اچھائی کے معیار۔۔عطا اللہ جان

کل بائیک پہ اپنے چار سالہ بیٹے عبد اللّہ کے ساتھ ایک کچے راستے پر جا رہا تھا۔ بائیک کے ساتھ ایک چھوٹی سی بالٹی بھی آویزاں تھی ،راستے کے  داؤپیچ اور گڑھوں کی وجہ سے بالٹی سے ڈھکن گر گیا  اور ہمیں پتہ بھی نہیں چلا۔ پیچھے سے ایک چھوٹا بچہ بھاگتا ہوا ہمیں آوازیں دے رہا تھا ماما ! ماما! پیچھے دیکھا تو کہا آپ کی بالٹی سے یہ ڈ ھکن  گر گیا۔مجھے تو بچے کا یہ عمل بہت پسند آیا  اور  عبداللّہ بھی  یہ منظر دیکھ کر بہت متاثر ہوا ،مجھے کہنے لگ کہ  بابا یہ لڑکا شریف ہے نا، میں نے کہا ہا ں نایہ بہت اچھا لڑکا ہے۔

پھر کہا یہ سب کے ساتھ ہاتھ بھی ملاتا ہے نا ،میں سمجھ گیا کہ وہ یہ کس لئے کہنا چاہتا ہے، میں نےہاں میں جواب دیا، تو کہنے لگا میں بھی لوگوں کے ساتھ ہاتھ ملاتا ہوں، میں نے کہا ہاں بیٹا تم بھی بہت اچھے  بچے ہو۔

دراصل لوگوں کے ساتھ اچھائی کے ہر کسی کے اپنے معیار ہیں ، اب اس بچے کے ذہن میں کسی کے ساتھ بھلائی یہ ہے کہ اس کے ساتھ ہاتھ ملاؤ۔ہمارے ہاں جب آپ کسی کو کہو کہ میں لوگوں کے ساتھ بھلائی کرنا چاہتا ہوں، تو اس کا پہلا سوال کیا ہوتا ہے آپ نے کتنے  روپے  پیسے  لوگو ں میں بانٹے۔

میں ان سے پوچھتا ہو ں،میں کتنا بانٹ سکتا ہوں۔

لاکھ دو لاکھ ،دس لاکھ پچاس لاکھ ،پھر تو میرے ساتھ بھی ختم ہو جائینگے۔۔

کیو ں نا کچھ نہ ختم ہونے والی چیز بانٹی  جائے، جو نہ تو ختم ہوتی ہو اور جسے آپ ہر کسی کےساتھ اور ہر جگہ اور بار بار بانٹ سکتے ہیں ، وہ ہے آپ کا  علم ،آپ کی سمجھ ،آپ کی سکلز، جسے استعمال کرکے یا بتا کر آپ کسی کو صحیح راستے پر ڈال سکتے ہیں۔ ان کے ساتھ بھلائی کر سکتے ہیں، ان کو غلط راستے سے روک سکتے ہیں۔

ان کی زندگی میں مثبت سوچ لا سکتے ہیں اور مزے کی بات یہ ہے کہ اس سے ان کو جتنا فائدہ ہوگا اس سے کئی گنا خود آپ کو ہوگا۔

Advertisements
julia rana solicitors london

یہ اسلام کا بھی حکم ہے اور تقریباً تمام دوسرے مذاہب بھی اپنے  پیروکاروں کو یہی حکم دیتے  ہیں ، کہ لوگوں کے ساتھ بھلائی کرو اوران کی زندگیوں میں آسانیاں لاؤ۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply