• صفحہ اول
  • /
  • نگارشات
  • /
  • میرے عہد کی بیٹیاں ازمنہ قدیم کی بیٹیاں نہ بنیں۔۔ بلال شوکت آزاد

میرے عہد کی بیٹیاں ازمنہ قدیم کی بیٹیاں نہ بنیں۔۔ بلال شوکت آزاد

میری شادی 13 جنوری 2012 میں ہوئی اور مجھے پہلی اولاد اللہ نے 25 جولائی 2014 میں عطاء کی  ۔ وہ ایک بیٹا تھا (جس کا نام ریان بن بلال رکھا تھا) جو پری میچور برتھ اور میرے آبائی شہر میں ناقص طبی سولیات کے فقدان کی وجہ سے دو دن میں داعی اجل کو پیارا ہوگیا۔

جنوری 2012 سے لیکر جولائی 2014تک اللہ نے تین دفعہ گود ہری کی لیکن وہ ابارشنز اور مس کیرجز کی بھینٹ چڑھتی رہی اور چوتھی بار حمل آٹھ ماہ تک گیا اور پھر حسب ِ معمول ہمارے ہاں سی سیکشن کے پروان چڑھتے کلچر کی بدولت پری میچور پیدائش کی وجہ سے بیٹا دو دن گود میں کھلایا اور پھر خود اپنے ہاتھ سے قبر میں سلادیا۔

مجھے یاد ہے جس دن میرا بیٹا اللہ کو پیارا ہوا اس دن رمضان کی ستائیسویں شب تھی اور اس رات ساری نشانیاں شب قدر کی جانب دلالت کر رہی تھیں۔

صبح ستائیسواں روزہ تھا جبکہ میں اور میری اہلیہ ساری رات اس غم میں ہلکان ہوتے رہے لیکن پھر جلد ہی ہم نے صبر اور شکر کیا اور الاعلان اللہ کی رضا میں راضی ہوگئے کہ اس میں اللہ کی طرف سے ہمارے لیے بہتری ہوگی۔

کوئی اندازہ کرے کہ پہلی دفعہ اولاد ہاتھ میں آنے کے فوراً بعد اللہ واپس لے لے اور جب آپ اپنی اولاد کو دفنا کر لوٹیں تو ٹھیک دو دن بعد عیدالفطر کی خوشیاں چہار سو پھیلی ہوں تو آپ کے دل پر کیا بیتے گی؟

خیر میں اہلیہ کو میکے آرام اور سکون کی غرض سے چھوڑ کر واپس لاہور آگیا کہ مجھے اب صادق آباد کاٹ کھانے کو دوڑ رہا تھا۔اہلیہ مکمل صحتیاب ہوکر ستمبر میں واپس لوٹیں اور ہم اپنی زندگی میں مگن ہوگئے کہ اللہ صبر اور شکر کرنے والوں کو پسند کرتا ہے۔

اللہ نے جلد ہی ہمیں پھر خوشخبری دی کہ ہم دوبارہ ماں باپ بننے والے ہیں۔ ۔ ۔

اب کے مجھے فارما میں آئے ہوئے لگھ بھگ دو سال ہوچکے تھے اور میں خود طبی معاملات کی کافی معلومات رکھتا تھا اور یہ کہ میرے اب لاہور کے منجھے ہوئے ڈاکٹرز سے ذاتی و پیشہ ورانہ تعلقات استوار ہوچکے تھے لہذا میری لسٹ میں تجربہ کار اور انتہائی نیک سیرت گائناکالوجسٹ میڈم سنبل خالد کو میں نے اپنی اہلیہ کے لیے چنا اور ان سے چیک اپ اور ڈیلیوری کے معاملات طے کیے۔

اور پھر 5 جون دوہزار پندرہ میں اللہ نے مجھے ایک صحت مند اور خوبصورت بیٹی عطاء کی (جس کا نام میں نے بڑے چاؤ سے فامیہ شاریہ رکھا) تو تب ہسپتال میں مبارکی مبارکی ہی دس ہزار بانٹ دی جبکہ رشتہ داروں اور دوست احباب کو مٹھائی دیکر روایت توڑ دی کہ بیٹی کی پیدائش باپ کا کندھا جھکاتی ہے۔

میری بیٹی دنیا میں جب آئی تو پہلا ہاتھ میرا تھا جس نے اس کو اٹھایا اور مجھے آج بھی اس کی گول مٹول کھلی ہوئی آنکھیں یاد ہیں جن سے وہ مجھے تکتی جارہی تھی اور میں بھیگی آنکھوں سے اسے تک رہا تھا کہ اللہ نے مجھے نعمت دے کر واپس لے لی تھی اور اب مجھ پر رحمت کا نزول کردیا ہے۔

وہ احساس میں بیان نہیں کرسکتا کہ کیسا تھا۔ ۔ ۔ حالانکہ بیٹا ہوا تھا تب بھی مجھے خوشی اور دلکش احساس تھا لیکن بیٹی کا باپ بن کر جو لطیف احساس دل میں پیدا ہوا وہ بالکل مختلف تھا۔

پھر اسی طرح 4 فروری دو ہزار سترہ میں اللہ نے ایک بار پھر مجھے رحمت سے نوازا۔  ۔ اب کی بار بھی میں نے کوئی کمی نہ رکھی مبارکیاں اور مٹھائیاں ویسے ہی بانٹیں  جیسے پہلے بیٹے اور بیٹی کی بار بانٹی تھیں اور (اس بیٹی کا نام بھی بڑے مان سے عزاء لیانة رکھا) خوب خوشیاں منائیں کہ جیسے حق تھا۔

لوگ اور رشتہ دار اب دبے دبے انداز میں مجھے بیٹی کی پیدائش پر روایتی باتیں کرنے لگے تھے لیکن میں نہایت سخت طبیعت کا داماد اور بیٹا واقع ہوا ہوں ایسے معاملات میں لہذا جس نے اوٹ پٹانگ بات کی اس کی طبیعت صاف کردی اور صاف صاف کہہ دیا کہ جس کسی نے دوبارہ   بالخصوص میری بیٹیوں کی بابت جہالت   دکھائی تو وہ پھر میرے غیض و غضب کا شکار ہونے کو تیار رہے۔

دوسری بیٹی کی پیدائش بھی میڈم سنبل خالد کے ہاتھوں ہی ہوئی کہ اب میں نے میڈم کو خاندانی گائناکالوحسٹ منتخب کرلیا ہوا تھا۔

اب جب دونوں بیٹیاں ہوش میں آئیں اور ارد گرد کزنز میں لڑکوں یعنی بھائیوں کی بہتات دیکھی تو انہیں بھی بھائی کی خواہش اور حسرت ہونے لگی لیکن مجال ہے کہ ہم میاں بیوی کے دماغ یا زبان پر اراداتاً بیٹے کی خواہش آئی ہو۔

تیسری بار اللہ نے خوشخبری دی تو ہر ایک ہمیں اولاد ِنرینہ کی دعا دینے لگا لیکن ہمارا بس ایک ہی سٹانس تھا کہ بیٹا ہو یا بیٹی، بس صحت مند بچہ پیدا ہو۔

اور یہ بھی فیصلہ کیا کہ اب کی بار بیٹا ہو یا بیٹی ہم اللہ کا شکر ادا کریں گے اور اہلیہ کے اوپر تلے سی سیکشن کی وجہ سے صحت پر بُرے اثرات کے پیش نظر یہ سلسلہ بند کردیں گے۔

ڈاکٹر سے بھی یہ بات ڈسکس کرلی کہ اس بار سی سیکشن پر باقی معاملات بھی دیکھ لیں  ۔ میڈم نے تب تو حامی بھرلی لیکن جب 21 اپریل دوہزار انیس کو اللہ نے پھر بیٹی کی رحمت سے نوازا (جس کا نام میں نے وانیہ عابیر رکھا) تو میڈم نے مزید بچے پیدا نہ کرنے کے سلسلے کو بند کرنے سے انکار کردیا بلکہ ہمیں جھڑک دیا کہ ایک ٹرائی اور کرلو اللہ بیٹا دے گا پھر میں آپریٹ کردوں گی ورنہ ڈرنے کی بات نہیں میرے ہاتھوں کئی خواتین دس دس سی سیکشن کرواکر بھی صحت مند پھر رہی ہیں۔

ایسا نہیں کہ میڈم کو بیٹیوں سے الرجی تھی بلکہ وہ اللہ کی جانب سے معجزوں پر ایمان رکھتی تھیں  اور یہ کہ بہنیں بھائی کی کمی محسوس کرتی ہیں اس بات کا انہیں بھی شدت سے احساس تھا البتہ میری بیٹیوں سے میری محبت پر انہیں بھی رشک تھا۔

خیر ہم نے اس سب معاملے کو اللہ کا اشارہ سمجھ کر صبر اور شکر سے تیسری بیٹی کی خوشی منائی اور ویسے ہی مٹھائی تقسیم کی جیسے کہ پہلی اولاد پر کی جاتی ہے۔

اسی طرح مزید دو سال گزرے تو اللہ نے پھر خوشخبری دی اور اس بار ہر ایک بشمول میرے سوشل میڈیائی احباب نےبھی مجھے اولاد نرینہ کی دعائیں دینا شروع کردیں, بیٹیاں باجماعت اللہ جی ہمیں بھائی دیدو کی گردان نما دعائیں کرنے لگیں  اور بالآخر اللہ نے سب کی دعائیں قبول کیں اور اس دفعہ 16 جولائی دوہزار اکیس کو بیٹے (اس کا نام میں نے آدم عرِیش رکھا ہے) کی نعمت سے نواز۔ ۔ ۔ ہم نے اللہ کا اس پر بھی ویسا ہی شکر ادا کیا جیسا ہر بیٹی کی پیدائش پر کیا اور سب سے بڑھ کر میری بیٹیوں کی خوشی نے مجھے اور میری اہلیہ کو سرشار کیا کہ بیشک ہمیں اولاد نرینہ کی ویسی طلب اور خواہش نہ تھی جیسی ہمارے سماج میں روا ہے بلکہ ہم نے ہمیشہ صحت مند اولاد کی خواہش کی خواہ وہ بیٹا ہو یا بیٹی لیکن ہاں بیٹیوں کی بابت میرا رویہ روایت سے ہٹ کر اور بہت متضاد تھا, ہے اور رہے گا۔

میڈم بھی اس دفعہ بہت خوش تھیں اور کہنے لگیں کہ میں تو کہتی ہوں ابھی بھی سوچ لو۔ ۔ ۔ کیا پتہ اللہ جوڑی ملادے۔ ۔ ۔ لیکن مجھے اپنی اہلیہ سے بہت پیار ہے اور ان کی بہت فکر ہے کہ دس سال میں پانچ سی سیکشن اور تین مس کیرجز و ابارشن سے ان کی صحت پر بہت سمجھوتہ ہوچکا تھا لہذا اب اللہ کا شکر ادا کرتے ہوئے شریعی مجبوری کی تحت آپریٹ کی اجازت دیدی (حالانکہ دوبارہ بچے کی خواہش پر یہ آپریٹ دوبارہ بھی ممکن ہے لیکن میں نے بیگم کو ازراہ مذاق کہہ دیا ہوا ہے کہ اگر مجھے اور بچوں کی خواہش ہوئی تو میں دوسری بیگم لے آؤں گا لیکن اب تمہاری جان پر نہیں بننے دوں گا۔)۔

خیر یہ ساری داستان بیان کرنے کی وجہ آج کی وہ دلخراش خبر ہے جس میں ایک سنگدل اور بیغیرت باپ نے دور جاہلیت کے عربوں کی رسم دہرائی کہ سات دن کی نومولود بیٹی کو بتیس بور پسٹل سے پے درپے فائر کرکے قتل کردیا۔ ۔ ۔ بیٹی کا نام تھا جنت جو اب جنتوں کی مہمان بن گئی لیکن اس سنگدل باپ کی اس حرکت نے میرے جیسے باپ کی روح کو زخمی کردیا کہ مجھے ہر بیٹی ہی میری بیٹی لگتی ہے اور جب جب میں کسی بیٹی کی بابت ایسی خبر سنتا پڑھتا ہوں تو رو پڑتا ہوں کہ کاش اللہ مجھے اتنی دولت دے کہ میں دنیا بھر میں اعلان کروادوں کہ جس کسی کو بیٹی ہو اور وہ نہ رکھنا چاہے تو وہ خدارا اس کا قتل نہ کرے بلکہ مجھے بھیک میں دے دے کہ میں اس کا باپ بن کر اسکی پرورش کرسکوں لیکن کیا کریں کہ یہ بس ایک خواہش اور کاش ہے جو اللہ جانے پوری ہوگی یا نہیں لیکن نیت کا بھی ثواب ہے تو اللہ میری نیت ہی قبول کرلے۔

میری تین بیٹیاں ہیں اور اللہ جانتا ہے کہ میری ان تینوں میں جان اٹکی ہوئی ہے۔  کبھی کبھی تربیت کی غرض سے اہلیہ کے حکم پر بیٹیوں کو سخت سست کہہ دوں تو دل عجیب سا ہوجاتا ہے اور جب تک انہیں منا نہ لوں دل پھٹنے والا ہوجاتا ہے جبکہ جتنی میری ان تینوں میں جان پھنسی ہوئی ہے اتنا ہی ان تینوں کی جان اپنے اکلوتے بھائی میں اٹکی ہوئی ہے۔

اللہ کے بندوں اولاد اللہ کی بہت بڑی نعمت ہے۔ ۔ ۔ خواہ بیٹا ہو یا بیٹی, اللہ جو بھی دے اس پر اللہ کا شکر ادا کرو اور صبر و شکر سے ان کی پرورش میں جت جاؤ۔

میں بارہا اپنی بیٹیوں کی تصاویر اپنے ساتھ شیئر کرتا اور ان سے محبت کا برملا اظہار جان بوجھ کر کرتا ہوں۔ ۔ ۔ اس کے پیش نظر میرا یہی مطمح نظر ہوتا ہے کہ بیٹیوں کی حیثیت اور قدروقیمت کو معاشرے میں نارملائز کروں اور جس کسی کے دل میں رتی برابر بھی بیٹی کو لیکر کوئی منفی بات ہے وہ ختم کرسکوں کیونکہ ہم وہی کرتے ہیں جو سب کرتے ہیں اور جب سب بیٹیوں سے محبت کا رویہ عام کریں گے تو بھیڑ چال ہی صحیح یہ ہماری بیٹیوں کو محفوظ کردے گی۔

خدارا بیٹی کی پیدائش پر بھی ویسے ہی خوشی مناؤ جیسے بیٹے کی پیدائش پر خوشی مناتے ہو کہ بیٹیاں تو اللہ کی وہ رحمت ہیں جو اللہ بہت خوش ہو تب دیتا ہے۔

میرے عہد کی بیٹیاں ازمنہ قدیم کی بیٹیاں نہ بنیں, یا اللہ اسلام کی روشنی تمام بیٹیوں کے باپوں میں داخل کردے۔ آمین۔

Advertisements
julia rana solicitors london

اللہ میری بیٹیوں کے نصیب اچھے کرے, ان کو ہدایت پر رکھے اور اپنے بھائی کی آنکھ کا تارہ بنائے اور ان بہن بھائیوں میں مثالی محبت قائم کرے۔ آمین۔

Facebook Comments

بلال شوکت آزاد
بلال شوکت آزاد نام ہے۔ آزاد تخلص اور آزادیات قلمی عنوان ہے۔ شاعری, نثر, مزاحیات, تحقیق, کالم نگاری اور بلاگنگ کی اصناف پر عبور حاصل ہے ۔ ایک فوجی, تعلیمی اور سلجھے ہوئے خاندان سے تعلق ہے۔ مطالعہ کتب اور دوست بنانے کا شوق ہے۔ سیاحت سے بہت شغف ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply