گھوڑوں کی ہنہناہٹ اور تلواروں کی خودکلامی۔۔عدیل رضا عابدی

گھوڑوں کی لگاموں کو ایسے جھٹکا گیا
کہ حسین کا گھر خیموں میں
مشکیزہ انتظار میں
بوسہ بین میں
جوانی تابوت میں
مسکراہٹ صدمے میں
لوریاں سسکیوں میں
سہرا برچھی میں
بچپنہ یتیمی میں
یتیمی ٹکڑوں میں
رجز وصیت میں
اور بڑھاپہ مرثیے میں تبدیل ہو گیا

فرات کے کنارے سے خیمے اکھڑوا کر
کمر شکستہ بوڑھے حسین کا جوان عباس کی لاش سے فاصلہ بڑھا دیا گیا
حسین نہیں جان پائے کہ عباس کی
لاش تک پہنچنے میں ان کی کمر کیسے ٹوٹ گئی
حالانکہ لوگ جانتے ہیں کہ مدینہ سے کربلا تک
کا سفر زیادہ ہے
شاید صغریٰ کے پاس اس کا درست جواب ہو

فرات سے دوری کی طرف دھکیلے جانے والے خیمے
سکینہ کے انتظار میں اضافہ کر دیتے ہیں
خیمے فرات کے کنارے ہی رہتے تو سکینہ جلد دیکھ لیتی
کہ عباس بن بازوؤں کے کیسے مشکیزے کو تھامے
زمین پر نہیں بلکہ سکینہ کے خالی کٹورے پر گر رہے ہیں

فرات سے دور کئے جانے والے خیمے البتہ زینب
کی امید کو کچھ وقت اور دے دیتے ہیں
اگر خیمے فرات کے کنارے ہی رہتے تو زینب
شام غریباں سے پہلے ہی اپنی چادر
کو عباس کے کفن کے لئے استعمال کر لیتی
اور شمر کو زینب کے سر کا درست نشانہ
لینے کے لئے اپنا وقت چادر اتارنے میں ضایع
نہ کرنا پڑتا

خیمے گاڑنا اور انہیں اکھاڑنا عباس
کے بازوں کا آخری استعمال تھا
سکینہ کے مشکیزے کے لئے اسکے قدموں
تک سر کا جھکا لینا عباس کے سر کا آخری استعمال تھا
قاسم کے ٹکڑے چنتے ہوئے
اکبر کے سینے سے برچھی نکالتے ہوئے
حسین کو دیکھنا عباس کی آنکھوں
کا آخری استعمال تھا

فرات سے دور سرکائے جانے والے خیمے
نہیں دیکھ پائے کہ کیسے حسین نے
قاسم کی لاش کے ٹکڑے گٹھری میں جمع کئے
خیموں کے اندر موجود ام فروہ جانتی ہے
کہ خیمے اگر لاش سے دور ہوں تو
بیٹے ماؤں تک پہنچتے پہنچتے ریت
کے ذروں کی طرح اڑ جاتے ہیں
حسین کیسے قاسم کے ٹکڑوں کو
ریت سے جدا کرے اور ام فروہ کو
سمجھائے کہ اب تم کسی احتیاط کے
بغیر ریت پر قدم رکھتے ہوئے شام کا سفر کر سکتی ہو

فرات سے دور کئے جانے والے خیمے شیر خوار
اصغر کو لوریوں سے دور اور حرملہ کے سہ شاخہ
تیر کے نزدیک کر دیتے ہیں
ام فروہ رباب سے ہر گز نہیں پوچھے گی
کہ حسین نے قاسم اور اصغر کی لاش کو
ایک ہی طرح کیوں اٹھایا؟
رباب جانتی ہے کہ کربلا کی ریت پر
اس کی لوریاں کہاں کہاں بکھری پڑی ہیں
تلواریں اس لئے تو نہیں ٹوٹتیں کہ باپ
اپنے شیر خوار بچوں کی قبر بنانے میں
انہیں استعمال کر لیں

فرات سے دور دھکیلے جانے والے خیمے
حسین کی سکینہ سے الوداعی گفتگو
کا دورانیہ بڑھا دیتے ہیں
سکینہ یتیمی کی پہلی رات بہت مشکل
سے ڈھونڈے جانے والے پتھر کو
تکیہ کیوں بناتی ہے؟
تکیے کے لئے وہ پتھر تلاش کرنا جس پر خون کا
ایک نشان بھی نہ ہو سکینہ
کے لئے زیادہ مشکل ہو گا
یا خون آلود پتھروں کو اٹھا اٹھا کر
اپنے باپ کی چھاتی کو تلاش کرنا؟
باپ کی چھاتی کو کہاں تلاش کیا جائے؟
گھوڑوں کے سموں میں؟
پھوپھی کے بینوں میں؟
اماں کی بیوگی میں؟
یا اکبر کو لگی برچھی میں؟
ستر قدم پر کھڑی زینب سکینہ
کی مدد کیوں نہیں کرتی؟

Advertisements
julia rana solicitors london

خیمے فرات کے کنارے ہوں یا فرات سے دور
زینب کو ایک ہی طرح سے لاشوں پر سے گزرنا ہو گا
کسی بھی عزیز کی لاش کو پہچانے بغیر
سروں کے بغیر لاشوں کو پہچاننا
یا گھوڑوں کی سموں میں کسی عزیز کو تلاش
کرنا شام غریباں کے دھویں میں سکینہ کو تلاش
کرنے سے زیادہ مشکل ہے
زینب بہت اچھی طرح پڑھنا جانتی ہے
سکینہ کے چہرے پر لکھی شمر کی ہدایات
سجاد کی کمر پر صادر ہونے والا
سپاہیوں کا حکم
بیوہ عورتوں کی کلائیوں میں
ڈالا جانے والا چوڑیوں نما سفر
یتیم بچوں کے خالی کٹوروں
پر سے مٹتا ہوا باپ کا نام
اور حسین کی سربریدہ لاش
پر واضح لکھا ہوا لفظ “شام”۔۔۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply