تعلقات وروابط کا حدود اربعہ۔۔ڈاکٹر شاہد ایم شاہد

تعلقات و روابط ایک فطری جذبہ ہے، جس کی کوکھ سے ملنساری ، خلوص ،محبت اور بھائی چارے جیسی صفات کا جنم ہوتا ہے ۔جب کہ تنہائی نفسیاتی امراض اور انسانی قدروں کو بانجھ بنا دیتی ہے ۔انسان کی زندگی میں رفاقت و شراکت کا نہ  ختم ہونے والا ایک خوبصورت بندھن ہے ۔ جو اپنی اقدار و روایات میں جتنا قدیم ہے اتنا جدید بھی ہے جو پیدا ہوتے ہی انسان کے جذبات کا حصہ بن جاتا ہے اور پھر ساری زندگی پیوست رہتا ہے اور دلچسپ بات یہ ہے کہ بنی آدم اسی کے ارد گرد نقطے اور دائرے بناتے رہتے ہیں ۔

کبھی انسان ان نقطوں کو اپنے ہاتھ کی ہتھیلی پہ لکھتا اور کبھی انہیں مٹاتا ہے اور کبھی ان دائروں میں خود مقید ہو جاتا ہے، جو اسے زندگی کے ایسے سبق ازبر کرواتے ہیں جو اس کی سوچ کا حصہ بن جاتا ہے اور پھر وہ سوچ عالمگیر روپ دھار کر اسے آسمان کی بلندیوں تک لے جاتی ہے جو اپنی وجہ شہرت میں یادوں کا محل تعمیر کرتی ہے، جو اپنی خوبصورتی میں بے مثال بن جاتی ہے ۔اگر انسان اس بات کو دل جمعی سے سوچے اور فرق معلوم کرے تو یہ بات ہم سب پر ایک راز کی طرح کھلتی ہے ۔

جیسے ہر روز سورج طلوع و غروب ہوتا ہے اسی طرح  ہمارے  تعلقات و روابط کو شب و روز توانائی ملتی ہے ۔ہمارا روزانہ اپنوں اور غیروں سے واسطہ پڑتا ہے جو ہمیں تجربات و مشاہدات کی عادات ڈال دیتے ہیں البتہ جب یہ عادت پختہ ہوتی ہے تو انسان کو شعور اور لاشعور کے بارے میں مکمل آگاہی فراہم کرتی ہے ۔ انسان کو فہم و فراست کی روح عطا ہوتی ہے ۔اسے حکمت و دانائی کا زیور بھی عطا کرتی ہے جس کی چمک کبھی ماند نہیں پڑتی ۔

انسان نے ہمیشہ ماضی سے سبق سیکھا ہے، حال اسے موجودہ حقائق سے آگاہ کرتا ہے ، جبکہ مستقبل اس کے آنے والے وقت کی بابت پیش گوئی کرتا ہے ۔یہ تین ادوار تین ذائقے ہیں جن سے ہم لطف اندوز بھی ہوتے ہیں اور حالات کے اتار چڑھاؤ کے کڑوے گھونٹ بھی پیتے ہیں ۔ہم روزانہ چوبیس گھنٹے تعلقات و روابط کی فضا میں سانس لیتے ہیں ۔کبھی ہم خوشگوار فضا میں سانس لیتے ہیں تو کبھی آلودہ فضا میں البتہ دونوں کے الگ الگ اثرات اور نقصانات ہیں ۔

اگر اس بات کا بین الاقوامی جائزہ لیا جائے تو یہ بات ہم پر صحت و صداقت کا پرچار کرتی ہے کہ جیسے ایک عام آدمی کے جذبات ہوتے ہیں اور پھر انہیں تعبیر کی ضرورت پڑتی ہے اسی طرح ہر گروہ معاشرہ اور قوم چاہتے ہیں کہ انہیں اچھے لوگوں کی صحبت ملے ۔ان کا اٹھنا بیٹھنا ایک ایسے طبقے کے ساتھ ہو جہاں ان کے دامن میں ہم آہنگی کے پھول اور کلیاں کھلیں ۔ہر کوئی دوسرے کے کردار کی خوشبو لینا پسند کرتا ہے جب کہ اپنی ذات کو بے پھل اور ناشکرا رکھنا چاہتا ہے ۔ہماری فطرت کے ساتھ غیر فطری رویے نتھی ہو گئے ہیں جو ہمیں ایسی سلاخوں کے پیچھے بند کردیتے ہیں جہاں آزادی کا دروازہ بند ہو جاتا ہے ۔بلکہ عمر بھر قید و بند کی صعوبتیں برداشت کرنا پڑتی ہیں ۔

ہم اکثر اپنے گھر کی بنیاد ریت پر رکھتے ہیں جو آندھیوں اور طوفانوں کے باعث بہت جلد گر جاتا ہے ۔دوسروں سے غیر ضروری توقعات کچی اینٹوں جیسی ہوتی ہیں جو بہت جلد ٹوٹ کر بکھر جاتی ہیں ۔ بلاشبہ ہمارے تعلقات و روابط اعتماد کا ووٹ لے کر پروان چڑھتے ہیں تب کہیں جاکر ان میں استحکام پیدا ہوتا ہے۔ تعلقات و روابط کے خواب تو ہر کوئی دیکھتا ہے البتہ تعبیر ہر کسی کے ساتھ بغلگیر نہیں ہوتی ۔کیونکہ کچھ لوگ دور سے ہی رسمی دعا و سلام کے عادی ہوتے ہیں ۔ ان کے تعلقات و روابط میں وہ پائیداری اور چاشنی نہیں ہوتی جو دلوں کو جوڑتی اور پگھلاتی ہے ۔

اگر ہم اپنی روزمرہ زندگی کا مشاہدہ کریں تو ہمارے دل کی چرنی میں تعلقات و روابط کے پھول اور کانٹے اُگے ہوتے ہیں ۔کیونکہ پھول کانٹوں کے بغیر ادھورے ہوتے ہیں ۔ان کی چبھن اور دکھن کا اس وقت زیادہ احساس ہوتا ہے جب تک پھولوں کو ان سے الگ نا کیا جائے یہ قانون فطرت ہے کے محبت کے بغیر تعلقات و روابط کی بنیاد مضبوط نہیں ہوتی جبکہ  خود غرضی اور بے وفائی ایسے ناسور ہیں جو ہمارے تعلقات و روابط کو دیمک کی طرح کھا جاتے ہیں ۔اور جب ایسے شر پسند عناصر ہماری زندگی میں داخل ہوتے ہیں تو وہ سب سے پہلے ہماری بنیاد کمزور اور کھوکھلا بنا تے ہیں۔

تعلقات و روابط بھی دولت جیسے ہوتے ہیں جو اپنی میراث میں تاثرات کا ذائقہ رکھتے ہیں انہیں بھی کمانا اور خرچ کرنا پڑتا ہے۔ جو جتنا زیادہ خرچ کرے گا وہ اسی تناسب سے کمائے گا اگر حالات کے درمیان کنجوسی اور مایوسی آجائے تو یہ ریزہ ریزہ ہو کر بکھر جاتے ہیں ۔

بلاشبہ ان کی مضبوطی اور محکومی اعتماد کے بل بوتے وجود میں آتی ہے ۔اگر انہیں کھو دیا جائے تو نشوونما کا عمل رک جاتا ہے اور ہمارے قد بونے رہ جاتے ہیں۔پھر نہ ہماری جسمانی اور نہ روحانی نشوونما ہوتی ہے۔آپ خود سوچیں جب جسم و روح کے درمیان ہم آہنگی نہ رہے تو وہاں انتشار، بدامنی ،لڑائی جھگڑے ، قباحتیں ، حسد اور کینہ اپنی دیوار بنائیں گے ۔ہم ان برائیوں اور ناچاقیوں سے کیسے بچ سکتے ہیں ؟ یقیناً موسم بہار کا ایک پھل محبت ہے جس کی تاثیر اور عمل سے مندرجہ بالا بیماریوں اور برائیوں کو ختم کیا جا سکتا ہے ۔انسان خدا کی مدد کے بغیر کسی بھی کام کو فروغ نہیں دے سکتا جب تک اس پر قدرت مہربان نہ ہو ۔

جب ہم خدا کی لامتناہی برکات و فضائل کا شکر ادا کرتے ہیں تو ہم اتحاد و یگانگت کے بندھن میں ایک ہو کر تعلقات و روابط کا چراغ جلاتے ہیں جس کی روشنی دور دور تک ہمارا تعارف کروا دیتی ہے ۔اگر تعلقات و روابط کو عزت و وقار کا گلدستہ کہا جائے تو ہمارے جذبات او زیادہ اپنائیت کا راستہ ہموار بنائیں گے ۔بے شک ہر چیز کا نقطہ آغاز اور نقطہ اختتام ہوتا ہے جو ہم پر کسی چیز کی ہیت و حرکت کا مکمل احاطہ کرتا ہے۔اب سوال پیدا ہوتا ہے ہم تعلقات و روابط کا حدوداربعہ کیسے بڑھا سکتے ہیں ؟ اس کی ساکھ اور قوت کیسے بڑھا سکتے ہیں ؟ یہ جواب ہمیں حقیقت کے قریب لاکر کھڑا کر دیتا ہے کہ جب ہم کسی چیز کو حاصل کرنے کے بارے میں ٹھان لیتے ہیں تو وہ چیز نتائج کی حامل بن جاتی ہے ۔

اس سلسلے میں ہمیں اپنی اصلیت ،مقام ، اور مرتبے کا علم ہو جاتا ہے کہ ہم کتنی اوقات کے مالک ہیں ، کون سی خوبیوں اور خامیوں نے ہمیں گھیر رکھا ہے ؟ بلاشبہ ہر چیز کی حد اور حدود اربعہ ہوتا ہے جو ہمیں آگے بڑھنے کی ہمت دیتا ہے ۔ اگر ہمارے تعلقات و روابط کی بنیاد مثبت سوچ پر مبنی ہے تو اس میں اپنی بہتری بھی ہے اور دوسروں کی فلاح و بہبود کے منصوبے بھی ۔اس حقیقت میں فتنہ اس وقت فساد کی جڑ بن کر پھیلتا ہے جب انسان کی فطرت میں منفی سوچ کے انبار پیدا ہوتے ہیں ، جو ہر کسی کو چبھتے بھی ہیں اور سانپ کی طرح ڈستے بھی ہیں ۔کسی کو اپنا اور گرویدہ بنانے کے لیے محبت کی چادر بچھانا پڑتی ہے ۔اس ضمن میں اگر ہم عاجزی کا لبادہ نہیں اوڑھتے تو ہم تعلقات و روابط کی دولت سے محروم ہو سکتے ہیں ۔

یقیناً  جب تک ہمارے اندر کوئی تحریک نہیں جلتی اس وقت تک نہ تو وہ پھلدار ثابت ہو سکتی ہے اور نہ وہ دوسروں کے لئے برکت کا باعث بن سکتی ہے ۔اگر ہر چیز میں احتیاط اور اعتدال سے کام لیا جائے تو انسان بہت ساری قباحتوں اور محرومیوں سے بچ جاتا ہے ۔اگر وہ ہر چیز سے الجھنا شروع کردے تو وہ اپنی ذات سے بھی بیزار ہو جائے گا۔ اس کی شخصیت تار تار ہو جائے گی ایسے فیصلے جو پل بھر میں کر لیے جاتے ہیں وہ نقصان سے خالی نہیں ہوتے ۔جس کا خمیازہ یا پچھتاوا عمر بھر ختم نہیں ہوتا ۔پھر طبیعت میں شورش اور تندی بڑھ جاتی ہے۔زندگی سے امن و محبت ختم ہو جاتا ہے ۔تو پھر لڑائی جھگڑے اور فسادات کی بد روحیں آ دبوچتی ہیں ، جو بغاوت پر بھی اکساتی ہیں اور نفرت بھی پھیلاتی ہیں ۔

Advertisements
julia rana solicitors

سب سے پہلی بات یہ ہے اگر ہم زندگی میں خوشی اور ترقی دیکھنا چاہتے ہیں تو ہمیں سب سے پہلے اپنے آپ کو بدلنا ہوگا ۔اپنی سوچوں اور ترجیحات کا تعین کرنا ہوگا ۔اپنے اردگرد کے حالات و واقعات کا جائزہ لینا ہوگا ۔ پھر اس بات پر بھی سوچ بچار کرنا ہوگا کہ میری اہلیت کا حدود اربعہ کیا ہے ؟ ایسے دوستوں کا انتخاب کرنا ہوگا جن کی سوچ اور سمت ایک جیسی ہو ۔کیونکہ ہم آہنگی ہی راستے اور منزل تک پہنچاتی ہے۔ اگر ہم سوچے سمجھے بغیر فیصلے کریں گے تو وہ ہمیں نقصان پہنچائیں گے اور دوسری جو اہم بات ہم ایسے دوستوں کا انتخاب کریں جو ایک دوسرے کے خیر خواہ ہوں اور مثبت سرگرمیوں کو فروغ دینے والے ہوں ۔اپنا نہیں بلکہ دوسروں کا فائدہ سوچنے والے ہوں ۔ شفقت و محبت میں بے مثال ہو ں ۔آزمائشوں کی چادر بچھانے والے نہ ہوں اور نہ ایسے کھڈے کھودنے والے جو منزل تک ہمارے سفر کو دشوار بنا دیں ۔

Facebook Comments

ڈاکٹر شاہد ایم شاہد
مصنف/ کتب : ١۔ بکھرے خواب اجلے موتی 2019 ( ادبی مضامین ) ٢۔ آؤ زندگی بچائیں 2020 ( پچیس عالمی طبی ایام کی مناسبت سے ) اخبار و رسائل سے وابستگی : روزنامہ آفتاب کوئٹہ / اسلام آباد ، ماہنامہ معالج کراچی ، ماہنامہ نیا تادیب لاہور ، ہم سب ویب سائٹ ، روزنامہ جنگ( سنڈے میگزین ) ادبی دلچسپی : کالم نویسی ، مضمون نگاری (طبی اور ادبی) اختصار یہ نویسی ، تبصرہ نگاری ،فن شخصیت نگاری ، تجربہ : 2008 تا حال زیر طبع کتب : ابر گوہر ، گوہر افشاں ، بوند سے بحر ، کینسر سے بچیں ، پھلوں کی افادیت

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply