کینسر (82) ۔ چھ اصول/وہاراامباکر

رابرٹ وائنبرگ اور کینسر بائیولوجسٹ ڈگلس ہاناہان 1999 میں ہوائی میں کینسر کانفرنس میں شرکت کے لئے گئے تھے۔ ان کی گفتگو اس بات پر تھی کہ بہت عرصے سے کینسر کے بارے میں ایسے بات کی جاتی ہے گویا یہ نہ سمجھ آنے والی گڑبڑ اور کیاوس ہو۔ اس کے پیچھے کوئی اصول، تنظیم اور قوانین نہ ہوں۔
وائن برگ اور ہاناہان جانتے تھے کہ پچھلے بیس برس کی دریافتوں سے معلوم ہو رہا تھا کہ اس کے پسِ پشت گہرے اصول اور طریقے کارفرما ہیں۔ وہ بائیولوجسٹ جو کینسر کو جانچ رہے تھے، یہ پہچانتے تھے کہ انواع و اقسام کی اس بیماری کے پیچھے خاص جین، پاتھ وے اور behavior ہیں۔
اس شام کی گفتگو کے بعد دونوں نے ان کو یکجا کرنے کا سوچا اور جنوری 2000 میں ایک آرٹیکل شائع کیا جس کا عنوان Hallmarks of cancer تھا۔ اس میں ان اصولوں کی تلخیص کی گئی تھی۔ ایک سو سال کے فکری سفر کے بعد بویری کی “کارسنوما کی ایک وجہ” کے کام کی سمت کو واپسی تھا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔
“اس میں وہ اصول بتائے گئے ہیں جو نارمل انسانی خلیے کو کینسر کی طرف لے جاتے ہیں۔ ہم یہ تجویز کر رہے ہیں کہ حالیہ دہائیوں کی تحقیق یہ دکھاتی ہے کہ چھوٹی سی تعداد میں پائے جانے والی مالیکیولر، بائیوکیمیکل اور خلیاتی خاصیتیں ہیں جو زیادہ تر (اور شاید تمام) اقسام کے کینسر میں مشترک ہیں اور یہ حاصل کردہ صلاحیتیں ہیں”۔
وائنبرگ اور ہاناہان نے سو سے زیادہ اقسام کے کینسر اور ٹیومر کی بہت سی اقسام کے پیچھے کتنے “اصول” بیان کئے؟ یہ صرف چھ تھے۔
“کینسر کے خلیے کی جینوٹائپ کا وسیع ذخیرہ بنیادی طور پر خلیاتی فزیولوجی میں چھ لازم تبدیلیاں ہیں جو ہر کینسرزدہ بڑھوتری کے پیچھے ہیں”۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔
پہلا: بڑھنے کے سگنل میں خودکفالت: کینسر کے خلیات بڑھنے اور تقسیم ہونے کی خودکار خاصیت (pathological mitosis) حاصل کرتے ہیں۔ یہ اونکوجین (جیسا کہ ras یا myc) کے فعال ہونے سے ہوتا ہے۔
دوسرا: بڑھنے کو روکنے کے سگنل کا اثر نہ ہونا: کینسر کے خلیات میں ٹیومر سپریسر جین (جیسا کہ Rb) غیرفعال ہو جاتے ہیں جن کا کام بڑھنے کو روکنا ہوتا ہے۔
تیسرا: پروگرام شدہ خلیاتی موت (apoptosis) میں خرابی: کینسر کے خلیات میں وہ جین غیرفعال یا سپریس ہو جاتے ہیں اور وہ پاتھ وے کام نہیں کرتے جو عام طور پر خلیات کا مرنا ممکن کرتے ہیں۔
چوتھا: کاپیاں بنانے کی لامحدود صلاحیت: کینسر کے خلیات وہ خاص جینیاتی پاتھ وے متحرک کر چکے ہوتے ہیں جو انہیں نسل در نسل بڑھنے کے بعد بھی لافانی بنائے رکھتے ہیں۔
پانچواں: مسلسل ہونے والا انجیوجینسس: کینسر کے خلیات وہ صلاحیت حاصل کر لیتے ہیں جس کی بنیاد پر اپنی خون کی سپلائی حاصل کر لیتے ہیں۔ یہ ٹیومر انجیوجینسس ہے۔
چھٹا: ٹشو پر حملہ آور ہونا اور میٹاسٹیسس: کینسر کے خلیات دوسرے جگہوں پر جانے کی اہلیت حاصل کر لیتے ہیں جس وجہ سے یہ دوسرے اعضاء تک پہنچ جاتے ہیں۔ دوسرے ٹشو پر حملہ آور ہو جاتے ہیں اور ان پر گھر کر لیتے ہیں۔ اس کے نتیجے میں یہ پورے جسم میں پھیل جاتے ہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اہم بات یہ کہ وائنبرگ اور ہاناہان نے لکھا کہ یہ چھ اصول کینسر کی محض تجریدی وضاحت نہیں۔ کئی جین اور پاتھ وے جو ان چھ behavior کو ممکن بناتے ہیں، ان کا ہمیں ٹھیک طور پر علم ہے۔ مثال کے طور پر راس، مائیس، رینٹینوبلاسٹوما وغیرہ۔ اب کرنے والا کام یہ ہے کہ “وجہ کی اس سمجھ” کا تعلق کینسر کی بائیولوجی سے جوڑا جائے تا کہ علاج کے ضمن میں اچھی پیشرفت ہو سکے۔
“کوئی یہ کہہ سکتا ہے کہ کینسر کی پیدائش اور علاج کے بارے میں کی جانے والی تحقیق آئندہ ربع صدی میں بھی ویسے ہی چلتی رہے گی جیسے حالیہ دہائیوں میں۔ اور موجودہ سائنسی لٹریچر پر پیچیدگی کی مزید تہیں لگتی جائیں گے۔ اور یہ لٹریچر اپنی موجودہ پیچیدگی کی جہت میں بھی ناقابلِ فہم ہونے لگا ہے۔ لیکن ہمارا اندازہ اس سے برعکس ہے۔ ہمارا خیال ہے کہ اس تحقیق میں آئندہ ربع صدی میں آنے والی تبدیلیاں اس کا رخ ڈرامائی طور پر بدل دیں گی۔
کینسر سائنس کی میکانیکی بلوغت نئی قسم کی کینسر میڈیسن کو جنم دے گی۔ جب میکانیکی وضاحت اچھی، واضح اور مکمل ہو جائے گی، تو پھر کینسر کی تشخیص اور علاج ایک منطقی سائنس بن جائے گی۔ یہ آج کی سائنس سے بڑی مختلف ہو گی۔
دہائیوں تک اندھیروں میں ٹامک ٹوئیاں مارتے سائنسدانوں کے پاس بالآخر اس عارضے کی سمجھ اور تصویر بننے لگی ہے۔ اب میڈیسن کے لئے کرنے والا یہ کام ہے کہ وہ اس سفر کو علاج کے نئے حملوں کے ساتھ جاری رکھیں”۔
(جاری ہے)

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply