عورت ہو ں نا۔۔عارفہ شہزاد/ تبصرہ :رابعہ الرَبّاء

” عورت ہو ں نا۔۔۔” چند ما ہ قبل یہ کتا ب ملی ، لکھا تھا ‘‘ پیاری رابعہ کے لئے،، ۔ دیکھ کر ایک لمحہ کو خاموشی میرے اندر طو اف کر نے لگی ۔ خو د کلامی سی ہو ئی‘‘ عارفہ سے مجھے کم از کم یہ امید نہیں تھی۔ جس عارفہ کو میں جا نتی تھی ، وہ تو ایسی نہیں تھی۔
خیر لمحہ بھر نے ہی مجھے مطمئن کر دیا کہ کتاب پڑھے بنا کو ئی فیصلہ نہیں کیا جا سکتا۔ کہ اچا نک ایک سفر مسکرانے لگا ، اور میں نے تیاری پکڑ لی ۔کتا بو ں کا چھو ٹا سا بیگ  میرا  ہمسفر ہو اکر تا ہے اس میں اس کتا ب کو بھی رکھ لیا ۔ اسلام آبا د پہنچی تو بار ش مسکرا رہی تھی ۔ فریش ہو نے کے بعد اگلے روز ، میں تھی ، تنہا ئی تھی، پہاڑ تھے ، اور ‘‘عورت ہو ں نا۔۔۔،،

پڑھنے لگی تو محسوس ہوا کہ پہلا تاثر ، آخری نہیں تھا۔ یہ کو ئی مظلو م عورت اپنے رونے نہیں رو رہی تھی۔ یہ وہی عورت تھی جس کو میں جا نتی تھی۔ ہنستی ، ہنساتی ، سچ بو لتی، کنول کو پہچان جا نے والی ، مشکل کو زندگی کا حْسن سمجھ کر قبو ل کر نے والی، اور اس کے ساتھ اسی کی طرح چل پڑنے والی، انسان سے ملتی تھی ، مصلیحتو ں سے نہیں، محبت اس کے اندر چاک پہ بْنتے ہو ئے انگ انگ میں اتار دی گئی تھی۔ اور یہ سب اس کی شاعری میں سمو گیا تھا ۔

“عورت ہو ں نا۔۔” میں یہی عورت دکھا ئی دیتی ہے ۔ عارفہ کے ہا ں نئے دور کی نئی عورت ، نئے مسائل ، نئے وسائل ، اور نئے سٹائل میں نظر آتی ہے۔ چونکہ وہ خود دلیر ہے لہذااس کے الفاظ میں بھی دلیری ہے، اس کے لفظ مصلحت کی تال پہ رقص نہیں کرتے۔ حقیقت کو سلام کرتی ہے۔
نظم” اجنبی” کا پہلا حصہ مو جو دہ دور کے منافقانہ رویوں کا دردمند عکاس ہے۔ عارفہ نے حقیقت پہ شوگرکو ٹنگ نہیں کی۔

مضمون نگار:رابعہ الرباء

مسکرا سکتے ہیں استہزا سے
ہنس سکتے ہیں قہقہے لگا کے
چوراہے میں تا لیا ں بجا سکتے ہیں
ان کے ہا تھو ں اپنی اداسی تھما دو تو
تماشا بھی بنا سکتے ہیں
صرف اجنبی ہی نہیں ، اپنے بھی
معاشرے میں مو جود بے حسی کو ان کے ہا ں اسی بے حس روپ میں دیکھا جا سکتا ہے ۔ کیونکہ اس کی مجمو عی شاعری کے مطالعہ سے اندازہ ہو تا ہے کہ وہ اس دور کی بے حسی کو دوسروں تک بھی پہنچانا چاہتی ہے ۔ دوسروں کو احساس دلا نا چاہتی ہیں کہ غم اور کمزور لمحے انسان کا قیمتی اثاثہ ہو تے ہیں، اپنے اثاثے کی خود حفاظت کریں ۔۔ اگر انسان اس پہ قابو پا لے توزندگی انسان کے تابع ہو جاتی ہے۔
انسان بے حسی و افراتفری کے جس دور سے گزر رہا ہے۔ اس کے ثمر تلخ کو ” گرہیں کھلتی نہیں” میں خوب بیان کیا گیا ہے ۔ اور انسا نی اعتراف مو جو د ہے کہ اب یہ سب معاملات اتنے الجھ گئے ہیں کہ ہم سے نہیں سْلجھ سکتے ۔ اللہ ہی ہمیں اس جا ل سے نکا ل سکتا ہے۔
کیسی گرہو ں میں تارِ نفس ہے یہ الجھا ہو ا
ساری پیشانیو ں پر لکیروں کا پھیلا ہو اجال ہے
اس میں جکڑی گئی
مسکراہٹ کہیں
دھجیاں چار اطراف اڑنے لگیں
کس کا ملبو س ہے؟
ہر نگر ، ہر گلی
خوف ہی خوف ہے۔
اسی خوف کے دوسرے روپ اور بہت سی نظمو ں میں نظر آتے ہیں ۔ مثلاََ ‘‘ تا زہ لہو کی دھا ریں،، ‘‘ ڈیمو کریسی کال،، ‘‘ آئینے چھین لو ،،
” محسن” ،” ہیلو وین”،” دھڑکا”
کسی سڑک پر
لوگ ہمیں پہچان نہ پائیں
لمبی لمبی داڑھی اور بندوقوں والے
طالبا ن بھی چکما کھائیں
سکو ل سے ہم سب
اپنی بس میں
اپنے اپنے گھر کو جائیں۔۔۔
(ہیلووین)
عارفہ شہزاد کی نظمو ں کا ایک موضوع روحانیت ہے ۔ ان کے ہا ں عشق مجازی اور عشق حقیقی روح کی حد تک گہرا ملتا ہے ۔ دونو ں میں چاشنی مو جو د ہے ۔ مجھے یہ وصف ان کی ذات میں بھی نظر آتا رہا ۔ جب جب ان سے ملی میں نے تب تب ایک روح سے بھی ملاقات کی ہے ۔ ایسا کم کم ہو اکرتا ہے۔ ورنہ زمین پہ ہم انسانو ں سے ہی ملتے ہیں ۔ روح سمیت انسان سے ملنا خوش بختی ہے کم نہیں ہو تا۔ ایسی ملا قاتیں روح سے روح کی ہو اکر تی ہیں۔ عارفہ شہزاد کے ہا ں یہ خوبی مو جو د ہے ۔ وہ خود بھی روح کے تعلق کو ٔگہرائی سے سمجھتی ہیں۔
ایک بی بی ہاجرہ ہیں
کعبے سے کتنی قریب
باقی ساری بیبیوں کا
آخری صف میں نصیب
(مقام حطیم)
منبر رسولﷺ اور مصلےٰ رسول ﷺ کی دید کے خمار میں
مواجۂ شریف کو تو دیکھنے کا حکم ہی نہیں ہے نا۔۔۔
مگر سنہری جالیو ں کی اک جھلک نصیب ہو
تو روح کو قرار کچھ نصیب ہو
(زیارت ِ اقدس)
یہ ہے نو ر کیسا
کہ آنکھیں ہیں عاجز
سنی میں نے بھی
پھڑپھڑاہٹ پروں کی
مگر صحن کعبہ میں
کوئی نہیں ہے
(مقدس آنکھو ں کا گیت)

یہ سب عشق ِحقیقی کی کچھ مثالیں تھیں ۔ عشق مجاری کے سمندر میں بھی عارفہ شہزاد خوب عمدہ غوطہ زنی کرتی دکھائی دیتی ہیں۔ اس کے ہا ں کو ئی سوئی ہو ئی شاعرہ نہیں ملتی ، ایک متحرک عورت ، ایک متحرک شاعرہ نظر آتی ہے۔ جس کا مقصد کسی کا جگا نا یا بھڑکا نا بھی نہیں بلکہ ایمان دارانہ نسائی احساس پینٹ کر نا ہے ۔ جس کو ہم حیا کے پردے سے ڈھانپ کر ،وجود کے کرب میں جل کر ، اوروں سے جھوٹی ستائش لینے میں تو کامیاب ہو جاتے ہیں ۔ مگر اپنی ذات ، اور فطرت و ادب کے ساتھ بے ایمانی کر جاتے ہیں۔ مگر عارفہ ایسا نہیں کر تی ، وہ ذات و فطرت سے نہ  منکر ہے ، نہ  منکر بیان ہے۔ وہ فطر ت کو من وعن قبول کر تی ہے۔ اور برملا اس کا اظہا ر کر تی ہے۔
دیکھ
میں تیرے ہی جیسی ہو ں
انگ سے انگ ملا کر دیکھ
پریت کی راس رچا کر دیکھ
جھوم ، بدن کے ہنڈولے میں
چوم یہ پربت اپنے جیسے
چوٹی چوٹی ، برف کرید
اے رِی ، پا لے اپنے بھید
(پریت کی راس)
” پریت کی راس” میں نسائیت کے وہ جذبے دکھائی و سْنائی دیتے ہیں جسے جرم کی قبر میں دفن کر دیا جاتا ہے۔ اور پھر زندگی کی خالی بھیک مانگی جا تی ہے۔ تو جو چیز ہے ہی نہیں ، وہ مل کیسے سکتی ہے۔ چند لفظوں میں عارفہ نے عورت کی ایک نفسیاتی گرہ کو کھو ل دیا ہے
‘‘ مدتو ں سے اجنبی، بو سوں میں
گھلتی حلاوت
دھواں بن کر حلق میں پیوست ہو نے لگتی ہے
گولڈ لیف کا ذائقہ چکھ لینے والی عورت
چاندی کے پنّے سے کہا ں بہلتی ہے۔
(زمیں آسماں سے ملتی ہے یا نہیں )
ایک اور نظم ‘‘عادت،، میں نسائی محبت کا ایک اور رنگ ملتا ہے۔
‘‘آسماں کی عادت ہے
کھیلتا ہے رنگو ں سے
سرمئی ، بنفشی رنگ
نیلگو ں رْوپہلے ڈھنگ
جو بھی چاہے ، اپنالے
اور زمیں کی عادت ہے آسماں کے رنگو ں میں خود کو رنگ لیتی ہے ”

یہ عورت کی ایک مجمو عی فطرت ہے۔ جیسے زمین کی فطرت ہے کہ اس میں جو بیج بو تا جا تا ہے ۔ وہ اسی کے پو دے اگل دیتی ہے ۔ اور ہم اسی کے ثمر سے فیض یاب ہو تے ہے۔ جو نفسیاتی گرھیں بڑے بڑے نفسیات دان کھولتے ہیں ، وہ سب ان کے کلام میں مو جو د ہیں ۔ عورت صرف رد عمل کا نام ہے ۔ مگر اس کا رد عمل زیادہ توانا ہو تا ہے۔ اس لئے ، مرد کو اپنا عمل بھو ل جاتا ہے ۔ اور عورت کا اچھا یا بْرا ردعمل یاد رہ جاتا ہے۔ عورت کا یہ قوی ردعمل بھی فطری ہے۔ کیو نکہ اللہ نے اس کو اس فطرت سے نو ازا ہے۔ کہ مرد اس کو محض خون کا ایک قطرہ دیتا ہے اور عورت نو ماہ بعد اس کے بدلے اس کی گو د میں ایک مجسم بھر دیتی ہے۔ عارفہ کی یہی خوبی ہے کہ وہ ان فطرتوں کو اپنے لفظوں سے ،خوشبو کی نمی دے کر گوندھ دیتی ہے۔
” برکھا ، بادل ، بہتے دھارے
لفظوں میں سمٹے ہیں سارے”
‘‘ ہوا کے پیامبر،، ‘‘ وہ کیا مصلحت تھی؟،، ‘‘ لفظ و لمس میں حنو ط،، ‘‘ میرا حصہ،، ایسی نظمیں ہیں جن میں وہ سوال اٹھائے گئے ہیں ۔ جو کو ئی بھی عورت کی زبان سے سننا نہیں چاہتا ۔ اور ہر عورت اپنے اپنے دور میں، اپنے اپنے انداز میں پو چھتی رہی ہے ۔ یہ نہیں کہ یہ سب سوال نا قابل جواب ہیں۔ بلکہ یو ں محسوس ہو تاہے کہ ہم ان کو تا قیامت سوال ہی رکھنا چاہتے ہیں۔
“میں صحیفوں میں تو
عابدہ ، مو منہ، صالحہ کے لقب سے پکا ری گئی
مگر جب فرشتو ں نے آدم کو سجدہ کیا تھا
تو حوا کہا ں تھی؟
(وہ کیا مصلحت تھی؟)
‘‘ وفا کے چاک پر گھڑی
تھیں سوکھی ، دھری دھری
گھٹن نصیب عورتیں
ہو ا کا ہو ں پیامبر
کسی بھی درز سے اگر
میں دوں انھیں جو تازگی
تو اس میں کچھ برا ہے کیا؟
(ہوا کا پیامبر)
‘‘صحیفے تم پہ اْترے ہیں
تمھارا نام ہے نا می
مرے حصے میں ہے بس پیروی یا ایک نا کا می
تمھاری مْہر ہے ، سکہ تمھارا
لفظ بھی سارے تمھارے ہیں
تمھارا نا م ہے تاریخ کے سارے ہی خانو ں میں
مری تو سوچ تک مبحوس
(میراحصہ )

یہ اور اس طرح کی بہت سی نظمیں جن میں عورت کے ذہن میں صدیو ں سے انگڑائیا ں لینے والے سوال ملتے ہیں۔ جن کا کوئی جواب دینا تو در کنار ہم اس کو تاریخ کے اوراق سے ہی اْڑا دینا چاہتے ہیں۔ ہم ایسی سوچ کو ہی مسمار کر دینا چاہتے ہیں ۔ مگر کیا کیجئے جو سوچ محبت کے سارے زاویے تلاش سکتی ہے، جو گستاخ خامشی کے منجمد دور دراز علاقوں میں جا کر چِلا بھی سکتی ہے۔
مگر چونکہ عورت تخلیق ہے ۔ اور تخلیق کرب کے بنا وجود میں نہیں آتی۔ اس کے رستے نا معلوم راہو ں اور نا ہموار جگہو ں سے ہی بنتے ہیں ۔ اس سے نکلنے والے چشمو ں کی گہرائی کا علم کسی کو نہیں ہو تا ۔ کہا ں کب کیسے ، پا نی اس کی تڑپ سے، بے بس ہو کر زندگی کا آغاز کر دیتاہے ۔

اس حسن کو عارفہ نے ‘‘ نئی اک نظم میں،، قید کیا ہے۔ گویا وہ سب سچائیوں کے، سب سوالو ں کے بعد مایوس نہیں ہے ۔ کیو نکہ اگر تاریخ میں اس کا نام نہیں تو کیا ،تاریخ گواہ تو ہے کہ اس کے بنا نظام کائنات ادھوی اور بے رنگ ہے۔
سوتم نے گاڑڈالا تھا زمیں میں
اور میری آنکھیں نکا لی تھیں
زبا ں بھی میری تم نے کا ٹ ڈالی تھی
مرے کا نو ں میں سیسہ تک انڈیلا تھا
میرے اس جسم نے کیا کیا نا جھیلا تھا
فقط اک ہا تھ باقی تھے
انھی ہا تھو ں سے
میں نے ہر طرف بکھرے خس و خاشاک کی تہ میں پڑا
اک دل نکا لا ہے
مرا وہ دل
جو زندہ تھا، جو زندہ ہے
نہ جانے آسما ں پر ہے کیا
لگتا ہے میرے گِرد بس کرنو ں کا ہا لہ ہے
نئی اک نظم نے پھر ڈول ڈالا ہے

Advertisements
julia rana solicitors london

یہ نئی نظم عورت ہے۔ اس میں ‘‘ عورت ہو ں نا ،، کی اصل کہا نی ہے ۔ جو مو م ہو کر پھر کا ئنات کو رنگین کر دیتی ہے ۔ زندگی مسکرانے لگتی ہے۔ ورنہ تاریخوں میں رقم مرد ، صحیفوں کو سہنے والا ، تخلیق کے نم سے خالی ہے۔ عارفہ اس مجمو عہ کلا م میں میں عورت کا ہر رنگ ہر سوچ ، ہر احساس پْر ترنم سانس لیتی ہے۔
بس عارفہ
کبھی تو یاس کی تاریکیوں میں بین کرتی ہے
کبھی پھرآس کی با ہو ں میں سمٹی رقص کرتی ہے
بہت دشوار رستوں پر اکیلے جا نکلتی ہے
۔۔۔۔۔۔
کہیں سینے کی گہرائی میں بن کے درد پلتی ہے
کہا ں دل سے نکلتی ہے
‘‘ عورت ہو نا۔۔۔،، تو عورت اس سب کے با وجود دل سے کب نکلتی ہے ۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply