بھارتی لڑکی اور غیرت سے جڑے چند سوال۔۔علی نقوی

کل سے سوشل میڈیا پر ایک انڈین لڑکی کی ویڈیو نے طوفان کھڑا کیا ہوا ہے کہ جس میں چند انتہا پسند ہندوؤں پر مبنی ایک گروہ ایک کالج جاتی لڑکی کو گھیرنے کی کوشش کرتا ہے لیکن وہ اس ہجوم کو دیکھ کر نہ پریشان ہوتی نہ ہی اسکے قدم لڑکھڑاتے ہیں اور نہ ہی اس کی آواز تھراتی ہے جو ہوتا ہے وہ یہ کہ وہ ہجوم جب “جے شری رام”کے نعرے لگاتا اسکے قریب ہونے کی کوشش کرتا ہے تو وہ اپنے مذہب کا واشگاف اعلان کرتے ہوئے “اللّٰہ اکبر” کے نعرے لگاتی وہاں چند ساعتوں کے لیے رکتی ہے اس سب کے دوران کچھ افراد وہ ہیں کہ جو اس سب کے بیچ آکر کسی ناگہانی کو روکنے کی ہر ممکن کوشش کر رہے ہیں یہاں تک کہ وہ لڑکی کالج کی عمارت کے اندر داخل ہوجاتی ہے اور مشتعل ہجوم منتشر ہو جاتا ہے، اس کے بعد سے اس لڑکی کو حٌریت، استقامت، بہادری، دلیری اور نہ جانے کس کس کا استعار ہ کہا جا رہا ہے ، خصوصاً ہمارے پاکستانی بھائیوں کی خوشی دیدنی ہے کہ ایک بنتِ اسلام نے کس طرح سینکڑوں انتہا پسند ہندوؤں کو دھول چٹائی ہے ۔۔۔۔
ابھی میں اسی لڑکی کا ایک ٹی وی چینل کو دیا گیا انٹرویو سن رہا تھا جس میں اس نے بتایا کہ نعرہ بازی دراصل اس کے خلاف نہیں تھی وہ اپنی سکوٹی پر وہاں پہنچی تو یہ ہجوم اسکی طرف متوجہ ہوا اور انکے احتجاج کا رخ اسکے حلیے کی وجہ سے یہ رخ اختیار کر گیا کہ انہوں نے “جے شری رام” کے نعرے لگانے شروع کر دئیے جس پر میں نے با آواز بلند ” اللّٰہ اکبر” کہنا شروع کر دیا اور عین موقع پر ادارے کی انتظامیہ نے مجھے وہاں سے نکلنے میں مدد فراہم کی ۔۔۔۔۔

یہ ایک نہایت دلاویز کہانی ہے ایک لڑکی کی ہمت کی داستان ہے کہ جس کو پاکستان میں دو وجوہات کی بنیاد پر ز یادہ اہمیت حاصل ہوگئی، ایک تو لڑکی مسلما ن تھی اور دوسرے یہ سب بھارت میں ہو رہا تھا، لیکن کیا کسی ہندو، عیسائی یا کسی بھی اور مذہب کی خاتون کو اگر پاکستان میں کسی مذہبی جماعت کے اراکین اس طرح گھیر لیں کہ جب انکی زبانوں پر “اللہ اکبر”کی صدائیں ہوں، مطالبہ شرعی پردہ ہو، اور ایسے میں وہ اس لڑکی کی طرح “جے شری رام” یا “جیسس کرائسٹ” کے نعرے لگانے شروع کر دے تو کیا ہم اسکی حریت کو بھی ایسے ہی سلام کریں گے یا اس پر سبِ و شتم کریں گے ، آئیے تاریخ سے اسکا جواب مانگتے ہیں۔۔۔۔
مجھے یاد ہے کہ 2007 میں جب ایک آئین شکن غدار پرویز مشرف نے ملک پر ایمرجنسی کا نفاذ کیا تو سول سوسائٹی کہ جس کو ہمارے یہاں لبرل ہونے کی وجہ سے لادین خیال کیا جاتا ہے سڑکوں پر نکلی کہ جس میں مرحومہ عاصمہ جہانگیر سب سے آگے تھیں، آنسو گیس اور شیلنگ کے دھویں سب کو نڈھال کر ریے تھے تو ایسے میں ایک پولیس والا ہاتھ میں ڈنڈا لے کر عاصمہ جہانگیر کہ جن کے ساتھ دیگر خواتین بھی تھیں کی جانب بڑھا جس پر عاصمہ نے کہا کہ مار مارتا کیوں نہیں ہے جب تیرے ہاتھ میں ڈنڈا بھی ہے لیکن ہم نے اس واقعے کو کبھی حریت کی داستان کے طور پر اپنی نئی نسل کو نہیں سنایا، ہم نے جو کیا وہ یہ تھا کہ ہم نے عاصمہ جہانگیر کی سگریٹ اور شراب کا کھوج لگایا ،ہم نے ڈھونڈا کہ کب اس عورت نے انڈیا میں ہونے والے ایک فنکشن میں کتنی دیر ڈانس کیا تھا، ہم میں سے کسی نے آج تک اس عورت کی تحریروں کو اسلیے پڑھنے کی زحمت نہیں کی کیونکہ وہ لبرل تھی اور علی محمد خان جیسے وزیروں اور عمران خان جیسے وزیراعظم نے قوم کو لبرل کا ترجمہ لا دین بتایا ہے، ہم میں سے کم ہی یہ جانتے ہیں کہ وہ اقوام متحدہ کہ جس کے تلوے چاٹ چاٹ کر ہمارے جیسے ملک چند ٹھیکرے حاصل کرتے ہیں اس اقوام متحدہ کے کئی ذیلی ادارے عاصمہ کو مزاحمت کی علامت مانتے ہیں لیکن ہم یہ سب نہیں مانتے، ہم کہ جو آج اس بھارتی مسلمان لڑکی کی عظمت کے قائل ایک ویڈیو سے ہوگئے ہمارے لیے ملالہ یوسف زئی اپنے چہرے میں گولیاں پیوست کرانے کے باوجود اتنی جگہ بھی نہیں بنا سکی کہ ہم اس کو کم سے کم سچا ہی مان لیتے ؟؟ ملالہ اس لیے جھوٹی ہے کیونکہ اس کو گولیاں مارنے والے مسلمان تھے بلکہ ہمارے بہت سے بھائیوں کے مطابق ہم سے بہتر مسلمان تھے کیونکہ وہ جہاد کو اصل دین سمجھتے ہیں، ملالہ اس لیے قابلِ قبول نہیں کیونکہ وہ انہی مسلمانوں کے خلاف باتیں کرتی تھی، آج ہم کہ جو ایک کالج جانے والی یعنی تعلیم حاصل کرنے کی شوقین مسلمان لڑکی کی بہادری کے گن گا رہے ہیں کل تک کہا کرتے تھے کہ ملالہ کی تعلیم حاصل کرنے کی ضد خلافِ شریعت ہے، طالبان اسکو کیسے مان لیں؟؟

ہم کہ جو آج بہت خوش ہیں کل تک ہمارے بزرگ اس بات پر بہت آزردہ تھے کہ جب فاطمہ جناح نے ایک آئین شکن غدار جنرل ایوب خان اور بینظیر بھٹو نے ایک اور غدار ضیاء الحق کے اقتدار کو للکارا تھا ہمارے ہی بزرگ تھے کہ جو صرف الیکشن میں حصہ لینے پر فاطمہ جناح اور بینظیر بھٹو کی کردار کشی کیا کرتے تھے اور اگر آپ اس ہجوم کہ جو آج اس لڑکی کی دلیری کا جشن منا رہا ہے کو غور سے دیکھیں تو ان میں سے کئی ہیں کہ جو مریم نواز شریف کو ایک بدکردار عورت مانتے ہوں گے کیونکہ وہ آج ایک بار پھر قوت اور جرآت کے ساتھ انہی کو للکارتی ہیں کہ جو کل تک فاطمہ جناح اور بینظیر بھٹو سے نبردآزما تھے۔۔۔
اگر ذرا سا غور کریں تو یہ انتہا پسند ہندوؤں کے ہجوم میں گھری لڑکی کیا کہہ رہی ہے وہ کس بات کا اعلان گلا پھاڑ کر کرنا چاہ رہی ہے ؟؟ کیا وہ یہ نہیں کہہ رہی کہ مجھے میرے مذہب اور نظریات کے مطابق حلیہ اختیار کرنے کی آزادی ملنی چاہئے، میرے مذہب، نظریات اور حلیے کی بنیاد پر میرا استحصال مجھے نا منظور ہے، یہ میرا حق ہے کہ میں اپنی زندگی اپنے نظریات کے ساتھ گزاروں ۔۔۔ اب ذ را سا غور کریں کیا یہی کچھ وہ عورتیں نہیں کہہ رہیں کہ جو ابھی کل 8 مارچ کو عورت مارچ میں شرکت کریں گی؟؟ کیا یہ بھی ہو سکتا ہے کہ ایک غیر اسلامی معاشرے میں رہنے والی ایک عورت کا یہ مطالبہ کہ اسکو حجاب پہننے کی آزادی ملنی چاہیے تو بہادری، حریت، جرآت اور عظمت کا استعارہ بن جائے جبکہ ایک اسلامی معاشرے سے یہ مطالبہ نہ ماننے کی استدعا کسی عورت کو بدکردار، کافر و زندیق تو بنائے ہی بنائے اسکو واجب القتل بھی بنا دے؟؟

انتہا پسند ہندوؤں کے سامنے ڈٹ جانا اگر عظمت کی علامت ہے تو ایک لڑکی کا اپنی پسند کے خلاف شادی سے انکار بدکرداری کیوں بن جاتا ہے؟؟
اگر کسی مسلمان لڑکی کا استحصال کافرانہ اور جہنمیوں کا فعل ہے تو ایک لڑکی کی جائیداد ہڑپ جانا کیسے عینِ شریعت ہوگا ؟؟ اسکو پڑھائی سے محروم کر دینا آپ کو کیسے جنت میں لےجائے گا ؟؟
چودہ سال کی بیٹی کے بدلے ستر سالہ بڈھے کی سولہ سالہ دلہن شریعت کے کون سے خانے کو پر کرتی ہے ؟؟
قرآن پاک سے ہدایت حاصل کرتے کرتے اس سے اپنی بہن یا بیٹی جائیداد بچانے کے لئے بیاہ دینا کس اسلام کی خدمت ہے ؟؟
نیوزی لینڈ کے شہر کرائسٹ چرچ میں شہید ہونے والے مسلمانوں کے حق میں کھڑے ہونے والی جسنڈا ارڈن اور سلمان تاثیر کیسے ایک قبیلے کے لوگ نہیں ہیں؟؟
جلیانوالہ باغ کا جنرل ڈائر اور فاتحین ساہیوال معصوم بچوں کے سامنے انکے ماں باپ چھلنی کر دینے والے CTD کے اہلکار کیسے مختلف ہیں ؟؟
قندیل بلوچ کی ویڈیوز دیکھ کر حظ اٹھاتا ایک با ریش شخص کیا قندیل بلوچ سے زیادہ بد کردار نہیں جبکہ وہ مذہب کی روح سے بھی واقف ہے ؟؟

Advertisements
julia rana solicitors london

ہم نے تو ایسے بھی دیکھے ہیں کہ جن کے لیے قندیل بلوچ کا بھائی بھی غیرت کی علامت ہے مجھے ایسوں پر حیرت اس لیے نہیں ہوتی کیونکہ ہم سب قندیل بلوچ کے بھائی ہی تو ہیں۔۔۔۔
لیکن کمال یہ ہے کہ وہ قوم کہ جس نے ابھی کل مفکرِ پاکستان حضرتِ علامہ اقبال کی جنم بھومی کو ایک سری لنکن مہمان کے لیے جہنم بناتے ہوئے بلاس فیمی کے جھوٹے اور بے بنیاد الزام میں زندہ جلایا ہے اور اس جلتے ہوئے ایک اقلیتی مہمان کی لاش پر کھڑے ہو کر تصاویر بنوائیں ہیں آج اس بات پر خوش ہیں کہ ایک مسلمان لڑکی نے انتہا پسند ہندوؤں کا ڈٹ کر مقابلہ کیا ہے یہ کسی قوم کی وہ حالت ہے کہ جو قابلِ رحم بھی نہیں ہے بر صغیر کی تقسیم کی بنیاد نفرت پر اٹھائی گئی ہے اور اس نفرت کی بنیادیں ہمہ جہت ہیں کبھی ہم مذہب کی بنیاد پر ، کبھی نسل کی ،کبھی زبان کی ،کبھی ذات پات کی ،کبھی علاقے کی تو کبھی نظریات کی بنیاد پر ایک دوسرے سے نفرت کرتے ہیں لیکن ہم اس ستر سالوں میں ایک وجہ بھی جڑت اور محبت کی نہیں ڈھونڈ سکے اور یہی اس خطے کا سب سے بڑا المیہ ہے۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply