مرے زائچے کے اجرام۔۔ڈاکٹر ستیہ پال آنند

یہ جنتری میرے روز و شب کی
کہ جس کے برجوں میں
زحل و مرّیخ و مشتری
زائچے کے اجرام
اپنا ڈیرہ جمائے بیٹھے ہیں
ہر برس مجھ کو یہ بتاتے ہیں
قرض کتنا ہنوز باقی ہے، پیر ِ دوراں کا
جو چکانا پڑے گا سانسوں کے رہتے رہتے
میں جانتا ہوں کہ ایک کولھو کے بیل جیسا
مجھے کڑے کوس چلتے رہنا ہے
ایک ہی دائرے میں
(نان و نمک کی خاطر)
میں جانتا ہوں کہ اس سفر میں
اگر کہیں گر گیا تو اٹھنا محال ہو گا
میں جنتری کے بنانے والے سے پوچھتا ہوں
کہ کیا یہی تھا وہ منصبی کا مقام ِ اشرف
جو مجھ کو بخشا گیا تھا
۔۔۔ اور یہ کہا گیا تھا
کہ ارتقا کے
طویل رستے پہ میرا ختم ِ سفر قریں ہے
کہ آخری منزل ِ فلک میری منتظر ہے
جہاں مرے زائچے کے اجرام
جگنوؤں جیسے میری مٹھی میں بند ہوں گے
جواب کا منتظر ہوں میں
(ایک آل ِآدم کا فرد ِ واحد)
جو زائچوں کا اسیر
سب منصبی کے وعدوں میں
اعتماد اپنا کھو چکا ہے!

Facebook Comments

ستیہ پال آنند
شاعر، مصنف اور دھرتی کا سچا بیٹا

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply