• صفحہ اول
  • /
  • کالم
  • /
  • عظیم اکتوبر سوشلسٹ انقلاب کی بین الاقوامی اہمیت(1)۔۔مترجم/قیصر اعجاز

عظیم اکتوبر سوشلسٹ انقلاب کی بین الاقوامی اہمیت(1)۔۔مترجم/قیصر اعجاز

اپنی تاریخ کے دوران بنی آدم نے کئی انقلابات دیکھے ہیں۔ تاہم، ان میں سے کوئی بھی اکتوبر سوشلسٹ انقلاب کے ساتھ موازنہ نہیں رکھتا؛ تمام ممالک اور تمام اقوام پر اس کے اثرات کی قوت کے لحاظ سے، ان بہت بڑی تبدیلیوں کے لئے جو اس نے قوموں کی تقدیر میں لائی ہیں، کسی تاریخی واقعے کا اس سے موازنہ نہیں کیا جا سکتا۔ اس نے دنیا میں سرمایہ داری کی غیر متنازع حکمرانی کا خاتمہ کیا اور کمیونزم کے دعوے کے دور کا آغاز کیا۔ اکتوبر انقلاب کے نتیجے میں دنیا دو سماجی نظاموں میں بٹ گئی – سوشلزم اور سرمایہ داری۔ اس انقلاب نے مارکسسٹ-لیننسٹ سبق کی درستگی کی تصدیق کی، جو تجربے کے امتحان میں کامیاب ہو چکا تھا۔

اکتوبر انقلاب کی فتح، محنت کشوں اور کسانوں کی ریاست کی تشکیل اور روس میں رونما انقلابی تبدیلیوں نے مارکسزم-لینن ازم، سائنسی کمیونزم کے نظریہ کو حقیقت میں بدل دیا۔ اکتوبر انقلاب نے وہ راستہ دکھایا جس پر چلتے ہوئے بنی آدم سرمایہ داری کو، ان آفات کو جو یہ دنیا کے محنت کش عوام کے لیے لاتی ہے ہمیشہ کے لیے ختم کر دے گا۔

اکتوبر انقلاب کے تجربے نے تمام ممالک کے محنت کش عوام کو دکھایا کہ صرف سوشلسٹ انقلاب ہی بنیادی انقلابی اصلاحات کے لیے ایسے حالات پیدا کر سکتا ہے جو دنیا کی آبادی کی اکثریت کے مفادات کے مطابق ہیں۔ امن، جمہوری آزادیوں کا ادارہ، قوموں کی خود ارادیت کے حق کا نفاذ، کسانوں کو زمین کی منتقلی اور بنیادی ذرائع پیداوار کو قومی تحویل میں لینےکا عمل تمام ممالک اور براعظموں کے محنت کش عوام کی خواہشات رہی ہیں۔

اسی وجہ سے آج تک تمام ممالک کے محنت کش عوام یہ سمجھتے ہیں کہ دنیا کی پہلی سوشلسٹ ریاست کو ہر ممکن تعاون دینا اُن کا فرض ہے۔ اکتوبر انقلاب نے پرولتاریہ بین الاقوامی یکجہتی کی طاقت اور عملداری کا مظاہرہ کیا، جس کے تحت تمام ممالک کے محنت کش عوام کے طبقاتی مفادات ہیں۔ اس یکجہتی کا ایک واضح مظہر دسیوں ہزار جرمن، ہنگری، چیکوسلواک، بلغاریائی اور آسٹریائی  جنگی قیدیوں اور پولش، رومانیہ، سربیائی کے خدمت گاروں اور دیگر قومیتوں کے عوام کا 1917 میں روس میں شامل خدمت گاروں کی سوشلسٹ انقلاب کی فتح اور استحکام کی جدوجہد میں براہ راست شمولیت اختیار کرنا تھی، جو کہ اس وقت روس میں موجود تھے۔

یہ آدمی جس ملک میں تھے نہ تو اس کی زبان اور نہ ہی اس کے رسم و رواج جانتے تھے۔ وہ سب سے زیادہ اس بات کے خواہشمند تھے کہ جلد از جلد اپنے گھروں اور خانوادوں کو لوٹیں۔ لیکن پرولتاری یکجہتی سے متاثر ہو کر، وہ رضاکارانہ طور پر روس میں سوشلسٹ انقلاب کی فتح کے لیے سرگرم جنگجو بن گئے۔

پیٹرو گراڈ اور ماسکو میں مسلح بغاوت کے دوران مختلف ممالک کے جنگی قیدیوں نے سڑکوں پر لڑائی میں حصہ لیا اور روس میں سوویت اقتدار قائم کرنے کے لئے لڑے۔ ان ہنگامہ خیز دنوں سے ملنے والے متعدد دستاویزات روس کے محنت کش طبقے کے ساتھ پرولتاری یکجہتی کو، جس نے سرمایہ داری کو معزول کر دیا تھا، بیان کرتے ہیں۔ 20 فروری 1918 کو پیٹرو گراڈ میں ایک ریلی میں، سابق جنگی قیدیوں نے ایک قرارداد منظور کی، جس میں کہا گیا تھا: “جرمن سامراجیوں اور ان کے ساتھیوں کو، روسی بورژوازیوں کو بتا دیں کہ روس کے پرولتاریہ تنہا نہیں ہیں! کسی بھی نازک لمحے، انہیں کئی ہزاروں قیدیوں کی حمایت حاصل ہو گی۔ بورژوا گروہ کو روسی انقلاب کی مخالفت میں بڑھنے کے لیے پرولتاریوں کی لاشوں پر سے گزرنا ہو گا۔”

ریڈ آرمی کے بین الاقوامی یونٹ 85 شہروں میں بنائے گئے تھے، جن میں ماسکو، سمارا، ساراتوف، پرم، اوریل، ارکتسک اور یاروسلاول شامل ہیں۔ ان کی سربراہی ہنگری کے باشندے تِبور سیمُؤلی(Tibor Szamuely)، بیلا کُن(Béla Kun)، فیرینس میونک(Ferenc Munnich)، میٹی زَلکا(Mäté Zalka)، چیک باشندے جاروسلاو ہاسک(Jaroslav Hašek)، سرب باشندے اولیکو ڈنڈک(Oleko Dundic)، اور باقی انقلابیوں نے کی تھی۔ ان یونٹوں نے بہادری کے ساتھ وائٹ گارڈز اور مداخلت کاروں کے خلاف سوویت جمہوریہ کا دفاع کیا۔ اگست 1918 میں وارسا انٹرنیشنل رجمنٹ کے محاذِ جنگ کی طرف مارچ کرنے سے پہلے ریڈ آرمی کی ایک ریلی میں لینن نے کہا: “آپ کو یہ عظیم شرف حاصل ہے کہ آپ مقدس نظریات کا ہتھیار اٹھائے، اپنے ماضی کے دشمنوں جرمن، آسٹریائی اور میگیاروں کے ساتھ مل کے لڑ کر اقوام کے بین الاقوامی بھائی چارے کو حقیقت کا روپ دیں گے۔

اکتوبر انقلاب محنت کش عوام میں جو ہمدردی پیدا کر سکتا ہے اس سے آگاہ بورژوا ممالک کے حکمران حلقوں نے انقلاب کو بدنام کرنے کے لیے ہر ممکن ذرائع ابلاغ کا استعمال کیا۔ امریکہ، فرانس، برطانیہ، جرمنی اور دیگر ممالک کے اخبارث سوویت جمہوریہ کی صورت حال، بالشویکوں کی طرف سے کی جانے والی “ہولناکیوں” کے بارے میں شاندار کہانیوں سے بھرے پڑے تھے۔ برطانوی حکومت روس میں انقلابی پیش رفت کے بارے میں بہتان تراشیوں سے بھری ایک وائٹ بک منظر عام پر لائی۔

1920 کے موسم گرما میں امریکی کالم نگار والٹر لپ مین(Walter Lippmann) اور چارلس مرز(Charles Merz) نے، جو بعد میں نیویارک ٹائمز کے ادارتی عملے میں شامل ہوئے، ایک کتابچہ شائع کیا جس میں انہوں نے نشاندہی کی کہ نومبر 1917 سے نومبر 1919 کے درمیان مذکورہ اخبار نے سوویت طاقت کے خاتمے کی خبر 91 بار دی تھی۔

اسی دوران جن لوگوں نے سوویت روس کے بارے میں سچ بولا ان کو پولیس کے جبر اور عدالتی ظلم و ستم کا نشانہ بنایا گیا۔ مثال کے طور پر امریکی سینیٹ نے اکتوبر انقلاب کے عینی شاہدین، جو روس کے پرولتاریہ کی فتح کے بارے میں سچ بولتے تھے، کی جانچ کے لیے ایک خصوصی کمیشن قائم کیا۔ اس کمیشن نے صحافی جان ریڈ (John Reed) اور البرٹ رائس ولیمز (Albert Rhys Williams)، روس میں امریکن ریڈ کراس کے سربراہ کرنل ریمنڈ رابنز (Colonel Raymond Robins) اور دوسرے امریکی جو سوویت جمہوریہ سے امریکہ واپس آئے تھے پر مقدمہ چلایا۔

فرانسیسی فوج کے کپتان یاک سیدول(Jacques Sadoul)، جنہوں نے اکتوبر انقلاب کے بارے میں سچائی کو ایمانداری اور شجاعت کے ساتھ پیش کیا، فرانسیسی حکومت نے ان کی غیر موجودگی میں مقدمہ چلا کر 3 بار موت کی سزا سنائی۔ ستمبر 1917 میں وہ فرانسیسی فوجی مشن کے سیاسی مبصر کے طور پر روس آئے۔ لینن (Lenin) کے ساتھ ان کی ملاقاتوں اور ملک میں ہونے والے بہادری کے واقعات نے انہیں زبردست متاثر کیا۔ وہ انقلاب کا گلا گھونٹنے کے مجرمانہ منصوبوں کو بے نقاب کرتے ہوئے سوویت روس کے دفاع میں شامل ہو ئے۔ انہوں نے لکھا: “روس کے مزدوروں اور کسانوں کے معاملات میں متحد ڈاکوؤں اور ان کے جاگیرداروں کی مسلح مداخلت کو کسی بھی صورت فرانسیسی اور روسی عوام کے درمیان جنگ قرار نہیں دیا جا سکتا۔ یہ پرولتاریہ کے خلاف بورژوازی کی، استحصال کرنے والوں کے خلاف استحصال کے شکار طبقے کی جنگ ہے۔ اس طبقاتی جدوجہد میں ہر مخلص سوشلسٹ کا مقام اور نتیجتاً میرا مقام بورژوازی کے خلاف پرولتاری فوج کی صفوں میں ہے۔ لہٰذا میں ریڈ آرمی میں شامل ہو رہا ہوں۔”

فرانس میں رومین رولانڈ (Romain Ronald)، ہنری باربوس (Henri Barbusse) اور دیگر سیاسی شخصیات کو سدول کے خطوط نے سچائی کے ساتھ ان عظیم واقعات کو بیان کیا۔

سرمایہ دار ممالک کے مقتدر حلقوں کی جانب سے اٹھائے گئے اقدامات کے باوجود سچائی نے تمام رکاوٹیں توڑ دیں۔ اس کے بعد فرانسیسی کمیونسٹوں کے رہنما موریس تھورس (Maurice Thorez) نے لکھا: “بے لگام جھوٹ اور بہتان کی مہم نے فرانس کے محنت کشوں پر بہت کم اثر ڈالا۔ یہاں تک کہ ان میں سے سب سے زیادہ پسماندہ لوگوں نے بھی مبہم طور پر محسوس کیا کہ ان کی جمہوریہ روس میں تعمیر ہو رہی ہے، جس مقصد کے لیے روسی مزدور بہادری سے لڑ اور مر رہے ہیں وہ ان کا مقصد ہے، تمام ممالک کے محنت کش عوام کا مشترکہ مقصد۔

مذکورہ بالا ممالک کے علاوہ متحارب ممالک کے عوام نے بھی لینن کے امن کے متعلق فرمان، اور سامراجی جنگ کے خاتمے کے لیے سوویت حکومت کی پُرعزم اور مستقل کوششوں کا پرجوش انداز میں خیر مقدم کیا۔ سوویت روس کی اس مثال نے دکھا دیا کہ آنے والے تمام زمانوں کے لئے جنگوں کا خاتمہ ممکن ہے۔ اکتوبر انقلاب کے اثرات کے تحت بہت سے ممالک میں جنگ کے فوری خاتمے کے لیے ایک عوامی تحریک شروع ہوئی۔ برلن، ویانا، پیرس، لندن اور بوڈاپیسٹ میں سوویت روس کی تجویز کردہ شرائط پر امن کی بحالی کا مطالبہ کرنے والے بڑے سیاسی مظاہرے اور ہڑتالیں ہوئیں۔ صرف جنوری 1918 میں ہی تقریباً دس لاکھ جرمن کارکنان نے جنگ کے خاتمے کا مطالبہ کرتے ہوئے ایک سیاسی ہڑتال میں حصہ لیا۔

جنگ مخالف ریلیوں اور مظاہروں کی ایک لہر پورے امریکہ میں پھیل گئی، جہاں کے عوام نے براہِ راست جنگ کی تمام وحشتوں کا تجربہ نہیں کیا، پھیل گئی۔ امریکی کارکنان کے ایک رہنما یوجین وی ڈیبس (Eugene V. Debs) نے ایک ریلی سے خطاب کرتے ہوئے کہا: “یہاں، اس ہنگامے میں اور متاثر کن اجتماع میں ہمارے دل روس کے بالشویکوں کے ساتھ ہیں۔ اُن بہادر مردوں اور عورتوں نے، ان ناقابل تسخیر ساتھیوں نے اپنی بے مثال بہادری اور قربانیوں سے عالمی تحریک کی اِس شہرت میں نئی چمک پیدا کر دی ہے۔۔۔ فاتح روسی انقلاب کا پہلا کام تمام بنی آدم کے ساتھ امن کی ریاست کا اعلان کرنا تھا، جس میں ایک پرجوش اخلاقی اپیل تھی، نہ صرف بادشاہوں کے لئے، نہ شہنشاہوں، حکمرانوں یا سفارت کاروں کے لئے بلکہ تمام اقوام کے عوام کے لئے۔”

روس کے واقعات سے متاثر ہو کر کچھ سرمایہ دارانہ ممالک میں محنت کشوں نے سرمایہ دارانہ نظام کے خاتمے کے لیے سرگرم جدوجہد شروع کی۔

فن لینڈ میں، جسے سوویت حکومت نے آزادی دے دی تھی، محنت کش طبقے نے بورژوا حکومت کو اکھاڑ پھینکا اور جنوری 1918 کے اختتام پر فن لینڈ سوشلسٹ ورکرز ریپبلک قائم کیا۔ لیکن فن لینڈ کی بورژوازی نے جرمن فوجیوں کی مدد سے انقلاب کو خون میں ڈبو دیا۔

جرمنی میں 1918 کے موسم خزاں میں ایک انقلاب نے بادشاہت کا تختہ الٹ دیا۔ کئی شہروں میں مزدوروں کے نائبین کے سوویت بنائے گئے۔ جنوری 1919 میں برلن، بریمن، ڈسلڈورف، سٹٹ گارٹ اور لیپزگ میں مزدوروں کا زبردست مظاہرہ ہوا جو ایک مسلح جدوجہد کی صورت میں بھڑک اٹھا۔ اپریل 1919 میں باویریا کا تقرر سوویت جمہوریہ کے طور پر کرنے کا دعویٰ کیا گیا۔ لیکن جرمن بورژوازی، سوشل ڈیموکریٹک قائدین جنہوں نے محنت کش عوام کے مقصد سے غداری کی، کی مدد سے محنت کشوں (مزدوروں) کی انقلابی تحریک کو کچلنے میں کامیاب ہو گئے۔

آسٹریا ہنگری میں 1918 کے موسم خزاں میں ایک انقلابی لہر پھیلی اور اس نے بادشاہت کا خاتمہ کیا۔ وہ مخلوط سلطنت، جو اس میں بسنے والے لوگوں کے لیے ایک جیل تھی، ٹوٹ گئی، اور اس کے کھنڈرات پر سے نئی ریاستیں ابھریں : ہنگری، آسٹریا، چیکوسلواکیہ اور یوگوسلاویہ۔

اکتوبر 1918 کے اختتام پر ہنگری میں پرولتاریہ کی قیادت میں ایک بورژوا جمہوری انقلاب برپا ہوا۔ مارچ 1919 میں کمیونسٹ پارٹی کی سربراہی میں بوڈاپیسٹ کے کارکنان اور سپاہیوں نے اقتدار سنبھالا اور ہنگرین سوویت جمہوریہ کا اعلان کیا۔ اس جمہوریہ کا وجود صرف چار ماہ تک قائم رہ سکا: اسے بورژوازی نے غیر ملکی فوجوں کی مدد سے تباہ کر دیا۔

اکتوبر انقلاب نے پوری دنیا میں سوویت روس کے ساتھ یکجہتی کی ایک بڑی لہر کی چنگاری بھڑکائی۔

فروری 1918 کے وسط میں اخبار لا وکٹوائر (La Victoire) نے رپورٹ کیا کہ 1,80,000 منظم کارکنان کی جانب سے پیرس میں دھات کا کام کرنے والوں کے ایک اجلاس نے متفقہ طور پر روسی انقلاب کے ساتھ یکجہتی کی قرارداد کو منظور کیا۔ اسی سال مئی میں پیرس میں جنگی کارخانوں کے 2,00,000 سے زیادہ مزدوروں نے ان نعروں کے تحت ہڑتال کی: “یہ لعنتی جنگ بہت ہوئی!” اور “انقلاب زندہ باد!”

1918 کے موسم گرما میں فرانس میں سوویت روس میں مداخلت کے خلاف احتجاجی مظاہرے ہوئے۔ اکتوبر کے اوائل میں فرانسیسی سوشلسٹ پارٹی کے ایک اجتماع میں ’’سوشلسٹ جمہوریہ زندہ باد!‘‘ کے نعرے کی آواز اٹھائی گئی۔ محنت کشوں کی ریلیوں میں سوویت روس کو مبارکباد کے پیغامات کی توثیق کی گئی۔

فرانسیسی جمہوری دانشوروں کے بہترین نمائندے —نامور مصنفین، سائنس دان اور شہری رہنما — سوویت روس کے سرگرم حامیوں میں شامل تھے۔ ان میں اناتول فرانس (Anatole France)، ہنری باربوس (Henri Barbusse)، رومین رولینڈ (Romain Rolland)، مارسیل کوچین (Marcel Cochin,)، پال لینگیوین (Paul Langevin)، پال ویلنٹ— کوٹوریر (Paul Vaillant-Couturier)، اور جین رچرڈ بلوٰک (Jean-Richard Bloch) شامل تھے۔ اس دور کے بارے میں لکھتے ہوئے، لینن نے نوٹ کیا: “فرانسیسی عوام تقریباً سب سے زیادہ تجربہ کار، سیاسی طور پر سب سے زیادہ باشعور، سب سے زیادہ فعال اور متجاوب ہیں۔”

برطانوی پرولتاریہ کی انقلابی جدوجہد کی تاریخ میں بہت سے روشن صفحات لکھے گئے تھے۔ برطانیہ میں انقلابی تحریک کی سربراہی برٹش سوشلسٹ پارٹی کے اراکین اور فیکٹری نگران کمیٹیوں کے رہنما ولیم گیلاچر (William Gallacher)، ہیری پولیٹ (Harry Pollitt)، تھامس بیل (Thomas Bell)، آرتھر مکمینس (Arthur McManus) اور دیگر افراد کر رہے تھے۔ برطانیہ بھر میں بڑے پیمانے پر ریلیاں نکالی گئیں جن میں محنت کشوں نے “روسی امن فارمولے” کے ساتھ اپنی یکجہتی کا اظہار کیا اور مطالبہ کیا کہ برطانیہ روس کی طرف اپنا ہاتھ بڑھائے۔

فرانس کی طرح برطانیہ میں مزدور تحریک نے نعرے لگائے: “روس سے فوجیں نکالو” اور “جو روس کے خلاف جنگ کرتا ہے وہ مجرم ہے”۔ 1918 میں برطانیہ نے 1,165 ہڑتالوں کا مشاہدہ کیا جن میں 1,1,16,000 مزدور شامل تھے۔

اکتوبر انقلاب کو اٹلی کے محنت کش عوام نے سراہا تھا۔ عوام کی جدوجہد کو انتونیو گرامشی (Antonio Gramsci) اور پالمیرو تولیاتی (Palmiro Togliatti) نے منظم کیا تھا۔ “ویسا کرو جیسا روس میں کیا جا رہا ہے!” یہ اطالوی عوام کا عسکری نعرہ تھا۔ اُس ملک میں سب سے مشہور نام لینن تھا۔ پورے اٹلی میں مکانوں، درختوں، گرجا گھروں اور فوجی بیرکوں پر کوئلے، چاک، پینٹ اور پنسل سے ’’لینن زندہ باد!‘‘ اور “روس زندہ باد!” لکھا ہو تھا۔ جوہوانی جرمنیٹو (Giovanni Germanetto) نے، جو اطالوی محنت کش عوام کی سیاسی جدوجہد میں سرگرم تھا، نے لکھا: “لینن! یہ نام بورژوا طبقے کے لیے ایک انتباہ کے طور پر اور محنت کش عوام کے لیے امید کی ایک گھڑی کے طور پر اٹلی کی گلیوں اور چوکوں میں بولا جاتا تھا۔ لوگوں نے کہا ‘لینن یہاں بھی آئے گا۔’ اکتوبر انقلاب اور اس کے مشہور رہنما کے اعزاز میں مقبول گانوں کے الفاظ کو دوبارہ ترتیب دیا گیا۔ اور مظاہروں کے دوران ہجوم انقلابی بینڈیرا روسا (Bandiera Rossa) کے گانے کا اختتام ‘لینن زندہ باد! بادشاہ کو دفع  کرو!” کے ساتھ کیا کرتے”۔ 30 جنوری 1918 کو نیپلز میں محاصرے کی حالت کا اعلان کیا گیا؛ کئی جنگ کی فیکٹریوں کا کام بند ہو گیا۔ 29 دسمبر کو عوام کے دباؤ میں، سوشلسٹ تنظیموں، ٹریڈ یونینوں اور کوآپریٹوز کے نمائندوں کی ایک کانفرنس میں سوویت روس سے مداخلت پسند افواج کے فوری انخلاء کی قرارداد منظور کی گئی۔

مغربی نصف کرّہ، خاص طور پر امریکہ میں اکتوبر انقلاب نے محنت کش عوام کی جدوجہد کو ایک طاقتور محرک دیا۔ روس کی اس تمثیل کے بعد مزدوروں، سپاہیوں اور ملاحوں کے نائبین کے سوویت کئی امریکی شہروں میں پھیل گئے۔ سیئٹل میں محنت کشوں کے سوویت نے ریلیوں کا اہتمام کیا جس میں مطالبہ کیا گیا کہ امریکی صدر سوویت حکومت کو تسلیم کریں اور روسی عوام کے خلاف تمام مداخلت پسندانہ کاروائیاں بند کریں۔ سوویت آف ورکرز ڈپٹیز آف پٹسبرگ کے مزدوروں کے نائبین کے سوویت جمہوریہ کے اندرونی معاملات میں امریکی مداخلت کے خلاف پیٹسبرگ صنعتی علاقے کے مزدوروں کو احتجاج کی کال دی۔ ملک کے مختلف حصوں میں “ہینڈز آف رشیا” نامی تنظیمیں قائم کی گئیں۔ جلسوں اور ریلیوں میں سوویت روس کے لیے عطیات جمع کئے گئے۔

امریکی محنت کشوں نے مبادراتی کمیٹیاں تشکیل دیں جنہوں نے وہ رضاکاران نامزد کیے جو روس جا کر انقلاب کے بیرونی اور اندرونی دشمنوں کے خلاف سوویت عوام کی جدوجہد میں براہ راست حصہ لینے کے خواہشمند تھے۔ مارچ 1918 میں خارجہ امور کی عوامی کمیٹی کو امریکی بین الاقوامی انقلابی گروہ (یو ایس انٹرنیشنل ریولوشنری گروپ) کی طرف سے ایک ٹیلی گرام موصول ہوا، جس میں کہا گیا تھا کہ یہ گروہ امریکہ سے ایک بین الاقوامی انقلابی فوج کو منظم کرنے اور روس بھیجنے کے لیے تیار ہے۔ ایک اور ٹیلی گرام میں کہا گیا تھا کہ انقلاب کا دفاع کرنے میں مدد کے لیے ریڈ گارڈز بنائے جا رہے ہیں۔ صرف سیٹل میں 500 آدمیوں نے رضاکارانہ طور پر روس جانا تھا، لیکن انہیں خارجی ویزا دینے سے انکار کر دیا گیا۔ امریکہ میں 1918 میں 3,285 سے زیادہ ہڑتالیں کی گئیں جن میں 1,2,00,000 محنت کشوں نے حصہ لیا۔ مارچ 1919 میں لینن نے لکھا: “امریکہ میں، جو سب سے مضبوط اور سب سے کم عمر سرمایہ دارانہ ملک ہے، محنت کشوں کو سوویت یونین کے ساتھ زبردست ہمدردی ہے۔”

لاطینی امریکہ کے کئی شہروں میں انقلابی روس کے ساتھ اظہار یکجہتی کے لیے زبردست مظاہرے اور اجلاس کیے گئے۔

زار شاہی کی حکومت کی طرف سے مشرقی اقوام کے ساتھ طے شدہ غیر مساوی معاہدوں کی سوویت جمہوریہ کی رضاکارانہ منسوخی نے عوام کو بے حد متاثر کیا۔ نوآبادیاتی اور دوسرے ممالک پر منحصر ممالک کے عوام نے سوویت روس کو ایک قابل اعتماد دوست اور بہادر کے طور پر دیکھا۔

جیسے جیسے مشرق میں، ترقی پسند قوتوں نے قومی تنگ دستی پر قابو پالیا تو وہ یہ سمجھنے لگے کہ نوآبادیاتی اور منحصر ممالک کی آزادی کی جدوجہد اور محنت کش عوام کے مشترکہ دشمن— بین الاقوامی سامراج کے خلاف مغربی ریاستوں میں انقلابی دستوں کی جدوجہد کے درمیان براہ راست تعلق ہے۔

جاری ہے

Advertisements
julia rana solicitors london

ماخذ: یہ مضمون کتاب ‘دی گریٹ اکتوبر سوشلسٹ ریوولوشن’ کا آخری باب ہے، جس کے مدیر اعلیٰ پی این سوبولف تھے اور۱۹۷۷ء میں اس کا انگریزی میں ترجمہ ڈیوڈ سکورسکی نے کیا تھا۔

Facebook Comments

قیصر اعجاز
مصنف تاریخ، سماج اور حالات حاضرہ کا مطالعہ مارکس کی طبقاتی تعلیمات کی روشنی میں کرتے ہیں۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply