اک پھیرا اپنے دیس کا (2)۔۔کبیر خان

’’ مگر میں جاننا چاہتی ہوں کہ تم راولاکوٹ کی گلیوں میں جب کسی شریف عورت کو دیکھتے ہو تو پورا منہ کھول کر کیوں دیکھتے ہو ۔؟‘‘
خواتین خواہ لکھائی پڑھائی میں طاق ہوں ، چاہے سلائی کڑھائی میں ماہر، ایک بار اُن کی سوئی کہیں اٹک جائے ، آسانی سے نکلتی نہیں ۔ بیگم کی سوئی وہیں کی وہیں اٹکی ہوئی تھی ۔ اور تَوا پرتنے سے سرکنے والی نہیں تھی ۔ چنانچہ بتانا پڑا کہ ہمارے ’’زمانہ جاہلیت‘‘ میں راولاکوٹ چند کچّی دُکانوں اور ویسے ہی دُکانداروں پر مشتمل اک بازار ہوتا تھا۔ جو ’’کلّے ویلے‘‘(دوپہر سے ذرا پہلےکا مقامی ڈیجیٹل ٹائم) کھُلتا اور دیگرکے آس پاس بند ہو جاتا تھا ۔ بازار کے بیچوں بیچ ڈوگرہ راج کی گہل نما ایک سڑک لیٹی رہتی تھی ۔ جو سویرے’’پنڈی بھائی‘‘ کے رولے اور طارق بس کے غوغے سے تھوڑی دیر کے لئے جاگتی اور پھر گرد و غبار اوڑھ کر سو جاتی ۔ بازار کے کھُلنے سے پہلے اپنے پنڈی بھائی (ہاکر اور ایک متحرک سماجی کارکن- کریم خان) کی ’’چل پنڈی وائی پنڈی‘‘ کی صدائیں بازارسے اُٹھ کر پوری وادی میں پھیل جاتیں ۔ جنہیں سُن کردُورپرے’’ ککو کی نکّی‘‘تک ذمہ دار بیبیوں کے’’تراہ ‘‘ نکل نکل جاتے۔ وہ چارپائیوں کو لات مار کر کھڑی ہوتیں اور سب سے پہلے گائے بھینسوں کے آگے بین بجاتیں۔
’’ نی چِنک (سوزش، کھُرک) کے گولے جوگئیے ! تیرے خصم کھوجے مریں ، تیرے بیچنے والوں کو قولنج پڑیں ۔ نی نامرادے جگہ پر ٹِک ، تھنوں میں دودھ اُتار۔ تیرے ناز اٹھاؤں یا مہوٹی لگی ساس کے ٹُر جانے کی نیک دعائیں مانگوں ؟۔ مرن جوگیئے ! وہ تیری کچھ لگتی پھبتی بُڈھی جاگ پڑی تو چائے کا گھونٹ بھی نصیب نہیں ہو گا۔ نی تیرے منہ میں کیڑے پڑیں ، دو پوُ لے ڈکار کے حالے وی بند؟ حیا نہیں آئی۔۔۔ مجھے دبّے پرمجبور نہ کر۔ دیکھ میری بہن ! تجھے ٹاہلیاں والے پیر کا واسطہ، دودھ اتار دے۔ میں نے اور بھی کام کرنے ہیں ‘‘ وغیرہ وغیرہ ۔

پنڈی بھائی راولپنڈی کی بس کوچار میل دور ’’پھنڈیں نی گلی‘‘ تک رخصت کر کے پا پیادہ لوٹ آتے تو بازار میں رونق لگی ہوتی۔ ایک بند دُکان کے برآمدے سے ’’دِل‘‘ (مدقوق ومعذور فقیر، جسے اُس کا چھوٹا بھائی سویرے لا کر’’کام پر‘‘چھوڑ جاتا اور شام کو ڈھو کر لے جاتا ) کی کڑاکے دارآواز راہ گیروں کے’’ جھسّ ‘‘ نکال رہی ہوتی۔ ’’دے جا سخیا! اُس کے نام جس نے تیرے جیسے کو بھر کے دیا ہے، مجھے نہیں ۔ ‘‘،’’دے جا ، تیرا اللہ ہی بوٹا لاوے گا‘‘وغیرہ وغیرہ ۔ دل کی قوّت گویائی جتنی پاٹ دار تھی ، اُس سے کہیں زیادہ اُس کی قوّت شامہ تیز تھی۔ وہ کسی طرف سے بھی بازار میں داخل ہونے والی صنف نازک کو ڈیٹیکٹ کر لیتا اور پھر منہ اُس طرف کرکے شروع ہو جاتا:’’اوے دِلا! بڑے بھاگوان ہیں جو دو دو ہو سوتے ہیں ۔۔۔اوئے دلا! میرے لئے دعا کر، نہیں تو آپ بیاہ کر۔۔۔اوئے دلا ‘‘

مصنف:کبیر خان

دِل کی آوازیں / آوازے سُن کر سمجھدار خواتین دُور ہی سے جوتے اتار سر پر رکھ ، ہاتھ بھرکا گھونگٹ نکال بازارسے اُتر پگڈنڈیوں پر ہو لیتیں ۔ اور پھر لمبا پھیر کاٹ کر کسّی نالے کے اُس پارکہیں اپنی راہ لگتیں ۔ چنانچہ جب تلک ’’دِ ل‘‘ زندہ رہا،عورت ذات بازار میں نہیں پھٹکی ۔ اور یوں اک طرح سی پڑ گئی ۔ دل کے گذر جانے کے بعد بھی برسوں تک خال خال ہی معزّز خواتین ادھر سے گذری ہوں گی۔ یہی وجہ ہے کہ کسی مقامی خاتون کو بازار میں دیکھ کر اپنی بصارت اور بصیرت پر یقین نہیں آتا۔ (لگتا ہے اُس تک ’’دل‘‘کی آواز نہیں پہنچی۔) تب حیرت سے بے اختیار منہ کھُل جاتا ہے۔ پھر جب تک عضلات اجازت نہ دیں اسی عالم بے اختیاری میں رہتا ہے۔ ہماری کتھا سُن کر حیرت سے بیگم کا منہ کھُل گیا ۔اور تادیر اسی حالت میں رہا۔۔  لگا سالہا سال بعد’’دل ‘‘ کی بات اُن تک پہنچ گئی ہے۔
’’سچّی مُچّی تم لفنگے،ٹُچّے نہیں ہو۔ ؟‘‘ بیگم نے ہماری کمزوری یعنی خشک تیلا اُٹھا کر ہمارے سر پر رکھتے ہوئے پوچھا۔ ہم نے اُن کے سہاگ کی قسم کھا کر نفی میں سر ہلایا۔ اُن کے چہرے پر اطمینان کی ایک جھلک نمودار ہوئی پھر امّید کے دیئے کی طرح یکلخت بُجھ گئی۔ اُن کا چہرہ ہی نہیں سارا ماحول دھواں دھواں ہو گیا۔ ’’خواتین اوبڑ کھابڑ رستوں ، کانٹوں پتھروں میں جوتے اُتار سر پر کیوں دھرتی تھیں ۔۔۔؟‘‘بیگم نے پوچھا’’کیا یہ بھی کوئی شگون تھا ؟ ۔ ‘‘

عرض کیا اس کی پہلی وجہ یہ تھی کہ وہ اہلِ زبان خواتین کی طرح پڑھی لکھی نہیں ہوتی تھیں ۔ لہذا زبان کی باریکیوں سے یکسر نابلد تھیں ۔ اُنہیں محاورے کے مطابق سر پر پاؤں رکھ کر چلنا بھی نہیں آتا تھا ۔ جو بھی سرپرپاؤں رکھ کر چلنے کی کوشش کرتی، لُڑھک جاتی ۔ اس لئے جہاں جانا ہو، اپنی سہولت کے لئے جوتے اُتارسر پر رکھ لیا کرتی تھیں ۔ جس کا دوسرا فائدہ یہ ہوتا تھا کہ ناصرف ٹھوکروں سے بچا ؤ رہتا تھا بلکہ جوتا سالہا سال چلتا بھی رہتا تھا۔

’’تب جوتے بھی عروس البلاد کرانچی سے آتے ہوں گے۔۔ ؟‘‘بیگم نے طنز کیا۔ عرض کیا ، بھلے دنوں میں جملہ بھلے مانس اپنے مِیسے کاریگرکے بنائے ہوئے سائی دار جوتے زیبِ پا فرمایا کرتے تھے۔ مردانہ جوتے کوعموماً جوڑا ، اور صنف نازک کے لئے تیار کردہ پاپوش مبارک کوگرگابی کہا جاتا تھا ۔ جوڑا فوجی بوٹوں کی طرح عموماً بھینسے یا اسی قبیل کے کسی اور مرحوم کے ’’کمائے ہوئے‘‘ چمڑے سے بنایا جاتا تھا، اور لیڈیزگُرگابی اللہ میاں کی کسی گائے کی چمڑی سے تیار کی جاتی تھی ۔۔۔۔ ملائم،نازک مزاج اور ہلکی پھلکی۔۔۔‘‘
’’ایک بات بتاؤ، تمہارے اس پیارے وطنِ مالوف میں ڈھنگ کا کوئی اور جانور نہیں پایا جاتا تھاـــ؟جیسے اژدر وغیرہ۔۔۔؟‘‘
’’نہیں ۔۔۔‘‘ہم نے دست بستہ جواب دیا ’’ اُس زمانے میں جہلم ایک دریا سمان شوُکتا ، جھاگ اڑاتا بہتا تھا ۔ اس کے بہاو کے خلاف کبھی پلّہ بھی سکّھر سے اوپر نہیں چڑھا ، اژدر ماہی کیا آتی ۔ اب خیر سے حالات بدل گئے ہیں ۔ جہلم بھی راویِ ضعیف کی طرح کشمیر کے پہاڑوں کے بیچ پڑا سویا رہتا ہے۔ اُمّید ہے اب پلّہ کے پیچھے پیچھے اژدربھی در آئیں گے ۔ بہت جلد راولاکوٹ میں مردانہ جلد کی جگہ اژدر کے لیڈیز پرس اور جوتے رائج ہو جائیں گے۔ ‘‘
’’تب تلک میں کیا کروں ــ۔۔۔؟‘‘بیگم نے مشورہ طلب کیا۔ عرض کیا میسّر مردانہ چمڑے کی مصنوعات پرہی گذارا فرمائیں ۔ وہ پاؤں پٹخ کر باہر نکل گئیں ۔

Advertisements
julia rana solicitors london

(جاری ہے)

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply