• صفحہ اول
  • /
  • کالم
  • /
  • روس یوکرین جنگ اور عالمی طاقتوں کی نئی ترجیحات۔۔افتخار گیلانی

روس یوکرین جنگ اور عالمی طاقتوں کی نئی ترجیحات۔۔افتخار گیلانی

مارچ 2003ء میں جب امریکی صدر جارج بش نے عراق پر فوج کشی کی تو ان کا اصرار تھا کہ بھارت بھی برطانیہ، آسٹریلیااور پولینڈ کی طرح فوجی تعاون کرے۔ وزیر خارجہ جسونت سنگھ، وزیر داخلہ ایل کے ایڈوانی اور حکمران بھارتیہ جنتا پارٹی کے کئی اور مقتدر لیڈر اس کے حق میں تھے۔ ان کا خیال تھا کہ جوہری دھماکوں کے بعد بھارت پر جواعلیٰ تکنیک حاصل کرنے پر پابندیا ں عائد تھیں، عراق میں امریکہ کی معاونت کرکے وہ ختم ہوسکتی ہیں۔دوسری طرف اپوزیشن کانگریس اور بائیں بازو کی پارٹیاں اس طرح کھلم کھلا امریکی کیمپ میں جانے سے خاصی اضطراب میں تھیں۔ اسی دوران کمیونسٹ پارٹی مارکسسٹ یعنی سی پی آئی ایم کے سربراہ آنجہانی ہرکشن سنگھ سرجیت کی سربراہی میں بائیں بازو کی پارٹیوں کا ایک وفد احتجاج درج کروانے وزیر اعظم اٹل بہاری واجپائی سے ملاقات کرنے آن پہنچا۔ بائیں بازو کے لیڈر سیتا رام یچھوری نے بعد میں اس میٹنگ کے بارے میں ایک بار بتایا کہ واجپائی نے ان سے کہا کہ امریکہ کے ساتھ ساتھ وہ اپنی پارٹی ، فوج اور ملک کے اسٹریٹیجک امور کے ماہرین کے دباوٗ میں ہیں کہ عراق میں فوج بھیج کر امریکی انتظامیہ سے مراعات حاصل کرنے کا یہ نادر موقع ہے۔ وفد نے اسکی کھل کر مخالفت کی۔ واجپائی نے مسکراتے ہوئے بائیں بازو کے لیڈروں کو طعنہ دیا کہ کانگریس کی طرح وہ بھی اب مخالفت ڈرائنگ رومز اور میڈیا میں ہی کرتے ہیں۔ دوسری طرف تین ماہ قبل پاکستان نے سلامتی کونسل کی عارضی دو سالہ ممبرشپ کی ٹرم شروع کی تھی جب امریکی فوجی کاروائی سے متعلق قرار داد کونسل میں زیر بحث تھی تو پاکستانی مشن کے سربراہ منیر اکرم نے اسلام آباد میںحکام سے موقف جاننا چاہا ، کیونکہ ایک طرف امریکہ اور دوسری طرف برادر اسلامی ملک عراق تھا۔ تو صدر پرویز مشرف کا پہلا ردعمل تھا، کہ پاکستان کو اس عمل میں حصہ لینے کی کیا ضرورت ہے؟ ان کو بتایا گیا کہ پاکستان سلامتی کونسل کا رکن ہے، اسلئے ووٹنگ میں حصہ لینے کیلئے اعلیٰ سطح پر راہنمائی کی ضرورت ہے۔ بتایا جاتا ہے کہ صدر صاحب نے فرمایا کہ آخر سلامتی کونسل کا ممبر بننے کی کیا ضرورت تھی؟ خیر بعد میں پاکستان نے ووٹنگ میں حصہ نہ لیکر عراق میں خون خرابہ سے اپنے آپ کو بری رکھا۔ یہی صورت حال اسوقت روس اور یوکرین کی جنگ کی وجہ سے کئی ملکوں کو درپیش ہے۔ ترکی اور بھارت کیلئے ایک طرف کھائی اور دوسری طرف سمندر والا معاملہ ہوگیا ہے۔ دونوں ممالک نے حال ہی میں روس سے انتہائی جدید میزائل شکن ہتھیار S-400کی خریداری کی تھی۔ بھارت کیلئے تو صورت حال اور بھی نازک ہے کیونکہ امریکہ اسکا سب سے بڑا تجارتی پارٹنر ہے، دوسری طرف روس سب سے بڑا ملٹری پارٹنر ہے۔ سرد جنگ کے خاتمہ کے بعد ترکی اور بھارت نے ماسکو اورواشنگٹن کے ساتھ یکسا ں مراسم استوار کرکے اپنی اقتصادیات اورتزویراتی میدانوںمیں خاصا فائدہ حاصل کیا۔ سرکاری اعداد و شمار کے مطابق بھارت اور امریکہ کے درمیان سالانہ تجارت کا حجم 112.6بلین ڈالر ہے، جس میں 71.2بلین ڈالر کی برآمدات ہیں اور 41.42بلین ڈالر کی درآمدات ہیں۔ دوسری طرف اسٹاک ہوم انٹرنیشنل پیس ریسرچ انسٹیٹیوٹ کی ایک حالیہ رپورٹ کے مطابق 2010 سے 2020 تک روس میں تیار کردہ اسلحہ کا 23فیصد ساز و سامان بھارت پہنچ چکا ہے۔ گو کہ بھارت اور روس کے درمیان سالانہ تجارت کا حجم محض 8.1بلین ڈالر ہے، مگر 2018سے 2020 تک 15بلین ڈالر کے اسلحہ کی تجارت ہوئی ہے۔۔ ویسے تو پچھلی کئی دہائیوں سے بھارت نے روس پر انحصاری کم کرنے کی کوشش کرتے ہوئے امریکہ، فرانس اور اسرائیل کے ساتھ دفاعی ساز و سامان مہیا کرنے کے کئی معاہدے کئے ہیں، مگر بڑے پلیٹ فارم ابھی بھی روس سے ہی فراہم ہوتے ہیں۔ مگر اس سے بھی زیادہ مسئلہ جو بھارت کو درپیش ہے، وہ یوکرین کی جنگ کی وجہ سے روس اور چین کے درمیان بڑھتی قربت کا ہے۔ماضی میں جب بھی بھارت اور چین کے درمیان کشیدگی پیدا ہوجاتی تھی، تو روس فوراً ہی بھارت کی مدد کو وارد ہوجاتا تھا۔1971کی پاک ۔بھارت جنگ کے وقت روس نے چینی سرحدوں پر فوجیں اکھٹا کی ہوئی تھیں، تاکہ وہ پاکستان کی مدد کو نہ آسکے اور بھارت کو وسیع آپشنز حاصل رہیں۔ کاک کا کہنا ہے کہ بھارت میں خیال ہے کہ روس اور چین کے درمیان ہم آہنگی دیرپا شاید ثابت نہیں ہوگی، کیونکہ شدید نظریاتی اختلافات کے علاوہ دونوں ورلڈ آرڈر میں بھی مسابقت کی دوڑ میں ہیں۔ اسی لئے کسی نہ کسی وقت ان کا ٹکراو لازمی ہے۔ 1969میں دونوں جوہری ممالک نے جنگ بھی لڑی ہے۔ اس وقت روس کو سرحدوں پر اپنی 40ڈویژ ن فوج تعینات کرنی پڑی تھی۔ ان کے مطابق گو کہ ورلڈ آرڈر میں پہلے سے ہی تبدیلیاں آرہی تھیں، مگر یوکرین کے تنازعہ نے اسکو مہمیز دی ہے ۔ مصنف او تزو یراتی ماہر ہیل فورڈ میکنڈن نے 20وی صدی کے اوائل میں تحریرکیا تھا کہ یوریشیا یعنی بحر اوقیانوس اور ایشاء پیسیفک کے درمیان والے علاقہ پر جو بھی پاور قابض ہوگی، دنیا پر اسکا کنٹرول ہوگا۔ بھارت کے سابق قومی سلامتی مشیر شیو شنکر مینن نے راقم کو بتایا کہ یوکرین اور روس کے تنازعہ کی لپیٹ میں پوری دنیا آگئی ہے اور ورلڈ آرڈر میں ایک بڑی تبدیلی آگئی ہے۔ جوں جوں یورپ اور امریکہ ، روس پر پابندیوں کا شکنجہ کستے جائیں گے، چین پر اسکا انحصار بڑھتا جائیگا۔گو کہ اس قرابت کا اثر بھارت پر جلد تو نہیں ہوگا، کیونکہ روس کیلئے بھارت جیسی اسلحہ کی منڈی کو چھوڑنا ناممکن ہوگا، مگراس کے دیرپا اثرات مرتب ہونے کے امکانات ہیں اور اس کی زد میں ایشیاکے سبھی ممالک آئینگے۔ مینن کے مطابق روس اور یوکرین کی شکایات بجا ہیںاور ان کو خوش اسلوبی کے ساتھ حل کیا جاسکتا تھا۔ اگر ناٹو اپنی افواج اور اسلحہ یوکرین کے مشرقی علاقہ میں نصب کرتا ہے، تو یہ ماسکو سے بس 300کلومیٹر دور ہونگے۔ پوتن کیا ، کوئی بھی روسی حکمران اس کی اجازت نہیں دیگا۔ دوسری طرف یوکرین پر روسی قبضہ کی صورت میں برلن، ویانا، وارسا اور متعدد دیگر پورپی شہر براہ راست روسی نشانہ پر ہونگے۔ سرد جنگ کے خاتمہ کے وقت نیٹوکے اراکین کی تعداد 19تھی، جو اب بڑھ کر 30ہوگئی ہے۔ سرد جنگ کے بعد تو ان کی تعداد کم ہونی چاہئے تھی۔ ترکی ، جو فی الوقت یوکرین اور روس کے درمیان ثالثی کا کردار ادا کر رہا ہے، کا موقف ہے کہ سکیورٹی گارنٹی کے ساتھ یوکرین کو ایک غیر جانبدار ملک کے طور پر اس خطے میں رہنا چاہئے۔ مگر سوال ہے کہ یہ سکیورٹی گارنٹی اور اسکے غیر جانبدار رہنے کی گارنٹی کون دیگا؟ روس کا کہنا ہے کہ وہ امریکہ پر بھروسہ نہیں کرسکتا ہے اور اسطرح کی گارنٹی اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل یا پورپی یونین دے۔ گو کہ امریکہ اسوقت بھی واحد گلوبل ملٹری پاور ہے اور چین کے ساتھ اقتصادی میدان میں اسکی مسابقت ہے، یہ تو طے ہے کہ دنیا اسوقت غیر یقنی اور انارکی کے دور سے گزر رہی ہے۔ ایک خوش آئند بات یہ ہے کہ امریکہ اور مغربی دنیا کے راڈار سے اب سیاسی اسلام غائب ہوچکا ہے، اور اسکی ترجیحات اب روس کو شکنجہ میں کسنا اور ایشیا پیسیفک میں چین کے اثرات کو کم کرنا ہے۔ شاید بھارت ہی واحد ملک ہوگا ،جو ابھی بھی اسلام ، مسلمانوں اور پاکستان کے ایشو کو لیکر سیاسی روٹیاں سینکنے کا کام کررہا ہے۔ دنیا اب آگے نکل چکی ہے، ان ایشوز پر اب شاید ہی کوئی پارٹنر دینا میں اسکو نصیب ہوگا۔ ہاں، چین اور روس کو کسنے کیلئے امریکہ یا یورپ کو بھارت کی مدد کی ضرورت ہوگی۔

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply