کالے مول نہ ہوندے بگے ۔۔۔۔ عبدالرحمن

“صفائی نصف ایمان ہے ”

حضور والا آپ کو معلوم ہو گا کہ یہ حدیث ہے اور مستند ہے۔گئے دنوں کی بات ہے کہ جب کبھی میں اس حدیث کو دیکھتا تو شکوک شبہات مجھے اپنے گھیرے میں لے  لیتے ۔  اکثر ایسا ہی ہوتا ہے کہ جب کبھی مجھے کوئی بات نہ بھائے تو شکوک و شبہات مجھے آن گھیرتے ہیں اور میرے ارد گرد لڈی ڈالتے ہیں اور میں ان کا منہ تکتا رہتا ہوں ،خیر میرے شکوک  و شبہات مجھے کہتے ہیں  کہ صفائی نصف ایمان کیسے ہو سکتی ہے، آخر کیسے؟؟ حدیث بھی مستند ہے لہذا شک کی کوئی گنجائش نہیں رہتی  مگر یہ کیسے ممکن ہے کہ اتنی چھوٹی سی بات پر ایمان کا آدھا حصہ وقف ہے  یا تو یہ بات مستند نہیں یا پھر میرا شعور اسے سمجھنے سے قاصر ہے۔

خدا کے بھی عجیب گورکھ دھندے ہیں۔ شعور دینے پر آئے تو زمین آسمان کے اسرار و رموز کھول کے رکھ دیتا ہے، اتنا شعور دیتا ہے کہ جابحا ان الحق اور ھو کی آوازیں گونجتی ہیں اور لینے پر آئے تو،   کچھ نظر ہی نہیں آتا، سامنے پڑی چیز چیز نہیں لگتی ،سامنے پڑا سچ، سچ نہیں لگتا جھوٹ، جھوٹ نہیں لگتا، سامنے پڑا حسن حسن نہیں لگتا،شعور کی کمی ہو تو چراغ کی لو سے بھی انسان گھبراتا ہے کہ کہیں دامن نہ جل جائے ، روشنی سے ڈرتا ہے کہ آنکھیں خراب نہ ہو جائیں، وللہ عالم یہ گورکھ دھندے اسی رب کی دانست میں ہیں وہی جانے۔

تو حضور یہ حدیث مجھے پریشان کرتی رہی کہ صفائی نصف ایمان کیسے ہو سکتی ہے؟ بندہ صاف ستھرے کپڑے پہن، غسل کر اور اپنے اردگرد کو صاف ستھرا کرکے  ایمان کا آدھا سمندر کیسے پار کر سکتا ہے ؟؟ ایمان کے اس سمندر میں صفائی کی یہ کشتی مجھے تیرتی نظر نہ آتی تھی؟ بس صفائی ؟؟نہیں یہ کیسے ہو سکتا ہے؟ چند دنوں کی بات ہے کہ اچانک کسی مبارک گھڑی یہ راز مجھ پر  کُھلا ا اور ایسا کھلا کہ دل سبحان اللہ کے فلک شگاف نعرے سے گونج اٹھا اور حدیث کے بڑے پن پر میری روح بھیگ گئی۔واقعی اللہ اور اس کے رسول کی باتیں عام باتیں نہیں ہیں۔ ہم جنھیں صحیح سالم، بغیر کسی غور و فکر کے اپنا لیتے ہیں ان کا یہ حق نہیں ہے، ہم تو ان باتوں کا حق مار رہے ہیں کیونکہ ہمیں تو حکم ہے سوچو، دیکھو، پھر دیکھو، غور سے دیکھو، شاید تمہیں کچھ مل جائے، شاید تم نقول سے نکل آؤ ، شاید تم اصل کو پا لو، شاید ، مگر ہماری مثال تو اس بچے کی سی ہے جس کو کھانے کیلئے چیز دی جائے اور وہ کھانے کی بجائے اسے اپنی جیب میں ڈال لے۔

خیر بات حدیث کی ہو رہی تھی تو حضور ایک دن میں باطنی اور ظاہری نظام پر کچھ سوچ آزمائی کر رہا تھا کہ اس حدیث کا راز آشکار ہوا۔ ارے یہ کیا؟ وہی ہوا۔۔میں تو اس مبارک حدیث کو باہر سے دیکھتا آیا تھا، ارے حدیث اور قرآن تو ہے ہی وہ جو اندر تک سرائیت کر جائے یہ تو بات ہی اندر کی ہے۔بظاہر حدیث کا لغوی معنی تو بات ہی ہے  مگر صاحبو! ہماری بات اور ان کی باتوں میں بھلا کیا مماثلت؟؟ خیر اس حدیث کا راز کھلا تو میں عش عش کر اٹھا۔ جسے میں ظاہر کی صفائی کہہ رہا تھا وہ تو باطنی صفائی ہے، بے شک ظاہری صفائی سے زیادہ مقام باطنی صفائی کا ہے، واہ سبحان اللہ..!! باطن صاف ہو جائے تو پیچھے کیا بچتا ہے ؟ کچھ بھی تو نہیں!واقعی صفائی تو نصف ایمان ہوئی۔۔

دوستو! میرے ساتھ کافی دیر سے یہ معاملہ ہے کہ میں اپنے آپکو پاک صاف رکھنے کی تگ و دو میں مصروف ہوں، باطن چھوڑیں جی، میں تو ظاہر کی بات کر رہا ہوں۔ غسل پہ غسل، ہاتھ منہ کی صفائی کا خیال اور وغیرہ وغیرہ مگر وہ پنجابی کی کہاوت مجھ پر صحیح بیٹھتی ہے کہ “کالے مول نہ ہوندے بگے ، بھانویں صابن سو من لگے”مجھے ہمہ وقت یہ شبہ رہتا ہے کہ میرے اندر کی غلاظت میرے منہ پر ناچ رہی ہے،سو میں بھی اس خطرے کے پیش نظر کہ کوئی میری غلاظت نہ دیکھ لے، ہمہ وقت اپنے چہرے پر صابن ملتا رہتا ہوں۔ یہ بات ممکن ہے بلکہ آزمودہ ہے کہ آپ باقی دنیا کو صاف ستھرے لگیں، اچھے لگیں، ارے وہ بھی تو ظاہر دیکھتے ہیں نا۔۔ باھو ٹھیک کہتے ہیں کہ دل کے دریا تو سمندر سے بھی ڈونگھے ہیں بہت ڈونگھے، اپنا آپ تو یا ہم جانتے ہیں یا ہماری غلاظت پر پردہ ڈالنے والا جانتا ہے۔ وگرنہ کسے معلوم کہ پری چہرہ لوگوں کے پیچھے غلاظت ٹھاٹھیں مار رہی ہے،اگر پتہ چل جائے تو بھائی کون منہ لگائے؟

Advertisements
julia rana solicitors london

خدا کا شکر ہے کہ اس نے اپنے بندے کو پردوں میں چھپا رکھا ہے،خیر بات تو میری ہو رہی تھی،تو صاحبو! بات یوں ہے کہ ایک تو خدا نے مجھے پردوں میں رکھا ہے اور اوپر سے میں نے اپنی کالک پر صابن مل مل کر اسے چٹا کر دیا ہے اور خوش فہمی پال رکھی ہے کہ کوئی نہیں دیکھ رہا  مگر جب کبھی میں اردگرد اپنے احباب پر نظر ڈالتا ہوں تو انہیں دیکھ کر بھی یوں لگتا ہے کہ وہ بھی میری طرح اپنی کالک پر صابن ملنے میں شدت سے مصروف ہیں مگر ایسا لگنا بھی تو بذات خود ایک خوش فہمی ہے۔

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply