اخلاقی قدریں۔۔ڈاکٹر شاہد ایم شاہد

دنیا کی کُل آبادی تقریبا ًسات ارب 80 کروڑ سے زائد ہے ۔طاقت اور زور کے بل بوتے قومیں اور ممالک ایک دوسرے کو زیر کرنے کے منصوبے بناتے رہتے ہیں۔ایک غریب انسان سے لے کر غریب ممالک تک قرضوں کا بوجھ دن بدن بڑھ رہا ہے ۔جب کہ دنیا کی زبوں حالی یہ ہے کہ ایک امیر امیر تر اور ایک غریب غریب تر ہوتا جا رہا ہے ۔رہی سہی کسر معاشرتی ناہمواریاں انسان کا پیچھا کر کے اسے غربت کی دلدل میں دھکیل رہی ہیں ۔بلاشبہ تعلیم ،ہنر ،علم کی فراوانی دنیا کو ترقی کے مواقع فراہم کر رہی ہے ۔

آج کا ہر انسان دل کے اجالے اور رات کے پہروں میں ترقی کے خواب و سپنے دیکھ رہا ہے، تاکہ اسے اپنے خوابوں کی تعبیر بہت جلد مل جائے اور دنیا کی تمام آسائشیں اس کے قدموں میں ڈھیر ہو جائیں ۔دنیاوی خواہشات کے حصار میں گرا ہوا انسان آدم سے آدم خور بن رہا ہے ۔وہ حلال و حرام میں تمیز کیے بغیر اپنے آپ کو اس میدان میں کھڑا کرنا چاہتا ہے جہاں لوگ 40 سال کی آزمائش کاٹ کر کھڑا ہوتے ہیں ۔اسے دنیا کی حرص و ہوس نے انسان کو اس حد تک اندھا کر دیا ہے نہ  اسے اپنی خبر اور نہ  دوسروں کی ۔وہ ایک ایسی ڈگر پر محوِ گردش ہے جہاں نہ  منزل ہے اور نہ راحت ۔

آج اس روئے زمین پر ہر روز ظلم و ستم کی تاریخ رقم کی جاتی ہے ، گناہ کا زور و شور سنائی دیتا ہے، خون ریز ی  زوروں پر ہے ، شراب و کباب کی محفلیں ہیں ، دہشت و وحشت کے چرچے ہیں ، بد چلنی و بدکرداری کے واقعات ہیں ، دوسروں کے حقوق پر ڈاکہ ڈالنا معمولی بات ہے ، جدھر بھی دیکھو گناہ کا ہنگامہ و شور ہے، ہر سُو بے چینی کے آثار و کیفیات ہیں، ہر انسان دوسرے سے بدظن نظر آتا ہے ، ایمانداری کو دیمک چاٹ رہی ہے ، الغرض ہماری آنکھیں ان واقعات کو ٹکٹکی باندھ کر دیکھ رہی ہیں اور ہمارے کانوں میں گناہ کی گھنٹیاں مسلسل زور زور سے بج رہی ہیں ،البتہ ہم گونگے اور بہرے بن چکے ہیں ، ہماری زبانوں کو گناہ کا کیڑا لگ چکا ہے ، ضمیر بے آواز ہو چکے ہیں ، ذہن ماؤف اور عقل پر پردہ پڑ چکا ہے ۔

ہر انسان ایک دوسرے سے سوال کر رہا ہے کہ ہم زندگی کیسے گزاریں ؟  ہر انسان کے رہن سہن اور عادات و اطوار میں تبدیلی آرہی ہے ۔رویے تعبیر و تبدل کے سانچے میں ڈھل رہے ہیں ۔انسان اخلاقی طور پر دیوالیہ ہو چکا ہے اس کے برعکس وہ معاشرتی ،اخلاقی، سماجی، تہذیبی ، اور سماجی قوانین کو اپنے پاؤں تلے روند رہا ہے، وہ بے سمت سفر کر رہا ہے ، اسے اپنی منزل کی خبر نہیں ، وہ لکیر کا فقیر بن چکا ہے ،اس کی آنکھوں میں گناہ کے ککرے اتر آئے ہیں اور جہالت کی چربی نے اسے اندھا بنا دیا ہے ، وہ تہذیب کے دائرے سے نکل کر حیوانیت کے دائرے میں داخل ہوچکا ہے ، وہ غفلت کی نیند   سو رہا ہے ۔

یہاں اخلاقی قدریں موجود ہیں ہر کوئی ان سے واقفیت رکھتا ہے ۔اور ہر کوئی اس بات کو بھی جانتا ہے کہ اگر کوئی پیاسا ہے تو اسے پانی پلانا چاہیے ، اگر کوئی ننگا ہے تو اسے کپڑا پہنانا چاہیے ، اگر کوئی بھوکا ہے تو اسے کھانا کھلانا چاہیے ، اگر کوئی بے روزگار ہے تو اسے روزگار دلانا چاہیے ۔خیر دنیا کی بڑھتی ہوئی آبادی نے انسانوں کو مسائل کی دلدل میں ضرور اُتارا ہے ۔انسان کو قدم بہ قدم مسائل کا سامنا ہے ۔اسے زندگی سلجھاتے سلجھاتے وقت موت کے قریب لا کر کھڑا کر دیتا ہے لیکن مسائل کا رونا پھر بھی بند نہیں ہوتا ۔حالات و واقعات انسان کو بے بسی کے عالم میں داخل کر دیتے ہیں ۔جہاں پر پڑا ہوا انسان اونگھتارہتا ہے ،اس پر سکتے کا عالم طاری ہو جاتا ہے ۔

افسوس ہماری دنیا کی حالتِ زار یہ ہے، یہاں بھوکے کو کوئی دے نہیں سکتا اور خوشحال کو کوئی دیکھ نہیں سکتا ۔یہ ہمارا عجیب رویہ اور تنگ نظری ہے ۔ہماری سوچ دیمک زدہ ہے ۔ہر انسان کی سوچ کا اپنا زاویہ ہے ۔کوئی اپنی سوچ کو 30 ڈگری کے زاویے پر کوئی 60 اور کوئی 90 ڈگری  کے زاویے پر لے کر  کھڑا ہے ۔البتہ ایک بات جو روح پرور ہے وہ مثبت سوچ ہے ۔

یاد رکھیں ہماری سوچ جتنی زیادہ مثبت ہوگی اتنی ہی تیزی سے ترقی اور خوشحالی کا دائرہ وسیع ہوگا  ۔ہمیں اتنی ہی کامیابی و کامرانی ملے گی ۔ہم برائی پر غالب آ سکتے ہیں ۔ہم مثبت سوچ کی  شمع جلا کر برائی کے کیڑوں مکوڑوں کو ختم کر سکتے ہیں ۔
اگر ہم واقعی فرض شناس اور احساس کی تڑپ رکھتے ہیں تو ہم معاشرے میں اپنا مثبت کردار ادا کر سکتے ہیں ۔ اس کے برعکس اگر خدا نخواستہ ہمارا کردار داغ دار ہو جائے تو ہم راستبازی کے پھل کہاں سے ڈھونڈ یں گے؟ شاید ہم نے دوسروں کو دکھانے کے لیے اپنے ماتھے پر راستبازی کے لیبل چپکائے ہوئے ہیں اور اپنے ہاتھوں میں راستبازی کی مہر یں لیے پھرتے ہیں تاکہ ہم ثابت کر سکیں کہ ہم بڑے نیک اور انسانیت پرست ہیں ۔

اگر اس بات کو معاشرتی حقائق کے تناظر میں دیکھا  جائے تو اس بات کا چرچا عام ہو جائے گا کہ ہمارا اندرونی منشور خدمت کے نام پر تجارت ہوتا ہے ۔آپ خود سے مندرجہ ذیل سوالات کریں اور اپنے ضمیر کی آواز سن کر فیصلہ کریں کہ ہم کتنے نیک سیرت ہیں ؟
کیا ہم کھانے پینے کی چیزوں میں ملاوٹ کرتے ہیں ؟
کیا ہم جھوٹ وفریب کے ساتھ دولت کماتے ہیں ؟
کیا ہم انسانی حقوق و فرائض کی پاسداری کرتے ہیں ؟
کیا ہم اپنے مفاد کی خاطر دوسروں کا خون بہاتے ہیں ؟

آئیں ان سوالات کی روشنی میں اپنا تسلی بخش جواب ڈھونڈیں ۔آج دنیا کا سنگین ترین گناہ اور جرم قتل و غارت ہے ۔انسان کے خون بہانے کی دو بڑی وجوہات سامنے آتی ہیں ۔وہ زر اور زن ہے۔اگر اس بات کو دو لفظوں میں سمیٹنا مقصود ہو تو وہ دولت اور عورت کی ہوس ہے ۔لوگ معمولی جھگڑوں اور زمین کے معاملات پر انسانوں کو فورا ً موت کے گھاٹ اتار دیتے ہیں ۔
ہم ہر روز ظلم و ستم کی کتنی داستانیں سنتے ہیں ، کیا ہمارا ضمیر ہمیں اس بات پر ملامت کرتا ہے ؟

مگر افسوس ! ہمارے کانوں پر جوں تک نہیں رینگتی ۔انسان خدا کو پہلے غضب کا موقع نہیں دیتا بلکہ وہ خود اپنا حساب برابر کرنے کی کوشش شروع کر دیتا ہے۔یہ بنی آدم سے میرا سوال ہے آخر انسان کب تک جسم اور خون کی آگ میں جلے گا اور وہ دوسروں کا خون بہاتا رہے گا ۔

ہماری دنیا میں انسانی حقوق کے قوانین موجود ہیں لیکن ہم تو ہر روز قوانین کی دھجیاں اڑاتے ہیں ۔نہ  ہماری آنکھوں میں شرم و حیا کا سرمہ  اور نہ  ہمیں انسانیت کی قدر و قیمت کا احساس ۔ مذکورہ باتوں اور حالات و واقعات کی روشنی میں کہا جاسکتا ہے کہ شاید ہم نے ابھی تک اخلاقیات کا قاعدہ ہی نہیں پڑھا ۔اگر پڑھا ہوتا تو ہماری یہ حالت زار نہ ہوتی ۔ہم اتنے بے حس نہ ہوتے ۔یہ بات سمجھ سے بالاتر لگتی ہے کہ انسان اپنی ذات کے لیے خود غرض، منافق، دھوکےباز، ملاوٹ خور ، بد کردار، بد نظر ، اور بد تہذیب کیوں بن جاتا ہے ؟

بہبود کے لئے اخلاق کا دامن پھیلانا ہوگا ۔اپنا قبلہ درست کرنا ہوگا ۔دوستی کا ہاتھ بڑھانا ہوگا ۔مہنگائی اور بے روزگاری پر قابو پانے کے لیے مشترکہ لائحہ عمل لانا ہوگا ۔

Advertisements
julia rana solicitors

فضول بحث و مباحثہ میں الجھنے سے بہتر ہے پہلے اپنی اصلاح کی جائے پھر دوسروں کو تنقید کا نشانہ بنایا جائے۔پہلے اپنی ذات میں ایمان ،صبر و تحمل، ڈسپلن، ایفاۓ عہد ، خوشی ، انصاف ، ایمانداری اور وفاداری جیسی صفات ڈھونڈیں ۔یہی بہتر نمونہ اور رویہ ہے یہاں سے ہی عملی زندگی کی شروعات ہوتی ہے جو ہمیں انسان اور خدا کی نظر میں مقبول بناتی ہے۔

Facebook Comments

ڈاکٹر شاہد ایم شاہد
مصنف/ کتب : ١۔ بکھرے خواب اجلے موتی 2019 ( ادبی مضامین ) ٢۔ آؤ زندگی بچائیں 2020 ( پچیس عالمی طبی ایام کی مناسبت سے ) اخبار و رسائل سے وابستگی : روزنامہ آفتاب کوئٹہ / اسلام آباد ، ماہنامہ معالج کراچی ، ماہنامہ نیا تادیب لاہور ، ہم سب ویب سائٹ ، روزنامہ جنگ( سنڈے میگزین ) ادبی دلچسپی : کالم نویسی ، مضمون نگاری (طبی اور ادبی) اختصار یہ نویسی ، تبصرہ نگاری ،فن شخصیت نگاری ، تجربہ : 2008 تا حال زیر طبع کتب : ابر گوہر ، گوہر افشاں ، بوند سے بحر ، کینسر سے بچیں ، پھلوں کی افادیت

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply