گھروندا ریت کا(قسط27)۔۔۔سلمیٰ اعوان

بچوں نے اُس کا ناک میں دم کردیا تھا۔جناح ایونیو کی دُکانوں سے ڈھیر سارے کھلونے خرید کر بھی وہ مطمین نہیں ہوئے تھے۔ اب وہ بیت المکرم کی طرف جانا چاہتے تھے۔خوقان وہاں سے ماؤتھ آرگن خریدنا چاہتا تھا۔وہ کہتی تھی کہ بھئی جب تمہیں بجانا نہیں آتا تو لے کر کیا کرو گے؟
”ارے مما سیکھ جاؤں گا۔آپ لے تو دیں۔“
اور وہ اُس کی ساڑھی کے آنچل سے لپٹے اُسے بیت المکرم کی دکانوں کی طرف گھسیٹ کرلے گئے۔ایک نہیں کئی دوکانوں سے انہوں نے اور بھی کئی چیزوں کی خریداری کی۔
سامنے ہی بیت المکرم کی وہ تاریخی مسجد تھی جسے جانے وہ کب سے دیکھنا چاہتی تھی۔لیکن وقت ہی نہیں ملا تھا۔اُس نے دونوں بچوں کی انگلیاں پکڑیں اور مسجد میں آگئی۔
سیڑھیوں پر ٹھہر کراُس نے اُس کے جلال وجمال پر ایک گہری نظر ڈالی۔آنکھیں بند کیں اور خدا سے دعا گو ہوئی۔جب اُس نے آنکھیں کھولیں اور دعا کے لئے اٹھے ہوئے ہاتھ چہرے پر پھیرے خوقان اس کی ٹانگوں سے چمٹ کر بولا۔
”ممابتائیے آپ نے خدا سے کیا مانگا ہے؟“
وہ جُھکی۔اس نے باری باری دنوں کو پیار کیا۔داہنے ہاتھ کے حلقے سے انہیں اپنے بازؤوں میں سمیٹا۔اس وقت لوگوں کی آمدورفت کافی تھی۔مغرب کی نماز کے بعد کچھ لوگ ابھی بھی سیڑھیوں سے اُتر رہے تھے۔کچھ مسجد کے اندر بھی جا رہے تھے۔
خوقان نے اپنا سوال پھر دہرایا تھا۔
اس نے اپنی نم آنکھوں کو بائیں ہاتھ کی پوروں سے صاف کیا اور اپنے آپ سے کہا۔
”کیا مانگا ہے؟ یہ اگر بتاؤں تو تم کیا سمجھ سکو گے؟بس سکون قلب کی دعا ہی کر سکتی ہوں۔“
لیکن اُس نے لڑکے کو یہ ضرور بتایا تھا کہ اُس نے اللہ میاں سے کہا ہے کہ اُس کے خوقان اور خوقی کو بہت بڑا آدمی بنائے۔
گاڑی میں بیٹھ کراُس نے دونوں بچوں کو اپنے ساتھ فرنٹ سیٹ پر ہی بٹھا لیا۔اِس وقت رش اتنا زیادہ تھا کہ گاڑی کو باہر نکالتے میں ہی بیس منٹ لگ گئے۔وہ گھر جلدی پہنچنا چاہتی تھی۔رحمان نے رات کے کھانے کے لیے بریانی کی فرمائش کی تھی۔اوروہ خانساماں کو بناتے ہوئے دیکھنا چاہتی تھی۔
لیکن بچوں نے راستے میں ہی بکھیڑا ڈال دیا تھا کہ وہ اُگلو میں آئس کریم کھائیں گے۔اُس نے بہتیرا ٹالنے کی کوشش کی۔گھر پر بنانے کا لالچ دیا۔پر جب لڑکی نے اس کے بازو پر اپنا ننھا منا ہاتھ رکھ کرکہا۔
”مما۔۔مان جائیے نا۔کھلا دیجیے ناآ ئس کریم۔
اُس کا سٹیرنگ پر جما ہاتھ لرز گیا تھا۔اور گاڑی کا رُخ خود بخود دوسری سڑک پر مڑ گیا۔
اب اُگلو میں جانے کے سوا کوئی چارہ نہ تھا۔
وہ اِس وقت ٹنگائیل کی نفیس کڑہت کی چاکلیٹی ساڑھی پہنے تھی۔بغیر آستین کے چُست بلاوز میں سے جھانکتا اُس کا براق پیٹ اور شانے برقی روشنیوں میں کوندا سابن کر دیکھنے والوں پر لپکے تھے۔گھنے بالوں کے درمیان اس کا خوبصورت چہرہ کسی ماورائی مخلوق کا نظر آیا۔ڈائمنڈ کی چین اور ٹاپس نے اُس کی شان کو اور دوبالا کیا ہوا تھا۔
بیروں نے مرعوبیت کے شدید احساس تلے جُھک جُھک کر خوش آمدید کہی اور اندر آنے اور میز تک جانے کا راستہ دکھایا۔
خاصی گہماگہمی تھی۔ساز بڑے تیز بج رہے تھے۔بچوں نے بیٹھتے ہی خوشی سے میز بجایا۔ویٹر آیا۔اُس نے آئس کریم کا آرڈر دیا اور خود کیوٹکس لگے ہاتھوں کو غور سے دیکھنے لگی۔اُگلو میں وہ کئی بار رحمان کے ساتھ آئی تھی۔
پھر انہوں نے آئس کریم کھائی۔بل ادا کیا۔بیرے کو ٹپ دی اور جب وہ کرسیوں سے اُٹھ رہے تھے۔بچی یکایک چلائی۔
”ارے ممادیکھئے وہ پپا بیٹھے ہیں۔کمال ہے ہمیں نظر ہی نہیں آئے۔
بچی نے اُنگلی سے اشارہ کیا اور ساتھ ہی بھاگنے لگی۔لڑکا بھی پیچھے بھاگا۔ اُس نے گھبرا کر رُخ پھیرا۔دُور کونے میں رحمان دومردوں اور تین عورتوں کے ساتھ میز کے گرد بیٹھا چائے پی رہا تھا۔
اُسے یوں محسوس ہوا جیسے وہ تیورا کر گرجائے گی۔مدت بعد اس طرح سامنا ہوا تھا۔سارا بدن نرم سی شاخ پر لہراتے کسی پتے کی طرح ڈولنے لگا تھا۔آنکھوں کے گرداندھیر چھا گیا تھا۔بچے چلّارہے تھے۔”مما“
”مما آجائیے نا آپ“
کیسی نازک صورت حال تھی یوں جیسے پاؤں کے تلوؤں کے نیچے پُل صراط ہو۔لیکن اُس نے فی الفور خود پر قابو پایا۔اور اپنے آپ سے کہا تھا وہ کسی طور بھی رحمان کے لیے خفّت یاسُبکی کا باعث نہیں بنے گی۔
آہستہ آہستہ پُر وقار قدموں سے وہ اُن کی طرف بڑھنے لگی۔رحمان اور دوسرے دونوں مردوں نے نیم ایستادہ ہوکر اُسے تعظیم دی اور خالی کُرسی پر بیٹھنے کا اشارہ کیا۔ایک اچٹتی سی نظر اُس نے اُن عورتوں پر بھی ڈالی جوان مردوں کے ساتھ تھیں۔ایک ذرا عمر رسیدہ اور غیر ملکی تھی۔دوسری دونوں جوان اور شکل وصورت سے بنگالی جان پڑتی تھیں۔ایک کے بال کٹے ہوئے تھے۔ایک کا جوڑا اور دوسری کی چوٹی کمر پر بل کھا رہی تھی۔چہرے سادہ اور ساڑھیاں سوتی تھیں۔
انہوں نے بڑی تنقیدی نظروں سے اس کا جائزہ لیا تھا۔
ایک مرد نے کہا۔
”ہمیں افسوس ہے ہم آپ کو دیکھ نہیں سکے۔بتائیے کیا کھانا پسند کریں گی؟دوسرا پہلے والے کی معذرت پر زیر لب مُسکرایا تھا۔کیونکہ واقعہ یہ تھا کہ اُس کے اندر آنے پر ہال میں موجود سبھوں کی نظریں اُس پر اٹھی تھیں۔اُس نے تو کہا بھی تھا۔
”بھئی کیا غضب کی لڑکی ہے؟ہیلن آف ٹرائے جیسی۔اندر کیا آئی ہے سارا ماحول جگمگا گیا ہے۔دوسرا ساتھی جانتا تھا۔رحمان کو خاموش دیکھ کر اُسکی رگ شرارت پھڑکی تو ضرور۔پر پھر جانے کیا سوچ کر چُپ رہا۔
اب وہ مصُرکہ وہ بیٹھے باتیں کرے اور اُنہیں بتائے کہ وہ کیا کھانا پسند کرے گی؟
چند لمحوں کے توقف کے بعد اُس نے کہا۔
اجازت دیجیے۔
”ارے بھئی کیا جلدی ہے بیٹھیے نا رحمان صاحب بھی تو یہیں ہیں۔
اُن کی اشیتاق سے لبریز نگاہیں وہ اپنے چہرے پر محسوس کرتی تھی اور سُرخ ہوئی جاتی تھی۔
اُس نے شائستگی سے معذرت کی اور بڑے رکھ رکھاؤ والے لہجے میں بات کرتے ہوئے اُس نے کہا کہ وہ ضرور بیٹھتی اور اُنکی کمپنی سے لُطف اٹھاتی پربچے آئس کریم کھانے کے لئے بضد تھے اور وہ ہم کھا چکے ہیں۔نیز اُسے گھر جلدی جانا ہے کہ بچوں کو قرآن پاک پڑھانے کیلئے قاری صاحب آنے والے ہیں اور آج اُنکا پہلا دن ہے اور وہ نہیں چاہتی کہ وہ پڑھائے بغیر چلے جائیں۔
اس بات پر رحمان نے بھی چونک کر اُسے دیکھا تھا۔یہ انتظام اُس نے شاید انہی دنوں کیا تھا۔
اُس نے دونوں بچوں کے ہاتھ پکڑے اور خدا حافظ کہتے ہوئے۔
مڑی اور نپے تلے قدموں سے چلتی باہر آگئی۔
اِس تمام وقت میں اُس نے ایک بار بھی رحمان کی طرف نہیں دیکھا اور نہ ہی اُس سے کوئی بات کی۔یوں محسوس ہوتا تھا جیسے رحمان اِس صورت حال سے خاصا محظوظ ہورہا ہو۔البتہ وہ اپنی جرأت اورگفتگو پر خود حیران تھی۔
جب وہ باہر آگئی اور گاڑی میں بیٹھ گئی۔اُس نے پلٹ کر پیچھے دیکھا تھا۔خنک ہواؤں کے جھونکوں کے ساتھ برقی روشنیاں اُس کا مُنہ چڑا رہی تھی۔
اوراس کے جانے کے بعد اُن تینوں عورتوں اور مرد نے رحمان کو تعجب سے دیکھا اور کہا۔
”تم تو چھپے رستم نکلے۔لعل کوکوٹھڑی میں چھپائے بیٹھے ہو۔“
”بقول تمہارے لعل ہے تو بھئی لعل تو چھپائے ہی جاتے ہیں۔سامنے یاسرعام رکھنے سے چوری ہوجانے کاا ندیشہ ہوتا ہے۔“
بڑا زبردست قہقہہ پڑا تھا۔
”آپ کی بیوی بڑی کمسن اور بہت حسین ہے۔بنگالی نہیں لگتی۔معمر خاتون بولی تھیں۔“
اُس نے کوئی جواب نہیں دیا۔مسکراتا رہا۔
”آپ کی مسز کا موڈ آف لگتا تھا۔سوچ سمجھ کر گھر جائیں۔“
نوجوان لڑکی نے رحمان سے کہا۔
”ارے نہیں۔بڑی پیاری ہے۔دیویوں جیسی عادات ہیں۔“
جب وہ گھر آئی۔وہی ہوا تھاجس کاخدشہ تھا۔قاری صاحب آئے تھے اور انہیں گھر نہ پا کر چلے گئے۔مسز حیدر کی تاکید تھی خیال رکھنا خودوقت کی پابندی کرنے والے انسان ہیں اوردوسروں سے بھی ایسا ہی چاہتے ہیں۔عام مولویوں کے برعکس بُہت سُتھری عادات کے مالک ہیں۔
”چلو کل منت سماجت کروں گی۔“
اُس نے بچوں کو لاؤنج میں کھیلنے کے لیے چھوڑا اور خود کچن میں آگئی۔بچوں نے بہتیرا کہا کہ وہ اُن کے ساتھ کھیلے۔لیکن وہ اُن کے لئے اچھی سی بریانی پکوانے کا کہتی ہوئی باہر آگئی۔سارا راستہ ذہن سُلگتارہا تھا۔
تین عورتیں اور تین مرد۔
اور عین ان لمحوں میں ایک آواز اس کے خیالوں میں گونجی۔
”گھرداری کے چکروں میں پڑوگی تو پتہ چلے گا کہ یہ کیسے دکھ ہیں؟“
واقعی طاہرہ ٹھیک کہتی تھی۔گھرداری کے چکروں میں پڑے بغیر یہ دکھ کب سمجھ آتے ہیں؟میرے تن بدن میں کیسی آگ لگی ہوئی ہے؟
اُس کی بہت سی دوست لڑکیاں ہیں جن کے ساتھ اکثر اُس کی شامیں گذرتی ہیں۔خوبصورت اور اچھے چہروں والی لڑکیوں کو اُسے دیکھنے کی لت بھی ہے۔ان باتوں کا اعتراف وہ خود کرتا ہے۔
خانساماں باورچی خانے میں نہیں تھا۔شاید کہیں باہر گیا ہوا تھا۔وہ دروازے کے پاس کھڑی تھی۔پتہ نہیں اُسے کیا ہوا؟
تیورا کرگری۔دوازے کے ایک پٹ پر البتہ ہاتھوں کی گرفت نے بہت زیادہ چوٹ لگنے سے بچا لیا۔وگرنہ سر اور پیشانی لہولہان ہونے کا اندیشہ تھا۔
نوکر جب باہر سے آیا اور اُس نے دیکھا تو حیران ہوا۔اُلٹے پاؤں واپس بھاگا۔اس وقت رحمان بھی گاڑی پورچ میں کھڑی کر چکا تھا۔نوکرکو یوں ہراساں دیکھ کر گھبرائے ہوئے لہجے میں بولا۔
”کیا بات ہے۔اتنے بدحواس کیوں ہورہے ہو۔“
اور اُس نے جو کچھ بتایا۔ اُس نے رحمان کے ہاتھ پاؤں پھُلا دئیے۔بھاگا بھاگا آیا۔اُسے ہاتھوں میں اٹھا کر کمرے میں لایا۔ڈاکٹر کو فون کیا۔ڈاکٹر کے آنے تک بچوں کو بھی پتہ چل گیا۔انہیں شاید رحیم نے بتایا تھا۔دونوں بچوں کی آنکھوں میں آنسو تھے۔اور وہ بار بار اُس سے لپٹے جاتے تھے۔
ڈاکٹر نے انجکشن دئیے۔کچھ دیر بعد اُس نے آنکھیں کھولیں۔ڈاکٹر اس پر جُھکا ہوا تھا اور رحمان پاس کھڑا تھا۔بچے کُھلے دروازے سے پریشان نظروں سے دیکھتے تھے۔اُس کی کھلی آنکھیں دیکھ کر لڑکے سے ضبط نہ ہوسکا۔بندوق سے نکلی ہوئی گولی کی طرح بھاگا اور اس کے سینے پر گرا اور بولا۔
”مما آپ کو کیا ہوا ہے؟ہم تو اچھے بھلے باہر سے آئے تھے۔
اور بچے کو اپنی بانہوں میں سمیٹتے ہوئے وہ رونے لگی تھی۔ڈاکٹر نے چند دوائیاں لکھیں۔کچھ احتیاطیں بتائیں اور رحمان سے رُخصت چاہتے اور اُسے سب ٹھیک ہے۔کہتے ہوئے باہر نکل گیا۔
رحمان دیر بعد کمرے میں آیا۔دونوں بچے اس کے دائیں بائیں لیٹے تھے۔خوقان خوقی چلو بیٹے کھانا لگ گیا ہے کھاؤ۔
دونوں ماں کے بغیر کھانے سے انکاری تھے۔سُمجھا بُجھا کر اُس نے انہیں باہر بھیجا اور رحیم سے کہا کہ وہ کھانے کے بعد انہیں مسز حیدر کے ہاں لے جائے۔
بچے اور نوکر سے جب کمرہ خالی ہوگیا۔وہ اس کے قریب آیا۔اُس کے سرہانے کرُسی پر بیٹھا۔چند لمحوں تک ایک ٹک اُسے دیکھتا رہا پھر بولا۔
اس موضوع پر آج جو باتیں ہوں گی دوبارہ ان پر بحث نہیں ہونی چاہئیے میں تمہیں یہ کہناچاہوں گا کہ جب تک تم حقائق سے آگاہ نہ ہوجاؤ۔اُس وقت تک فضول شک وشبہات کودل میں جگہ نہ دو۔ایک دوسرے پر اعتماد اور یقین ازدواجی زندگی کے لیے بہت ضروری ہے۔
دیکھو نجمی ایک کلیدی آسامی پر متمکن ہونے اور ساتھ میں اپنا بزنس کرنے کی وجہ سے میرا دائرہ تعلقات بہت وسیع ہے۔اس دائرے میں مردوزن دونوں ہی شامل ہیں۔احمق لڑکی تم سے مجھے کتنا پیار ہے۔یہ اگر بتاؤں تو تمہیں کبھی یقین ہی نہیں آئے گا۔یہ بھی کہوں گا کہ اس پیار کو حاصل کرنے میں تمہاری اچھی عادات کو بہت دخل ہے۔مجھے یہ کہنے میں کوئی باک نہیں کہ تم میری کمزوری بن چکی ہو۔
پھر بصداصرار اُسے کھانا کھلایا گیا۔مسز حیدر کے ہاں سے نوکر بچوں کو لیکر آیا۔دونوں بچے اس کے ساتھ لیٹے اور سوئے۔ اِن کے سونے کے بعد رحمان نے انہیں اُن کی خوابگاہ میں پہنچایا۔
اس ساری رات رحمان نے اُسے کسی چھوٹے دودھ پیتے بچے کی طرح اپنے سینے سے چمٹائے رکھا۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply