• صفحہ اول
  • /
  • کالم
  • /
  • ہندوستان افغانستان میں گھٹنے ٹیک چکا ہے۔۔۔ عارف خٹک

ہندوستان افغانستان میں گھٹنے ٹیک چکا ہے۔۔۔ عارف خٹک

حالیہ افغان خانہ جنگی لہر نے پوری دنیا کو ورطہ حیرت میں ڈال دیا ہے۔ روز افغانستان میں صوبائی دارالحکومتوں کا طالبان کے زیر قبضہ جانا جہاں کابل کی حکومت کی کارکردگی پر انگلیاں اٹھتی رہی ہیں وہاں پاکستان کے روایتی قوم پرستوں کی امیدیں بھی دم توڑتی نظر آرہی ہیں۔ پاکستانی قوم پرست ستر سال سے افغانستان کی صورت میں جذباتی اور نظریاتی سیاست کا دم بھرتے آئے ہیں۔ باچا خان سے لیکر موجودہ کٹر قوم پرست پشتون تحفظ تحریک سب اس نظریہ پر کاربند رہے ہیں کہ آزاد افغانستان ایک دن پاکستان کے پانچ کروڑ پشتونوں کی تقدیر بدل دیگا۔ حالیہ ناکامیوں نے ایک دفعہ پھر ثابت کیا ہے کہ افغانستان کے بارے میں اندازہ لگانا مشکل ہے۔ سویت یونین کی طرح نیٹو اور امریکہ بھی بری طرح ناکام ہوچکا ہے جس کا اب برملا اعتراف کیا جارہا ہے۔ ایک قبائلی خدوخال کا حامل ملک جہاں لسانی عصبیت عروج پر ہے وہاں طا لبان کا مذہبی نظریات کیساتھ دوبارہ ابھرنا حیرت کی بات نہیں ہے۔ طالبان ایک منظم، غیر روایتی جنگ کا بھرپور تجربہ رکھنے والے اور امریکہ مخالف قوتوں کی معاونت کیوجہ سے کابل کی کرپٹ ترین حکومت اور مقامی وار لارڈز کی بدعنوانیوں کے مقابلے طالبان ایک بھرپور قوت رکھتے ہیں۔
کابل حکومت کی بدعنوانیوں کی ایک تاریخ رہی ہے۔ امریکہ نے ابھی تک 88 ارب ڈالر کابل حکومت کی استحکام پر خرچ کئے ہیں اور فوج میں تیس فی صد سپاہیوں کا وجود تک نہیں ہے اور ان کی تنخواہیں کابل میں بیٹھے حکومتی اہلکار اپنی جیبوں میں بھر رہے ہیں۔
امریکہ، برطانیہ اور تقریبا دنیا کے تمام ممالک اس بات پر متفق ہیں کہ اگر اس دفعہ طالبان نے کابل کو قابو کرکے حکومت بنانے میں کامیاب ہوئے تو فی الفور ان کو تسلیم کیا جائیگا۔ کیونکہ قطر مذاکرات میں طالبان ضمانت دے چکے ہیں کہ ان کیوجہ سے کسی کو دوبارہ تکلیف نہیں اٹھانی پڑیں گی۔ صرف ہندوستان ایک ایسا ملک ہے جو ابھی تک ہوا کے مخالف رخ پر کھڑا اپنی روایتی پروپیگنڈے سے دنیا کو باور کرانے میں مصروف ہے کہ افغانستان میں حالیہ کشیدگی کا ذمہ دار ملک پاکستان ہے۔ حالیہ سلامتی کونسل میں ہندوستان کے کردار نے پوری دنیا پر عیاں کردیا کہ ہندوستان غیر حقیقی اور روایتی پروپیگنڈے پر عمل پیرا ہے۔ امریکی فوج کی افغانستان سے نکلنے کی سب سے بڑی مخالفت ہندوستان نے کی ہے۔ افغانستان میں داعش کی کاروائیوں کے پیچھے بھی ہندوستان کا ہاتھ نظر ارہا ہے جہاں سول آبادی کو بدترین دہشت گردی کا نشانہ بنا کر وہاں دنیا کو بتانے کی کوشش کی گئی کہ طالبان اور داعش ایک ہی ہے مگر طالبان نے خود داعش کاروائیوں کی مذمت کی ہے۔ طالبان ہندوستان کے اس کردار کو۔کسی صورت معاف کرنے کو تیار نہیں ہے اور ہندوستان کو یقین ہوچلا ہے وہ انیس نوے کی پوزیشن پر واپس جا چکا ہے۔ ہندوستان کو چین اور پاکستان کیساتھ سرحدی مسائل ہیں وہاں افغانستان کی صورت میں حالیہ ناکامی اور دنیا ڈس انفو پراپیگنڈا کیوجہ سے اپنی پوزیشن خراب کرچکا ہے۔
ہندوستان نے بیس سالہ امریکی دور اقتدار میں خود کو امریکہ کا دایاں ہاتھ ثابت کیا ہے۔ پہلے دن سے ہندوستان کے مقاصد واضح تھے۔ برسوں بعد ان کو موقع ملا تھا کہ وہ خود کو افغانستان کیساتھ فطری مراسم میں جڑے رکھے اس لئے پہلے دن سے طالبان ان کے ہٹ لسٹ میں تھے۔ اور کشمیر کے مسلح جدوجہد کا خاتمہ وہ موجودہ افغان حکومت کے کامیابیوں میں دیکھ رہے تھے۔ بلکہ ہندوستان کے حوصلے اتنے بلند ہوگئے کہ شہر شہر انھوں نے اپنے قونصل خانے کھول دیئے اور پاکستانی پشتون قوم پرستوں پر اپنی توجہ مرکوز رکھی کہ سرحد کے ساتھ متصل پشتون مستقبل میں “ڈریونڈ لائن” کی صورت میں ایک نیا محاذ کھولیں۔ ہندوستان کی دیدہ دلیری کا یہ حال تھا کہ افغانستان میں کسی بھی مسلح تنظیم کا رکن یا مزاحمت کار پکڑا جاتا تو امریکہ سے پہلے “را” ان سے تفتیش کرتی۔ پاکستان کا مشہور صحافی جب جلال آباد میں بغیر سفری دستاویزات کے جرم میں گرفتار ہوا تو اس کی تفتیش تک بھی ہندوستان کے خفیہ ایجنسی را نے کی۔ اب طالبان کا دوبارہ بھرپور قوت کیساتھ آنا جہاں دنیا کو ورطہ حیرت میں ڈال گیا وہاں ہندوستان کو بھی پریشان کردیا گیا ہے۔ قطر میں طالبان کے ترجمان سہیل شاہین کے مطابق ہندوستان کو کوئی حق نہیں کہ وہ افغانستان کے داخلی معاملات میں دخل اندازی کرے۔ طالبان کا یہ موقف ہندوستان کو بتانے کی یہ کوشش ہے کہ ہندوستان خود کو محدود کریں۔ سفارتی اور سیاسی سطح پر ہندوستان کو افغانستان میں بری شکست سے دوچار ہونا پڑا ہے۔
امریکہ نے دوبارہ پاکستان پر زور ڈالنا شروع کیا ہے کہ طالبان کو اشرف غنی کیساتھ مذاکرات کرنے چاہیئے مگر کابل میں موجودہ حکومت کو یہ ڈر بھی ہے کہ طالبان کیساتھ بات چیت کی صورت ان کا احتساب نہ کیا جائے۔ حالیہ مہینوں میں کابل میں موجود اہلکاروں نے اپنے خاندان ترکی اور یورپ منتقل کردیئے ہیں اور اپنے سرمائے دبئی اور دوسرے خلیجی ممالک منتقل کرکے خود کسی وقت کابل چھوڑنے کیلئے تیار ہیں۔ پاکستان نے خلاف توقع اس دفعہ اپنے ہاتھ کھڑے کرلئے ہیں۔
پاکستان ہمیشہ کی طرح یہی سمجھ رہا ہے کہ امریکہ اپنی ناکامیوں کا ملبہ پاکستان پر ڈال کر ایک طرف ہونا چاہ رہا ہے۔ مگر اس دفعہ امریکہ کیلئے یہ آسان نہیں ہوگا کہ خطے کے طاقتور کھلاڑیوں کیلئے افغانستان اور امریکہ سے زیادہ سی پیک کا پراجیکٹ اہم ہے جو افغانستان سے نکل کر بیلاروس تک پھیلا ہوا ہے اور بدقسمتی سے یہاں بھی ہندوستان اکیلا کھڑا ہے۔ اس پراجیکٹ کیلئے طالبان سے زیادہ قابل بھروسہ کوئی اور نہیں ہے۔

Facebook Comments

عارف خٹک
بے باک مگر باحیا لکھاری، لالہ عارف خٹک

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply