• صفحہ اول
  • /
  • کالم
  • /
  • عظیم اکتوبر سوشلسٹ انقلاب کی بین الاقوامی اہمیت(2،آخری حصّہ)۔۔مترجم/قیصر اعجاز

عظیم اکتوبر سوشلسٹ انقلاب کی بین الاقوامی اہمیت(2،آخری حصّہ)۔۔مترجم/قیصر اعجاز

اکتوبر انقلاب نے چین پر زبردست اثر ڈالا۔ چینی دانشوروں اور محنت کش طبقے کے ترقی پسند گروہ نے اسے تاریخ کا سب سے بڑا واقعہ قرار دیتے ہوئے گرمجوشی سے اس کا استقبال کیا۔ لینن کو بھیجے ایک ٹیلیگرام میں سن یات سین (Sun Yat-sen)— شاندار چینی انقلابی نے اظہار کیا “کمیونسٹ پارٹی کی “مشکل اور شاندار جدوجہد کا غیر مثاوی احترام” اور یہ امید “کہ چین اور روس کی انقلابی جماعتیں متحد ہو کر مشترکہ جدوجہد کریں”۔

چینی نمائندوں نے 1918 کے آخر میں ماسکو کا دورہ کیا اور لینن نے ان کا استقبال کیا۔ ،انہوں نے سوویت یونین کے سربراہ کو چین کی صورتحال سے آگاہ کیا، خاص طور پر جنوبی چین میں ہونے والے انقلابی واقعات کے بارے میں بتایا اور یہ اعلان کیا کہ کہ “سوویت روس کا وجود پورے مشرق کے لیے زندگی اور موت کا سوال ہے”۔

روس کے انقلابی واقعات کی خبریں ہندوستان تک بھی پہنچیں، جہاں انہوں نے رائے عامہ میں ہلچل مچادی۔ اس دور کی بات کرتے ہوئے جواہر لعل نہرو (Jawaharlal Nehru) نے کہا کہ “ہم نے ہندوستان میں اپنی آزادی کی جدوجہد کے ایک نئے دور کا آغاز کیا۔۔ ہم نے لینن کی تحسین کی اور ان کی مثال سے متاثر ہوئے”۔ دہلی میں مسلم نیشن لیگ نے سوویت روس کو ہندوستانی عوام کا پیغام پہنچایا۔ یہ متحرک دستاویز جنوری 1918 میں ہندوستانی زیر زمین اخبارات میں چھپا تھا۔ ہندوستانی محب وطن عوام نے اپنی جانوں کو بڑے خطرے میں ڈال کر اسے ہندوستان سے باہر اسمگل کیا اور اِسی سال نومبر میں اسے ماسکو لے آئے۔

اس میں لکھا تھا “روسی انقلاب کے قائدین!” ” ہندوستان آپ کو پوری دنیا میں جمہوریت کے مفاد میں آپ کی جیت پر مبارکباد دیتا ہے۔” 23 نومبر کو ہندوستانی وفد کا لینن نے استقبال کیا اور ان سے طویل گفتگو کی۔

مشرق وسطیٰ کے عوام پر اکتوبر انقلاب کے اثرات کا زیادہ اندازہ لگانا مشکل ہوگا۔ ترکی کی آزادی کو سوویت روس کی حمایت سے یقینی بنایا گیا تھا۔ سوویت حکومت نے ترکی کے مفادات کے خلاف روسی زار شاہی کی طرف سے کئے گئے تمام معاہدوں اور قراردادوں کو منسوخ کر دیا۔ ترک محنت کش عوام نے سوویت اقتدار قائم کرنے والے روسی عوام اور روسی انقلاب اور عالمی پرولتاریہ کے رہنما لینن کے لیے اپنے احترام کا اظہار کیا۔ اس کا ایک اشارہ یہ ہے کہ 1918 میں قسطنطنیہ یونیورسٹی میں طلباء نے ووٹ دیا کہ لینن کو نوبل انعام دیا جانا چاہیے۔

سوویت روس کو مشرقی عرب کے عوام اسی طرح کی محبت سے دیکھتے تھے۔ شام میں قائم کردہ عرب اتحاد کی کمیٹی کے ایک دستاویز میں کہا گیا ہے: “لینن اور اس کے ساتھیوں کی حکومت اور ان کے ذریعہ سے مشرق کو یورپی ظالموں کے طوق سے نجات دلانے کے لیے شروع کیے گئے عظیم انقلاب کو عرب ایک ایسی عظیم قوت کے طور پر مانتے ہیں جو انہیں خوشی اور خوشحالی دینے کی صلاحیت رکھتی ہے۔ پوری دنیا کی خوشی اور سکون کا انحصار عربوں اور بالشویکوں کے درمیان اتحاد پر ہے۔”

اکتوبر انقلاب نے مصر، شام، عراق اور لبنان میں آزادی کی جدوجہد کو ایک طاقتور محرک دیا۔

سوویت حکومت کے اولین اقدامات میں سے ایک قدم ایران کی آزادی کے خلاف کیے گئے تمام معاہدوں کو منسوخ کرنا تھا اور اسی وجہ سے اس ملک کے محنت کش عوام لینن کو روسی زار شاہی اور برطانیہ کے تسلط سے نجات دہندہ سمجھتے تھے۔ ایران میں ہونے والی ریلیوں اور مظاہروں نے محنت کش عوام کی ٹریڈ یونینز اور دیگر جمہوری تنظیمیں بنانے میں مدد کی۔

اکتوبر انقلاب نے تمام مشرقی اقوام کی تاریخ میں ایک نئے باب کا آغاز کیا۔ نوآبادیاتی اور منحصر ممالک میں قومی آزادی کے انقلابات کے ایک دور کی شروعات کرتے ہوئے اس نے نوآبادیاتی نظام کے زوال کا آغاز کیا۔ ان ممالک میں قومی آزادی کی تحریک ایک بے مثال پیمانے پر ہوئی۔

بورژوا ممالک میں انقلابی قوتیں اس وقت کئی وجوہات کی بنا پر فتح حاصل نہیں کر پائی تھیں (انقلابی تحریک کو دھوکہ دینے والی سماجی اصلاح پسند جماعتوں کا مضبوط اثر، حقیقی انقلابی مارکسی پارٹیوں کی عدم موجودگی، محنت کش طبقے میں پھوٹ وغیرہ)۔

تاہم، انقلابی جنگ جو اکتوبر انقلاب کے اثرات کے تحت شروع ہوئی عوام کے لیے کوئی نشان چھوڑے بغیر نہیں گزری۔ دنیا کے عوام نے سیاسی و طبقاتی جدوجہد کا تجربہ حاصل کیا۔ محنت کش طبقے کی تحریک کے پھیلاؤ کے ساتھ، کمیونسٹ پارٹیاں جنہوں نے سامراج کے خلاف سب سے زیادہ مستقل اور ثابت قدم جنگجوؤں کو متحد کیا، بہت سے ممالک میں پیدا ہوئیں۔

ٹریڈ یونینوں کی کشش بڑھ گئی۔ مثال کے طور پر، فرانسیسی جنرل کنفیڈریشن آف لیبر کی رکنیت 1917 میں 1,70,000 سے بڑھ کر 1920 میں 2,0,48,000 ہو گئی۔ 1914 میں برطانوی ٹریڈ یونینوں کے تقریباً 40 لاکھ ارکان تھے، لیکن 1921 میں ان کی رکنیت بڑھ کر تقریباً 6,5,00,000 تک پہنچ گئی۔ اٹلی میں 1918 اور 1920 کے درمیان ٹریڈ یونینوں میں منظم کارکنوں کی تعداد 24,9,000 سے بڑھ کر 2,3,20,000 ہو گئی۔

اکتوبر انقلاب کی بین الاقوامی اہمیت صرف دنیا کے لوگوں کی انقلابی تحریک پر اس کے براہ راست اثرات ہی تک محدود نہیں ہے۔ اس کی تاریخی اہمیت اس حقیقت میں بھی مضمر ہے کہ اس نے اپنی بنیادی خصوصیات اور بنیادی قوانین کی تکرار کو ہر اس ملک میں دکھایا جو سوشلسٹ ترقی کی راہ پر گامزن ہے ۔

1920 میں لینن نے لکھا کہ “یہ روسی ماڈل ہے جو تمام ممالک کو ان کے قریبی اور ناگزیر مستقبل کے بارے میں کچھ — اور کچھ انتہائی اہم بات — آشکار کرتا ہے”۔

اکتوبر انقلاب کے تجربے نے ثابت کر دیا کہ محنت کش عوام کی محنت کش طبقے کی قیادت کے بغیر سوشلسٹ انقلاب مکمل نہیں ہو سکتا۔ اس نے ظاہر کیا کہ تاریخ نے سب سے زیادہ انقلابی طبقے پرولتاریہ کو ہر قسم کے استحصال کو ختم کرنے کے لیے عوام کی جدوجہد کی قیادت کرنے کا عظیم مشن دیا تھا۔

اس تجربے نے واضح کر دیا کہ استحصالی نظام کو ختم کرنے اور نئے سوشلسٹ معاشرے کی تعمیر کی جدوجہد کی کامیابی کے لیے ایک منظم انقلابی موہرے، ایک مارکسسٹ-لیننسٹ پارٹی کا وجود ایک ناگزیر شرط ہے۔ اکتوبر 1917 کے بعد پہلے سالوں میں مغربی یورپ میں انقلابات کی شکست کی بنیادی وجہ کمیونسٹ پارٹیوں کی عدم موجودگی تھی۔

علاوہ ازیں، اکتوبر انقلاب کے تاریخی تجربے نے دکھا دیا کہ پرولتاریہ کی اقتدار کی طرف بالارفتی اور سوشلزم کی تعمیر کو استحصالی طبقات کی پرتشدد مزاحمت کا سامنا کرنا پڑے گا۔ اس کی تصدیق دنیا میں 1917 کے بعد ہونے والی پیشرفت سے ہوئی۔ ارتجائی طاقتیں سیاسی منظر نامے کو اپنی رضامندی سے نہیں چھوڑتیں۔ “اپنی پہلی سنگین شکست کے بعد،” لینن لکھتا ہے، ” اکھاڑ کر پھینک دیے گئے استحصال کرنے والے — جنہوں نے اپنے زوال کی توقع نہیں کی تھی، نہ ہی اس بات کو تسلیم کیا تھا — خود کو دس گنا بڑھی ہوئی طاقت کے ساتھ، غضب ناک جزبے اور سو گنا بڑھی ہوئی نفرت کے ساتھ ‘جنت’ کی بحالی کے لئے کی جانے والی جنگ میں جھونک دیا۔ اکھاڑ کر پھینک دیے گئے بورژوازی کی طرف سے کی جانے والی مزاحمت خصوصاً خطرناک ہے کیونکہ یہ بین الاقوامی سرمایہ داری کی مساعدت پر انحصار کرتے ہوئے، کسی ایسے ملک پر حملہ کرنے میں ہچکچاہٹ محسوس نہیں کریں گے جہاں سوشلسٹ انقلاب کی فتح ہوئ ہو، جیسا کہ روس میں ہوا۔ اندرونی اور بیرونی دشمنوں کے خلاف انقلاب کے ثمرات کی حفاظت سوشلسٹ ریاست کے بنیادی قوانین میں سے ایک ہے۔

اکتوبر انقلاب میں جو قوانین سامنے آئے وہ یہ تھے: پیداوار کے بنیادی ذرائع پر سرمایہ دارانہ ملکیت کا خاتمہ؛ زراعت کی بتدریج سوشلسٹ طرز پر تنظیم نو؛ لوگوں کے معیار زندگی کو بلند کرنے کے لئے، نظریات اور ثقافت میں سوشلسٹ انقلاب کی تکمیل کے لئے منصوبہ بند اقتصادی ترقی۔

اکتوبر انقلاب اور بیرونی ممالک میں محنت کش عوام کے اس کے ساتھ رویے نے پرولتاری بین الاقوامیت کو ایک مثال بنا دیا، جو تمام اقوام کی امن، جمہوریت اور سوشلزم کے لیے جدوجہد کے اعلیٰ ہتھیاروں میں سے ایک ہتھیار ہے۔

اکتوبر انقلاب نے قومیت کے سوال، قومی جبر کے خاتمے اور بین الاقوامی مساوات اور برادرانہ دوستی کے قیام کے لیے ایک نمونہ تشکیل دیا۔

اکتوبر انقلاب کے تجربے نے ثابت کیا کہ لیننسٹ قومی پالیسی کا نفاذ عوام کے درمیان عداوت اور عدم اعتماد کے خاتمے کا باعث بنتا ہے۔ اس کے علاوہ، مختلف اقوام کے محنت کش عوام یکجہتی سے زندگی بسر کرنے کے لئے اتحاد کی تمنا کرنے لگتے ہیں۔ انقلاب کے ذریعے حاصل شدہ اپنی آزادی کے بعد، روس کے سابقہ مظلوم عوام نےایک اٹوٹ کثیرالقومی ریاست میں اتحاد کے لیے جدوجہد کی تا کہ وہ ایک ساتھ مل کر نئے سماج کی تعمیر اور اس کے تمام دشمنوں کے خلاف اس کا دفاع کریں۔ یوکرائنی سوویت جمہوریہ نے، جس کا اعلان 1917 کے اختتام پر ہی کیا گیا تھا، آر ایس ایف ایس آر (RSFSR) کے ساتھ وفاقی تعلقات میں شمولیت اختیار کی۔

1918 کے آخر اور 1919 کے آغاز میں بنی بیلوروسی، لتھوانیائی، لیٹوین اور اسٹونین سوویت سوشلسٹ جمہوریہ نے آر ایس ایف ایس آر کے ساتھ اپنے سیاسی، فوجی اور اقتصادی اتحاد کو مضبوط کیا۔ بعد میں ایک مشترکہ مقصد کےحصول کے لیے مشترکہ جدوجہد میں ان ملکوں کے عوام کے درمیان جامع تعاون، برادرانہ باہمی تعاون اور بڑھتی ہوئی دوستی کے نتیجے میں یونین آف سوویت سوشلسٹ ریپبلکس قائم ہوئی۔ یونین آف سوویت سوشلسٹ ریپبلکس (سوویت یونین) کا قیام عظیم اکتوبر انقلاب کا براہ راست تسلسل تھا۔

“سوویت یونین کی تشکیل اور کامیاب پیشرفت بہت بڑی بین الاقوامی اہمیت کی حامل ہے اور بنی آدم کی سماجی ترقی میں ایک اہم سنگ میل ہے۔ سوویت کا ایک کثیرالقومی ریاست بنانے کا تجر بہ، ہمارے تمام لوگوں کی ملی جلی کوششوں سے ایک ترقی یافتہ سوشلسٹ ریاست کا قیام اور قومیت کے سوال کے حل نے عالمی پہچان بنائی ہے اور یہ سماجی اور قومی آزادی کے لیے لڑنے والوں کو انمول مدد فراہم کر رہا ہے۔

اکتوبر انقلاب سے پیدا ہونے والی سوویت ریاست کے سوشلسٹ کردار نے اس کی امن کی پالیسی کا تعین کیا۔ سوویت اقتدار کے پہلے خارجہ پالیسی فرمان امن کے فرمان سے لے کر کمیونسٹ پارٹی آف سوویت یونین کے 24ویں اجتماع کے ذریعے اپنائے گئے امن پروگرام تک، سوویت ریاست نے مستقل طور پر اقوام کی امن، آزادی اور سلامتی کی حمایت کی ہے۔ یہ پالیسی تمام لوگوں کی سب سے عزیز آرزوؤں پر پورا اترتی ہے اور اسی وجہ سے اسے ہمیشہ سبھی ممالک کے محنت کش عوام کی بھرپور حمایت حاصل رہی ہے۔

سوویت پالیسی نے دنیا کے محنت کش عوام پر زندگی کے تمام شعبوں میں انقلابی اثر ڈالا ہے اور استحصال کرنے والوں کے خلاف جدوجہد میں ان کی مدد کی ہے۔ بورژوازی کو یو ایس ایس آر میں ہونے والی سماجی ترقی کا محاسبہ کرنے اور انقلاب سے خوفزدہ ہو کر کئی معاملات میں محنت کش طبقے کو کچھ رعایتیں دینے پر مجبور کیا گیا ہے۔ اکتوبر انقلاب سے پہلے سوشل انشورنس، کام کا ہفتہ 40 گھنٹے کا، اور اسی طرح باقی چیزیں، بطور ایک اصول کے سرمایہ دارانہ دنیا میں غیر معروف تھیں۔ امریکی مصنف تھیوڈور ڈریزر (Theodore Dreiser) نے لکھا ہے کہ 40 گھنٹے کا کاری ہفتہ، اجرت کی کم سے کم متعین سطح، ریاستی بے روزگاری انشورنس اور محنت کش عوام کو فائدہ پہنچانے والی دیگر اصلاحات سوویت کے تجربے کے اثرات کے تحت امریکہ میں ادارتی طور پر قائم کی گئی تھیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ یہ اکتوبر انقلاب کی وجہ سے ہوا اور اس سب کے لیے میں مارکس اور سرخ روس کا شکریہ ادا کرتا ہوں۔

اکتوبر انقلاب اور سوویت یونین میں سوشلزم کی تعمیر نے انسانوں کے ذہنوں میں ایک انقلابی تبدیلی لائی ہے۔ موجودہ دور کے سماجی انصاف کے تصورات اور انسان کے کام کرنے، تعلیم حاصل کرنے، آرام کرنے اور فراغت اور محفوظ بڑھاپے کے حقوق کے تصورات نے سوشلزم کے فوائد کے زیر اثر یہ شکل اختیار کی۔

1946 میں اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی نے انسانی حقوق کے عالمی اعلامیہ کو منظور کیا جس میں سوویت یونین کے آئین میں پہلے سے درج کیے گئے حقوق کام، آرام اور فراغت، تعلیم اور سوشل انشورنس کے حق کا اعلان کیا گیا تھا۔

سوویت عوام نے جس راستے کو عبور کیا وہ کوئی آسان راستہ نہیں تھا۔ اس راستے میں صرف عظیم، خوشنما فتوحات اور کامیابیاں ہی نہیں، جارحیت پسندوں کے خلاف خونریز جنگوں میں بے پناہ قربانیاں دینی پڑیں، بڑی مشکلات سے گزرنا پڑا اور عارضی دھچکے اور غلطیاں ہوئیں۔ تاہم، کمیونسٹ پارٹی کے زیر قیادت، سوویت عوام نے فخر سے تمام امتحانات کا مقابلہ کیا۔ مسلسل ترقی پذیر سوشلسٹ نظام نے اپنی ناقابل تسخیر نوعیت ثابت کر دی ہے۔

سوویت یونین کا پسماندہ زرعی ملک سے ایک عظیم صنعتی و زرعی طاقت میں تبدیل ہونا، اس کی سائنس اور ثقافت کی پھلتی پھولتی حالت اور اس کے عوام کی مادی فلاح و بہبود کی بلا روک ٹوک ترقی سوشلسٹ نظام کے عظیم فوائد کا نتیجہ ہے۔

سوویت یونین کا وجود اور اس کی اقتصادی اور فوجی طاقت اور بین الاقوامی وقار میں اضافہ ہر جگہ امن، جمہوریت اور سوشلزم کے سپاہیوں (چیمپئنز) کی پوزیشن کو مضبوط کر رہا ہے۔ سوویت یونین میں سوشلزم اور کمیونزم کی تعمیر جدید معاشرے کی ترقی پر گہرا اثر ڈال رہی ہے۔ اکتوبر انقلاب کے موقع پر لینن نے لکھا، “تمام اقوام سوشلزم تک پہنچیں گی — یہ ناگزیر ہے، تمام ایسا ہی کریں گے بالکل اسی طریقے سے نہ سہی، ہر کوئی جمہوریت کی کسی صورت میں، پرولتاریہ کی آمریت کی کچھ اقسام میں اپنا کچھ نہ کچھ حصہ ڈالے گا۔ تاریخ ان الفاظ کو آشکار کر رہی ہے۔

متعدد یورپی اور ایشیائی ممالک اور امریکی براعظم میں کیوبا میں سوشلسٹ انقلاب کی فتح — اور عالمی سوشلسٹ نظام کی تشکیل عظیم اکتوبر انقلاب کے ذریعے شروع ہونے والے ناقابل واپسی تاریخی عمل کا تسلسل ہے۔

اکتوبر انقلاب قومی آزادی کی تحریک میں بھی ایک اہم پیشرفت ثابت ہوا۔ یہ حقیقت کہ بہت سی ایشیائی اور افریقی قومیں آزاد، غیر سرمایہ دارانہ ترقی کی راہ پر گامزن ہو چکی ہیں انقلاب اکتوبر اور سوویت یونین میں سوشلزم اور کمیونزم کی تعمیر کے ساتھ منسلک ہے۔ مشرقی اقوام کے لیے سوویت یونین کی بہت سی صورتوں میں سیاسی اور اقتصادی امداد ان کی آزادی کو مستحکم کرنے اور ان کی معاشی اور سماجی ترقی کو فروغ دینے میں ایک بہت بڑی مساہمت ہے۔

بین الاقوامی کمیونسٹ اور محنت کش طبقے کی تحریک نے بڑی کامیابیاں حاصل کی ہیں۔ جہاں اکتوبر 1917 میں بیرونی ممالک میں انقلابیوں کے چھوٹے چھوٹے گروہ تھے وہیں آج یورپ، ایشیا، امریکہ، آسٹریلیا، افریقہ اور اوشیانا میں شاید ہی کوئی ایسا ملک ہو جس میں کمیونسٹ یا ورکرز پارٹی نہ ہو۔ کمیونسٹ پارٹی آف سوویت یونین کے 23ویں کانگریس میں ایل آئی بریزنیف (L. I. Brezhnev) نے کہا کہ “آج تمام براعظموں میں 88 کمیونسٹ پارٹیوں کی رکنیت تقریباً 5 کروڑ ہے”۔ مزید یہ کہ لاکھوں ترقی پسند لوگ ٹریڈ یونینز اور خواتین و نوجوانوں کی جمہوری تنظیموں میں متحد ہیں۔ عالمی کمیونسٹ تحریک آج معاشرے کی سب سے بڑی سیاسی قوت ہے۔

کمیونسٹ اور ورکرز پارٹیوں کے 1969 کے بین الاقوامی اجلاس کے میں اپنایا گیا مرکزی دستاویز بیان کرتا ہے کہ “انسانی ترقی کی اصل سمت کا تعین عالمی سوشلسٹ نظام، بین الاقوامی محنت کش طبقہ، تمام انقلابی طاقتیں کرتی ہیں،”۔

اکتوبر انقلاب اور سوویت عوام کے تجربے میں آج دوسرے سوشلسٹ ممالک کے اور عالمی انقلابی تحریک کے دیگر دستوں کے تجربے کے ذریعے سے اضافہ کیا جا رہا ہے۔ یہ تجربہ، بار بار، لینن کی اس تجویز کو پیش کرتا ہے کہ سوشلزم کی کامیاب تعمیر کے لیے ضروری ہے کہ سوشلسٹ تعمیر کے عمومی قوانین سے شروعات کی جائے اور ہر ملک کے مادی حالات کے اپنے لا تبدیل خصائص کو مدنظر رکھا جائے۔

دنیا بھر کے لوگوں پر اکتوبر انقلاب کے اثرات کے خوف سے محرک ہو کر بورژوا طبقے کے نظریاتی ماہرین اس بات سے انکار کرنے کی سعی کر رہے ہیں کہ یہ انقلاب بین الاقوامی اہمیت کا حامل ہے۔ اس حقیقت کو تسلیم کرنے کا مطلب دوسرے ممالک میں سوشلسٹ انقلاب کی ناگزیریت کو تسلیم کرنا ہوگا۔ اسی وجہ سے وہ یہ ثابت کرنے کی کوشش کر رہے ہیں کہ روس میں انقلاب کی فتح “تاریخ کا ایک غیر متوقع واقع”، “ایک تاریخی حادثہ” اور کسی بھی صورت “خالصتاً روسی” تھا۔ تاہم، حقیقت اکتوبر انقلاب کے تجربے کی بین الاقوامی اہمیت کو جھٹلانے کی کوششوں کے عدم استحکام اور غیر سائنسی کردار کو ظاہر کر رہی ہے۔ اس انقلاب سے کھلنے والی راہ کو اب بہت سی قوموں نے اپنا لیا ہے اور کروڑوں لوگ عزم کے ساتھ سامراج کے خلاف لڑ رہے ہیں۔

اکتوبر انقلاب کے ذریعے سوویت یونین کی قائم کردہ مثال کی مثبت قوت، انسانی ترقی کو تیز کرنے میں مدد کر رہی ہے۔

صدیاں گزر جائیں گی بنی آدم اپنی ترقی میں بہت بڑے بڑے قدم اٹھائے گا۔ دنیا کی قوموں کے لیے وہ دور جب سامراج موجود تھا، جب مٹھی بھر سرمایہ داروں نے محنت کش عوام اور پوری قوموں کو لوٹا اور تباہ کن جنگیں شروع کیں، ماضی بعید میں چلا جائے گا۔ آنے والی نسلیں “سرمایہ دار”، “زمیندار” اور “جنگ” کے الفاظ صرف کتابوں سے جانیں گی، لیکن بنی نوعِ انسان 25 اکتوبر 1917 کو کبھی نہیں بھولیں گے، وہ دن جس نے دنیا کی تاریخ میں اہم موڑ ثبت کیا۔ اس تاریخ کے ساتھ اس انقلاب کے منتظم اور رہنما، دنیا کی پہلی سوویت ریاست کے خالق، لینن کا نام لکھا جائے گا۔

Advertisements
julia rana solicitors

ماخذ: یہ مضمون کتاب ‘دی گریٹ اکتوبر سوشلسٹ ریوولوشن’ کا آخری باب ہے، جس کے مدیر اعلیٰ پی این سوبولف تھے اور۱۹۷۷ء میں اس کا انگریزی میں ترجمہ ڈیوڈ سکورسکی نے کیا تھا۔

Facebook Comments

قیصر اعجاز
مصنف تاریخ، سماج اور حالات حاضرہ کا مطالعہ مارکس کی طبقاتی تعلیمات کی روشنی میں کرتے ہیں۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply