• صفحہ اول
  • /
  • کالم
  • /
  • تنازع یوکرائن: کیا تاریخ دہرائی جا رہی ہے (2)۔۔افتخار گیلانی

تنازع یوکرائن: کیا تاریخ دہرائی جا رہی ہے (2)۔۔افتخار گیلانی

روس نے اپنی طاقت کا مظاہر ہ کرتے ہوئے مولدوا اور کریمیا میں بڑے پیمانے پر جنگی مشقیں کی ہیں ، اس کے علاوہ بحیرہ عرب میں چین کے اشتراک کے ساتھ بحری مشقیں کیں۔ روس اپنے اسکندر میزائلوں کو بھی حالت تیاری میں رکھے ہوئے ہے اور یوکرائن کی سرحد پر 60جنگی جہاز اور بمبار تیاری کی انتہائی حالت میں ہیں۔ 42ملین آبادی پر مشتمل اور 6لاکھ مربع کلومیٹر پر محیط یوکرائن مشرقی یورپ میں واقع ہے اور 1991تک سوویت یونین کا حصہ تھا۔ اس کی سرحدیں ، روس کے علاوہ، پولینڈ، بیلاروس، سلوواکیہ ، رومانیہ ، ہنگری اور مالدوا کے ساتھ ملتی ہیں۔

یہ سارا قضیہ ہی اس وقت شروع ہوا ، جب امریکی قیادت میں نیٹو اتحاد نے یوکرائن کی ممبر شپ کی درخواست کو منظور کر لیا۔یوکرائن ابھی تک نیٹو کا ’شراکت دار ملک‘ ہے، اس کا مطلب یہ ہے کہ یوکرائن کو مستقبل میں کسی بھی وقت اس اتحاد میں شامل ہونے کی اجازت ہے۔روس مغربی طاقتوں سے اس بات کی یقین دہانی چاہتا ہے کہ ایسا کبھی نہیں ہو گا۔ لیکن مغرب اس کے لیے تیار نہیں۔

یوکرائن میں رہنے والے روسی باشندوں کی ایک بڑی آبادی ہے ان کے روس سے قریبی سماجی اور ثقافتی تعلقات ہیں۔ کریملن یوکرائن کو اپنے قریبی علاقے کے طور پر دیکھتا ہے۔ روس کا خیال ہے کہ نیٹو اتحادی ہونے کی وجہ سے امریکہ اور اس کے اتحادی مزید اسلحہ اسکی سرحد کے پاس اکٹھا کریں گے۔ افغانستان سے انخلاء کے بعد امریکہ روس کو، چین کو قابو میں کرنے کیلئے ایشاء بحرالکاہل کے خطے سمیت بلقان ملکوں کے علاوہ وسط ایشاء میں بھی پیر جمانے کی کوشش کر رہا ہے، جس پر روس اور چین جز بز دکھائی دیتے ہیں۔ روس کے صدر ولادیمیر پوتن کا دعویٰ ہے کہ مغربی طاقتیں اس اتحاد کو روس کو گھیرنے کے لیے استعمال کر رہی ہیں اور وہ چاہتے ہیں کہ نیٹو مشرقی یورپ میں اپنی فوجی سرگرمیاں بند کر دے۔ وہ ایک طویل عرصے سے اس بات پر زور دیتے آئے ہیں کہ امریکہ نے 1990 میں دی گئی اپنی اس ضمانت کو ختم کر دیا، جس کے مطابق نیٹو اتحاد مشرق میں نہیں پھیلے گا۔

اس سے قبل 2013ء میں جب اس وقت کے یوکرائن کے صدر وکٹر یان کووچ نے یورپی یونین میں شامل ہونے سے انکار کردیا تو ایک سال بعد عوامی بغاوت نے ان کو معزول کردیا۔ ملک کے جنوبی حصوں یعنی کریمیا میں روسی بولنے والی آبادی نے تومعزول صدر کی حمایت کرکے یوکرائن سے علیحدگی کا اعلان کرکے روس کے ساتھ الحاق کردیا۔ جس کو یورپی ممالک تسلیم نہیں کرتے ۔تب سے جنگجوؤں اور عام شہریوں سمیت اس خطے میں کم از کم 13 ہزار افراد مارے جا چکے ہیں۔ کریمیا پر روس کے قابض ہونے کے بعد علیحدگی پسندوں نے مشرقی یوکرائن میں پیش قدمی شروع کر دی۔

یوکرائن کے مشرقی صنعتی مرکز ڈونباس میں روس کے کئی حمایت یافتہ علیحدگی پسند گروہ سرگرم ہیں اور وہاں ہونے والی لڑائی میں 14 ہزار سے زائد ہلاکتیں ہوچکی ہیں۔لڑائی میں شدت آنے کے بعد یوکرائن کے مقابلے میں علیحدگی پسندوں کو پسپائی ہونے لگی تو روس نے ان کی مدد کے لیے مشرقی یوکرائن پر حملہ کر دیا۔ جرمنی اور فرانس کی مصالحت سے 2015 ء میں یوکرائن میں جنگ بندی ہوئی لیکن صورت حال کا کوئی سیاسی تصفیہ نہیں ہوسکا اور وقتاً فوقتاً جھڑپوں کا سلسلہ جاری رہا۔ روس کے یوکرائن پر مکمل کنٹرول کی صورت میں یہ باغی روس کی راہ ہموار کرسکتے ہیں۔ امریکی جنرل مارک میلی کا کہنا ہے کہ یوکرائن پر روس کا حملہ ’خوفناک‘ ہوگا اور اس سے بڑی تعداد میں ہلاکتیں ہوں گی۔ جنرل میلی نے یوکرائن کی سرحد کے قریب ایک لاکھ روسی فوجیوں کی موجودگی کو سرد جنگ کے بعد سب سے بڑی فوجی تعیناتی قرار دیا ہے۔ یوکرائن کے اس قضیہ کو بھارت میں خاصی تشویش کے ساتھ دیکھا جا رہا ہے۔ کیونکہ 1962ء میں جب بڑی طاقتیں کیوبا کے میزائل قضیہ کو سلجھانے میں مصروف تھیں تو اس کا فائدہ اٹھاکر چین نے بھارت پر فوج کشی کرکے اس سے 43,000مربع کلومیٹر کا علاقہ ہتھیا لیاتھا۔

1961ء میں اسوقت کے وزیر اعظم جواہر لال نہرو کی ایما پر فارورڈ پالیسی اختیار کرکے ،بھارت نے اپنی فوجیں متنازع  سرحد پر چینی پکٹوں کے آگے تعینات کرنے کے فرمان جاری کئے تھے تاکہ چینی افواج کی سپلائی لائن کاٹ کر ان کو میک موہن لائن کی دوسری طرف دھکیلا جائے۔ دستاویزات کے مطابق نئی دہلی کو امید تھی کہ چین اسکے جواب میں بس اکا دکا سرحدی جھڑپوں پر ہی اکتفا کرے گا کیونکہ مکمل فوجی کارروائی کی صورت میں سوویت یونین اور امریکہ جلد ہی بھارت کی مدد کو آپہنچیں گے۔

دوسری طرف سوویت یونین نے اس سے قبل کئی بار اور پھر 1971ء میں بھی چینی سرحدوں پر فوجی نقل و حمل کرکے اسکو بھارت کے خلاف کارروائی کرنے سے باز رکھا تھا۔ مگر کیوبا کے قضیہ نے چین کو ایک ایسا موقع فراہم کیا جس سے نہ صرف بھارت کی فارورڈ پالیسی کی ہوا نکل گئی بلکہ بین الاقوامی برادری میں اسکی ساکھ بری طرح متاثر ہوگئی۔ لداخ میں سٹریٹجک لحاظ سے اہمیت کی حامل گلوان وادی میں گزشتہ برس جون میں دونوں ملکوں کی افواج کے درمیان جھڑپ کے بعد سے ہی جوہری ہتھیاروں سے لیس دونوں پڑوسی ملکوں کے درمیان حالات کشیدہ ہیں۔ سرحد کے آس پاس دونوں ملکوں نے تقریباً 50000 سے 60000 فوجی اہلکار تعینات کر رکھے ہیں۔

دفاعی امور کے ماہرین کا کہنا ہے کہ گزشتہ برس سرحد پر تعطل شروع ہونے کے بعد سے چین نے حقیقی کنٹرول لائن پر درجنوں ایسے بڑے ڈھانچے تیار کر لیے اور تیار کر رہا ہے، جہاں سرد ترین موسم میں بھی فوج کو کسی طرح کی پریشانی نہ ہو۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ گوکہ بعض مقامات سے چینی افواج پیچھے ہٹ گئی ہیں لیکن اہم ٹھکانوں پر وہ اب بھی موجود ہیں۔اس نئے انفراسٹرکچر میں ہیلی پیڈ،نئے بیرک، زمین سے فضا میں میزائل داغنے والے مقامات، ریڈار کی تنصیب کے ساتھ ساتھ چین نے نئے پل اور سڑکیں بھی تعمیر کر لی ہیں۔

واضح رہے کہ 15 جون 2020ء کو مشرقی لداخ میں ایل اے سی پر دونوں ملکوں کے فوجی جوانوں کے درمیان جھڑپ ہوئی تھی جس میں بھارت کے 20 فوجی ہلاک ہوگئے تھے۔حالیہ عرصے میںدونوں جانب سے جاری ہونے والے بیانات کا قدرے سخت لب و لہجہ اس بات کی غمازی کرتا ہے کہ دونوں ملکوں کے درمیان سرحدی کشیدگی باقی ہے اور ایک عرصے سے جاری تعطل کے سلسلے میں دونوں کے خیالات مختلف ہیں۔تاریخ شاید ایک بار پھر دہرائی جا رہی ہے۔ کیونکہ 2020ء سے 60 سال کے بعد چینی اور بھارتی افواج ایک بار پھر ایک دوسرے کے آمنے سامنے ہیں اور بڑی طاقتیں یوکرائن میں برسر پیکار ہیں۔

Advertisements
julia rana solicitors london

یوکرائن کے تنازع  کی وجہ سے امریکہ فی الحال چین کو قابو میں رکھنے کی اپنی ایشیا پیسفک پالیسی بھی بھول چکا ہے اور اس خطے میں اس نے اپنے اتحادیوں کو بڑی حد تک اب چین کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا ہے۔ چین بھی 1962ء کے مقابلے اب خودہی ایک فوجی اور اقتصادی طاقت ہے، جو بڑی حد تک امریکہ کے ہم پلہ ہے اور روس اسکے ایک اتحادی کے طور پر ابھر رہا ہے۔ یہ شاید بھارت کو خطرے کی گھنٹی کے ساتھ ساتھ موقع بھی فراہم کررہا ہے کہ پڑوسی ممالک کے ساتھ نتیجہ خیز گفت و شنید کے دروازے کھول کر تنازعات کو پر امن طور پر ایک ٹائم فریم کے اندر سلجھانے کا سامان کیا جائے تاکہ 1962ء جیسے واقعات کا اعادہ نہ ہو۔

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply