• صفحہ اول
  • /
  • نگارشات
  • /
  • عمران خان, پاکستان اور 2028(2،آخری حصّہ) ۔۔ محمد اسلم خان کھچی ایڈووکیٹ

عمران خان, پاکستان اور 2028(2،آخری حصّہ) ۔۔ محمد اسلم خان کھچی ایڈووکیٹ

اس 49 ارب ڈالر میں سے پیپلزپارٹی کے دور میں یعنی 2008 سے 2013 کے درمیان 14.7 ارب ڈالر جبکہ گزشتہ دورِ حکومت یعنی مسلم لیگ ن کے دور میں 34.3 ارب ڈالر قرض لیا گیا۔
95 ارب ڈالر ہم کھا گئے۔ اب ہم نے اصل پیسے بھی واپس کرنے ہیں اور اسکا مہنگا سود بھی ادا کرنا ہے اور یہ ہم نے ادا کرنا ہے  ۔

کبھی کسی نے پوچھا کہ شریف خاندان اب بھی سیاست پہ اربوں روپے کہاں سے خرچ کر رہا ہے۔؟آخر ان کو کیا پڑی ہے کہ یہ ہم پہ اربوں ڈالر خرچ کریں۔ اگر انہیں قوم کی بھوک مٹانے کا اتنا ہی شوق ہے تو بیرونی قرضہ واپس کر دیں۔ زرداری بھی مدد کرے تو ہم ووٹ دینا تو کیا ، ہم انہیں اپنا باپ بھی ماننے کو تیار ہیں ،لیکن یہ کبھی ایسا نہیں کریں گے کیونکہ یہ انویسٹر ہیں۔

یہ سچ ہے کہ عمران خان  انکا زور نہیں توڑ سکا ،ان کا کچھ بگاڑ نہیں سکا ،لیکن اس نے انہیں ٹکے ٹوکری ضرور کر دیا ہے اب کسی کو گردوں کی بیماری لاحق ہے تو کوئی کرسی ساتھ اٹھائے پھرتا ہے کہ کمر میں درد ہے کسی کے چمچے پلیٹیں گم ہو چکے ہیں۔ کسی کی چھوٹی سی سرجری ہونی ہے تو کسی مولوی کے پیٹ کی چربی بڑھ چکی ہے ۔25 سال مسلسل اقتدار کے مزے لینے والا ایک مولوی بیچارہ نفسیاتی مریض بن چکا ہے۔
سسٹم کی کمزوری کا یہ حال ہے کہ ملک کے وزیراعظم کو دھمکیاں دی جاتی ہیں کہ تجھے عبرت کا نشان بنا دیں گے لیکن پاگل پٹھان بھلا ایسی دھمکیوں سے کہاں ڈرتا ہے۔

مجھ پہ لوگ ہنستے ہیں کہ میں عمران خان کو پاپولر لیڈر کہتا ہوں تو مجھے انکی دماغی حالت پہ افسوس ہوتا ہے۔ میں نے چند دن پہلے کہا تھا کہ جس دن عمران خان عوام میں نکلے گا تو سیاست کا نقشہ ہی بدل دے گا اور آپ نے منڈی بہاؤالدین میں دیکھا کہ انسانوں کا سمندر تھا  جو عمران خان کی راہ تک رہا تھا۔ اس نے ایک ہی جلسے میں اپوزیشن کو چاروں شانے چت کر دیا۔ میڈیا کے بھانڈوں کو بھی سانپ سونگھ گیا ہے ۔ سب بتاتے ہوئے ڈر رہے ہیں کیونکہ اگر عمران خان کی تعریف کرتے ہیں تو   پیسے واپس کرنے پڑتے ہیں۔

ہمیشہ سے کہتا آ رہا ہوں کہ عمران خان ہی ملک کے بہترین مستقبل کی ضمانت ہے معمولی سا بھی شعور رکھنے والا پاکستانی جانتا ہے کہ ملک اس وقت اپنی تاریخی ترقی کی منازل طے کر رہا ہے۔ دو چار مثالیں دے دیتا ہوں۔  نو  ڈیمز بن رہے ہیں جو 2030 تک مکمل ہوں گے۔ کنسٹرکشن انڈسٹری عروج پہ ہے۔ تیس سال کے بعد ٹیکسٹائل انڈسٹری میں جان پڑی ہے۔ آٹو موبائل انڈسٹری ملکی تاریخ کی بلند ترین سطح پہ ہے۔ پوری دنیا میں پاکستان واحد ملک ہے جس کا مرکزی بینک آزاد ہے ورنہ تو ایک فون کال پہ یہ خون  چوسنے والے Parasites اربوں روپے آپس میں بانٹ لیا کرتے تھے لیکن اب کوئی چند ہزار لے کر دکھائے۔  جب سے پی ٹی آئی کی حکومت آئی ہے پرنٹنگ پریس آف پاکستان کو تالے لگا دیئے گئے ہیں کہ کوئی نیا نوٹ نہیں چھپے گا۔

روزانہ شور مچایا جاتا ہے کہ قوم مر گئی، پٹرول مہنگا ہو گیا۔ دال مہنگی ہو گئی, گھی مہنگا ہو گیا لیکن شور مچانے والوں  سے کوئی یہ تو پوچھے  کہ 77 سال گزر گئے، ہم زرعی ملک ہونے کے باوجود دالیں باہر سے منگواتے ہیں،گھی باہر سے منگواتے ہیں،کھانے کی 70 فیصد چیزیں باہر سے منگواتے ہیں۔ پاکستان میں یہ سب کچھ کیوں نہیں اُگایا گیا۔۔۔ کوئی غیرت مند بنے اور یہ سوال تو کرے
ہاں ہم نے موٹر وے ضرور بنا دیئے۔ بڑے بڑے کنکریٹ کے پل بنا دیئے کیونکہ اس میں بھاری کمیشن تھا۔

رات دن مہنگائی مہنگائی کا رونا رونے والے, عام آدمی کیلئے چیخ و پکار کرنے والے 30 ,30 کروڑ کی بلٹ پروف گاڑیوں میں سفر کرتے ہیں جو ایک لیٹر میں 4 کلومیٹر سفر طے کرتی ہیں اور گاڑی بھی ایک نہیں ہوتی۔ قافلے میں بیس بیس گاڑیاں شامل ہوتی ہیں۔ قافلہ رکتا ہے اور سٹیج پہ یہی بھاشن دیا جاتا ہے کہ پٹرول نے کمر توڑ دی ہے لیکن پنڈال میں موجود کوئی یہ سوال نہیں کرتا کہ بھائی اگر پٹرول اتنا مہنگا ہے تو ایک گاڑی میں آ جاتے۔ چلیں کچھ بچت ہی ہو جاتی لیکن سب گونگے بن کے اپنے زمینی خداؤں کے چہرے تکتے رہتے ہیں بے شرموں کی طرح تالیاں بجاتے رہتے ہیں ۔

Advertisements
julia rana solicitors london

مہنگائی ضرور ہے لیکن مجھے نہیں لگتی کیونکہ میں کام کرتا ہوں جب سے پاکستان پہ مشکل حالات کے بادل چھائے ہیں۔ میں نے کام کرنے کا دوارنیہ بڑھا دیا ہے ۔آپ بھی بجائے رونے دھونے کے کام کرنے کی عادت بنائیے۔ حڈ حرامی چھوڑنی پڑے گی کیونکہ یہ بات پلے سے باندھ لیجیے کہ پاکستان تبدیلی کے عمل سے گزر رہا ہے اور کسی بھی ملک کی تبدیلی کا عمل بہت کٹھن ہوتا ہے۔ اگلے دس سال تک آپ مشکل سے مشکل ترین حالات سے گزریں گے۔ بہتر ہے کہ بجائے خودکشی کرنے یا بھیک مانگنے کے, ابھی سے کام کی عادت ڈال لیں کیونکہ آئندہ آنے والے سال بہت کٹھن ہیں۔اللہ ہم سب کے لیے آسانی فرمائیں ۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply