• صفحہ اول
  • /
  • کالم
  • /
  • ضمنی مالیاتی بل 2021 کا متوسط طبقے پر اثرات۔۔معاویہ یاسین نفیس

ضمنی مالیاتی بل 2021 کا متوسط طبقے پر اثرات۔۔معاویہ یاسین نفیس

پاکستان کی قومی اسمبلی نے ضمنی مالیاتی بل 2021(منی بجٹ) کی کثرت رائے سے منظوری دے دی ہے۔منی بجٹ کے حق میں 168 جبکہ مخالفت میں 150 ووٹ ڈالے گئے۔
حزب اختلاف ایوان کے اندر اور ایوان سے باہر منی بجٹ2021 کے خلاف شدید مزاحمت تو کرتی نظر آئی لیکن عددی اکثریت نہ ہونے کے باعث اس منی بجٹ کو ایوان سے منظور ہونے سے روک نہیں پائی جوکہ بالآخر اتحادیوں اور اپنے وزراء کی بلیک میلنگ کے باوجود حزب اقتدار نے منظور کروالیا۔
منی بجٹ 2021 کی بنیاد پر دو بیانیے قائم کئے گئے ہیں۔ ایک حکومتی بیانیہ جبکہ دوسرا حزب اختلاف کا بیانیہ ہے۔

حزب اقتدار کے بیانیہ میں اور حزب اختلاف کے بیانیہ میں زمین و آسمان کا فرق ہے دونوں بیانیے یکسر ایک دوسرے کے متضاد ہیں۔حکومتی بیانیہ کے مطابق اس بجٹ کے ذریعے لوئر و مڈل کلاس طبقہ پر بالکل فرق نہیں پڑے گا۔جبکہ حزب اختلاف کے مطابق اس بجٹ کے ذریعے سب سے زیادہ متاثر لوئر و مڈل کلاس طبقہ ہی ہوگا۔

ضمنی مالیاتی بل 2021 میں قطع نظر اس سے کہ یہ بل کس کی خواہش پر پیش کیاگیا ، اس بل کے ذریعے آئی ایم ایف کی کیا کیا شرائط تسلیم کی گئیں، اس بحث میں جائے بغیر صرف یہ دیکھنا ہے کہ اس بل کے ذریعے عام روزمرہ کی ضروری اشیاء جو لوئر و مڈل ، اپر و ایلیٹ کلاس سے یکساں متعلق ہیں ان پر کیا اثر پڑے گا ،اسکا سرسری سا جائزہ پیش خدمت ہے۔اس جائزہ کی بنیاد پر قارئین فیصلہ کرسکتے ہیں کہ آیا یہ ضمنی مالیاتی بل لوئر و مڈل کلاس پر اثر انداز ہوگا یا نہیں۔

منی بجٹ میں روزمرہ استعمال کے 42 آئٹمز پر ٹیکسوں کی چھوٹ ختم کی گئی ہے
مقامی سطح پر فروخت ہونے والی اشیا، بیکری آئٹمز، ڈبل روٹی اور سویٹس اور مقامی سطح پر پیدا ہونے والے سرسوں اور تل کے بیجوں، سپرنکلز، ڈرپ اور سپرے پمپس پر ٹیکسوں کی چھوٹ ختم کرنے کی تجویز ہے
بل کے مسودے کے مطابق برانڈڈ پیکنگ میں فروخت ہونے والے ڈیری آئٹمز پر 10 فیصد، سونے، چاندی کے زیورات پر 1 سے 17 فیصد ، ماچس پر 17 فیصد ٹیکس عائد کرنے کی تجویز ہے جبکہ ساشے میں فروخت ہونے والی اشیا کا ٹیکس 8 فیصد سے بڑھا کر 17 فیصد کرنے کی تجویز ہے۔ پوسٹ کے ذریعے پیکٹ بھیجنے پر 17 فیصد، زرعی بیجوں، پودوں، آلات اور کیمیکل پر 5 سے 17 فیصد،
ادویات کے خام مال پر 17 فیصد، درآمدی سبزیوں پر 10 فیصد اور پیکنگ میں فروخت ہونے والے مصالحوں پر 17 فیصد ٹیکس عائد کرنے کی تجویز ہے۔
ڈیری مصنوعات اور الیکٹرک سوئچ پر 17 فیصد،پراسس کیے ہوئے دودھ پر ٹیکس 10 سے 17 فیصد، پیکنگ میں دہی، پنیر، مکھن، دیسی گھی اور بالائی پر 10 فیصد سے بڑھا کر17 فیصد ٹیکس لگانے کی تجویز ہے۔

اسی طرح 200 سے 500 ڈالر کی قیمت کے درآمد شدہ موبائل فونز پر 17 فیصد ویلیو ایڈڈ ٹیکس اور موبائل فون کمپنیوں کی سروسز پر ایڈوانس ٹیکس میں 10 سے 15 فیصد اضافے کی تجویز ہے۔
بچوں کے دودھ پر 0 سے 17 فیصد ٹیکس عائد کرنے کی تجویز ہے۔

اس سرسری سے جائزہ کے مطابق منی بجٹ کے ذریعے روز مرہ کے استعمال کی وہ اشیاء جو یکساں طور پر امیر و غریب کی بنیادی ضروریات میں شامل ہیں ان پرٹیکس کی چھوٹ ختم ہونے کی صورت میں وہ مہنگی ہوجائینگی اور اسکا سب سے زیادہ اثر لوئیر و مڈل کلاس طبقہ پر ہوگا۔اشیائے خورد و نوش کازیادہ دارو مدار زراعت کے شعبہ پر ہے۔

ضمنی مالیاتی بل 2021 میں حکومت نے زراعت کے شعبہ کو بھی نہیں بخشا۔ کسان یوریا کھاد کے لئے پہلے ہی در در کی ٹھوکریں کھانے پر مجبور ہے، ستم یہ کہ اس ضمنی مالیاتی بل میں حکومت نے زراعت کے شعبہ سے متعلق زرعی آلات و دواؤں پر بھی ٹیکس کی چھوٹ کو ختم کردیا ،جسکا اثر براہ راست لوئر ومڈل کلاس طبقہ پر پڑیگا اور اشیائے خوردو نوش کی اشیاء پر مہنگائی کا ایک ایٹم بم گرےگا،
دواؤں کے خام مال پر ٹیکس میں زیادتی کا شکار اپر کلاس طبقہ نہیں بلکہ براہ راست لوئر و مڈل کلاس طبقہ ہوگا۔

دوائیں بنانے والی کمپنیاں ظاہر ہےاس ٹیکس کی بڑھوتری کی وصولی عوام سے کرینگی۔
حالات یہ ہیں کہ موجودہ حکومت کے پاس مسائل کو حل کرنے کیلئے کوئی ٹھوس پالیسی سرے سے موجود ہی نہیں ہے حزب اقتدار غربت کا خاتمہ کرنے کے بجائے غریب کو ختم کرنے کی پالیسی پر گامزن نظر آرہی ہے۔
حکومت کے غلط اقدامات کی وجہ سے مڈل کلاس طبقہ تیزی سے لوئر کلاس میں تبدیل ہو رہا ہے

ان حالات میں حزب اقتدار کے لئے بہتر ہوگا کہ حزب اختلاف کےساتھ وسیع ظرفی کا مظاہرہ کرتے ہوئے مشاورت کرکے معاشی پالیسیوں پر از سر نو اصلاحات کرکے نئی تجاویز مرتب کرے اور اسکو عملی جامہ پہنانے کے لئے اقدامات کرے۔مہنگائی کے طوفان کو کنٹرول کرے۔

Advertisements
julia rana solicitors

آمدنی کم اور اخراجات زیادہ ہونے کے باعث عام آدمی کو بے راہ روی سے روکنا حکومت وقت کے ذمہ لازم ہے ورنہ کہیں خدانخواستہ قحط و افلاس ، معاشی مشکلات سے مجبور ہوکر عام آدمی انتہائی قدم اٹھانے پر مجبور نہ ہوجائے۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply