وکیل،سوشل انجینئر یا پیراسائیٹ

ہاورڈ یونیورسٹی کے ڈین چارلس ہیملٹن ہوسٹن نے کہا تھا کہlawyers should be social engineers۔چارلس ہوسٹن نے بیسویں صدی کے پہلے ربع میں اپنے قانونی علم کے ذریعے اُس وقت کے امریکی معاشرے میں موجود گہری عدم مساوات اور نسلی امتیاز کو موضوع بنایا اور امتیازی قوانین کے خاتمے کیلئے جدوجہد کرتے رہے۔ چارلس نے مزید کہا کہ
lawyers are either social engineers or parasites on their society.
وکیلofficer of the courtہوتا ہے۔ اُس کا کام مقدمات میں جج حضرات کو کسی منطقی نتیجے تک پہنچنے میں مدد فراہم کرنا ہوتا ہے۔ وکالت ایک بڑا نجیب اور قابلِ عزت پیشہ ہے جو ایک وکیل کے انتہائی باوقار ہونے کا تقاضا کرتا ہے۔ ایک وکیل کا کام قطعاً یہ نہیں ہے کہ وہ اپنے وکالت کے لائسنس کے زعم میں مؤکل کے کہے پر یا بغیر کہے تھانوں میں جا کر پولیس والوں سے الجھتا پھرے۔ اگر کوئی مؤکل اِس بات کا تقاضا کرے تو وکیل کو چاہیے کہ وہ مناسب طریقے سے مؤکل کو سمجھا دے کہ میرا کام عدالت میں آپ کی نمائندگی کرنا ہے نہ کہ آپ کے ساتھ تھانوں کے چکر لگانا۔ مجھے یہ ساری باتیں اِس لیے یاد آئیں کہ گزشتہ ہفتے اسلام آباد میں ایک وکیل صاحب کو ٹریفک پولیس کے اہلکار نے روکا اور موٹرسائیکل کے کاغذات کی بابت دریافت کیا۔ پولیس اہلکار بجا طور پر اپنے فرائض سرانجام دے رہا تھا۔ وکیل صاحب کے پاس اپنی سواری کے کاغذات نہیں تھے، انہیں چاہیے تھا کہ مناسب الفاظ میں پولیس اہلکار کو بتا دیتے کہ موٹرسائیکل کے کاغذات وہ گھر یا دفتر بھول آئے ہیں، اگلی دفعہ وہ احتیاط کریں گے لیکن وہ پولیس اہلکار سے الجھ گئے کہ تمہیں پتہ نہیں ہے کہ میں وکیل ہوں۔ شاید کچھ تلخ کلامی ہوئی کہ پولیس اہلکار نے وکیل صاحب کا موٹرسائیکل تھانے میں بند کر دیا اور وکیل صاحب کو بھی دو گھنٹے تھانے میں بٹھائے رکھا۔ موصوف تھانے سے واپس آئے تو میری معلومات کے مطابق بار کے عہدیداران نے تھانے جا کر بات چیت کے ذریعے راضی نامہ کروا کے موٹرسائیکل چھڑوا لیا۔ وکیل صاحب نے جا کر عدالت میں استغاثہ دائر کر دیا، جوڈیشل مجسٹریٹ نے اے ایس آئی کو عدالت طلب کیا، جب وہ عدالت میں پیش ہوئے تو کمرہ عدالت میں جج صاحب کے سامنے ہی وکلا نے اے ایس آئی کو مارنا پیٹنا شروع کر دیا اور مارتے پیٹتے ہی عدالت سے باہر لے گئے۔ پندرہ بیس وکلا نے اکیلے اے ایس آئی کو خوب پیٹا، اُس کی وردی بھی پھاڑ دی، اگر وکیل ایک برادری ہے تو پولیس بھی ایک برادری ہے۔ تھانے میں وکلاء کے خلاف ایف آئی آر کاٹی گئی اور ہائی کورٹ بار کے ایک عہدیدار کو گرفتار بھی کر لیا گیا۔ ہائی کورٹ بار کے عہدیدار کی گرفتاری یقیناً وکلا کی توہین تھی لہٰذا بار نے ہڑتال کا اعلان کر دیا۔ کچہریوں میں ہڑتالیں تو معمولی معمولی باتوں پر بھی ہو جاتی ہیں مثلاً اگر کسی نلکے میں پانی نہیں آ رہا تو ہڑتال کر دی، کوئی لفٹ خراب ہے تو ہڑتال کر دی اور یہاں تو معاملہ وکلا کی عزت کا تھا، ہڑتال تو بہرحال بنتی تھی۔
کچہریوں میں ایسی صورتحال اکثر دیکھنے میں آتی ہے۔ اِسی واقعے کے ایک دو روز بعد گوجر خان کی کچہری کے گیٹ پر بحکم صدر بار ایک بورڈ آویزاں کیا گیا جس پر درج تھا کہ فلاں پولیس اہلکار جو مقدمہ نمبر فلاں میں مستغیث ہے، اُس کے علاوہ تمام پولیس اہلکاروں کا ایوانِ عدل میں داخلہ بند ہے۔ میرے خیال میں اِس عبارت کے پیچھے چھپے مفہوم کو بیان کرنے کی ضرورت نہیں ہے، سمجھنے والے سمجھ جائیں گے کہ اس حکم کا مقصد کیا تھا۔ میرے واٹس ایپ میں اِس وقت بھی ایسی کئی ویڈیوز موجود ہیں جن میں سے کسی میں وکیل اور جج کے درمیان اور کسی میں مقدمے میں مخالف وکلاء کے درمیان تلخ کلامی ہوئی اور پھر بات گالم گلوچ سے ہوتی ہاتھا پائی تک جا پہنچی اور پھر جس کے ہاتھ میں جو آیا اُس نے دوسرے کو دے مارا۔ مقدمات کی فائلیں اور رجسٹر سے لے کر کمرہء عدالت میں موجود کرسیاں اور میزیں جس کے ہاتھ جو لگا وہی چل گیا۔
کچھ دن قبل لاہور میں ایک بیرسٹر صاحب جو ظاہر ہے کہ لندن سے بار ایٹ لاء کی ڈگری لے کر آئے ہوں گے، اُن کی جج صاحب سے تلخ کلامی ہوئی اور پھر انہوں نے ساتھی وکلا کے ساتھ چیمبر میں گُھس کر جج کو مارا، غلیظ گالیوں کی آوازیں ویڈیو میں صاف سنی جا سکتی ہیں۔ ایسی ہی مارا ماری کی ایک اور ویڈیو میں مقدمے کی بحث کے دوران مخالف وکلاء میں تلخ کلامی ہوئی اور اُس کے بعد عدالت باقاعدہ اکھاڑے کا منظر پیش کرنے لگی، عدالت میں خاصی بھیڑ تھی اور ہر شخص دوسرے کو ذودوکوب کر رہا تھا۔ مکالمہ کے چیف ایڈیٹر برادرم انعام رانا نے فیس بک پر اُس ویڈیو کو اپلوڈ کرکے ساتھ اِس شکر کا اظہار کیا کہ وہ وقت پر برطانیہ جا کر پریکٹس کرنے لگے تھے ورنہ یہاں ہوتے تو یہاں یہی کچھ کر رہے ہوتے۔ پنجاب میں یہ کلچر کافی زیادہ ہو گیا ہے، عدالتوں کو تالے تک لگا دیے جاتے ہیں، شاید باقی صوبوں میں بھی ایسا ہوتا ہو لیکن اُن کے بارے میں مَیں زیادہ آگاہی نہیں رکھتا۔ پنجاب کے ایک ضلعے میں ایک جج صاحب کی ٹھکائی لگی تو جج صاحبان ہی ہڑتال پر چلے گئے۔ ایک وکیل صاحب جو بار کا الیکشن بھی لڑ رہے تھے، ایک تقریب میں بہت درد بھری گفتگو کرتے ہوئے فرما رہے تھے کہ وکلا صاحبان کے ایسے رویے کے باعث وکالت کا پورا پیشہ بدنام ہو رہا ہے۔ کسی دفتر میں کوئی فوجی افسر یا کوئی ڈاکٹر تشریف لیجائے تو لوگ کھڑے ہو کر انہیں سلام کرتے ہیں اور ظاہر ہے کہ اُن کے پیشے کی عزت کی وجہ سے ایسا کرتے ہیں لیکن اگر کوئی وکیل چلا جائے تو کوئی سنجیدگی سے پیش ہی نہیں آتا۔ مزید کہنے لگے کہ وکیلوں کو گھر کرائے پر کوئی نہیں دیتا اور پھر مزید درد بھرے انداز میں فرمانے لگے کہ کبھی کبھار تو لوگ یہ سُن کر کہ یہ وکیل ہے رشتہ بھی نہیں دیتے۔ دیگر وکلا بھی الیکشن سے قبل بار کی سیاست اور کلچر کو بدلنے کے لیئے بڑے دعوے کرتے ہیں لیکن عملاً بار کا کلچر تباہ تر ہوتا جا رہا ہے۔ روز روز کی ہڑتالوں سے سائلین الگ پریشان اور خوار ہوتے ہیں، لیکن وکیل صاحب تو فیس لے چکے ہوتے ہیں، اُنہیں اِس بات کی کیا پرواہ کہ سائل کِن حالات اور پریشانیوں میں مبتلا کچہریوں میں جوتیاں گِھسا رہا ہے۔ وکلا کو یہ بات سمجھنی ہو گی کہ عزت خود کروائی جاتی ہے، اِس کے لیئے اُنہیں اپنے رویوں میں تبدیلی لانے کی ضرورت ہے۔ کالا کوٹ اور وکالت کرنے کا لائسنس ہمیں قانون سے بالاتر نہیں کرتا۔وکلا کا کام قانون کی مدد کرنا ہوتا ہے نہ کہ قانون کو تڑیاں لگانا۔ میں یہ ہرگز نہیں کہہ رہا کہ ہمیشہ وکلا ہی غلطی کرتے ہیں، یقیناً دوسری طرف سے بھی زیادتیاں ہوتی ہیں لیکن اُن زیادتیوں کا مقابلہ باوقار انداز میں کرنا چاہیے۔ ہم نے تو سنا تھا کہ وکیل معاشرے کا سب سے پڑھا لکھا طبقہ ہوتا ہے، وکیل ڈبل گریجویٹ ہوتا ہے لیکن اگر ڈبل گریجویٹس کا یہ حال ہے تو معاشرے کے جہلا سے گلہ کیسا۔۔۔ وکلا کے رویے کے باعث جج تو ہڑتال پر جا ہی چکے ہیں، میں سوچ رہا تھا کہ کسی دن پولیس والے ہڑتال پر چلے گئے تو پھر کیا ہو گا۔ میں اکثر دیکھتا ہوں کہ اہلِ سیاست میں سے لوگ اپنے ہی سیاسی رویوں پر برسرِ عام تنقید کرتے ہیں ، اہلِ صحافت میں سے بھی لوگ صحافتی کالک کی نشاندہی کھلے عام کرتے ہیں لیکن وکلاء نجی محفلوں میں تو وکالت میں در آئی خرابیوں کی بات کرتے ہیں لیکن سرِعام تسلیم کرنے سے گھبراتے ہیں۔ وکلا سے دست بستہ عرض ہے کہ چارلس ہیملٹن کے کہے کے مطابق سوشل انجنئرز بنیں، معاشرے کے پیراسائٹ نہ بنیں۔

Facebook Comments

محمد ہارون الرشید ایڈووکیٹ
میں جو محسوس کرتا ہوں، وہی تحریر کرتا ہوں

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply