• صفحہ اول
  • /
  • نگارشات
  • /
  • امام محمد غزالیؒ اور اُن کے مزار کی حا لتِ زار۔۔۔ یعقوب محمد براہوی بلتستانی

امام محمد غزالیؒ اور اُن کے مزار کی حا لتِ زار۔۔۔ یعقوب محمد براہوی بلتستانی

حضرت امام غزالی اسلامی تاریخ کے مشہور مفکر،متکلم اور دنیائے تصوف کا وہ درخشاں ستارہ ہیں جس کی کرنیں پانچویں صدی ہجری کے وسط میں دنیائے اسلام میں نمودار ہوئیں۔حضرت ابو حامد غزالی کو اہل مغرب عظیم فلسفی، حکیم اورصوفی کے طور پرجانتے ہیں۔ مستشرقین نے آپ کے آثار پر شاندار کام کیا ہیں،آپ کی کتب و رسائل کے یورپی زبانوں میں تراجم کئے ہیں۔ آپ کی ولادت 450ھ طاہران طوس میں ہوئی اورسنہ 505ھ کو آبائی وطن میں آسودہ خاک ہوئے۔حضرت امام غزالی کے مدفن کے حوالے سے عوام و خواص میں 3 طرح کے اختلافات پائے جاتے ہیں۔ایک طبقے کا خیال ہے کہ آپ بغداد میں مدفون ہوئے شاید یہی وجہ ہے کہ بغداد میں حضرت امام غزالی سے منسوب ایک مقبرہ بنا ہو ا ہے جہاں سالانہ سینکڑوں عقیدت مند زیارت کے لیے حاضر ہوتے ہیں۔حضرت امام غزالی کی علمی صلاحیت دیکھ کر نظام الملک نے آپ کو مدرسہ نظامیہ بغداد کی مسند کے لیے منتخب کیا اور آپ سنہ 484ھ سے 488ھ تک اس عظیم درسگاہ سے وابستہ رہے۔ آپ کے مناقب میں بارہا مدرسہ نظامیہ کا نام اور آخری عمر میں آپ کے ہاں زیر تعلیم طلبہ کی کثرت کا ذکر آتا ہے اس لیے یہ طبقہ مغالطے کا شکار ہے کہ آپ نے بغداد میں وفات پائی۔
دوسرا طبقہ طوس ایران میں خانقاہ ہارونیہ کے صحن میں ایک سیاہ پتھر کو اما م غزالی سے منسوب کرتا ہے، جس پر ”بیاد امام غزالی ”تحریر ہے یہ لوگ اسی کو امام غزالی کی تربت سمجھتے ہیں۔ اتنا ہی نہیں بلکہ آج کل امام غزالی کی شائع شدہ کئی کتب ورسائل کے سرورق پر خانقاہ ہارونیہ کو امام غزالی کے مزار کے طور پر پیش کیا جاتاہے۔ راقم جب سیرو سیاحت کے سلسلے میں خانقاہ ہارونیہ پہنچا تو وہاں موجود لوگوں کو مذکورہ سیاہ پتھر کو مرقدِ امام غزالی سمجھ کر فاتحہ خوانی کرتے دیکھا۔خانقاہ ہارونیہ کے صحن میں صرف یہی سیاہ پتھر ہی نہیں بلکہ دوسری جانب کئی اور سلاطین اور شعراء حضرات کی قبروں کے تعویز بھی رکھے ہوئے ہیں۔سر زمین طوس میں کئی نامور سلاطین اور شعراء مدفون ہیں غالب گمان ہے کہ اُن مقبروں کے آثار دیکھ بھال نہ ہونے کی وجہ سیزمین بوس ہو چکے ہوں گے اس لیے اُن قبروں کے تعویز جو قیمتی پتھروں سے مزئین تھے اُن کو محفوظ کرنے کے لیے ان کو ایک جگہ جمع کیا گیا ہوگا۔ خانقاہ ہارونیہ مشہد المقدس سے 30 کلومیٹر اور ابوالقاسم فردوسی کے مزار سے محض 300 میٹر کی دوری پر ہے۔ طوس کے لوگ خانقاہ ہارونیہ کو زندان ہارون رشید کے نام سے جانتے ہیں۔ ان لوگوں کا خیال ہے کہ اس مقام پر خلیفہ ہارون رشید نے حضرت امام علی رضا کو پابند سلاسل رکھا تھا حالانکہ ایسا نہیں ہے مستند تاریخ یہ بتاتی ہے کہ آٹھویں صدی ہجری کے اوائل میں منگول حکمرانی کے بعد خانقاہ ہارونیہ تعمیر ہوئی اس عمارت کا ہارون رشید کے زندان سے کوئی تعلق نہیں۔ اس بات کی تصدیق وہاں پر موجود تختی پر ایرانی سرکار کی طرف سے کی گئی ہے۔
تیسرا طبقہ طوس میں خانقاہ ہارونیہ سے تقریباً ایک یا دو کلومیٹر اور حکیم فردوسی کے مزار سے تقریباً 2 کلومیٹر کے فاصلے پر واقع ایک مزار کو امام غزالیؒ کا مزار کہتا ہے۔یہاں پر ایک بیابان میں بارش وغیرہ سے حفاظت کے لیے چند لوہے کے ستونوں پر ٹین کی چھت رکھی ہوئی ہے اور چاروں اطراف سے خاردار آہنی تاروں کے درمیان نہایت خستہ اور زبون حالی کا شکار ایک مزار ہے اس پر ایران کے محکمہ آثار قدیمہ نے روضہ امام غزالی کا سائن بورڈ نصب کر رکھا ہے یہ طبقہ اس مقام کو امام غزالی کا اصل مزار سمجھتا ہے اور حقیقت بھی یہی ہے۔ یہی وہ مقام ہے جہاں امام غزالی مدفون ہیں۔قارئین کو امام غزالی کے مزار سے متعلق 3 مقامات پڑھ کر حیران نہیں ہونا چاہیئے۔ زمانے کے نشیب فراز اور قصے کہانیوں کی وجہ سے اولیاء کرام کے مزارات ایک سے زائد مقامات پر بنانے کا رواج بہت قدیم ہے جیسا کہ سلطان العارفین شیخ بایزید بسطامی کے اس وقت دنیا میں 4 مزارات ہیں چاروں مقامات پر لوگ زیارت کے لیے حاضر ہوتے ہیں اُن میں سے ایک ترکی میں ہے دوسرا سوریا میں ہے تیسرا بنگلادیش میں ہے اور چوتھا بسطام ایران میں ہے اُن چاروں مقامات میں آخر الذکر درست مقام ہے باقی سب کی کوئی حیثیت نہیں ہے۔ اسی طرح مولانا رومی کے اُستاد حضرت شاہ شمس تبریز کا ایک مزار ایران کے شہر تبریز میں ہے دوسرا ملتان میں ہے اور تیسرا قونیہ ترکی میں ہے۔ شمس تبریز کا جو مزار اُن کے آبائی شہر تبریز میں ہے اُس کے بارے میں ایرانیوں کا کہنا ہے کہ یہ علاماتی قبر ہے جس طرح علامہ اقبال کا ایک علامتی مزار قونیہ ترکی میں بنایا گیا ہے۔ ملتان میں شمس تبریزی سے منسوب مزار دراصل شمس الدین سبزواری کا مزار ہے جو اسماعیلی فرقے سے تعلق رکھتے تھے۔ حضرت امام غزالی سے منسوب مذکورہ تینوں مقامات میں سے کونسا مزار درست ہے؟ اس مغالطے کو دور کرنے کے لیے امام غزالی کے تین ادوار کو سمجھنا ضروری ہے۔ ذیل میں ہم ان تینوں ادوار کے مختلف پہلوؤں اور واقعات کا ذکر آپ کی خود نوشت سوانح عمری المنقذ من الضلال کی روشنی میں کریں گے اور آخر میں مورخین اور صوفیاء کرام کی کتب سے تحقیق شدہ ثبوت آپ کے سامنے رکھیں گے تاکہ قارئین ان تمام ثبوتوں اور پہلوؤں کا جائزہ لینے کے بعددرست نتیجے پر پہنچ سکیں۔

پہلا دور: مدرسہ نظامیہ بغداد میں مدرس اعظم کا تقرر، علوم و فنون کا از سرنو جائزہ، تصوف کی طرف مائلی اور راہ سلوک کی طرف روانگی
جب یورپ مکمل اندھیرے میں ڈوبا ہوا تھا تب مدرسہ نظامیہ بغداد کے چرچے پورے عالم میں گونج رہے تھے۔ تاریخ اسلام میں نظامیہ بغداد کو ایک ممتاز مقام حاصل ہے۔ امام غزالی کے دور میں اس درسگاہ کا انتظامی اور تعلیمی معیار اس قدر بلند تھا کہ بڑے بڑے اساطین علم اس ادارے میں بطور مدرس مقرر ہونے کی آرزو میں عمریں گزار گئے۔ ایک بار نظام الملک کے دربار میں سینکڑوں علماء و فضلاء کی موجودگی میں منعقد ہونے والے مناظرے کی ہر نشت میں حضرت امام غزالی غالب رہے۔ آپ کی علمی صلاحیت دیکھ کر نظام الملک نے مدرسہ نظامیہ بغداد کی مسند کے لیے آپ کو منتخب کر لیا۔ بادشاہ کا امام غزالی کو اس عظیم درسگاہ کی ذمہ داری سونپنا یقینا ایک بہت بڑا اعزاز تھا۔اور یوں حضرت امام غزالی جمادی الاول 484ھ کو بڑی شان شوکت کے ساتھ بغداد وارد ہوئے اور 34 سال کی عمر میں بطور مدرس اعظم مدرسہ نظامیہ کی ذمہ داری قبول کی۔ مختصر مدت میں اُن کا علم وفضل اور دانائی دربار تک پہنچنے لگی۔ جیسا کہ صاحبِ طبقات الشافیہ الکبری لکھتے ہیں کہ اُن کے جاہ وجلال نے وزراء اور امراء کو پیچھے چھوڑ دیا تھا اور سلطنت کے اہم کام و معاملات اُن کی مشاورت کے بغیر انجام نہیں پاتے تھے۔ مدرسہ نظامیہ بغداد میں حضرت امام غزالی کی ادارت کا دورانیہ سنہ 484 ھ سے 488ھ تک محیط ہے۔
رجب 488ھ میں امام غزالی کی روحانی کیفیت ،افکار و عقائد اضطراب و تشویش کے بھنور میں آگئے۔ آپ لکھتے ہیں کہ ایک روز بغداد سے نکلنے کا عزم مصمم کرتا تھا دوسرے دن اُس عزم کو فسخ کر ڈالتا تھا۔جب عزم مصمم ہوتا تھا تب خواہش ہوتی تھی کہ سب کچھ چھوڑ کر بغداد سے بھاگ جاؤں پھر شیطان دل میں وسوسے ڈالتا تھا اسی کشمکش میں میری حالت اس درجہ تک جا پہنچی کہ سخت بیمار ہوا، حق تعالی نے میری زبان بند کر دی یہاں تک کہ میں درس و تدریس بھی نہیں کر سکا آخر نوبت یہاں تک پہنچی کہ تمام معالج علاج سے عاجز ہوئے ۔جب علاج کے سب طریقے بے سود ہو گئے تو اس لاچار نے اللہ تعالیٰ سے دعاکی جو ہرفریادی کی فریاد سنتا ہے۔

ابتدائی سلوک کے سفر کی طرف گامزن
امام غزالی نے اپنے علم، تجربات کی روشنی میں اپنے دور کے علوم و فنون، رائج الوقت مذاہب ، عقائد و نظریات اور تصورات کا ازسرنو جائزہ لیا جب اُنھوں نے تصوف کی طرف غور کیا تو سب سے پہلے جس چیز نے اُنھیں متاثر کیا وہ اس میدان کے شہسواروں کا زہد و عفاف تھا۔ یہ گروہ اخلاق اور تزکیہ نفس پر عبور رکھنے کے ساتھ ساتھ اصحابِ قال کے بجائے اصحاب حال تھے۔ یہاں سے امام غزالی کی زندگی کا انقلابی دور شروع ہوتا ہے۔ آپ لکھتے ہیں کہ جب میں اُن علوم سے فارغ ہوگیا تو طریق صوفیہ کی طرف توجہ مبذول کی۔ میں نے دیکھا طریق صوفیہ اُس وقت کامل ہوتا ہے جس وقت اُس میں علم اور عمل دونوں پیدا ہوجاتے ہیں۔ میرے لئے بہ نسبت عمل کے علم زیادہ آسان تھا پس میں نے علم صوفیہ کی تحصیل شروع کی۔ اُن کی کتب مثلاًً ابو طالب مکی کی تصنیف قوت القلوب، حارث ماںسبی، جنید و بایزید بسطامی وغیرہ کی کتب کا مطالعہ کرنا شروع کیا۔
اگر ہم ماضی کے ناموار صوفیا کرام کی انقلابی زندگی پر نظر ڈالیں تو معلوم ہوتا ہے کہ جب اُن کا قلبی میلان تصوف کی طرف ہونے لگتا ہے تو وہ پہلے پہل تصوف کی کتابوں سے استفادہ کرنا شروع کردیتے ہیں۔ جیساکہ سلسلہ کبرویہ ہمدانیہ عالیہ نوربخشیہ کے چوبیسویں قطب شیخ علاء الدولہ سمنانی جو مخدوم اشرف جہانگیر سمنانی کے اولین اُساتذہ میں سے ہیں، ارغون بادشاہ کے دربار سے منسلک تھے ایک بار حالت جنگ میں ایک روحانی کیفیت کے ذریعے شیخ علاوء الدولہ سمنانی تصوف کی طرف مائل ہوئے۔ کتاب العروہ میں وہ لکھتے ہیں کہ میں نے ارغون کی ملازمت ترک کرنے کے بعد حضرت ابوطالب مکی کی تصنیف قوت القلوب پر اپنے سلوک کی بنیاد رکھی۔ میں نے راہ سلوک کے ابتدائی دور میں قوت القلوب، امام غزالی کی احیاء العلوم دین سے مدد لی۔

دوسرا دور مسافرت اور خلوت سے جلوت تک، نیشاپور میں دوبارہ درس تدریس
آپ لکھتے ہیں کہ رب کریم نے اس لاچار کی دعا قبول فرمائی اورمجھے دنیا کے جاہ و جلال سے منہ موڑنے پر قدرت عطا کی۔ امام غزالی چاہتے تھے کہ ملک شام کی طرف عازم سفر ہوں۔وہاں رہ کر ریاضت میں زندگی بسر کی جائے چونکہ اُس زمانے میں دمشق زہاد اور صوفیاء کا سب سے بڑا مرکز تھا لیکن آپ کو ساتھ ساتھ یہ خوف لاحق تھا کہ کہیں آپ کے ارادے سے بادشاہ ناراض ہوکر رکاوٹ نہ کھڑی کریاس لیے آپ نے حج پر جانے کا ارادہ مشہور کر دیا تاکہ بادشاہ کی طرف سے کوئی رکاوٹ حائل نہ ہو۔ آپ لکھتے ہیں کہ کہیں بادشاہ اور دوست احباب میرے ارادے سے واقف نہ ہو جائیں اس لیے مکہ جانے کا ارادہ مشہور کر دیا اور ساتھ ہی یہ بھی فیصلہ کیا کہ بغداد پھر لوٹ کر نہیں آؤں گا۔ آپ نے اپنے بھائی شیخ احمد غزالی کو مدرسہ نظامیہ میں اپنا جانشین مقرر کیا اور ذوالقعدہ 488ھ میں بغداد کو الوداع کہا۔دمشق میں آپ کے قیام اور سرگرمیوں کے بارے میں المنقذ من الضلال میں آپ لکھتے ہیں کہ ملک شام پہنچ کر خلوت،ریاضت اور مجاہدہ کے علاوہ میری اور کوئی مصروفیت نہیں تھی۔ مدت تک جامع مسجد دمشق میں معتکف رہا اور دوسال بعد بیت المقدس کے لیے روانہ ہوا۔ ابن الا اثر لکھتے ہیں کہ امام غزالی نیدمشق اور بیت المقدس کی مسافرت کے دوران شہرہ آفاق کتاب احیاء علوم دین تصنیف فرمائی۔عہد مسافرت اور جہاں گردی کے دوران جب امام غزالی مقام ابراہیم خلیل کے مزار پر پہنچے تو آپ نے وہاں تین عہد کئے۔

۱۔ کبھی کسی بادشاہ کے دربار میں نہیں جاؤں گا
۲۔ کسی بادشاہ سے عطیہ وصول نہیں کروں گا
۳۔ کبھی مناظرہ یا مباحثہ نہیں کروں گا
چنانچہ امام غزالی تاحیات اس عہد پر قائم و دائم رہے۔

خلوت سے جلوت کا سفر
حضرت امام غزالی اسی طرح خلوت نشین ہو کر ریاضت و مجاہدات بجا لاتے ہوئے روحانی لذت سے لبریز اور سکون و اطمینان کی زندگی گزارنا چاہتے تھے لیکن اللہ سبحان تعالی کو کچھ اور منظور تھا اور اپنے اس محبوب بندے سے اشاعت دین کا عظیم الشان کام لیناتھا اس لیے یہ امر ضروری تھا کہ وہ خلوت سے جلوت کی طرف سفر کریں اور درس تدریس، تالیف و تصنیف اور معاشرے میں لوگوں کے ساتھ رہیں تاکہ خلق خدا کو فائدہ پہنچے۔ حضرت امام غزالی کو بیابان نوردی کی طرف جس چیز نے راضی کیا تھا وہ تحقیق حق اور تسکین قلب کی خواہش تھی۔ آپ فرماتے ہیں کہ سلوک کے سفر میں کثرتِ ریاضت و مجاہدات نے قلب اس طرح صاف کیا کہ تمام حجاب اُٹھ گئے اور وہ تمام شکوک و شبہات جو ذہن پر سوار رہتے تھے ایک ایک کرکے ختم ہوئے۔ تسکین قلب اور انکشاف حق کے بعد آپ نے دیکھا کہ لوگ مذہب سے متزلزل ہو رہے ہیں۔خلوت سے جلوت میں آنے کا سبب تحریر کرتے ہیں کہ میں نے دیکھا فلسفے کے اثرات سے بہت سے مدعیان تصوف گمراہ اور بے عمل علماء اور متکلمین کی غلط اور کمزور نمائندگی کی وجہ سے لوگوں کا ایمان متزلزل ہو چکا ہے۔ اللہ تعالی نے سلطان وقت کے دل میں خود ہی تحریک پیدا کر دی۔اُس نے مجھے اس فتنہ کا مقابلہ کرنے کے لیے تاکیدی حکم نامہ جاری کیا۔ اس حکم نامے میں اس قدر سختی تھی کہ انکار کی کوئی صورت باقی نہیں بچتی تھی۔اور یوں امام غزالی ماہ ذوالقعدہ 499 ھ کو 11 سالہ عزلت پوری کرکے نیشاپور میں مدرسہ نظامیہ میں درس و تدریس میں مشغول ہوئے۔ حضر ت امام غزالی عزلت ترک کرکے مدرسہ نظامیہ نیشاپور کے سفر کے حوالے سے المنقذ من الضلال اور مکاتب غزالی میں لکھتے ہیں کہ بادشاہ اور وزیر کے اصرار کے علاوہ مجھے عالم خواب اور حالت بیداری میں ہدایت ہوئی تھی کہ اہلیان نیشاپور کی ہدایت کے لیے رختِ سفر باندھ لے۔

تیسرا دور طوس میں مستقل قیام، خانقاہ اور مسجد کی تعمیر، حاکم بغداد کا خط اور اُس کا جواب
ابھی امام غزالی کو مدرسہ نظامیہ نیشاپور آئے ہوئے کچھ ہی عرصے گزرا تھا کہ ایک باطنیہ کے ہاتھوں فخر الملک شہید ہو گئے۔ اس واقعہ کے کچھ دن بعد آپ نے مدرسہ نظامیہ نیشاپور سے کنارہ کشی اختیار کی۔ دیدارِ وطن کے شوق اور اہل خانہ کی یاد کے جذبے میں واپس آبائی وطن طوس آنے پر مجبور ہوئے۔ یہاں طوس میں گھر کے قریب صوفیاء کے لیے ایک خانقاہ اور طلبہ کے لیے ایک مدرسے کی بنیاد ڈالی۔ طوس میں قیام کے دوران جہاں آپ کی قدر و منزلت میں روز بروز اضافہ ہو رہا تھا وہیں حاسدین کا ایک گروہ مخالفت میں کمربستہ ہوگیا ، حاسدین کیاس گروہ نے فرمانروا سلطان سنجر کو شکایت کی تو اُنھوں نے امام غزالی کو طلب کیا۔آپ نے مقام خلیل پر عہد کیا تھا کہ کسی بادشاہ کے دربار میں نہیں جائیں گے لیکن فرمان شاہی کا لحاظ رکھتے ہوئے مشہدتک گئے وہاں سے سلطان کو خط لکھا۔ پھر سلطان کے دربار کی بجائے لشکر گاہ پر ملاقات ہوئی۔

مدرسہ نظامیہ بغداد میں دو بارہ تعنیاتی کے لیے کوششیں، بادشاہ کا خط اور اس کا جواب
امام غزالی کی طوس میں قیام پذیری کے دوران اُن کے ایک اہم درسی ساتھی ابوالحسن کیائی مدرسہ نظامیہ بغداد کے مدرس اعظم کے عہدے پر فائز تھے۔ 504ھ کے اوائل میں ابوالحسن کیائی کا انتقال ہوا تو پھر امام غزالی کو نظامیہ بغداد لانے کی کوششیں تیز ہوئیں۔ خلیفہ عباسی المستظہر باللہ اور بادشاہ عراق سلطان محمد اور اُس کے بھائی سنجر بن ملک شاہ جو اُس وقت فرمان روائے خراسان تھے سب نے بالاتفاق اس منصب کے لیے امام غزالی کو موزوں قرار دیا۔ اس سلسلے میں آپ کو کئی خطوط لکھے گئے۔ سلجوقی بادشاہ سلطان محمد نے ایک خط صدرِ خراسان صدر الدین محمد کو تحریر کیا جس میں درخواست کی کہ کسی بھی صورت امام غزالی پر زور دیں اور صدرالدین محمد خود بھی امام غزالی کے نام الگ سے تاکیدی خط لکھیں اُس خط کا متن کچھ اس طرح سے ہے کہ غزالی سے اُن کا حال معلوم کیاجائے تاکہ بغیر توقف وہ اس کام کو انجام دے سکیں۔ اُنہیں کسی طرح آمادہ کیا جائے۔ مدرسہ نظامیہ میں کرسیِ تدریس خالی ہونے سے جو خلا پیدا ہوا ہے وہ امام غزالی ہی پُر کر سکیں گے وغیرہ وغیرہ۔ حضرت امام غزالی نے بادشاہ سلطان محمد سے معذرت کی اور اُن کے خطوط اور فرامین کے جواب میں ایک تفصیلی خط لکھا جس میں بغداد نہ آنے کی مجبوریاں لکھیں۔ جب امام غزالی کی طرف سے مایوسی ہوئی تو بادشاہ نے امام ابوبکر شاشی کو مدرس اعظم کی ذمہ داری سونپ دی۔ امام غزالی کے بادشاہ کے نام لکھے گئے خط کے جواب میں سے کچھ اہم نکتے یوں تھے کہ یہاں طوس میں اس وقت 150 طلبہ میرے پاس زیر تعلیم ہیں یہ لوگ بغداد جانے کی سکت نہیں رکھتے، بغداد میں پہلے میں اکیلا تھا اب میرے اہل وعیال اور بچے ہیں یہ لوگ ترک وطن کی زحمت نہیں اٹھا سکتے۔ میں نے مقام ابراہیم پر عہد کیا تھا کہ کبھی مناظرہ و مباحثہ نہیں کروں گا بغداد میں مناظرہ اور مباحثہ کے بغیر کوئی چارہ نہیں۔ اس کے علاوہ دربار خلافت میں سلام کرنے کیلیے حاضر ہونا لازم ہے اور میں اس کو گوارہ نہیں کرتا۔ میں وظیفہ اور عطیہ بھی قبول نہیں کر سکتا بغداد میں میری کوئی جائیداد نہیں ہے۔ وفات مدرسہ نظامیہ بغداد کے حوالے سے معذرت نامہ ضیاء الملک کے نام جب لکھا تھا اُس وقت آپ کی عمر 54 سال کو پہنچی تھی۔ بالاآخر505ھ کو آبائی وطن طوس کے مقام طاہران میں وفات پا گئے اور وہیں مدفون ہوئے۔

آخری آرام گاہ طوس میں ہونے کی دلیل تاریخ اور صوفیا کے آراء کی روشنی میں
1۔ امام غزالی کی خو د نوشت کتاب المنقذ من الضلال ،جو آپ نے آخری عمر میں تصنیف کی،کے مطالعہ سے واضح ہو جاتا ہے کہ نیشاپور مدرسہ نظامیہ سے طوس تشریف لانے کے بعد آپ دوبارہ بغداد نہیں گئے۔ بغداد نہ جانے کی وجوہات آپ کے مکاتبآ کے مطالعہ سے سمجھ میں آتی ہیں۔
2۔ امام ابن جوزی متوفی 597ھ نے الثبات عند الممات میں امام غزالی کے چھوٹے بھائی شیخ احمد غزالی سے نقل کیا ہے کہ میرے بھائی ابو حامد نے دوشبنہ کے دن صبح کے وقت وضو کیا اور نماز فجر ادا کی۔ پھر کفن مانگا اور کفن کو بوسہ کیا اور ارشاد فرمایا بسرو چشم۔ اس کے بعد آپ لیٹ گئے اورجان جان آفرین کو سپرد کردی۔
3۔ سلسلہ ہمدانیہ نوربخشیہ کے سرخیل میر سید محمد نوربخش قہستانی متوفی 869ھ سلسلۃ الاولیاء میں لکھتے ہیں کہ آپ(یعنی امام غزالیؒ) اکابر اولیاء، اعیان مرشدین، اعظم علماء اور کبار مجتہدین میں سے ہیں۔ شریعت، طریقت، حقیقت اور حکمت کے تمام علوم و فنون میں کامل مہارت والے زبردست عالم تھے۔جامعیت کے حوالے سے یکتائے روزگار ولی اور نابغہ زمانہ عالم تھے۔ امت مسلمہ میں آپ کی کوئی مثال نہیں۔ 505ھ بمقام طاہران طوس میں وفات ہوئی۔
4۔ طبقات الشافعیہ کے مولف تاج الدین سبکی کیزمانے یعنی ساتویں صدی ہجری تک طاہران طوس میں امام غزالی کا شاندار مقبرہ زیارت گاہ عام بنا ہوا تھا۔
5۔ ابوسعد سمعانی متوفی 562ھ لکھتے ہیں کہ میں نے قصبہ طاہران طوس میں امام غزالی کی قبر کی زیارت کی۔
6۔ امام غزالی کی سوانح پر سب سے مستند اور شاندار کتاب غزالی نامہ میں جلال الدین ہمائی نے بھی آپ کا جائے مدفن طاہران طوس لکھا ہے۔
7۔ علامہ شبلی نعمانی نے الغزلی میں اور سید ممتاز علی نے اپنے مقدمے میں امام غزالی کامزار طوس ایران میں لکھا ہے۔ان دونوں جلیل القدر محقیقین کی تصدیق سید ابوالحسن علی ندوی نے اپنی کتاب امام غزالی میں کی ہے۔
8۔ نصیحت نامہ امام غزالی کے مقدمے میں پروفیسربھگو دیال ورما نے بھی امام غزالی کے جائے مدفن طاہران طوس لکھا ہے۔
9۔ مخدوم اشرف جہانگیر سمنانی کے ملفوظات میں صاحبِ لطائف اشرفی حضرت امام غزالی کے مناقب میں لکھتے ہیں کہ آپ نے شہر طوس دوشنبہ 14جماالآخر 505میں وفات پائی۔

Advertisements
julia rana solicitors london

امام غزالی اور ابوالقاسم طوسی فردوسی
امام غزالی اورابوالقاسم فردوسی طوسی ہم وطن تھیاور دونوں اپنے آبائی وطن طوس میں اسودہ خاک ہوئے۔ دونوں کے مراقد کے درمیان فقط ایک یا دو کلومیٹرکا فاصلہ ہے سڑک کے دائیں جانب ایک وسیع و عریض پارک میں جہاں انواع و اقسام کے پھول، فوارے اور پارک کے عین وسط میں خوبصورت قیمتی پتھروں سے مزئین عمارت، خطاطی کے خوبصورت فن پاروں اور سنہری مچھلیوں کے مچھلی گھر سے سجائے ابواالقاسم فردوسی کا مزار مرجع خلائق ہے، مزار پرہروقت لوگوں کا ہجوم رہتا ہے۔ یہاں داخلے کی فیس ہے بلکہ راقم نے دیکھا غیر ملکیوں کے لیے ٹکٹ علیحدہ ہے جو قیمت میں مقامی لوگوں سے ڈبل ہے۔ سڑک کے اُس پار تن تنہا بے آب و گیاہ صحرا میں چاروں طرف خار دار آہنی تاروں کے درمیان چند ستونوں پر رکھے ہوئے ایلومنیم کی چھت تلے وقت کے عظیم امام شیخ الاسلام ابو حامد غزالی آسودہ خاک ہیں۔مزار کی خستہ حالی اور دروازے پر زنگ قفل بتا رہی ہے کہ دہائیوں سے ایرانی سرکار اور محکمہ آثار قدیمہ کے کسی افسر نے اس طرف توجہ کرنے کی زحمت نہیں کی ہے البتہ محکمہ آثار قدیمہ کا سائن بورڈ جس پر امام غزالی کے مختصر کوائف درج ہیں، دور سے دکھائی دیتے ہیں۔ستم ظریفی تویہ ہے کہ ایک طرف ابوالقاسم فردوسی کا شایان شان مقبرہ جس کی دیکھ بھال ایران سرکار خودکرتی ہو دوسری جانب اُسی مردم خیز سرزمین کا سرتاج جہنوں نے تاریخ اسلامی میں ایک نئے عہد کو جنم دیا۔ زمانہ اُس عظیم ہستی کو امام غزالی طوسی کے نام سے جانتا ہے۔ اُن کے بوسیدہ مرقد کی حالت زار بتارہی ہے کہ اہل طوس نے اُن کے ساتھ وفا نہیں کی۔ راقم نے دیکھا اُس عظیم ہستی کے مزار پر نہ کوئی چوکیدار ہے اور نہ زائرین کے لیے مرقد کے قریب زیارت کاکوئی ذریعہ۔ چاروں اطراف خاردار آہنی دیواریں پکار رہی تھیں کہ کوئی ہے جو تعمیر نو کی سبیل کے لیے آواز بلند کرے۔راقم کی خوش بختی ہے کہ ایک چرواہے کا وہاں سے گزر ہوا اُس نے اپنی کلہاڑی سے راستہ بنا کر راقم کو مرقد انوار تک جانے کاموقع فراہم کیا۔ایرانی سرکار دنیا بھر کے اُن شعراء حضرات، جنہوں نے فارسی ادب پر کام کئے ہیں، کو قدر کی نگاہ سے دیکھتی ہے بلکہ اُن کے نام پر سیمینار اور مختلف یونیورسٹیوں میں پروگراموں پر سالانہ کروڑوں خرچ کرتی ہے۔راقم ایک بار تاجکستان میں حضرت شاہ ہمدان کے روضہ پر پہنچا تو معلوم ہوا اُن کے مزار کی تعمیر نو میں ایرانی حکومت نے بہت مدد کی ہے۔ ایرانی حکومت کو چاہئے کہ اگر سیاسی و نظریاتی اختلافات درمیان میں حائل ہیں تو اُن تمام باتوں کو بالائے طاق رکھ کر حضرت امام غزالی کے مرقد کی تعمیر نو پر بھی توجہ دے۔ یہ مرقد آپ کے اپنے ملک میں ہے۔اہل فارس پر امام غزالی کا بھی بہت احسان ہے۔ سرزمین ایران کو جہاں ابوالقاسم فردوسی طوسی نے شعرو سخن اور اُن کی شہرہ آفاق کتاب شاہنامہ فردوسی سے ایک پہچان ملی ہے وہیں فکرِ غزالی اور اُن کے لازوال علمی خدمات سے دنیا ئے عالم میں ایران کو جو مقام و مرتبہ حاصل ہوا ہے تاریخ میں اس کی نظیر نہیں ملتی۔اس اعتبار سے ہم کہہ سکتے ہیں کہ امام غزالی کا بھی اس آب و خاک پر اُتناہی حق ہے جتنا ابوالقاسم فردوسی طوسی کا ہے۔امام غزالی کے عقیدت مندوں اور پرستاروں کو بھی اس حوالے سے آواز بلند کرنے کی ضرورت ہے۔ساتھ ساتھ اربابِ اختیار بھی امام غزالی جیسی عظیم شخصیت کے مزار کی تعمیر نو کے سلسلے میں اپناسفارتی اثر و رسوخ استعمال کریں۔

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply