• صفحہ اول
  • /
  • کالم
  • /
  • ملحدین کے جنسی و جنگی جرائم ۔۔۔۔ ترجمہ و تدوین ڈاکٹر احید احسن

ملحدین کے جنسی و جنگی جرائم ۔۔۔۔ ترجمہ و تدوین ڈاکٹر احید احسن

ملحد سوویت یونین کی طرف سے 1919ء سے 1991ء کے درمیان کیے گئے جنسی جرائم کی بہت بڑی فہرست ہے۔ یہ جنسی اور جنگی جرم ملحد سوویت یونین کی سرخ فوج( جسے بعد میں سوویت فوج کا لقب دیا گیا) اور این کے وی ڈی کی طرف سے کیے گئے جو کہ کچھ  کمیونسٹ ملحد سٹالن کی سرخ دہشت گردی یا Red terror اور کچھ اس کی ملحد فوج کی طرف سے جنگی قیدیوں اور عام عوام کے خلاف کیے گئے[1]۔جنگ کے بعد اتحادیوں نے ملحد سوشلسٹ  نازی جرمنی کے خلاف جنگی جرائم کی تحقیقات کے لیے ایک کنونشن قائم کیا جس کے سربراہوں میں کی سوویت یونین کے تھے اور اس طرح ایک فاتح جنگی قوت کی وجہ سے ملحد سوویت یونین کے جنگی جرائم عالمی جنگی جرائم کے قوانین سے بچ گئے[2]۔

جون 2017ء میں روس کے صدر ولادی میر پوتین نے سابق ملحد سوویت یونین کے صدر سٹالن کے ان جنگی جرائم کو خود تسلیم کیا لیکن ساتھ ہی یہ الزام عائد کیا کہ یہ جرم پڑھا کر پیش کیے گئے ہیں[3] جب کہ حقائق ان کو ثابت کرتے ہیں اور اس کو ہم حوالہ جات کے ساتھ ان شاء اللٰہ اسی مضمون میں پیش کریں گے۔

ملحد سوویت یونین نے 1919ء میں ملحد سوشلسٹ انقلاب کے بعد سابق عیسائی زار روس کی طرف سے 1899ء اور 1907ء کے دستخط شدہ ہیگ کنونشن کو ماننے سے انکار کیا اور 1955ء تک انکار کرتا رہا[4]۔

اس نے ایسی صورتحال پیدا کی جس میں ملحد سوویت یونین اور ملحد نازی( واضح رہے کہ ہٹلر سوشلسٹ ملحد تھا) جرمنی مفتوحہ اقوام کے خلاف اپنے جنگی اور جنسی جرائم انجام دینے کے لیے آزاد ہو گیا۔[5]

کئ مؤرخین کے مطابق ملحد سوویت یونین کی این کے وی ڈی سے پہلے کی فوج چیکا نے ڈھائی لاکھ انسانوں کو مار ڈالا[6،7]۔ کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ اس ملحد جنگی فوج نے جنگ سے زیادہ لوگوں کا قتل غیر جنگی حالات میں کیا[8]۔

   1921-22ء کے درمیان میخائیل ٹراٹسکی( سویت ملحد فوج کا قائد جو بعد ازاں خود بھی سوویت یونین کے ملحد قائد سٹالن کے ظلم کا نشانہ بنا) نے تمبوف صوبے میں دیہاتیوں کی ایک بغاوت کے خلاف قیادت کی اور مقامی باشندوں کو بغیر مقدموں اور کیس کے موت کے گھاٹ اتار دیا گیا[9]۔ انہی وجوہات کی بنیاد پہ سائمن سیبیگ مونٹیفیور نے ٹراٹسکی کو کسی بھی دوسرے بالشویک کی طرح بے رحم قرار دیا[10]۔ این کے وی ڈی کو ملحد سرخ فوج سیاسی استحصال میں مدد فراہم کرتی[11]۔

جب ملحد سوویت یونین کی سرخ فوج 1941ء کے جرمن حملے سے پسپا ہوئی اور جس کو آپریشن باربروسا قرار دیا جاتا ہے،اس وقت ملحد سوویت یونین کی فوج نے جرمن قیدی فوجیوں کے خلاف بیشمار جنگی جرائم کیے جو کہ وہرمیکٹ وار کرائم بیورو کی ان دستاویزات میں سامنے آئی جو کہ 1939ء میں قائم کی گئی تھی[12]۔ ملحد سوویت یونین کی فوج نے جون 1941ء میں برونیکی، دسمبر 1941ء میں فیوڈوشیا اور 1943ء میں گریشینو میں معصوم عوام کا بے دریغ قتل عام کیا اور ان کی بے رحم نسل کشی کی۔ ملحد این کے وی ڈی فوج نے اپریل اور مئی 1940ء میں پولینڈ کے بیس ہزار فوجیوں اور افسروں کو جنگی قید میں مار ڈالا جو کہ عالمی جنگی قوانین کے بالکل خلاف تھا۔ ملحد سوویت یونین نے چین کے صوبے سنکیانگ پہ حملے کے دوران کیمیائی ہتھیار استعمال کیے جس میں مسٹرڈ گیس بھی شامل تھی اور اس حملے میں عام عوام کا بے دریغ قتل عام کیا گیا[13،14]۔1940ء میں ملحد سوویت یونین نے غیر قانونی طور پہ ایسٹونیا پہ قبضہ کر لیا اور اس کو ایسٹونین سوویت سوشلسٹ جمہوریہ کا نام دیا[15]۔

1941ء میں ملحد سوویت یونین کی بدنام زمانہ سرخ فوج نے 34 ہزار ایسٹونین عام افراد کو زبردستی فوج میں بھرتی کیا جن میں سے بمشکل تیس فیصد جنگ میں جان بچا سکے۔ ان میں سے بھی آدھے سے کم جنگ میں استعمال کیے گئے جب کہ باقی ملحد سوویت یونین کے بدنام حراستی بیگار کیمپوں میں جان کی بازی ہار گئے جن کو گلاگ کیمپ کہا جاتا تھا[16]۔ جب سوویت یونین نے دیکھا کہ ایسٹونیا پہ ملحد نازی جرمنی قبضہ کر لے گا تو جن قیدیوں کو ساتھ نہیں لے جایا جا سکتا تھا ان کو ملحد افواج نے قتل کر دیا[ 17]۔ ایسٹونیا کے تین لاکھ شہریوں کو یا جلاوطن کر دیا گیا یا گرفتار کر لیا گیا یا قتل کر دیا گیا[21،22،23،19،20،18،24]۔ اس جنگ میں ایسٹونیا کی بیس فیصد آبادی یعنی تقریباً دو لاکھ انسان ملحد سوویت یونین نے مار ڈالے[25] جب کہ ہزاروں افراد کو قازقستان اور سائبیریا کی سرد جہنم میں مرنے کے لیے وہاں جلا وطن کر دیا گیا[19،20،21،22،23،24] جس میں ایسٹونیا کی یہودی آبادی کا دس فیصد سے زائد بھی شامل تھے[25]۔ وہ ایسٹونین جو لینن گارڈ میں رہ رہے تھے پہلے ئی یعنی 1935ء میں جلا وطن کیے جا چکے تھے[26]۔ 1941ء میں ملحد سٹالن کی Scorched earth حکمت عملی پہ عمل درآمد کرتے ہوئے سٹالن کی افواج نے سوویت یونین کے مغربی حصوں میں ہزاروں مردوں، عورتوں اور بچوں کو قتل کر ڈالا، اس کاروائی میں درجنوں دیہات، سکول اور عوامی عمارات ملحد افواج نے جلا ڈالیں۔ ایسٹونیا کے سکول کے ایک بچے تولیو لنڈسار کی ہاتھ کی انگلیاں توڑ کر اسے صرف اس لیے ملحد افواج نے قتل کیا کیونکہ اس نے ایسٹونیا کا جھنڈا لہرایا تھا۔ ایسٹونیا کی جنگ آزادی کے قائد کارل پارٹس کے بیٹے ماریشیس پارٹس کو ملحد افواج نے زندہ تیزاب میں ڈال کر مار ڈالا۔اگست 1941ء میں ایسٹونیا کے ایک گاؤں ویرو کبالا کی تمام آبادی کو ملحد سوویت یونین کی فوج نے موت کے گھاٹ اتار ڈالا جس میں دو اور چھ سال کے بچے بھی شامل تھے.ملحد سوویت یونین کی فوج کے ان مظالم کے خلاف جنگ پھوٹ پڑی جس میں ایک لاکھ جوانوں نے اپنے ملک کی عوام کو ملحد افواج سے بچانے کے لیے عہد کیا۔ ملحد سوویت یونین کی فوج کا ظلم اس حد تک تھا کہ کئ بار بیگناہ لوگوں کو زندہ جلا دیا جاتا[27]۔

ملحد افواج نے جن لوگوں کا قتل عام کیا وہ اکثر نہتے لوگ تھے[28]۔ 14 جون 1941ء میں ملحد سوویت فوج نے ہزاروں لوگوں کو جن میں بوڑھے، عورتیں اور بچے بھی شامل تھے، کو گھروں سے اٹھا کر مال گاڑیوں میں جانوروں کی طرح لاد کر سائبیریا کی سرد جہنم کے موت کے پیغام کیمپوں کی طرف جلا وطن کر دیا۔ یہ جرم ماسکو کی ملحد قیادت کے حکم پہ کیا گیا اور عوام کی جائیدادیں ضبط کر لی گئیں۔ ملحد سوویت یونین نے لٹویا پہ قبضے کے بعد بیشمار نہتے لوگوں کو حراست میں لے لیا[29]۔ ملحد سوویت یونین کی طرف سے لٹویا کی تین لاکھ آبادی کو جلا وطن کر دیا گیا اور کچھ کو بیگار کیمپوں میں قید میں ڈال دیا گیا۔ ملحد سوویت یونین کے غاصبانہ قبضہ کے دوران لٹویا کے سات لاکھ اسی ہزار بیگناہ لوگ مار دیے گئے جن میں ساڑھے چار لاکھ جنگی پناہ گزین تھے[30]۔ صرف ملحد اسیری کیمپوں میں 1944ء سے 1953ء کے دوران چودہ ہزار افراد موت کے گھاٹ اتار دیے گئے[31]۔ جن لوگوں کو جلا وطن کیا گیا ان میں سے بیس ہزار سے زائد افراد موت کے گھاٹ اتر گئے جن میں پانچ ہزار بچے بھی شامل تھے[32]۔ ملحد سوویت یونین کی فوج نے اذیتی کیمپوں میں قیدیوں پہ حیوانی تشدد کیے۔ قیدیوں کو زندہ کھولتے ہوئے پانی سے جلا دیا جاتا۔ بعض جگہ جیسا کہ Przemyslany میں لوگوں کے ہاتھ پاؤں ناک کان کاٹ کر آنکھیں نکال دی گئیں۔ Czortkow میں خواتین کے پستان کاٹ دیے گئے۔Drohobycz میں لوگوں کو ایک خاردار تار سے باہم باندھ دیا گیا۔[33]۔

ماہر سماجیات پروفیسر تادیوسز پیوٹروسکی کے مطابق 1939-41ء کے درمیان ملحد سوویت یونین نے مشرقی پولینڈ کی ڈیڑھ ملین عوام کو جلا وطن کر دیا جس میں سے اکثر خود پولینڈ کے شہری اور کچھ یہودی شامل تھے۔ان ڈیڑھ ملین لوگوں میں سے صرف چند خوش قسمت ہی واپس اپنے ملک پولینڈ زندہ واپس آسکے[34]۔ امریکی پروفیسر کا رول قویگلی کے مطابق ملحد سوویت یونین کی فوج نے پولینڈ کے تین لاکھ بیس ہزار جنگی قیدیوں میں سے ایک تہائی سے زیادہ کو عالمی جنگی قوانین کی خلاف ورزی کرتے ہوئے قتل کر ڈالا[35]۔ پولینڈ کی حکومت کے مطابق ایک لاکھ سے زائد افراد قتل کیے گئے تھے[36]۔کراکو میں ملحد سوویت یونین کی فوج نے پولینڈ کی عورتوں اور لڑکیوں کی بے دریغ عصمت دری کی اور ملحد افواج نے عوام کی ہر چیز کو لوٹ لیا[37]۔

1943ء میں ملحد سوویت یونین کی فوج نے آپریشن الوسی کے خفیہ نام کے تحت کالمک نے وہاں کی وسیع آبادی کو ان کے ملک سے جلاوطن کر دیا اور سائبیریا کی طرف جلا وطن کیے گئے لوگوں میں سے ایک لاکھ کے لگ بھگ جاں بحق ہوگئے[38]۔

جرمنی کی حکومت کی طرف سے جاری کردہ ایک رپورٹ کے مطابق مشرقی یورپ میں ملحد سوویت یونین کی فوج نے جرمنی دو ل کھ ستر ہزار نہتے غیر فوجی افراد کا قتل عام کیا اور دو لاکھ پانچ ہزار جرمن افراد ملحد سوویت یونین میں جبری مشقت کے دوران جاں بحق ہوگئے[39]۔ ان میں وہ عام سوا لاکھ افراد شامل نہیں ہیں جو جنگ برلن میں مارے گئے[40]۔

اعداوشمار کے مطابق ملحد سوویت یونین کی فوج نے جنگ کے دوران ڈھائی لاکھ سے دو ملین لڑکیوں اور خواتین کی عزت تار تار کردی[41]۔ 1955ء کے بعد ملحد سوویت یونین کی فوج نے ان تمام شہروں میں خواتین اور لڑکیوں کی بے دریغ عصمت دری کی جہاں جہاں ملحد سوویت یونین کا قبضہ تھا۔ پولینڈ کی آزادی کے دوران ملحد سوویت یونین کی فوج نے وہاں کی لڑکیوں سے اجتماعی جنسی زیادتیاں کیں۔ کچھ خواتین جو بھاگ اور چھپ نہیں سکتی تھیں ان سے ایک ایک دن میں پندرہ بار جنسی زیادتی کی گئ[42]۔ مؤرخ انتونی بیوور کے مطابق ملحد سوویت فوج نے جرمنی میں برلن کی فتح کے بعد آٹھ سال کی لڑکیوں تک سے جنسی درندگی کی[43]۔ نیمارک کے مطابق یہ جنسی زیادتیاں 1947-48ء تک جاری رہیں[47]۔ نیمارک کے مطابق جرمنی پہ ملحد سوویت یونین کی فوج کے قبضے کے پہلے دن سے آخر تک وہاں کی خواتین کو ملحد فوج کی طرف سے جنسی درنگیوں کا نشانہ بنایا گیا[48]۔ جرمنی میں جنسی زیادتی سے متاثرہ خواتین کی تعداد پانچ ہزار سے دولاکھ تھی[49،50،51]۔ نارمن نیمارک کے مطابق ملحد سوویت یونین کی فوج کی طرف سے ہنگری پہ حملے کے دوران وہاں کی لڑکیوں کو اغوا کرکے ان کو قید میں ڈال کر جنسی درندگی کا نشانہ بنایا گیا اور کئ کو قتل کر دیا گیا[52]۔ یہاں تک کہ ملحد سوویت یونین کی فوج نے غیر جانبدار ممالک کے سفارت خانوں پہ حملہ کرکے وہاں کی خواتین سفیروں اور دیگر عملے کو جنسی زیادتی کا نشانہ بنایا[53]۔ ایک سویڈش نمائندے نے ہنگری کے شہر بدھاپسٹ پہ ملحد  سوویت یونین کی فوج کے قبضے کے بعد شہر میں داخلے کو ان الفاظ میں بیان کیا ہے:

“بدھاپسٹ کے محاصرے کے دوران اور بعد میں آنے والے دنوں میں ملحد سوویت فوج نے شہر کو آزادی سے لوٹا، وہ ہر فصل ہر کھیت میں داخل ہوگئے،  کسی غریب کو چھوڑا نہ کسی امیر کو، انہوں نے ہر وہ چیز لوٹ لی جس کی انہیں ضرورت تھی،ہر دکان ،عمارت، بینک کئ بار لوٹ لیے گئے۔ فرنیچر اور بھاری چیزیں جو ساتھ نہیں لے کر جا سکتی تھیں تباہ و برباد کر دی گئیں۔ کئ موقعوں پہ لوٹ مار کے بعد گھروں جو آگ لگادی گئی، بینک لوٹ لوٹ کر خالی کر دیے گئے[54]۔ برلن پہ قبضے کے بعد ملحد سوویت یونین کی فوج نے ہر نظر آنے والی چیز لوٹ لی،وہ چیزیں جیسا کہ لیٹرین اور غسل خانے بھی ہتھوڑوں سے تباہ کر ڈالے جن کی تباہی سے انہیں کچھ حاصل نہیں ہونا تھا،بجلی کی ترسیل کا نظام تباہ و برباد کر دیا گیا اور بیشمار گھروں کو حیوانی انداز میں جلا دیا گیا[55]۔

ملحد سوویت یونین نے خود اس بات کی تصدیق کی کہ چھبیس لاکھ جرمن قیدیوں میں سے ساڑھے چار لاکھ سے زائد قتل کر دیے گئے تھے[56]۔ بیشمار  جرمن فوجی اور عام افراد ملحد سوویت کی قید میں حیوانی تشدد سے مار دیے گئے۔ جرمن حکام کے مطابق ان کی تعداد ایک ملین تھی جن کو عالمی جنگی قوانین کے برعکس ملحد سوویت یونین نے اپنی تحویل میں قتل کر ڈالا[57]۔جب جرمن فوج نے دوبارہ فیوڈوشیا کا قبضہ حاصل کیا تو یہ بات سامنے آئی کہ ہر زخمی سپاہی کو ملحد افواج نے عالمی جنگی قوانین کے خلاف قتل کر ڈالا، کچھ زخمی جو ہسپتال داخل تھے ان کو ہسپتال کے بیڈز پہ قتل کر دیا گیا، کچھ کو اٹھا کر ہسپتال کی چھت سے گرا کر موت کے گھاٹ اتار دیا گیا،کچھ کو بار بار برفیلے ٹھنڈے پانی میں ڈال کر موت کے گھاٹ اتار دیا گیا[58]۔

مؤرخ محمد کاکڑ، ڈبلیو مائیکل ریزمین اور چارلس نورچی کے مطابق ملحد سوویت یونین کی فوج نے 1979ء میں افغانستان پہ قبضے کے بعد افغان عوام کی نسل کشی کی[59،60]۔ افغان عوام کی نسل کشی مہم کے تحت ملحد سوویت یونین اور اس کی معاون افواج نے دو ملین افغان عوام کا قتل عام کیا[61]۔ 1980ء کے موسم گرما کے دوران ملحد سوویت فوج نے افغان نہتے مسلمانوں کا بے دریغ قتل عام کیا[62]۔ مجاہدین کو عام آبادیوں سے الگ کرنے اور ان کی مدد روکنے کے لیے ملحد افواج نے بیشمار عوام کے ان کے شہروں اور گھروں سے جلا وطن کر دیا[62]۔ ملحد سوویت یونین کی فوج نے افغانستان میں متحارب مجاہدین اور عام غیر متحارب مسلمانوں کا بلا تمیز قتل عام کیا[62]۔ نومبر 1980ء میں لغمان اور کاما سمیت کئ علاقوں میں یہ کیا گیا۔ ملحد سوویت یونین کی فوج اور خاد کے افراد نے افغان خواتین کو گھروں اور یہاں تک کہ دارالامانوں سے اغوا کرا کے ان کو جنسی درندگی کا نشانہ بنایا[63]۔ 1984ء میں ملحد سوویت یونین کی فوج کے سابق افراد نے خود اس بات کی تصدیق کی کہ افغان کواتین اور بچیوں کو بے دریغ حیوانی جنسی تشدد کا نشانہ بنایا گیا۔[64]۔

اب ملحد سوویت یونین کی فوج کی جنگی اور جنسی درنگیوں اور عالمی جنگی قوانین کی بے دریغ خلاف ورزیوں کے بعد اب کچھ ان ممالک کے اعدادو شمار ملاحظہ فرمائیں جہاں سوشلسٹ ملحدین نے اقتدار ملنے کے بعد عوام کا بے دریغ قتل عام کیا۔
خمیرروس کاسرخ انقلاب….. 1975 میں ریاست کمبودیا میں سرخ کمیونسٹ انقلاب آیا…جسے خمیرروگ کا نام دیا گیا…کسانوں ، مزدوروں اور غریبوں کے حقوق کے نام پر اٹهنے والی اس سرخ آندهی نے چار سال کے اندر 20 لاکهہ انسانوں کو نگل لیا…آج ہمارے ہاں بهی سرخے انهی قاتلوں کو انقلابی قرار دے کر انکے راستے پہ چلنے کی تبلیغ کرتے نظرآتے ہیں……………..!
سوویت کمیونسٹ چریخ یگوڈاروس کی خفیہ پولیس کا چیف اور بدنام زمانہ گلاگ کیمپوں کا بانی تها…ایک اندازے کے مطابق اس نے دس لاکهہ انسانوں کو ان کیمپوں میں بیگار اور تشدد کے زریعے قتل کیا اور…سرخ انقلاب کے بانی ہونے کے کارن موصوف کے مظالم تاریخ کی گرد میں چهپا دئیے گئے………………….!

لینن روسی کمیونسٹ صدر تها….مارکسسٹ اور سوشلسٹ / ملحد نظریات کا حامل سرخا تها…اسکے دور میں زمینیں حکومتی ملکیت میں تهیں اور ان پر مزدوروں سے مزدوری کروائی جاتی اوراسکے عوض انهیں حکومت کی مرضی سےاجرت دی جاتی…ایسے میں زیادیوں کا ہونا لازمی امر تها… جب اس صورتحال کے پیش نظر مزدوروں نے بغاوت کی تو انکی مزسحمت کچلنے کے لیے طاقت کا بے دریغ استعمال کیا گیا…جس کے نتیجے میں دو کروڑ انسان قتل ہوئے…میڈیا وغیرہ پر مکمل حکومتی کنٹرول ہونے کے کارن اسکو انقکاب کی راہ میں پیش کی جانے والی قربانیوں سے نوڑ کردنیا کے سامنے پیش کیا گیا……….!

1942 میں سوشلسٹ ملحد سٹالن کے حکم پرکریمیا کے ڈهائی لاکهہ تاتاریوں کو زبردستی انکے ملک سے بے دخل کردیا گیا…کہا ناتا ہے کہ ان کو صرف تیس منٹ کا ٹائم دینے کے بعد ٹرینوں میں لاد کر کریمیا سے باہر نکال دیا گیا..اکثریت کو کشتیوں میں ڈال کر سمندر میں لے جاکر بیچ منجدهار کے ڈبو دیا گیا…ملک بدر افراد میں سے بهی گنے چنے چند لوگ ہی زندہ بچے………………!

سٹالن روس کی کمیونسٹ پارٹی کا سربراہ تها… جو پیدائشی طور پہ عیسائیتها مگر بعد میں سوشلسٹ اور ملحد نظریات کی طرف مائل ہوگیا…اسکے دور میں پانچ کروڑ لوگ قتل کیے گیے..مگر آفرین ہے کہ 1945 اور 1946 میں اسے دو بار نوبل پرائز کے لیے نامزد کیا گیا……..!پاکستان کی عوامی نیشنل پارٹی ، فرزانہ باری، تیمور لال، پرویز ہود بھائی اور دیسی سرخے اسی سٹالن کی نظریاتی پیروکار مانے جاتے ہیں۔سٹالن کے اس کے ظالمانہ اور آمرانہ دور حکومت میں تقریباً بیس ملین لوگ مارے گئے۔

ایڈولف ہٹلر پیدائشی طور پر عیسائی تھا جو بعد میں ملحد ہوگیا اور سوشلسٹ نظریات کی طرف راغب ہوگیا۔ ہٹلر نے اپنے دورِ حکومت میں ایک سے ڈیڑھ کروڑ انسانوں کا قتلِ عام کیا جن میں یہودی ، جنگی قیدی، معذور اور سیاسی مخالفین شامل تھے۔ قتل کے لئے تشدد، بیگار، اور زہریلے چیمبرز کا استعمال کیا گیا۔

پول پاٹ‘‘ ایک کمبوڈین انقلابی سیاست دان تھا جو 1976ء سے 1979ء تک جمہوریہ کمپوچیا کا وزیراعظم رہا۔ وہ ایک کمیونسٹ رہنما تھا۔ اس نے اساتذہ، سائنس دانوں، ماہرین تعلیم، عام شہریوں کی بڑی تعداد، مذہبی راہنماؤں یہاں تک کہ جو شخص ذرا سا بھی پڑھا لکھا تھا انہیں حراست میں لے کر کیمپوں میں قید کردیا جہاں بعدازاں انہیں بڑے پیمانے پر پھانسیوں پر چڑھا دیا گیا۔ اندازہ ہے کہ اس کے دور میں بیس لاکھ لوگ بھوک، پھانسیوں اور ناقص صحت کی وجہ سے ہونے والے امراض کے باعث موت کا شکار ہوگئے۔
ماؤزے تنگ چین کا کمیونسٹ سربراہ تھا۔ اس کے دورِ حکومت میں تقریباََ پانچ کروڑ انسانوں کو ماردیا گیا ۔ اس کے دور میں کسانوں کا تاریخ استحصال کیا گیا۔ ایک آلو چور کو نہر میں دھکا دینا، والدین کے ہاتھوں بچوں کا زندہ دفن کرنا ، ناک کان کاٹنا، سردیوں میں کسانوں سے ننگے بدن کام کروانا عام تھا۔ کسانوں اور مزدوروں کے حقوق کی ڈھونگ رچانے والی دیسی سرخے اسی کی نظریاتی اولادیں ہیں۔ لینن روس کا کمیونسٹ صدر تھا اور مارکسٹ سوشلسٹ ملحد نظریات کا حامل سرخا تھا۔ اس کے دورِ حکومت میں قریباََ دو کروڑ انسانوں کا قتلِ عام کیا گیا ۔ اس کے دور میں تمام زمینیں حکومت کی ملکیت میں لی گئیں جن پہ کسانوں سے مزدوری لی جاتی تھی اور حکومت کی مرضی کی اجرت دی جاتی تھی۔ میڈیا پر مکمل حکومتی کنٹرول قائم کیا گیا۔ کسانوں کی مزاحمت کو کچلنے کیلئے طاقت کا استعمال کیا اور بے دریخ انسانوں کو قتل کیا گیا۔[65،66]

کمال حیرت ہے کہ مذکورہ بالا کرداروں میں ایک بھی شخص مسلمان نہیں تھا اور نہ ہی ان میں سے کسی نے دینیات پڑھی اور نہ کبھی مدرسے ہی گیا…. مگر اسکے باوجود پتہ نہیں اتنا وحشی پن کہاں سے ان میں درآیا…

انقلاب کے نام پرکروڑوں انسانوں کو قتل کرنا تو درست ہوگیا جبکہ جہاد کے نام پہ استعماری قوتوں کے خلاف بندوق اٹھانا دہشت گردی….اچھا انصاف ہے…سوشلزم اور تلوار کے زور پر کروڑوں انسانوں کو انقلابات اور الحاد کی بھینٹ چڑھا کر بڑی خوبصورتی کے ساتھ اسلام کو مجرموں کے کٹہرے میں کھڑا کر دیا گیا… کیا یہی ہے ملحدین کا انصاف، امن پسندی، انسانیت سب سے بڑا مذہب، خوشحالی، ترقی جس کی وہ مسلمانوں کو بدحالی کا طعنہ دیتے ہوئے ترغیب دیتے ہیں۔ کس منہ سے یہ لوگ مسلم فاتحین کو چور قاتل ڈاکو قرار دیتے ہیں۔ اگر الحاد کا انصاف، امن اور انسانیت سب سے بڑا مذہب یہی ہے تو ان منافقانہ، متعصبانہ نعروں پہ لعنت ہے۔
اگر ان سوشلست ملحدین کی طرف سے تمام مذاہب خصوصًا مسلمانوں اور دیگر مذاہب پہ پابندی اور نسل کشی اور سوشلزم کی مذہب دشمنی کے بارے میں جاننا ہو تو یہ مضامین لازمی مطالعہ کریں

https://m.facebook.com/story.php?story_fbid=475165536160577&id=100010014035463
https://m.facebook.com/story.php?story_fbid=473621759648288&id=100010014035463
https://m.facebook.com/story.php?story_fbid=473189206358210&id=100010014035463
https://m.facebook.com/story.php?story_fbid=471527276524403&id=100010014035463
https://m.facebook.com/story.php?story_fbid=470881333255664&id=100010014035463
https://m.facebook.com/story.php?story_fbid=470655046611626&id=100010014035463
https://m.facebook.com/story.php?story_fbid=470410593302738&id=100010014035463
https://m.facebook.com/story.php?story_fbid=469982716678859&id=100010014035463
https://m.facebook.com/story.php?story_fbid=469476543396143&id=100010014035463
https://m.facebook.com/story.php?story_fbid=469196453424152&id=100010014035463

حوالہ جات:

1:Statiev, Alexander (2010). The Soviet Counterinsurgency in the Western Borderlands. Cambridge University Press. p. 277. ISBN 978-0-521-76833-7.
2:Davies, Norman (2006). Europe at War 1939-1945 : No Simple Victory. Macmillan. p. 198. ISBN 978-0-333-69285-1.
3:David Filipov (26 June 2017), For Russians, Stalin is the ‘most outstanding’ figure in world history, followed by Putin, The Washington Post, retrieved 7 August 2017
4:Grenkevich, Leonid D.; Glantz, David M. (1999). Glantz, David M., ed. The Soviet partisan movement, 1941-1944: a critical historiographical analysis. p. 110. ISBN 978-0-7146-4874-3.
5:Andrew, Christopher; Mitrokhin, Vasili  (2000). The Sword and the Shield: The Mitrokhin Archive and the Secret History of the KGB. Basic Books. p. 28. ISBN 978-0-465-00312-9.
6:Overy, Richard J. (2004). The Dictators: Hitler’s Germany and Stalin’s Russia. W. W. Norton & Company. p. 180. ISBN 978-0-393-02030-4.
7:page 649, Figes (1996).
8:Suvorov, Viktor. The Chief Culprit: Stalin’s Grand Design to Start World War II. Annapolis, MD: Naval Institute Press, 2008.
9:Sebag-Montefiore, Simon (2005). Stalin: The Court of the Red Tsar. New York: Vintage Books. p. 222. ISBN 0-307-42793-5.
10:Pipes, Richard. Russia under the Bolshevik Regime. New York: Vintage Books, 2004.
11:Nagorski, Andrew (2007-09-18). The Greatest Battle (Google Books). Simon and Schuster. p. 83. ISBN 9781416545736. Retrieved 2015-02-15.
12:De Zayas, Alfred M., The Wehrmacht War Crimes Bureau, 1939–1945, University of Nebraska Press, Lincoln, NE, 1989, 3rd revised edition Picton Press, Rockland, Maine 2003. 13:OCLC 598598774 Translation of: Die Wehrmacht-Untersuchungsstelle.
Pearson, Graham S. “Uses of CW since the First World War”. FEDERATION OF AMERICAN SCIENTISTS. Archived from the original on 2010-08-22. Retrieved 2010-06-28.
14: Sven Anders Hedin; Folke Bergman (1944). History of the expedition in Asia, 1927-1935, Part 3. Stockholm: Göteborg, Elanders boktryckeri aktiebolag. p. 112. Retrieved 28 November 2010.
15:Magnus Ilmjärv Hääletu alistumine, (Silent Submission), Tallinn, Argo, 2004, ISBN 9949-415-04-7
16:Toomas Hiio, ed. (2006). Estonia, 1940-1945: Reports of the Estonian International Commission for the Investigation of Crimes Against Humanity. Estonian Foundation for the Investigation of Crimes Against Humanity. p. 886. ISBN 9789949130405.
17: The Baltic Revolution: Estonia, Latvia, Lithuania and the Path to Independence by Anatol Lieven p. 424 ISBN 0-300-06078-5
18: “CommunistCrimes.org – Historical Introduction”. Retrieved 14 February 2016.
19:Vetik, Raivo (2002). “Cultural and Social Makeup of Estonia”. In Pål Kolstø. National Integration and Violent Conflict in Post-Soviet Societies: The Cases of Estonia and Moldova. Rowman & Littlefield Publishers. p. 74. ISBN 9781461639459.
20: Conclusions of the Estonian International Commission for the Investigation of Crimes Against Humanity Archived 9 June 2007 at the Wayback Machine., historycommission.ee; accessed 13 December 2016.
21: Kareda, Endel (1949). Estonia in the Soviet Grip: Life and Conditions under Soviet Occupation 1947–1949. London: Boreas.
22: Uustalu, Evald (1952). The History of Estonian People. London: Boreas.
23: Laar, Mart (2006). Deportation from Estonia in 1941 and 1949 Archived 2009-02-25 at the Wayback Machine.. Estonia Today: Fact Sheet of the Press and Information Department, Estonian Ministry of Foreign Affairs (June 2006).
24: 70th anniversary of deportation and uprising of 1941, The Baltic Times, 29 June 2011; retrieved 6 May 2013.
25: The Soviet Occupation of Estonia in 1940-1941, mnemosyne.ee; retrieved 6 May 2013.
26: Weiss-Wendt, Anton (1998). “The Soviet Occupation of Estonia in 1940–41 and the Jews” (PDF). Holocaust and Genocide Studies. 12 (2): 308–25. doi:10.1093/hgs/12.2.308.
27:Martin, Terry (1998). “The Origins of Soviet Ethnic Cleansing”. The Journal of Modern History. 70 (4): 813–861. doi:10.1086/235168. JSTOR 10.1086/235168.
28:Mart Laar, War in the woods, The Compass Press, Washington, 1992, p. 10
29: Eesti rahva kannatuste aasta. Tallinn, 1996, p. 234.
30:”Deportation of 14 June 1941: crime against humanity: materials of an International Conference 12-13 June. (2001)”. Latvijas vēstures institūts. 14 June 2012. Retrieved 18 June 2017 – via latvianhistory.com.
31: “CommunistCrimes.org – Historical Introduction”. Retrieved 14 February 2016.
32:International Commission For the Evaluation of the Crimes of the Nazi and Soviet Occupation Regimes in Lithuania, Mass Arrests and Torture in 1944-1953, pp. 2-3 (=10%+ of 142,579 arrested)
33:International Commission For the Evaluation of the Crimes of the Nazi and Soviet Occupation Regimes in Lithuania, Deportations of the Population in 1944-1953 Archived 1 June 2013 at the Wayback Machine., paragraph 14
34: Jan T. Gross. Revolution From Abroad: The Soviet Conquest of Poland’s Western Ukraine and Western Belorussia. Princeton University Press, 2002. ISBN 0-691-09603-1 pp. 181–182
35: Tadeusz Piotrowski (1998), Poland’s Holocaust, McFarland, ISBN 0-7864-0371-3. Chapter: Soviet terror, p.14 (Google Books). “By the time the war was over, some 1 million Polish citizens – Christians and Jews alike – had died at the hands of the Soviets.”
36: Carroll Quigley, Tragedy & Hope: A History of the World in Our Time, G. S. G. & Associates, Incorporated; New Ed edition, June 1975, ISBN 0-945001-10-X
37:Joanna Ostrowska; Marcin Zaremba (2009-03-07). “”Kobieca gehenna” (The women’s ordeal)”. No 10 (2695) (in Polish). Polityka. pp. 64–66. Retrieved April 21, 2011.
38: Rita Pagacz-Moczarska (2004). Okupowany Kraków – z prorektorem Andrzejem Chwalbą rozmawia Rita Pagacz-Moczarska [Prof. Andrzej Chwalba talks about the Soviet-occupied Kraków]. Alma Mater, No 4 (in Polish). Jagiellonian University. Archived from the original on May 24, 2008. Retrieved January 5, 2014.
39: http://news.bbc.co.uk/2/hi/europe/country_profiles/4580467.stm Regions and territories: Kalmykia
40: Vertreibung und Vertreibungsverbrechen 1945–1978. Bericht des Bundesarchivs vom 28 Mai 1974. Archivalien und ausgewälte Erlebenisberichte, Bonn 1989
41: Clodfelter, Michael, Warfare and Armed Conflicts: A Statistical Reference to Casualty and Other Figures, 1500–2000, 2nd Ed. ISBN 0-7864-1204-6
42: Hanna Schissler The Miracle Years: A Cultural History of West Germany, 1949–1968 [3] 43: Ostrowska, Zaremba: “Kobieca gehenna”. Krytyka Polityczna, 4 March 2009. Source: Polityka nr 10/2009 (2695).
44: ‘They raped every German female from eight to 80’, The Guardian
45: Naimark 1995, p. 79.
46: Naimark 1995, pp. 132-133.
47: Bessel, Richard; Dirk Schumann (2003). Life after Death: Approaches to a Cultural and Social History of Europe. Cambridge University Press. p. 132. ISBN 0-521-00922-7.
48: Ungvary, Krisztian (2005). The Siege of Budapest. New Haven: Yale University Press. pp. 348–350. ISBN 0-300-10468-5.
49: James, Mark (2005). “Remembering Rape: Divided Social Memory and the Red Army in Hungary 1944–1945”. Past & Present. Oxford University Press. 188 (August 2005): 133–161. doi:10.1093/pastj/gti020. ISSN 1477-464X.
50: Naimark, Norman M. (1995). The Russians in Germany: A History of the Soviet Zone of Occupation, 1945–1949. Cambridge: Belknap. pp. 70–71. ISBN 0-674-78405-7.
51: Birstein, Vadim (3 May 2002). “Johnson’s Russia List”. Archived from the original on January 9, 2012. Retrieved 2015-02-11.
52:Montgomery, John Flournoy (1947). Swiss Legation Report of the Russian Invasion of Hungary in the Spring of 1945. Hungary – The Unwilling Satellite. New York: The Devin Adair Co. p. Appendix III. ISBN 1-931313-57-1.
53: Hannah Pakula (2009). The last empress: Madame Chiang Kai-Shek and the birth of modern China. Simon and Schuster. p. 530. ISBN 1-4391-4893-7. Retrieved 2010-06-28.
54:Rossiiskaia Akademiia nauk. Liudskie poteri SSSR v period vtoroi mirovoi voiny:sbornik statei. Sankt-Peterburg 1995 ISBN 5-86789-023-6
55: Rüdiger Overmans. Deutsche militärische Verluste im Zweiten Weltkrieg. Oldenbourg 2000. ISBN 3-486-56531-1
56: Zayas (1990), pp. 180-186.
57: Kakar, Mohammed. The Soviet Invasion and the Afghan Response, 1979-1982. University of California Press. ISBN 9780520208933.
58: Reisman, W. Michael; Norchi, Charles H. “Genocide and the Soviet Occupation of Afghanistan” (PDF). Retrieved 7 January 2017.
59: Klass, Rosanne (1994). The Widening Circle of Genocide. Transaction Publishers. p. 129. ISBN 9781412839655.
60: Kakar, Mohammed. The Soviet Invasion and the Afghan Response, 1979-1982. University of California Press. ISBN 9780520208933.
61: Kakar, M. Hassan (1995). The Soviet Invasion and the Afghan Response, 1979-1982. University of California Press. ISBN 9780520208933.
62: The War Chronicles: From Flintlocks to Machine Guns. Fair Winds. p. 393. ISBN 9781616734046.
63: Sciolino, Elaine (August 3, 1984). “4 Soviet Deserters Tell Of Cruel Afghanistan War”. The New York Times. Retrieved 6 January 2017.
65:https://mobile.facebook.com/permalink.php?story_fbid=1607079379597776&id=1519762028329512&substory_index=0&_rdc=1&_rdr&refsrc=https%3A%2F%2Fm.facebook.com%2Fpermalink.php
66:http://www.dunyapakistan.com/90903/#.W0rMCc9RU0M

Advertisements
julia rana solicitors

بشکریہ مضامین ڈاٹ کام

Facebook Comments

مہمان تحریر
وہ تحاریر جو ہمیں نا بھیجی جائیں مگر اچھی ہوں، مہمان تحریر کے طور پہ لگائی جاتی ہیں

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply