سول-ملٹری تعلقات اور فوجی قیادت.ایمل خٹک

پارلیمان کے دونوں ایوانوں یعنی قومی اسمبلی اور سینٹ کی قائمہ کمیٹی برائے دفاع کے اراکین سے پاکستانی فوج کے سرابراہ جنرل قمر جاوید باجوہ کی حالیہ ملاقات اوربات چیت کئی حوالوں سے اہم ہے ۔ جو تفصیلات ذرائع ابلاغ کے ذریعے سے ملی ہیں ، اس بناء پر اس بات چیت کےچند اہم نکات یہ ہیں ۔

پاکستان کے آرمی چیف جنرل باجوہ نے اور باتوں کے علاوہ فوج اور سیاستدانوں کے ڈائیلاگ پر زور دیتے ہوئے کہا ہے کہ وہ پرانی روایات توڑنا چاہتا ہے ۔ انہوں نے کہا کہ آرمی چیف پارلیمان کیوں نہیں جاسکتا اور اراکین پارلیمان ان کے پاس کیوں نہیں آسکتے ۔ انہوں نے مزید کہا کہ سول-ملٹری تعلقات میں کوئی تناؤ نہیں اور یہ کہ وہ ذاتی طور پر جمہوری اداروں کی مضبوطی اور استحکام کا حامی ہے ۔

عام حالات میں اور جمہوری ممالک میں فوجی سربراہ کے بیان پر تبصرے اوّل تو عموماً کیے نہیں جاتے مگر اس پر رائے زنی ناپسندیدہ سمجھی  جاتی  ہے ۔ ایک تو فوجی سربراہ پیشہ وارانہ امور پر بات کرتے ہیں اور باقی حکومتی اور ریاستی معاملات سے اس کا تعلق نہیں ہوتا اور نہ وہ کبھی اس پر تبصرہ کرتے ہیں ۔ لیکن پھر وہی بات کہ پاکستان کا معاملہ مختلف ہے ۔ یہاں فوجی سربراہ اپنے آپ کو صرف پیشہ وارانہ امور تک محدود رکھنے کا پابند نہیں ہوتا ۔ کیا اچھا ہوتا کہ دیگر جمہوری معاشروں یا ہمارے ہمسایہ ممالک کی طرح ہمارے فوجی افسر بھی اپنے آپ کو پیشہ وارانہ امور تک محدود رکھتے۔

دیگر مہذب ممالک کی طرح پاکستان کے آئین ، قانون اور رولز آف بزنس میں بھی مختلف آئینی اور ریاستی اداروں کے فرائض اور اختیارات کا کم وبیش تقریبا ویسا ہی تعین کیا گیا ہے ۔ہر ریاستی ادارے کا دائرہ کار متعین ہے ۔ لیکن پاکستان کی تاریخ آئین ، قانون اور رولز آف بزنس سے روگردانی اور بعض اداروں کی اپنے آپ کو دیگر اداروں سے بالاتر اور قانون سے مبرا سمجھنے کی واقعات سے بھری پڑی ہے ۔

اس ملک میں بحریہ اور فضائیہ کے سربراہان بھی ہیں مگر بہت کم لوگوں کو ان کے نام معلوم ہیں  اور پیشہ وارانہ وقار اور ساکھ کے تقاضے پیش نظر رکھتے ہوئے بہت کم مواقع پر وہ پبلک ہوتے ہیں اور پیشہ وارانہ امور کے علاوہ دیگر قومی امور پر بہت کم بولتے ہیں ۔ مگر آرمی چیف کی بات اور ہے ۔ یکے بعد دیگرے سربراہان نے اس عہدے کو متنازعہ بنایا ۔ فوج کا محکمہ تعلقات عامہ اور بعض دیگر متعلقہ ادارے چیف کی عوامی امیج اور شخصیت سازی میں مصروف رہتے ہیں ۔ سابق آرمی چیف کے دور میں تو یہ عمل انتہا کو پہنچا اور وہ ایک پیشہ ور فوجی سے زیادہ ایک سیاستدان زیادہ نظر آئے ۔

یہی وجہ ہے کہ عوام نے کبھی بحریہ یا فضائیہ کے چیف کو موضوع سخن نہیں بنایا مگر بری فوج کے سربراہ ہمیشہ زیر بحث رہتے ہیں ۔ اور اسی بات کو سمجھنے کی ضرورت ہے ۔ اگر کوئی بھی یونیفارم والا فرد اپنے آئینی دائرہ کار اور اختیار کے اندر رہ کر پیشہ وارانہ فرض استعمال کرے گا تو کوئی مسئلہ نہیں ہوگا ۔ مسئلہ تب بن جاتا ہے جب آئینی مینڈیٹ سے تجاوز کیا جاتا ہے ۔ دیگر ریاستی اداروں کے آئینی اختیارات کا احترام نہیں کیا جاتا اور جس کی لاٹھی اس کی بھینس کا اصول اپنایا یا رائج کیا جاتا ہے ۔

بظاہر تو آرمی چیف کی باتوں میں کھلا پن اور روایات توڑنے کا عندیا دیا جارہا ہے ۔ اور یہی دعا ہے کہ خدا ان کو غلط روایات توڑنے کی توفیق دے ۔ ملک میں بگاڑ کی ایک اہم وجہ فوج کی جانب سے سیاسی معاملات میں مداخلت کی غلط روایت بھی ہے ۔ سیاسی معاملات میں مسلسل کبھی بالواسطہ اور کبھی بلاواسطہ مداخلت کی وجہ سےفوج کی عمومی ذہنیت ایسی بن چکی ہے جس کے تحت سویلین اور بالخصوص سیاستدانوں کو کمتر، حقیر اور نا اہل سمجھا جاتا ہے ۔ کرپشن کا ناسور پاکستانی معاشرے کی رگ رگ میں پھیل چکا ہے اور کوئی بھی جب چاہے جرنلسٹ ہو یا جج یا جنرل اس برائی سے محفوظ نہیں۔ ریاست کے تمام اداروں میں کرپشن ، اقربا پروری اور بےقاعدگیاں بڑھ چکی ہے۔ اگر ملک کے کئی وزراء اعظم پر کرپشن کے الزامات ہیں تو کئی سابق فوجی سربراہان بھی اس الزام سے مبرا نہیں یہ اور بات ہے کہ ملک میں احتساب کا عمل یکطرفہ اور سلیکٹو ہوتا ہے۔ اور زیادہ تر سیاستدانوں کا احتساب ہوتا رہا ہے۔

بدقسمتی سے ملک کو سنگین سے سنگین تر بحرانوں کا سامنا زیادہ تر فوجی آمریتوں کے دور میں ہوا ہے۔ پہلے فوجی آمر کے دور میں مشرقی پاکستان کی علیحدگی کی بنیادیں ڈالی گئیں  اور دوسرے آمر کے دور میں یہ بنیادیں مزید گہری ہوئیں  اور اس کے نتیجہ میں ملک دولخت ہوا۔ جنرل ضیاء کے دور میں انتہا پسندی کی عفریت کو ابھرنے دیاگیا اور اس کے بطن سے  مختلف قسم کی عسکریت پسندی کے بچے پیدا ہوئے۔ جنرل مشرف کا دور بھی کئی حوالوں سے مشہور ہے ۔ عسکریت پسندی اتنی پھیلی کہ کوئی چھاؤنی ، ائیر بیس اور حتی کہ جی ایچ کیو اور انٹیلی جنس اداروں کے دفاتر تک محفوظ نہیں رہے۔ کئی فوجی افسران سرکاری گاڑیوں کی بجائے پرائیوٹ اور یونیفارم پہنے اور فوجی ہیر کٹ رکھنے سے اجتناب کرتے تھے یا ان کو ایسا کرنے کی ہدایت تھی۔

دنیا کے دیگر ترقی یافتہ ممالک تو چھوڑئیے اگر پاکستان کے آئین اور قانون کی بات کی جائے اور اس پر عمل کیا جائے تو کسی کو کسی کے پاس جانے کی ضرورت ہی پیش نہیں آئے گی ۔ اور معاف کیجئے پھر نہ کسی پیشہ ور فوجی کو جمہوریت کو مضبوط اور مستحکم کرنے کی ضرورت پیش آئی گی ۔ کیونکہ جمہوری معاشروں میں یہ فوج کا کام نہیں۔ اگر ہر ادارہ اپنے اپنے آئینی مینڈیٹ کے مطابق چلے تو سول- ملٹری تناؤ کی نوبت ہی نہیں آئے گی کیونکہ سول-ملٹری تعلقات میں سنگین کشیدگی اور تناؤکی وجوہات ختم ہوجا ئیں گی ۔ یہاں تو معاملات سارے الٹے ہیں ۔

اسی ملاقات کو لے لیتے  ہیں، کسی بھی جمہوری ملک میں پڑوسی ممالک سے تعلقات پر بریفنگ فوج کا نہیں وزارت خارجہ کا کام ہوتا ہے ۔ ڈائرکٹرجنرل ملٹری آپریشنز عموماً فوجی اور پیشہ وارانہ نوعیت کے معاملات پر بریفنگ دیتے ہیں اور خارجہ تعلقات پر بریفنگ کا فریضہ وزارت خارجہ کے افسران کا ہوتا ہے ۔ اگر ملک کی خارجہ پالیسی وزارت خارجہ کی بجائے کوئی اور ادارہ چلانے لگے تو ایسے میں اگر وزیر خارجہ ہوتے بھی تو کیا کرتے ۔ ملک کی سفارتی تنہائی اور ناکامی کی ذمہ دار وزارت خارجہ نہیں بلکہ وہ ادارے ہیں جو ملک کی اہم داخلہ اور خارجہ پالیسیاں بناتے ہیں۔

آرمی چیف کے ان خیالات اور خلوص نیت پر شک کی کوئی گنجائش نہیں مگر ادارے کے سربراہ اور ادارے کے دیگر بازوؤں اور ماتحت اداروں کی سوچ اور عمل میں کافی تضاد پایا جاتا ہے ۔ فوجی آمر جنرل پرویز مشرف کے دور سے ادارے کے اندر یہ تضاد زیادہ واضع نظر آنا شروع ہوگیا تھا۔ اس وقت لبرل اور مذہبی لابیوں کی بات ہو رہی تھی ۔ تاریخی دھرنوں کے موقع پر ادارے کی جانب سے مکس سگنل مل رہے تھے۔ موجودہ دور میں آئی ایس پی آر کا ایک متنازعہ پریس ریلیز آئی  ۔ مسلم لیگی راہنما انتخابات میں بعض اداروں کی مداخلت اور اپنے بندوں کے اٹھائے جانے کا دعوی کر رہے ہیں اور آرمی چیف کلثوم نواز کی الیکشن میں کامیابی کی مبارکباد دے رہے ہیں ۔ کہا جاتا ہے کہ سربراہان کی  جمہوری حکومتوں سے بہتر تعلقات کی کوشش یا سیاسی معاملات عدم مداخلت کی پالیسی ادارے میں نہ تو پسند کی جاتی  ہے اور نہ برداشت۔

اس طرح فوج سے قربت رکھنے والے یا فوج کے ماتحت کچھ ویب گروپس اور دیگر سوشل میڈیا پر سیاسی قائدین کی کردار کشی ، ان کی حب الوطنی پر شک اور ملک سے غداری کے فتوے عام سی بات ہے ۔ ایک مخصوص سیاسی جماعت کی حمایت اور حتی کہ مسلم لیگ کے قائدین اور میاں نواز شریف کے خاندان کے دیگر افراد کی کردار کشی فیشن بن گیا ہے ۔ سوشل میڈیا پر فوجی وردی میں ملبوس افسران کی ویڈیو موجود ہیں جس میں ملک کے منتخب وزیراعظم کو ملک دشمن قرار دیا جا رہا ہے۔ بعض باخبر لوگ تو یہ تک کہتے ہیں کہ ادارے کے سربراہ کے علم میں لائے بغیر بہت سے کام ہوتے ہیں اور ماتحت ادارے اپنا کام کرتے رہتےہیں ۔

بدقسمتی سے اداروں میں ایک مخصوص قسم کی ذہنیت پروان چڑھی ہے جس کے مطابق اگر کوئی اور ریاستی ادارہ یا سرکاری اور حکومتی شخصیت ان کی طرح نہیں سوچتی اور یا ان کے بیانیوں کو چیلنج کرتی ہے تو اس کی حب الوطنی مشکوک اور سکیورٹی رسک بن جاتی ہے ۔ اس مخصوص ذہنیت کا نشانہ پہلے پہل صرف حزب اختلاف جو زیادہ تر جمہوری ، روشن خیال اور قوم پرست جماعتیں ہوا کرتی تھیں ،پھر آہستہ آہستہ اس کیٹیگری میں مرکز گریز قوتوں کے ساتھ ساتھ مرکز پسند قوتیں بھی یعنی حکمران جماعتیں بھی شامل ہونے لگیں اب تو معاملہ بہت آگے جاچکا ہے ۔ پاکستان واحد ملک ہے جہاں کے ریاستی ادارے کئی وزراء اعظم کو سکیورٹی رسک قرار دے چکے ہیں  اور ریاستی وسائل منتخب حکومتوں کی کردار کشی اور ان کی حکومتیں گرانے میں صرف کیے جاتے ہیں۔

اس مخصوص ذہنیت کا اظہار قانون سے اپنے آپ کو مبرا اور بالا تر سمجھنے میں بھی نکلتا ہے ۔ اس طرح قانون کا احترام سب پر فرض اور کسی کو قانون کے پرخچے اڑانے کی اجازت نہیں ۔ جرم جرم ہوتا ہے چاہے ایک عام شہری کرے یا ایک یونیفارم والا ۔ نہ تو قانون نہ مذہب نے کسی فرد کو جرم سے مستثنی یا مبرا قرار دیا ہے ۔ قانون شکنی جو بھی کرے اس کو سزا ملنی چاہیے۔ یہ حقیقت اب تسلیم کرنا ہوگی کہ اب مقدس گائے والا تصور نہیں رہا۔ اب کوئی ادارہ یا شخصیت تنقید سے مبرا نہیں ۔ اور نہ اب اظہار رائے یا معلومات کے ذرائع پر کسی ادارے کا کنٹرول ممکن رہا ہے ۔

بعض ریاستی اداروں کے زیر کنٹرول سوشل میڈیا یا جن پر ان اداروں سے تعلق کا شک کیا جاتا ہے اور یا وہ خود ایسے نام استعمال کرتے ہیں اور ان اداروں سے تعلق ظاہر کرتے ھیں وہ کھلم کھلا موجودہ حکومت کی اہم شخصیات پر غداری اور ان کی حب الوطنی کو داغدار بنانے پر تلے ہوئے ہیں ۔ حتی کہ آج کل ایک یونیفارم پہنے شخصیت کی ویڈیو سوشل میڈیا پر گردش کر رہی ہے جس میں وہ ایک اہم حکومتی شخصیت پر بہتان تراشی میں مصروف ہیں ۔

ریاستی اداروں کی میڈیا  انگیجمنٹ  یا مینجمنٹ  بہت زیادہ بڑھ چکی ہے ۔ بدقسمتی سے میڈیا میں بھی بٹ مین کلچر سرایت کرگیا ہے اور یہ کلچر نئی شکل میں رائج ہوچکا ہے۔ نیو بٹ مین برش سے تو نہیں قلم اور کیمرے سے بوٹ پالش کرنے میں مصروف ہیں ۔ میڈیا میں نیو بٹ مینوں کے عروج کے پیچھے سالوں کی محنت اور مالی فوائد اور مراعات کا پورا سسٹم کارفرما ہے ۔ نیو بٹ مین ریاستی بیانیوں کو جواز فراہم کرنے کے ساتھ ساتھ سول قیادت کی کردار کشی اور عسکری قیادت کی شخصیت سازی میں مصروف ہیں ۔ ایک کو ولن اور دوسرے کو ہیرو یا مسیحا کے طور پر پیش کیا جاتا ہے ۔ اس سلسلہ کو ختم کرنے کی ضرورت ہے ۔ میڈیا انگیجمنٹ  ہونی چاہیے وہ بھی پیشہ ورانہ امور کے لیے نہ کہ ماورا آئینی کردار کے لیے میڈیا مینی پولیشن۔

Advertisements
julia rana solicitors

آئین اور قانون کی بالادستی کو قائم ، بلا امتیاز اور غیر جانبدارانہ احتساب اور قانون کے سامنے سب کی برابری کے اصول کو عملاً نافذ کرنا ہوگا، تب بات آگے بڑھے گی ورنہ حالات تیزی سےبد سے بد تر ہوتے جارے ہیں ۔ اوراس کی ذمہ داری سب پر عائد ہوتی ہے ۔ اس طرح انتہاپسندی کے خاتمے کے لیے ریاست کو واضع پالیسی اعلان کرنا ہوگا اور عسکریت پسند ریاستی پالیسیوں کو خیر آباد کہنا ہوگا۔ اچھے اور بُرے عسکریت پسند کی تمیز ختم کرنا ہوگی ۔ دہشت گردی کرنے والے چاہے ملک کے اندر کارروائی کریں یا پڑوس میں وہ دہشت گرد ہیں ۔

Facebook Comments

ایمل خٹک
ایمل خٹک علاقائی امور ، انتہاپسندی اور امن کے موضوعات پر لکھتے ھیں

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply