اللہ مالک ہے۔۔محمد وقاص رشید

اللہ مالک ہے۔۔محمد وقاص رشید/میں خاکزاد کو دیکھ رہا تھا، فوتگی پر آنے والے ہر شخص کو وہ پانی دیتا تھا، چائے پیش کرتا تھا اور اگلا مہمان آنے تک ایک پرانی چارپائی کے کونے پر جا کر بیٹھ جاتا تھا، یا دیوار کے ساتھ ٹیک لگا کر کھڑا ہو جاتا تھا۔ ایسے میں لگتا کہ دیوار کے ساتھ ایک اور دیوار کھڑی ہے،  نحیف ،لاغر جس پر بھوک کا نوشتہ دیوار لکھا ہوا ہے۔

میں سوچ رہا تھا ، وہ تھکتا نہیں مگر نہیں غریب کے پاس تھکنے کی گنجائش ہی کہاں ہوتی ہے، اسے اپنی حیات کا بوجھ تب تک اپنے ناتواں کاندھوں پر اٹھانا ہوتا ہے جب تک اسے چار لوگ اٹھا نہیں لیتے اور یہ جیتے جی ممکن نہیں ہوتا ۔چار لوگوں کے اس سہارے کی شرط موت ہوتی ہے،فرد سے لے کر ریاست تک اسے سہارا حاصل کرنے کے لیے مرنا پڑتا ہے، جیتے جی تو وہ پہلے ہی مرا ہوتا ہے ۔ تب سانسوں کی اس بے فیض گنتی سے بھی آزاد ہونا پڑتا ہے۔

میں نہیں جانتا تھا کہ وہ اپنا تعاقب کرتی میری نگاہوں کو پا گیا ہے ۔دو تین بار نظریں آپس میں ٹکرائیں تو عجیب لجاجت سے مسکرا دیا۔ اسی لمحے غریب آدمی بخت کے دیوتا کو شکست دیتا ہے، قسمت کے دیے آنسو پی کر مسکرا دیتا ہے ۔میں جب بھی کسی مفلوک الحال کو مسکراتے دیکھتا ہوں تو میرا دل کرتا ہے اسکے سینے کی دیوار میں جا کر سر پھوڑوں، چیخ چیخ کر اسے بتاؤں کہ تیرا مسکرانا نہیں بنتا ۔۔رو۔۔۔ پھوٹ پھوٹ کے رو۔۔۔ دھاڑ دھاڑ کے چلا چلا کے رو۔۔  کہ تیرے رونے سے شاید زمین پر پھیلے گندم کے خداؤں کو تیری بھوک سنائی اور دکھائی دے ۔جو تیرے ہر وقت خوش آمدانہ مسکراتے رہنے سے تیری آنکھوں میں بین کرتے آنسو نہیں دیکھتے، تیری حسرتیں آنسو بن کر اس خاک پر گریں تو شاید یہاں تیرے نام کا وہ رزق اُگے جو تجھے رازق خدا سے براہِ راست مل جائے۔

دو چیزیں گھوم رہی تھیں،ایک زمین دوسرا زمین کی خاک سے اٹھایا گیا وہ خاکزاد۔ ۔زمین کے گھومنے سے اس نے بھی تھک کر پہلو بدل لیا۔ سورج بھی تھک ہار کر سونے چلا گیا  مگر میرا ضبط اس وقت جواب دے گیا جب اسے سارا دن تکیے سے کمر ٹکائے ایک با ریش شخص نے اپنی ٹانگیں دبانے کے لیے کہا۔ ظاہر ہے وہ تھک چکا تھا ۔ کون؟ غریب نہیں۔۔۔نہیں اسکے تھکیں دشمن ۔۔ وہ تکیے والا امیر کبیر مہمان۔ ۔ خیر اس نے اسے یوں دبایا کہ جیسے بالکل تازہ دم ہو ۔ میں بتا چکا کہ دم نکلنے تک تازہ دم رہنا اسکی مجبوری تھی۔  ایک بار وہ مجھے دیکھ کر مسکرایا ۔  اسکی مسکراہٹ تھی کہ کوئی انسانیت کے جاں بہ لب پیکر میں اٹھتی درد کی ٹیس۔

میں اس باریش متقی پرہیزگار کو کہنا چاہتا تھا کہ سارا دن تکیے سے کمر ٹکائے ، تیری کمر تھک گئی ۔بغیر چلے پھرے ٹانگیں شل ہو گئیں اور پاؤں خاکزاد کی قسمت کے ستاروں کی مانند سو گئے ۔اگر سارا دن سے جُتے ہوئے خاکزاد کے دبانے سے ان ٹانگوں کمر اور پیروں کی نہیں،اپنے احساسِ برتری کی تسکین ہو گئی ہو اور صبح تہجد کے لیے تکبر کا مارا یہ لحیم شحیم جسم اٹھنے کے قابل ہو گیا ہو تو  اس بے چارے کی مشقت سے جاں خلاصی کر دی جائے ۔

رات گیارہ بج چکے تھے وہ مہمانوں کے لیے بستر کرنے میں مصروف تھا ۔اسی مستعدی سے جس سے صبح کام شروع کیا تھا۔  ہر آواز پر ایسے جی جی کرتے بھاگتا کہ جیسے کوئی روبوٹ ہے انسان تو ہے ہی نہیں۔  بات بھی ٹھیک ہے زمین پر آئے سارے خاکزاد روبوٹ ہیں،روبوٹ، روبوٹ بھی کھاتے پیتے نہیں، یہ بھی نہیں۔۔۔ روبوٹ بھی تھکتے نہیں،  یہ بھی نہیں،  روبوٹ بھی کمانڈ ملنے پر اطاعت کرتے ہیں مالک کی۔  یہ بھی گندم کے خداؤں کی جی حضوری کرتے رہتے ہیں۔

اور وہ اپنے “گھر ” جانے کا اجازت نامہ پا کر وہاں سے جاتے ہوئے میرے پاس سے گزرا تو میں نے بے معنی سوال کیا۔۔۔۔ تھک تونہیں گئے؟ ۔اس نے پھر وہی مسکراہٹ سجا کر کہا نہ جی نہ ۔۔ جان وی حاضر۔۔۔۔ بس تھوڑا کھچکیا ہویاں ہاں لیکن خیر اے اللہ مالک اے (بالکل نہیںِ جان بھی حاضر ہے،  بس تھوڑا بیمار ہوں لیکن کوئی مسئلہ نہیں،  اللہ مالک ہے )۔

اس سمے اسکے الفاظ کہ “اللہ مالک ہے” مجھے یوں لگے کہ پوری کائنات کا ایمان اس وقت سمٹ کر اسکے ان تین لفظوں میں آ گیا ہے ۔ اگر دنیا پر اس وقت کوئی ایمان دار ، متقی اور پرہیز گار خدا پر دل سے یقین رکھنے والا انسان ہے تو یہی خاکزاد روبوٹ ہے۔

Advertisements
julia rana solicitors london

میں نے اسکے جانے کے بعد اسکے بچھائے ہوئے بستر پر لیٹ کر آسمان کی طرف دیکھا ۔وہاں مجھے خاکزاد روبوٹ کا خدا آسمان پر چاند اور تاروں کی ترتیب لگاتا ہوا دکھائی دیا۔ میں اس سے کہنا چاہتا تھا کہ اے خدا کچھ تارے یہاں خاکزادوں کی قسمت کے آسمان پر بھی ٹانک دے۔ جو اتنے اندھیروں میں بھی تجھے ڈھونڈ کر کہہ دیتے ہیں” اللہ مالک ہے” ۔ لیکن میں خدا سے یہ بات کہنے سے پہلے ہی سو گیا۔۔  کیونکہ اسکے لیے جتنا ایمان اور یقین درکار ہے، وہ خاکزاد ہی کے پاس تھا ۔زمین کے وہ خاکزاد جن کا واقعی صرف اللہ ہی مالک ہے۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply