• صفحہ اول
  • /
  • کالم
  • /
  • دو طرح کے لوگوں کی کوشش بے کار ہے۔۔ڈاکٹرشاہد ایم شاہد

دو طرح کے لوگوں کی کوشش بے کار ہے۔۔ڈاکٹرشاہد ایم شاہد

شیخ سعدی کی کہاوت ہے کہ” دو طرح کے لوگوں کی کوشش بے کار ہے ۔ پہلا وہ شخص جس نے مال کمایا پر اسے کھایا نہیں اور دوسرا وہ جس نے علم حاصل کیا لیکن اس پر عمل نہ کیا۔ ”
اگر شیخ سعدی کی مذکورہ کہاوت کو عصری تقاضوں پر، پرکھا جائے  تو معلوم ہوتا ہے کہ شیخ سعدی اپنے زمانے کے عظیم دانشور تھے ۔ان کے اقوال آج بھی اتنے ہی دلچسپی کے حامل  ہیں جتنے کبھی ماضی میں تھے ۔ان کی سنہری باتیں اور اقوال زندگی کے ترجمان نظر آتے ہیں ۔ان میں حکمت و معرفت کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی تھی جس نے انہیں آج تک زندہ رکھا ہوا ہے ۔وہ حقائق کو ایسے ناپ تول کر بیان کرتے جو صدیوں تک زندگی کے ترجمان بن کر عملی نصیحتوں  کی صورت میں موجود  ہیں ۔تاکہ انسان اپنے ایمان و عمل پر پورا اُترے ۔

ان کے اقوال میں جذبات و تخیّلات میں سچ کی قوت نظر آتی ہے ۔شاید آج یہی وجہ ہے انہیں جو پذیرائی ملی اس کی شہرت کا گراف آج بھی دنیا میں جگہ جگہ نظر آتا ہے ۔میں اس ضمن میں کہوں گا سچ وہ قوت ہے جس کو کبھی آنچ نہیں آتی بلکہ سچ کا کمال یہ ہے کہ نہ  تو یہ بکتا ہے، نہ یہ مڑتا اور نہ یہ ٹیڑھا ہوتا اور نہ  یہ جھکتا ہے، بلکہ سینہ تان کر منفی قوتوں کو گرا دیتا ہے ۔اسے گرانے کے لئے جتنی مرضی آندھیاں طوفان آور زلزلے آئیں۔ یہ کبھی بھی   پسپائی قبول نہیں کرتا ۔یہ اتنی کشش اور تاثیر کا حامل ہے کہ آسمان و زمین ، پہاڑوں، میدانوں، ریگستانوں بلکہ فضاؤں میں بھی اس کی خوشبواور طاقت موجود ہے ۔

اس میں روشنی کی وہ کرنیں موجود ہیں جو تاریکی کے اثرات کو ختم کرتی ہیں بلکہ اس کے وجود میں بدی کے خلاف جنگ لڑنے کی فوق الفطرت قوت موجود ہے ۔جو لوگ اس قوت کو اپنی زندگی کا حصہ بنا لیتے ہیں وہ خدا اور انسان کی نظر میں مقبول ہو کر ایسی وراثت چھوڑ تےہیں جو نہ صرف نسلوں کی آبیاری کرتی ہے بلکہ قوموں کی تقدیر بھی بدل دیتی ہے ۔اس قوت سے ہمارے سماج میں پھیلی بہت سی نحوستیں اور برائیاں ختم ہو سکتی ہیں۔بشرطیکہ اسے زندگی میں اولین درجہ دیا جائے تاکہ معاشرے میں امن ،محبت اور خوشی کو فروغ مل سکے۔

بلاشبہ یہ بات فطری حقائق کی ترجمان نظر آتی ہے کہ انسان جس ماحول اور معاشرے میں آنکھ کھولتا ہے وہ اسی کا گرویدہ ہوتا ہے ۔ وہ اسی اقدارو روایات میں ڈھل جاتا ہے ۔یہ انسان کی فطرت ہے اسے جس قسم کا ماحول میسر آتا ہے وہ اسی کے مطابق اپنی زندگی گزارنے کا فن سیکھ جاتا ہے۔
شیخ سعدی کی مذکورہ مثل دو طرح کے لوگوں   کی زندگی کا تجزیہ پیش کرتی ہے ۔پہلا دولتمند شخص ہے جس کے پاس زندگی کی ہر آسائش موجود ہے اور دوسرا وہ جس کے پاس علم کا سمندر موجود ہے ۔

آج عصر حاضر میں دولت مند اور صاحب علم دونوں کی طاقت اور بہتات کا چرچا ہے لوگ انہی چیزوں سے متاثر ہوتے ہیں جو وقت کے مطابق معاشرے میں رائج ہوتی ہیں اور وہ انسان کو آگے بڑھنے کے مواقع فراہم کرتی ہیں ۔ لوگوں کے اندر حاصلات وثمرات کی جنگ چھڑی ہوئی ہے ۔ان کی ترجیحات اور فطرت میں وہ چیزیں رچ جاتی ہیں ۔جن کی لذت و تاثیر انہی جذبات کے ہارمون مہیا کرتی ہیں ۔آج کا انسان اپنی زندگی کو بارونق بنانے کے لیے ان ہی دو چیزوں کے پیچھے بھاگ رہا ہے۔

ہمارا روزمرہ زندگی میں اکثر ایسے ہی لوگوں سے واسطہ پڑتا ہے ۔اگرچہ دونوں کا الگ الگ مقام وحیثیت ہے ۔الگ الگ فوائد اور نقصانات بھی ہیں جن کی روشنی میں ہم تربیتی ورکشاپ لیکر تجزیہ کر سکتے ہیں ۔موجودہ حالات میں علم و دولت کے سوتے پھوٹ پڑے ہیں ۔علم سمندر کی طرح ٹھاٹھیں مار رہا ہے اور دولت کی فراوانی ایسی ہے جیسے درختوں پر اس کے پتے لگے ہوئے ہیں جنہیں لوگ توڑ توڑ کر اپنی تجوریاں بھر رہے ہیں ۔یہ حرص و ہوس کا نہ رکنے والا مادہ ہے جسے آپ جتنا مرضی روکنا چاہیں  یہ لاوے کی طرح پھٹ کر باہر آ جاتا ہے ۔جیسے  اُگے ہوئے پودے کی جڑ زیر زمین ہوتی ہے ایسے ہی دولت کی جڑ بھی ہماری سرشت سے  ختم نہیں ہوتی جو وقت کے ساتھ ساتھ مسلسل بڑھتی رہتی ہے ۔جب تک اسے دولت کے نمکیات ملتے رہتے ہیں یہ پھلتی اور پھولتی رہتی ہے۔

آج لوگوں کے پاس دولت کی بہتات ہے لیکن وہ مختلف امراض کا شکار نظر آتے ہیں ۔وہ ذیابطیس اور بلڈپریشر جیسے امراض میں گِھر چکے ہیں ۔میٹھا نمکین دونوں کھانوں میں پرہیز کرنا پڑتا ہے ۔ایسے لگتا ہے جیسے قدرت نے ان سے اپنی پیدا کی ہوئی نعمتوں کا حق چھین لیا ہے ۔یہاں ایسی بات ہماری زندگی پر سوالیہ نشان بھی ہے اور عبرت کا مقام بھی اور اس دولت کا کیا فائدہ جو آپ سے دنیا کی نعمتیں چھین لے اور آپ کے جسم کو ادویات کا عادی بنا دے اور سب سے اہم بات آخرت جس کا آپ پر دروازہ بند کردے ۔

اگر ان دونوں باتوں کو مد نظر رکھ کر فکری تجزیہ کیا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ علم عمل کے بغیر ادھورا ہے اور دولت استعمال کے بغیر فضول ۔لیکن اس کے ساتھ ساتھ یہ بات بھی یاد رکھنے کے قابل ہے کہ علم غرور پیدا کرتا ہے جب کہ محبت ترقی کا باعث بنتی ہے ۔اگرچہ دولت بہت سارے دوست پیدا کرتی ہے لیکن غریب کا نہ کوئی دوست ہے اور نہ آسرا ۔البتہ وقت پڑنے پر سب ساتھ چھوڑ جاتے ہیں ۔اگر ہم اپنی زندگی میں اس بات کا موازنہ کریں تو ہم اس بات سے باخبر ہو سکتے ہیں کہ  مثبت سوچ اور عمل خوش نصیبی کی کوکھ سے جنم لیتے  ہیں ۔

اس بات سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ ہم کتنے دولت مند ہیں یا کتنے کم علم ہیں ؟ فرق ناہموار جوئے سے پڑتا ہے کہ اس کے اثرات کس قدر مہلک ثابت ہوتے ہیں ۔دو طرح کے باٹ سے خدا کو نفرت ہے ۔کیونکہ نفرت گناہ کی علامت ہے اور جب انسان کی زندگی میں گناہ کا زور و شوربڑھتا ہے تو اس کی آواز خدا تک پہنچتی ہے ۔

چنانچہ خدا پھر اپنا غضب نازل کرتا ہے تاکہ انسان گناہ سے باز آئے ۔بے شک دولت فوائد کی کثرت کی حامل ہے یہ ہر جگہ انسان کا ساتھ دیتی ہے ۔اسے آسودہ رکھتی ہے ۔مشکل وقت میں اس کے کام آتی ہے ۔ر شوت سے ہاتھ رنگتی ہے ۔حرام و حلال کا فرق مٹاتی ہے ۔بلندی اور شہرت عطا کرتی ہے ۔رشتوں میں دراڑیں ڈالتی ہے ۔ذہنی سکون عطا کرتی ہے ۔تجارت کو فروغ دیتی ہے ۔آسائشیں مہیا کرتی ہے ۔دوسروں کے کام بھی آتی ہے اور دوسروں کا حق بھی چھین لیتی ہے ۔تعجب ہے اس ہوا کی اُڑان پر ،کبھی اس کے پنکھ ہوا کے دوش پر لہراتے ہیں اور کبھی ٹوٹ کر گر جاتے ہیں ۔کبھی یہ انسانوں کو منڈی میں فروخت کرتی ہے اورکبھی ساتھ دے کر اپنی اہمیت دوبارہ بنا   لیتی ہے ۔

اسی طرح وقت کے ساتھ ساتھ علم کی دولت بھی تجارت کی منڈی میں فروخت ہونے لگی ہے ۔جہاں انسان کی قیمت کبھی کم اور کبھی زیادہ لگتی ہے ۔بے شک علم اپنی فضیلت اور دسترس میں اپنے اندر ایک خزانہ رکھتا ہے ۔جو لوگوں کو ان کی اہلیت کے مطابق معیار اور سہولیات فراہم کرتا ہے ۔اور آج دنیا میں جتنی بھی تعمیرو ترقی ہوئی ہے اس کے پیچھے علم اور دولت کا ہاتھ ہے جن سے نہ تو انکار کیا جا سکتا ہے اور نہ انہیں فراموش کیا جاسکتا ہے ۔

اگر ان دو چیزوں کے لامتناہی فوائد ہیں تو وہاں ہمیں نقصانات کا خمیازہ بھی بھگتنا پڑتا ہے ۔اس ضمن میں آپ اقرار کریں یا انکار کریں ۔فیصلہ اپنے ضمیر کی عدالت سے لے لیجئے ۔آپ کو خود ہی ان باتوں کا ادراک اور فہم و فراست مل جائے گی ۔قدرت ہر انسان پر مہربان ضرور ہوتی ہے ۔کوئی وقت کو سنبھال پاتا ہے اور کوئی وقت کے ہاتھوں غلام بن جاتا ہے ۔یہ عجیب تصور ہے جس میں تخریب کاری کے عناصر بھی موجود ہیں اور اجر و برکات کا تصور بھی ۔آپ ان دونوں چیزوں کو جیسے استعمال میں لانا چاہیں لا سکتے ہیں ۔کیونکہ لٹو کی ڈور تو آپ کے ہاتھ میں ہوتی ہے۔آپ جیسے چاہیں اسے گھما سکتے ہیں ۔

Advertisements
julia rana solicitors

میں آخر میں علم اور دولت سے مکالمہ کرتے ہوئے اس نتیجے پر پہنچتا ہوں کہ دولت اس انداز سے کمائیں   کہ آپ حلال و حرام میں تمیز کر سکیں اور علم اس نیت سے حاصل کریں  کہ اس پر عمل کر سکیں ۔کیونکہ جو کام حکمت و دانائی سے کیا جائے اس میں سانپ بھی مر جاتا ہے اور لاٹھی بھی بچ جاتی ہے ۔ہماری حکمت عملی انسان پرستی کی بنیاد پر ہونی چاہیے تاکہ ہم دنیا اور آخرت میں عمل اور کردار کی لاج رکھ سکیں ۔میں شیخ سعدی کی اس کہاوت سے اتفاق کرتے ہوئے ایسی دنیا میں کھو گیا ۔جہاں عقل و بصیرت دنگ رہ جاتی ہے ۔
یاد رکھیں ایسی دولت کا کیا فائدہ جو کھانے پینے کا بھی حق چھین لے اور ایسے علم کا کیا فائدہ جو عمل کی داغ بیل ڈال نہ سکے ۔لہذا ضرورت اس امر کی ہے کہ ہم علم و دولت کو اس اعتدال سے بروئے کار لائیں تاکہ ہم دنیا اور آخرت میں سرخرو ہوسکیں ۔

Facebook Comments

ڈاکٹر شاہد ایم شاہد
مصنف/ کتب : ١۔ بکھرے خواب اجلے موتی 2019 ( ادبی مضامین ) ٢۔ آؤ زندگی بچائیں 2020 ( پچیس عالمی طبی ایام کی مناسبت سے ) اخبار و رسائل سے وابستگی : روزنامہ آفتاب کوئٹہ / اسلام آباد ، ماہنامہ معالج کراچی ، ماہنامہ نیا تادیب لاہور ، ہم سب ویب سائٹ ، روزنامہ جنگ( سنڈے میگزین ) ادبی دلچسپی : کالم نویسی ، مضمون نگاری (طبی اور ادبی) اختصار یہ نویسی ، تبصرہ نگاری ،فن شخصیت نگاری ، تجربہ : 2008 تا حال زیر طبع کتب : ابر گوہر ، گوہر افشاں ، بوند سے بحر ، کینسر سے بچیں ، پھلوں کی افادیت

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply