یہ ملک کیسے چل رہا ہے؟ آئے دن پانامہ کیس اور خود کش دھماکوں جیسے مسائل نے عوام کو نفسیاتی مریض بنا رکھا ہے۔قارئین کرام ان سب مسائل کا کوئی تو حل بنتا ہی ہے۔۔آئین اور قانون کے مطابق تفویض شدہ قوانین کو مد نظر رکھتے ہوئے ہر ایک ادارے کے افسران کی حساس ٹریننگ اور دائرہ اختیار کے مطابق اختیارات استعمال میں لانے چاہئیں۔قانون کی حکمرانی اور آئین کی بالادستی کے اصولوں پر کاربند رہنا چاہئے۔ گراں فروشی کے سدِ باب کے لئے محکمانہ کوششیں کرنی چاہئیں۔ایک جیسی واضح صحت اور تعلیم کی دوٹوک پالیسی بنائی جائے۔ ڈسپلن کو زندگی کے ہر شعبے پر لاگو کیا جائے۔ خارجہ اور داخلہ پالیسی کاتعین کیا جائے، پارلیمنٹ اور عدالتوں کو با اختیار بنانا ہی جمہوریت کا مقصود و منتہاء ہوتا ہے اس لئے مقامی سطح پر بلدیاتی اداروں کو بھی با اختیار بنانا چاہئے۔مذہبی جنونیت اورفرقہ واریت کا سدِ باب ہونا چاہیے اور سب سے بڑھ کرانسانیت کی تعلیم عام کی جائے

Facebook Comments

نصیر اللہ خان
وکالت کے شعبے سے منسلک ہوکرقانون کی پریکٹس کرتا ہوں۔ قانونی،سماجی اور معاشرتی مضامین پر اخباروں اور ویب سائٹس پر لکھنا پڑھنامیرا مشغلہ ہے ۔ شعوراورآگاہی کا پرچار اپنا عین فریضہ سمجھتا ہوں۔ پولیٹکل سائنس میں ایم اے کیا ہےاس لئے پولیٹکل موضوعات اورمروجہ سیاست پر تعمیری ،تنقیدی جائزے لکھ کرسیاست دانوں ، حکام اعلی اور قارئین کرام کیساتھ اپنا نقطۂ نظر،فہم اور فکر شریک کرتا ہو۔ قانون،تاریخ، سائنس اور جنرل نالج کی کتابوں سے دلی طور پر لگاؤ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply