• صفحہ اول
  • /
  • نگارشات
  • /
  • بلوچ کا نوآبادکار کے خلاف جوابی تشدد (2،آخری حصّہ)۔۔ذوالفقار علی زلفی

بلوچ کا نوآبادکار کے خلاف جوابی تشدد (2،آخری حصّہ)۔۔ذوالفقار علی زلفی

بلوچ تحریک کو پرتشدد کا طعنہ دینے والے بڑی ڈھٹائی اور بے شرمی کے ساتھ اس روشن حقیقت کو فراموش کردیتے ہیں کہ محکوم اقوام کا تشدد نوآبادیاتی تشدد کی کوکھ سے جنم لیتا ہے ـ انتہائی رعونت سے کہا جاتا ہے کہ اگر بلوچ جہد کار تشدد کا استعمال کریں گے تو پاکستانی فوج بھی اس کا جواب تشدد سے ہی دے گی جس کا نقصان بالآخر بلوچ کو ہی برداشت کرنا پڑے گا ـ اس بےرحم تبصرے سے ایسا تاثر ابھرتا ہے جیسے بلوچ تشدد عمل جبکہ نوآبادکار کا تشدد ردعمل ہے ـ بلوچ پیٹی بورژوازی سے تعلق رکھنے والے وہ دانش ور جن کے رشتے پنجابی نوآبادیاتی دانش ور سے ہوتے ہیں، جو اپنی مٹی اور اس سے جڑے دیہی آبادی سے کٹے ہوئے ہوتے ہیں وہ بھی ایسے مواقع پر بلوچ تشدد کو خودکشی کا نام دیتے ہیں ـ وہ پنجابی نوآباکار کی فوج اور مشینری کو ایک ایسی طاقت کے روپ میں پیش کرتے ہیں جسے شکست دینا ناممکن ہے ـ وہ اٹھتے بیٹھتے نوجوان اذہان کو یہ باور کروانے کی کوشش کرتے ہیں کہ پرتشدد تحریک لاحاصل ہے، دنیا اس کو تسلیم نہیں کرے گی، پرتشدد جدوجہد اب محض تاریخ کا حصہ بن چکی ہے، آج کی دنیا چے گویرا سے خاصا آگے نکل چکی ہے وغیرہ وغیرہ ـ
یہ نکتہ تعجب خیز نہیں ہونا چاہیے کہ محنت کش طبقے سے تعلق رکھنے والے پڑھے لکھے نوجوان مایوسی پھیلانے والے ان دانش وروں سے اتفاق نہیں کر رہے ـ کیوں کہ وہ ہر گزرتے لمحے طاقت ور نظر آنے والے نوآبادکار کی قلعی کھلتے دیکھتے آرہے ہیں ـ جگہ جگہ چیک پوسٹیں، انٹیلی جنس کا مایا جال، عورتوں، بزرگوں اور نہتے جوانوں پر مسلح نوآبایاتی فوج کا فرسٹریشن پر مبنی تشدد، میڈیا بلیک آؤٹ، سوشل میڈیا پر پنجابیوں کی گالم گلوچ ـ یہ سب یہ ثابت کرنے کو کافی ہیں کہ بلوچ تشدد لاحاصل نہیں ـ رہی بات خودکشی کی تو نوآبادیاتی نظام کے جبر تلے محنت کش زندہ کب ہوتا ہے؟ ـ
یہ کسی حد تک درست ہے کہ محکوم قوم کی نسبت حاکم قوم زیادہ منظم اور مسلح ہوتا ہے ـ محکوم کا اسلحہ کم ترقی یافتہ ہوتا ہے ـ اس کی جنگی صلاحیت نسبتاً کم تر درجے کی ہوتی ہے ـ اس کے پاس پروپیگنڈے کے ذرائع محدود ہوتے ہیں ـ تاہم تشدد پر مبنی قومی جنگ اپنے راستے ڈھونڈھ ہی لیتی ہے ـ لینن نے کہا تھا “انقلاب کی کامیابی کے لئے تین چیزوں کی ضرورت ہوتی ہے ـ اول نظریہ، دوم نظریہ اور سوم نظریہ” ـ نظریہ یعنی ایک نظریے پر قائم انقلابی تنظیم ـ بلوچ اس پل صراط کو پار کرچکے ہیں ـ اسٹالن نے ممفس کے مزدوروں سے خطاب کرتے ہوئے کہا تھا کہ “ہمیں ظلم کے نشانات کو ختم کرنے کے لئے تین چیزوں کی ضرورت ہے ـ اول اسلحہ ـ دوم بہت اسلحہ اور سوم بہت زیادہ اسلحہ” ـ بلوچ ؛ نظریے کے بعد اب اسلحے کے زیادہ سے زیادہ حصول کی جانب کامیابی سے پیش قدمی کر رہے ہیں ـ اس جنگ میں بلوچ کا مہلک ترین اسلحہ فدائی ہے جو بقول پاکستانی فوجی دانش ور کے جو حیرت انگیز اور ناقابلِ پیشن گوئی ہے ـ پنجگور اور نوشکی کا حملہ اس لئے اہم ہے کہ بلوچ نے پہلی دفعہ منظم طریقے سے مکمل سکون و اطمینان کے ساتھ طاقت کے اہم ترین مراکز کو نشانہ بنا کر یہ ثابت کردیا کہ وہ تشدد پر مبنی قومی جنگ کو ایک نئی جہت دینے کی صلاحیت حاصل کرچکے ہیں ـ
بنگال کی آزادی کو جغرافیہ اور بھارت کی ہمسائیگی کی وجہ قرار دینے والے قریب ترین تاریخ ایسٹ تیمور کو بڑی ہوشیاری کے ساتھ حذف کردیتے ہیں ـ یاد رکھنا چاہیے وسیع و عریض بلوچ سرزمین اور کم آبادی خود ایک ایسا مہلک ہتھیار ہے جس کا توڑ پنجابی نوآبادیاتی فوج کے پاس تاقیامت نہیں آسکتا ـ وسیع و عریض سرزمین پر بکھری ہوئی قوم کی منظم جنگ کا سامنا دیوہیکل امریکہ بھی نہ کرسکا اور ویت نام سے ذلت آمیز انداز میں بھاگنا پڑا ـ یہاں تو ویت نام کے مقابلے میں زیادہ وسیع اور دشوار سرزمین ہے جہاں دور دور تک آبادی اور پانی کا نام و نشان نہیں ہے ـ فوج کہاں کہاں چیک پوسٹیں بنائے گی اور کہاں کہاں ان چیک پوسٹوں کو قومی جذبے سے سرشار محنت کش سرمچاروں کے غیض و غضب سے بچا پائے گی؟ ـ ٹالسٹائی کے شہرہ آفاق ناول “جنگ و امن” کے اختتام میں روس پر حملہ آور فوج روسیوں سے نہیں بلکہ ان کی سرزمین سے ہارتی نظر آتی ہے ـ سو بنگال کی مثال دینے والے احمقانہ توجیہات دے کر بلوچ کو ڈرانے کی بجائے اپنے ڈر پر قابو پانا سیکھ لیں ـ
*تشدد ناگزیر کیوں*
یہ امر اظہر من الشمس ہے کہ نوآبادی بنائے جانے والے اقوام کا تشدد خلا میں جنم نہیں لیتا ـ ـ نوآبادیاتی نظام کو برقرار رکھنے کے لئے تشدد لازمی امر ہے ـ نوآبادیاتی نظام اور تشدد لازم و ملزوم ہیں ـ نوآبادیاتی تشدد اپنا تضاد اپنے ساتھ ہی لاتا ہے یعنی محکوم قوم کا جوابی تشدد ـ درست موضوع کی عدم موجودگی کے دوران محکوم اقوام کے اراکین نوآبادیاتی تشدد کا جواب اپنے ہی ہم لسان/قوم/نسل کو دیتے ہیں ـ خاندانی دشمنیاں بڑھ جاتی ہیں، قبائلی تصادم کی تعداد میں اضافہ ہوجاتا ہے، وہ ایک دوسرے کے خون کے پیاسے ہوجاتے ہیں ـ درست موضوع کی غیر موجودگی میں عیار نوآبادکار اس صورتحال کو بڑھاوا دینے کی ہر ممکن سعی کرتا ہے ـ وہ بھائی کو بھائی سے لڑانے کی راہیں ہموار کرتا جاتا ہے ـ اس دوران نوآبادیاتی دانش ور بھی خاموش رہتا ہے ـ اسے محکوم اقوام کی آپسی دشمنیوں اور تشدد کے مظاہرے سے کوئی تکلیف نہیں ہوتی ـ
نوآبادکار اور اس کے دانش ور کو محکوم قوم کے تشدد سے اس وقت مسئلہ ہوتا ہے جب کوئی انقلابی تنظیم ان پڑھ دیہی آبادی کو غصہ نکالنے کا راستہ دکھاتا ہے جو نوآبادکار کے مضبوط قلعے اور اس کے عالیشان محلوں کی طرف جاتا ہے ـ محکوم اقوام کے زیردست طبقات رفتہ رفتہ اس راہ کے راہی بن جاتے ہیں ـ
حیرت نہیں ہونی چاہیے جب پنجابی نوآبادکار کے دانش ور بلوچ تشدد کو “ناراضی” ، “احساس محرومی” ، “چند لڑاکا لونڈوں کی جذباتیت” اور “حکمران طبقے کی سازش” کے نام سے پکار کر اس راستے کا رخ موڑنے کی شعوری کوشش کریں ـ اس شعوری کوشش میں بلوچ پیٹی بورژوازی کا وہ غالب حصہ بھی شامل ہوتا ہے جو ماضی کے پرامن جدوجہد کی وجہ سے پنجابی نوآباکار سے رشتہ بنا کر مالِ مسروقہ کا ایک حصہ اپنے لئے مختص کر چکا ہے ـ وہ محنت کش طبقے کے تشدد سے خوف زدہ ہوجاتا ہے ـ اسے وہ سب چھن جانے کا ڈر لگا رہتا ہے جو اس نے گھٹیا ترین چاپلوسی کے ذریعے حاصل کیا ہوا ہے ـ بلوچ متوسط طبقے کی سب سے بڑی پارلیمانی جماعت نیشنل پارٹی کے قائدین اسی زُمرے میں آتے ہیں ـ ڈاکٹر مالک بلوچ کا نوشکی و پنجگور حملوں کے بعد سمجھوتہ کرانے کی پیشکش والی ٹوئیٹ اسی ڈر و خوف کی عکاسی کرتی ہے ـ ڈاکٹر مالک بلوچ اور اس قبیل کے دیگر رہنما نوآبادیاتی نظام کی غلاظتوں میں مکمل طور پر لتھڑ چکے ہیں ـ وہ بلوچ محنت کش کو بھی اس غلاظت کا حصہ بنانے کے خواہش مند ہیں تاکہ ان کے سستے مفادات کا تحفظ ہوسکے ـ
پنجابی نوآبادکار کا سدھایا ہوا بورژوازی (باپ پارٹی) ہونقوں کی طرح اپنے آقا کو تک رہا ہے ـ وہ نہ ڈاکٹر مالک بلوچ کی طرح سمجھوتہ کروانے کی پیشکش کرسکتا ہے اور نہ ہی سردار اختر مینگل کی مانند جنگی نقصانات کو ایشو بنانے پر قادر ہے ـ وہ بظاہر خود کو نوآبادکار کا قائم مقام دکھانے کا دکھاوا کر رہا ہے مگر بیس سالہ طویل پرتشدد تحریک نے اس کے لئے صرف لوٹ مار میں زیادہ سے زیادہ حصہ بٹورنے کے علاوہ اور کوئی راستہ نہیں چھوڑا ـ
بلوچ بورژوازی کا وہ مختصر حصہ جو خود کو اس جنگ کا بانی سمجھتا ہے مہلک پرتشدد واقعات کے بعد بھنور میں پھنس چکا ہے ـ وہ سودے بازی کی صلاحیت کھو کر واپسی کے راستوں کو مسدود ہوتا دیکھ رہا ہے ـ یقیناً یہ بلوچ تحریک آزادی کا ایک نیا فیز ہے جس نے ایک نئی صف بندی کو جنم دیا ہے ـ
معروف بلوچ ادیب تاج بلوچ نے اپنے ایک بلوچی مضمون میں شکوہ کیا کہ ؛ “ہم” کی تعداد گھٹتی جارہی ہے جبکہ “وہ” کی تعداد بڑھتی جارہی ہے ـ ان کے مطابق ہمیں “ہم” کی تعداد بڑھانی چاہیے ؛ ـ یورپ اور خلیج میں جلاوطن بلوچ ادبا کے خیالات عموماً معروضی حقائق سے تہی ہوتے ہیں ـ وہ سرمایہ دارانہ سماج کے “انسانی حقوق” کے مشاہدے میں کھو کر نوآبادیاتی زندگی کو بھی سرمایہ دارانہ شعور کی عینک سے دیکھتے ہیں ـ وہ سرمایہ دارانہ نیولبرل سماج کی بھول بھلیوں میں بھٹک کر یہ بھول جاتے ہیں کہ غلامی کی زندگی گزارنے والے عوام کا جوابی تشدد ہر آن نئی صف بندیوں کو جنم دیتا ہے ـ مختلف النوع مفادات کے حامل طبقات و گروہوں میں اکھاڑ پچھاڑ معمول بن جاتا ہے ـ یہ انتشاری نظم و ضبط جیسی چیز ہوتی ہے ـ سرمایہ دارانہ انسانی حقوق سے لطف اندوز ہونے والے افراد کو ہر انسانی حق سے محروم افراد کا تشدد سرمایہ دارانہ “مہذب انسانی اقدار” کے دائرے سے باہر نظر آنے لگتا ہے ـ وہ خود کو بتدریج “ہم” سے خارج محسوس کرنے لگتے ہیں ـ یہ افراد کبھی تشدد کی بجائے “تعلیم” حاصل کرنے کا مشورہ دیتے ہیں (امریکہ میں مقیم بلوچ صحافی ملک سراج اکبر) ، کبھی عالمی برادری کا ڈر دکھاتے ہیں (کینیڈا میں جلاوطن بلوچ سیاسی کارکن لطیف بلوچ) ـ بقول پاؤلوفریرے “یہ غیر شعوری طور پر غلط شعور کو درست مان کر اسے کلی طور پر اپنا چکے ہیں تانکہ اپنا شمار مہذب انسانوں میں کرسکیں” ـ
بلوچ تشدد کا خاتمہ پنجابی نوآبادیاتی نظام کے مکمل خاتمے سے مشروط ہے ـ بلوچ کا ظاہری تشدد کسی بھی صورت نوآبادیاتی نظام کے نفسیاتی، معاشی، سماجی اور فوجی تشدد کے برابر نہیں ہوسکتا ـ
عوام کی طرف سے بلوچ فدائین کی شہادت کو گلیمرائز کرنا اور انہیں ہیرو قرار دینا کسی بھی صورت غلط نہیں ہے ـ موت زندگی کا تضاد ہے جو زندگی اپنے ساتھ لے کر آتا ہے سو موت کا دکھ دراصل زندگی کا نوحہ ہے ـ اگر زندگی کو گلیمرائز کیا جاسکتا ہے تو موت کو کیوں نہیں کیا جاسکتا؟ ـ موت کے بغیر زندگی ایک بے معنی شے ہے ـ زندگی اس وقت تک خوبصورت نہیں ہوسکتی جب تک موت اس کے ساتھ وابستہ نہ ہو ـ زندگی کو بچانے کے لئے مرنا ضروری ہے ـ بلوچ فدائین نے زندگی بچانے کے لئے موت کو قبول کیا ـ ان کی موت ہی اجتماعی زندگی کا تحفظ ہے ـ

Facebook Comments

ذوالفقارزلفی
ذوالفقار علی زلفی کل وقتی سیاسی و صحافتی کارکن ہیں۔ تحریر ان کا پیشہ نہیں، شوق ہے۔ فلم نگاری اور بالخصوص ہندی فلم نگاری ان کی دلچسپی کا خاص موضوع ہے

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply