عبداللہ حسین-ایک ادھو ری ملا قا ت کی کہا نی۔۔رابعہ الرّباء

دنیا میں ہم آ تے ہیں اور فقط جا نے کے لیے آ تے ہیں ،مگر اپنے ہر فیصلے پر ہم یہی سمجھتے ہیں کہ شا ید یہ د نیا ہما ری ہے۔حقیقت اس کے خلاف ہے۔نہ تو یہ دنیا کسی کی ہو ئی ہے نہ  ہو تی ہے۔د نیا بے وفائی  و فنا ئی کی وہ حقیقت ہے، جو ظا ہر میں جتنی حسین ہے،با طن میں ا تنی ہی خو بصورت ہے لیکن اس کے لیے با طن تک کا سفر ضروری ہے اور جو لوگ یہ سفر کر پا تے ہیں وہ اتنے ہی سچے ہو جا تے ہیں اور اتنے ہی کمیاب۔

عبد ا للہ حسین بھی ایک ایسا ہی د نیا وی کر دار تھا۔جو اس دنیا میں مو جود ہو تے ہو ئے بھی مو جو د نہ  تھا۔اس کی ایک اپنی کا ئنات تھی جس میں وہ مقیم نظر آتا تھااور یہ کا ئنا ت اتنی وسیع تھی کہ عا م انسان  کی دستر س ودانست سے ذرابا ہر تھی۔

یہ اکتو بر یا نو مبر کی ایک خْنک صبح تھی د ھو پ کی شد ت کم ہو کر اتنی رہ چکی تھی کہ بھلی معلو م ہو تی تھی ۔ٹھنڈ ی ہو ائیں دالانوں ، بر آمدو ں، کمر وں ، میدانوں ، با لکو نیو ں میں کلا سیکی رقص کر تی پھر رہی تھیں۔ گو ر نمنٹ کا لج کے در و دیوار آج بھی ہمیشہ کی طر ح با وقا ر و خو د اعتما د تھے کہ اس کے دا من میں ایک عا لمی ادبی کا نفر نس کا انعقا د بڑی  شا ن سے ہو ا تھا۔ صبح کا پہلا سیشن ختم ہو ا اور سب ریفرشمنٹ کے لیے سلام ہا ل میں جمع تھے۔ جس کا اپنا ایک تا ر یخی وقا ر و تا ر یخی پس ِ منظر ہے۔ جہا ں گو ر نمنٹ کا لج کے ڈیر ھ سو سا ل تصا و یر کی صو رت ر قم ہیں ۔وہ بلیک اینڈ وا ئٹ تصا و یر ر نگین دور کی یا د دلا دیتی ہیں۔ہا ل سے با ہر نکلتے ہی اونچی چھتو ں والے بر آمد وں کی دیواروں پہ یہا ں کے پڑھے جگمگا تے ستا روں کے نا م لکھے نظر آ تے ہیں جو آگے بڑ ھنے کی امنگ پید ا کر تے ہیں۔

مجھے کسی کا م سے ہا ل سے با ہر جا نا پڑا، کچھ دیر بعد جب میں بخا ری آ ڈ یٹور یم کی طر ف سے واپس آ رہی تھی تو سب مہما ن ادیب سلام ہا ل سے نکل کر گو ر نمنٹ کا لج کی قد یم و تا ریخی عما رت کے سائبانوں  و برآ مدو ں سے واپسی کا سفر طے کر رہے تھے۔ عبد ا للہ حسین اپنے قد کی و جہ سے ان سب ادیبو ں میں ممتا ز دِ کھا ئی دے رہے تھے۔تب میر ی نظر ان پہ پڑی، جو اْ ن کی مخصو ص طرز کی عینک کے پیچھے تک گئی، پھر ان کے چہر ے اور پھر ان کے جھکے کا ندھو ں پہ۔۔۔
دْ کھی آ نکھو ں کی چمک میں ابھی کچھ کر نے بلکہ بہت کچھ کر نے کا عز م ٹمٹما و جگمگا رہا تھا۔ابھی اند ر بہت سے طو فا ن تھے ، جن کے نشا ن آ نکھو ں میں نظر آ رہے تھے ، ابھی بہت سی‘‘ اداس نسلیں،،‘‘با گھ،،‘‘ قید ،، کی تا ر یخیں تھیں جن کو قلم کے قا لب سے نکلنا تھا۔مگر چہر ہ بتا رہا تھا کہ ان انجا ن دْ کھو ں کے اند ر اک گہر ا کنو اں ہے ، کو ئی جھیل ہے ،جس میں روز اک ابال سا اْٹھتا ہے ۔پھر خو د ہی تھم سا جا تا ہے۔ان کو اس غا ر یا ر سے نکالنا اس قدر دشوار ہو چکا ہے کہ لفظ “ممکن  ” کے سا تھ ‘نہ ، کا سا بقہ ہا تھ تھا منے کی کوشش میں ہے۔

اِک کر ب تھا ، اِک نا معلو م تھکن سی تھی جو ان کی چا ل میں ، اْ ن کی آ نکھو ں میں، اْ ن کے چہر ے پر عیا ں تھی ،جس کا سبب عمر نہیں تھی،بلکہ جو اِن لو گو ں کا سا تھی بنتی ہے جن کا اظہا ر ادھو را رہ جا تا ہے ، جس کے راستے ،جس کی کا ئنا ت کہیں قید ہو جا تی ہے۔ اور اْ س کو علم بھی نہیں ہو پا تا۔

اس کے بحر ِافکا ر کے لیے اس کی اظہا ر یہ کا ئنا ت چھو ٹی پڑ  جا تی ہے۔لہذا وہ جو کہتے ہیں کہ انسا ن اند ر سے جو بھی ہو تا ہے ، اِ س کا عکس با ہر آ جا تا ہے۔مجھے یہ تلا طمی عکس نظر آ رہا تھا۔

جیسے کچھ کھو سا گیا ہو ، جیسے کسی جد ائی ، کسی تنہا ئی کا آسیب بسیر ا ہو ، جیسے روح جسم سے جدا سفر ِ صحر ا نور دی کے مزے لے رہی ہو، اور وہ اسے انجان مسا فر کی طر ح دور کھڑ ا حیر ا نی سے دیکھ رہا ہو۔بہت کچھ اس سچی سی ،حقیقی تصو یر میں ادھورا ادھو را سا تھا ، جس پر دْنیا ر شک کر تی ہے۔

میں وہیں ٹھہر کر ، یو نہی کھڑی اْ نہیں اس جھر مٹ میں آتے دیکھتی رہی ، جیسے وہ تنہا چلے آ رہے ہو ں ،اس لمحے میرے دل نے کچھ اند ر ہی اندر چا ہا ۔۔۔۔‘‘کا ش یہ ملا قا ت اس دنیا کے لیے ادھو ری ہی رہے۔۔،،
لفظو ں کے آ ئینو ں والے عبد ا للہ حسین سے میر ی ملا قات اس کے بعد ہو ئی۔لفظو ں سے پہلے والی شخصیت خا لی خا لی آنکھو ں و چہر ے والے عبداللہ حسین مجھے بر سو ں تک یا د آتے رہے کہ کو ن سا زلزلہ گز ر چکا ہے ؟کتنے خزا نو ں کا بو جھ ہے؟جو ان کی آنکھو ں میں دِکھائی دیتا ہے۔جو اِ ن کی با تو ں میں بھی نہ  آ سکا، قلم بھی اس کو نہ  اْگل سکا۔ ۔

عبد ا للہ حسین نے عمر بھر دنیا دارانہ گلستا نو ں سے پر ہیز کیا، نہ  ستا ئش کی تمنا ، نہ  ما دیت کی خوا ہش ، نہ  خود پہ ما ن، نہ ادیب کا گمان، نہ  نا قدین کی پر واہ  ، نہ  بڑ ے قا ری کی تلا ش ، اک درویشا نہ بے نیا زی و ا عتما د ِ ذات۔۔ورنہ جس طر ح ‘اداس نسلیں ، کی زبا ن و طوا لت کو نقا د وں نے چھڑ یا ں، چا کو ، تلوا ر یں و کا نٹے نکا ل کر کر وار کیا ،وہ چا ہتے تو کسی ا یڈ یشن میں رد و بد ل کر سکتے تھے مگر انہو ں نے ایسا نہیں کیا۔ وہ جا نتے تھے کہ وہی جو کل نا قدین کے لیے خا می تھی ، آ ج وہی نقطہ اْ ن کی خو بی بن چکا ہے ۔ ایک جگہ وہ اس با ت کا اظہا ر بھی کر چکے ہیں ۔
یہ بذا ت خو د ایک زیر لب مسکر ا نے کا لمحہ تھا مگر عبد اللہ حسین اس سے بہت آگے کا سفر کر چکے تھے کہ انسا نیت کے اس عمو می دا ئر ے میں کہیں نظر ہی نہیں آ تے تھے ۔بے نیا زی کے سا تھ سا تھ ان کے ہا ں خو دا ری و ادبی شر ف انسا نیت کا حسن بھی نما یا ں ہے ۔اپنے ایک ا نٹر ویو میں کہتے ہیں
‘‘ میں کئی بار انکا ر کر چکا ہو ں اس میں کو ئی ضد کی با ت نہیں اور نہ یہ جذبا تی معا ملہ ہے میر ا مو قف ایک اصو ل پر مبنی ہے ۔
میں کہتا ہو ں کہ اگر حکو مت نے کسی ادیب کو کچھ دینا ہے تو اس طر ح دے جیسے فو ج کے افسر وں کو دیا جا تا ہے یعنی ان کے لیے عمر بھر کی سہو لت کا انتظا م کیا جا تا ہے حکو مت اگر سمجھتی ہے کہ ادیب نے کنٹر ی بیو ٹ کیا ہے تو اس کے لیے زندگی بھر کا بند و بست کر ے، ادیبو ں کو کیو ں فقیر بنا یا ہو ا ہے ۔وہ بے چا رے سر جھکا ئے پیچھے پیچھے چلے جا تے ہیں  ،یہ جو اہا نت آ میز سلو ک ہے میں اس کو بر داشت نہیں کر سکتا ۔

وقت سفر کا نا م ہے۔ نجا نے کتنے ہز ا ر میل سفر کے بعد ایک روز معلو م ہو ا عبد ا للہ حسین بیما ر تھے ، اللہ نے صحت عطا کر دی ہے تو لاہو ر کے کچھ ادیبو ں نے ان نے ہا ں جا نے کا پر و گرا م بنا یا ہے ،مجھے بھی بلا یا گیا‘‘آ پ بھی سا تھ چلیں  ۔ مقر رہ روز ادیب دوست جمع ہو گئے ۔عبد ا للہ حسین کا فو ن آنا تھا مگر وقت مقر رہ تک نہ آیا۔پھو ل خر ید نے سے قبل مر جھا گئے۔بعد میں معلو م ہو ا وہ غا لباََ بیما ر تھے۔ کچھ ہی دن بعد ایک خبر تھی
عبد اللہ حسین کی صر ف یا د یں رہ گئی ہیں ۔

ایک روز سر ور سکھیر ا جو ان کے قر یبی دوستو ں میں سے ایک ہیں اور اد یبو ں میں ان کی اپنی ایک با و قا ر شنا خت بھی ہے۔ ان سے انہی یا را نہ با تو ں کا سلسلہ چھڑگیا ۔ ایک لمحے کو وہ ان کے نا م پر رُکے ، پھر کہنے لگے
‘‘ اصل میں اد یبو ں میں تین شخص ہو تے ہیں ۔ایک وہ شخص جو اپنی تحر یر میں نظر آ تا ہے۔ایک وہ شخص جس کا نا م ہم نے سنا ہو تا ہے جس کی ایک reputationہو تی ہے۔ایک وہ شخص ہو تا ہے جس کو آ پ ذاتی طور پہ جا نتے ہیں ۔میں ان کی ذات کے تینو ں پہلو ؤں سے واقف تھا۔
جب میں پہلی دفعہ ملا تو ایک بڑے ادیب سے ملا ۔مگر پھر یہ ملا قات دوستی میں بد ل گئی۔ ہم ا یک دوسر ے کے گھر آنے جانے لگے ۔وہ بھی بر ٹش سیٹیزن تھے جب ہم وہا ں ہو تے تو کہتے تھے‘‘ یا ر پاس  ر ہنا تا کہ کو ئی دوست تو ہو ملنے والا، جن سے ملتا ہو ں وہ مجھے جا نتے نہیں ،ایویں بک بک کر تے ہیں ، وہی ادبی سوال ، میں تنگ آ گیا ہو ں ، اکثر آدھی چیز پڑ ھی ہو تی ہے اور سوال وہ ہو تا ہے جس کا تعلق میر ی تحر یر سے ہو تا ہی نہیں۔وہ بہت تنہا تھا اور چڑچڑا ہو گیا تھا۔ اور مجھے کہتا تھا میں اداس ہو ں۔ہم ایک دوسر ے سے بہت کچھ شیئر کر تے تھے، اور ہما رے در میان چھیڑ چھاڑ بھی ہو تی رہتی  تھی۔ جیسے کہ دوستوں کے در میان ہو ا کر تی ہے۔کئی د فعہ چھڑ چھا ڑ میں مَیں نے ان پہ کچھ رومانسیزimpose بھی کئے۔ انسا ن تھا ،پھر تنہا تھا تو میں ان کو خوش کر نے یا بہلا نے کے لیے ایسا کرتا  تھا۔ کئی د فعہ نو جوان لڑکے لڑکیا ں مجھ سے ملنے آتے تو میں ان سے تذکر ہ کر تا۔ ایک د فعہ میں نے ان سے کہا کہ میں ایک بہت حیرا ن کن حسین لڑکی سے ملا ہو ں۔میر ی با ت ابھی مکمل بھی نہیں ہو ئی تھی کہ انہو ں نے اپنے مخصوص لہجے میں کہا‘‘ تو پھر ادیب نہیں ہو گی۔۔

کبھی وہ مجھے اپنی بیٹی کے Restaurant Sheznoor لے جاتے ۔ اور کبھی یہ بھی ہوتا کہ وہ خود گھر پہ کھانا بناتے۔ اور ہم بہت وقت ایک دوسر ے کے ساتھ گزارتے۔مگر ان کے اند ر تنہا ئی بیٹھ سی گئی تھی۔

مضمون نگار/رابعہ الرّباء

فخر زما ن رقمطر از ہیں
‘‘عبد اللہ حسین بہت ا چھا conversationalistہے ۔وہ منطق کو ہا تھ سے نہیں چھو ڑ تا اور غیر جذبا تی اندا ز میں چیز وں کا تجز یہ کر کے نتیجے ا خذ کر تا ہے۔سیا ست ، اقصادیات ،معا شر ت اور ادب کے با رے میں اس کے نظر یا ت غیر مبہم ہیں ۔وہ سید ھا سادھا انسان ہے اور سید ھی سادی با ت کرتا ہے۔ہما رے عا م دانشو روں کی طر ح لچھے دار گفتگو نہیں کر تا ۔اس میں تعلی کا شا ئبہ تک نہیں اور اپنی تحر یر وں کے با رے میں۔انکسا ر آمیز رویہ اس کی پہلو دار شخصیت کا اہم جزو ہے ۔یہ سب کچھ اس با عث ہے کہ اس کو اپنی لکھت پر ا عتماد ہے۔

ایک شام عبد اللہ حسین نے مجھے ا نگر یزی رسا لے میں چھپنے والا ایک انٹر و یو پڑھنے کو دیا
اس میں بھی وہی با تیں تھیں ۔جو اس کی میر ے سا تھ ہو ئیں مثلاََبڑ ا ادیب اسٹیبلشمٹ کے خلا ف ہو تا ہے۔اور لکھا ری کو لا زماََ Anti Establishment   ہو ناچا ہیے۔ایک بڑ ا ادیب متو ازی حکومت  کی ما نند ہو تا ہے۔ وہ عو ام کے ضمیر کا محا فظ ہو تا ہے چنا نچہ سچا ادیب اس طر یقے سے نہ صر ف اپنے ضمیر کو زندہ رکھ سکتا ہے بلکہ دور سے لو گوں کے ضمیر کو جھنجھو ڑ سکتا ہے۔

عبداللہ حسین بیس بر س سے زیا دہ عر صہ بیر ون ملک مقیم ر ہے لیکن میں نے اس کو کبھی nostagicنہیں دیکھا نو سٹلجیا کے با رے میں اس کا اپنا نقطہ نظر ہے اس کے خیا ل میں انسا نی زند گی کا بنیا دی فر ض یہ ہے کہ وہ ذہین روح او ر تما م تر انسا نیت کے   سا تھ زند ہ رہ سکے۔
‘‘مختلف معا شر تی پس ِ منظر کے پیش ِ نظر میر ا اولین مقصد سو سا ئٹی میں زند ہ رہنا ہے ،اس لیے میں نو سٹیلجک نہیں ہو تا۔ نو سٹلجیا کو میں ایک طر ح کی جذ با تیت ضر و ر قر ا ر دیتا ہوں لیکن consciousness نہیں کہو ں گا ۔نو سٹیلجک ہو نا کسی شخص کی نفسیا تی ضر ورت بھی ہو سکتی ہے۔ “وہ نو سٹلجیک اس لیے نہیں کہ وہ اپنے میڑیل سچوایشن کی تکذیب falsificationنہیں چا ہتا ۔وہ شاید ہم عصر اردو ادب کا بڑ ا نثر نگا ر ہے۔جس کے قو ل و فعل میں تضا د نہیں ۔جو عوام کی بات کر تا ہے ، اس کے لیے لکھتا ہے اور انہی کی طر ح زند گی بسر کر تا ہے۔وہ ایک ایسا لیکھک ہے جو بیرون  ملک بھی پا کستا نی عوا م کی نبضو ں پر ہا تھ ر کھے ہو ئے ہے۔
اس کی frequencyایسی ہے کہ اسے ایک بینڈ کا ر یڈ یو بھی آسانی سے کیچ کر سکتا ہے اس لیے عبد اللہ حسین ایک بڑا ادیب ہے لیکن اس سے بڑ ھ کر وہ بڑ ا انسا ن اور شفیق دوست ہے ۔ادبی ما ئیگی ،ادبی بے ضمیر ی اور ادبی نا مر دی کے اس عہد میں اس جیسے سچے ادیب کی مو جو دگی ہما ری پو ری نسل کی Redemptionکا و سیلہ ہے،،
(سفر نا مہ ‘ گر دش میں پا ؤں ، سے اقتبا س)
(اب ہم ‘ہے، کو ‘تھے ،میں بدل د یتے ہیں کیو نکہ عبد اللہ حسین اب ہم میں نہیں )

ایک مر تبہ ڈاکٹر شا ہد اقبا ل کامران (چیئر مین شعبہ مطا لعا ت و تحقیق اقبا ل فیض چیئر )سے نا ول پہ با ت ہو ر ہی تھی وہ کہہ ر ہے تھے کہ ہما رے ہا ں ابھی بڑا نا ول لکھا جانا ہے۔ میں نے یو نہی پو چھ لیا آپ  کا عبد اللہ حسین کے حوالے سے کیا خیا ل ہے؟انہو ں نے کہا ‘‘ ہما رے ہا ں ابھی بڑ ا نا ول لکھا جا نا ہے عبد اللہ حسین نے اس کی راہ ہمو ار کی ہے۔بد یہی طو ر پر اس سے مرا د یہ ہے کہ ان کے ناول  اردو میں عظیم نا ولو ں کی تمہید خیال کئے جا نے چا ہئیں ۔اس کے لیے ایک خا ص ذہنی فضا اور نا ول پڑ ھنے والی ایک خا ص نسل یا خا ص ذہنی سطح کے قا ر ئین درکا ر ہو تے ہیں ۔،،

Advertisements
julia rana solicitors london

‘‘عبد اللہ حسین نے جو بھی کام کیا isolation میں کیا ۔شخصیت بہت اچھی تھی۔وہ بڑ ی دلیر ی سے جیا ۔تنہا زند گی گز رانا کسی بز دل آدمی کا کام نہیں ،بہت بہادر لو گو ں کا کام ہے،وہ بہت بہادر تھا ،وہ تنہا رہا ۔اس میں ایک انا تھی ،جو ہو نی چا ہیے ، اس کا ایک نفع و نقصا ن کا چیک ہو تا ہے ۔وہ اسے جیب میں لیے پھر تا رہا۔ ،،
‘‘ایک تخلیق کا ر کے لیے اداسی اور تنہا ئی کے نظر ی اور اطلا قی معا نی کی تفہیم بے حد ضر وری ہے ۔عبد اللہ حسین اس کے آشنا اور تنہا ئی کے  اسیر نظر آتے ہیں ۔ان کے ہا ں اداسی شخص سے زیا دہ اجتماعی  نظر آتی ہے۔یہ اداسی کی وہ قسم ہے جس میں ذات کا دیا بْجھتا نہیں بلکہ جل اْٹھتا ہے وہ جو اقبا ل نے لکھا تھا
بیا باں کی شب تا ریک میں قندیل ر ہبا نی
تو کچھ ویسی ہی صو رت عبد اللہ حسین کی شخصیت میں دکھا ئی د یتی ہے۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply