• صفحہ اول
  • /
  • کالم
  • /
  • گڑیا کی گڑیا (سانحہ مری میں مرنے والی بچی کے نام)۔۔محمد وقاص رشید

گڑیا کی گڑیا (سانحہ مری میں مرنے والی بچی کے نام)۔۔محمد وقاص رشید

گڑیا کی گڑیا (سانحہ مری میں مرنے والی بچی کے نام)۔۔محمد وقاص رشید/ماما۔ ۔ میری ڈول کو سردی لگ رہی تھی، یہ کانپ رہی تھی ، میں نے اسے اپنے کوٹ میں چھپا لیا ہے ۔ اپنے ساتھ لگا لیا ہے،اسے میں نے بتایا ہے کہ پریشان نہ ہو۔۔ ماما کہتی ہیں مسلمان مصیبت میں کبھی مایوس نہیں ہوتے۔۔۔۔ابھی کارٹون کی طرح کوئی پری آئے گی یا کوئی اینجل آئے گا۔۔۔ اور ہمیں یہاں سے نکال کر لے جائے گا۔ ۔ ڈولی آپ بھی دیکھو ۔ وہ شامنے، بو ڈیکھو ۔ برف ہی برف ۔ ڈولی میں نے کہا تھا آپ کو اپنے شاتھ ملی لے کل جاؤں گی۔ ۔لو جی پھر ہم آ گئے ۔ ہی ہی ہی ہی۔۔۔۔ اچھا شردی لگ لئی ہے۔۔۔ آ جاؤ میری پاری ڈول کوٹ کے اندر آ جاؤ۔

بابا۔۔ آپ پریشان کیوں ہیں ۔ کیا بنا ؟ کیا۔۔۔۔رات ہم گاڑی میں ہی گزاریں گے ؟۔ ۔پر کیوں گزاریں گے  ؟ کیسے گزار پائیں گے  ؟ یہ ہوٹل والے انکل سے کہیں ناں کہ ہمارے پاس پچاس ہزار روپے نہیں ہیں۔  بابا ویسے انکے بھی تو بچے ہونگے۔  فیملیز ہونگی، انکو یہ احساس نہیں کہ اگر یہ اس طرح برفانی طوفان میں اپنے بچوں کے ساتھ سڑک پر پھنسے ہوتے تو کیا کرتے۔  دادو کہتی ہیں ہمارے نبی ص نے فرمایا تھا کہ مسلمان وہ ہے جو اپنے لیے پسند کرے وہی دوسرے کے لیے پسند کرے  ۔تو کیا یہ مسلمان نہیں؟ کیا یہ اتنے لالچی انکل ہیں ؟

ڈولی سن رہی ہو ناں۔  میں نے آپ کو شٹوری شنائی تھی ناں Greed is a curse والی۔۔ کتنی بری بات ہے۔  ڈول آپ نے اور میں نے کبھی greedy نہیں بننا ۔ہمارے سامنے کوئی اس طرح مصیبت میں ہوا تو ہم ہمیشہ اسکی مدد کریں گے، کرو پھر پرومیس ۔ ملاؤ پھر ہاتھ ۔۔ اچھا ہاتھ ٹھنڈے ہیں۔ ۔ اس لیے شیک ہینڈ نہیں کرو گی۔ ۔ اوکے!

بابا کتنے گھنٹے ہو گئے۔ ۔ آپ کچھ کریں ناں ۔ مجھے بہت سخت بھوک لگ رہی ہے، میں اور میری ڈول سردی سے کانپ رہے ہیں ۔  بابا پلیز۔۔ کچھ کریں ۔۔بابا عمران خان تو روز کہتے ہیں کہ وہ مدینے کی ریاست بنا رہے ہیں۔  مدینے کی ریاست میں تو کتوں کی بھوک پیاس سے مرنے کی ذمہ داری بھی حاکم پر ہوتی تھی۔  یہاں ہم اتنے سارے انسان برف میں بھوکے پیاسے زندہ دفن ہو رہے ہیں اور کوئی پوچھنے والا ہی نہیں ۔بابا وہ تو کہتے تھے کہ میں گورنر ہاؤس کی دیواریں گرا دوں گا اور اسے لوگوں کے لیے کھول دونگا۔  اور آج ہم انہی کی حکومت میں گورنر ہاؤس کی دیواروں کے ساتھ برف ہونے جا رہے ہیں ۔ بابا آپ جا کر گورنر انکل کو انکی وہ بات یاد دلائیں ناں ۔ وہ دیواریں نہ گرائیں بس ہمیں ایک رات کے لیے اندر آ جانے دیں۔ ۔ ماما۔۔۔۔ ماما جی۔۔۔۔ بہت ٹھنڈ لگ رہی ہے۔  بہت زیادہ سردی لگ رہی ہے۔۔۔۔کچھ کریں ناں پلیز۔۔

بھیا۔۔  چلو اپنا یہ فوجی ٹوائےا ور گن اٹھاؤ۔۔  وہ سامنے فوجیوں کے ریسٹ ہاؤس بھی تو ہیں ۔ میں اور آپ چل کر فوجی انکل کو ریکوئسٹ کرتے ہیں انہیں مل کر وہ نغمہ سناتے ہیں کہ ۔۔ “مجھے دشمن کے بچوں کو پڑھانا ہے “۔ ۔ہم انہیں ریکوئسٹ کریں گے کہ آج آپ اپنے ملک کے بچوں کو بچا لیں شدید سردی اور برف باری سے۔ ۔۔پلیز ۔ ۔

کاش کہ میں آپ سے ضد ہی نہ کرتی  مری جانے کی۔  یہ سب میری وجہ سے ہوا۔  کاش میں آپ کی بات مان لیتی ۔ میری سہیلیاں اور کزنز کرتی رہتیں باتیں برف باری کی ۔ میں خاموشی سے سنتی رہتی۔۔ ۔ لیکن بابا کرونا کی وجہ سے ہم قید ہو گئے تھے۔  آپ خود کہتے ہیں آؤٹنگ ضروری ہوتی ہے۔  پر مجھے کیا پتا تھا ۔ لیکن جن کو پتا تھا وہ ہمیں روک دیتے ناں سڑک بند کر دیتے۔۔ ہوٹل والوں کو قانون کے مطابق پیسے لینے کا کہنا بھی تو انہی کی ذمہ داری ہے۔ ۔کاش۔۔  میں بات مان لیتی ۔بس ایک دفعہ گھر پہنچ لیں۔ میں آپکی بات ہمیشہ مانوں گی ۔۔۔ پکا پرامیس ۔۔ اتنے زیادہ ناراض تو نہ ہوں کہ اتنی دیر سے مجھ سے بات ہی نہیں کر رہے۔۔۔ بولیں ناں پلیز۔۔۔۔ پلیز

بابا۔ ۔ ماما کتنے گھنٹے ہو گئے ہمیں ۔ کوئی آتا کیوں نہیں ہمارے پاس۔۔۔۔ اب تو برف  میں دب چکی ساری  گاڑی، کچھ نظر ہی نہیں آ رہا۔۔۔۔۔ماما۔ ۔مسلمان مصیبت میں مایوس نہیں ہوتا ناں  ؟ ہم گھر جائیں گے ناں ؟۔ ۔ہمیں کچھ بھی نہیں ہو گا ناں۔  ؟دیکھو ڈولی۔۔۔ باہر آؤ۔۔۔۔۔دیکھو۔۔  مجھے بہت ڈر لگ رہا ہے۔  بہت زیادہ ڈر لگ رہا ہے۔۔ ۔ میں نے ایک کارٹون میں دیکھا تھا۔۔  قبر کو اندر سے دکھا رہے تھے۔  مجھے اب بھی کبھی کبھی اسکے ڈراؤنے خواب آتے ہیں۔۔  مجھے بہت ڈر لگ رہا ہے ۔ ماما آپ کے پاس آنا ہے۔۔ ۔ ماما۔۔۔ مجھے گودی میں لے لیں۔۔۔۔ ماما پلیز ۔ ۔ماما کچھ بولیں۔۔۔۔۔ ماما جانی۔۔۔ ماما

بابا جی۔ ۔ بابو جی۔۔  بابا کچھ بولیں۔۔۔۔ پلیز۔۔ ۔ ب ب  بہت ڈ ر لگ رہا ہے۔ ۔ ماما آنکھیں کھولیں ۔۔ ماما آپکی آنکھوں کو کیا ہو گیا ۔ بابا آپ تو کہتے تھے اپنی گڈو کو کبھی اکیلا نہیں چھوڑوں گا۔  آپ جھوٹ نہیں بولتے۔۔ بابا چیٹنگ نہیں کرتے۔۔۔۔ خدا کے واسطے۔۔۔۔ خدا کے لیے ۔۔ماما اٹھائیں بھیا کو گودی سے مجھے بٹھائیں۔۔۔

بھیا میرے اچھے بھیا۔ ۔ آپ تو کہتے تھے بھائی چھوٹے بھی بڑے ہوتے ہیں۔ ۔۔ تو بولتے کیوں نہیں میرے ساتھ۔  بولو ناں۔۔۔آنکھیں کھولو ناں۔ ۔ یہ کون سا ٹائم ہے کٹی کرنے کا۔۔ دیکھو جب آپ کبھی ڈرتے ہو تو میں آپ کو چپ کرواتی ہوں ناں۔ ۔ پیار کرتی ہوں ناں۔۔ تو اب آپ بھی ماما بابا کی طرح مجھ سے ناراض ہو گئے ہو۔۔۔۔اچھا آنکھیں تو کھول لو۔۔  اچھا آنکھیں اوپر چڑھا کر کارٹون والی ایکٹنگ کر رہے ہو۔ ۔ بھیا۔۔۔ بھیا۔۔ ۔ بھ بھ بھیا۔۔ ۔نہ نہ  نہیں یہ کیا۔۔۔۔۔ تمہارا چہرہ تو نیلا ہو رہا ہے ۔۔ ماما۔۔  بھیا کو دیکھیں۔۔۔۔ بابا۔ ۔ بابا آپ کے ہاتھ اتنے ٹھنڈے۔۔ ۔اتنے ٹھ ٹھ ٹھنڈے۔۔ ۔ او اللہ میاں۔۔۔۔ میرے پیارے اللہ میاں۔۔۔ ۔

ڈول۔  میری ڈولی۔ ۔۔ دیکھو۔۔۔ ماما بابا بھیا کو کیا ہو گیا۔ ۔ یہ لوگ مم مم  مر گئے۔ ۔۔  فوت ہو گئے۔ ۔ میں بھی مرنا چاہتی ہوں۔  انکے بغیر نہیں جینا چاہتی ۔ مجھے نظر نہیں آ رہے لیکن اللہ کرے میرا چہرہ بھی نیلا پڑ رہا ہو۔ ۔ ماما بابا اور بھیا کی طرح۔۔ ڈولی میری گڑیا خدا حافظ۔۔  میں جج جج جا رہی ہوں۔۔ اپنے ماما بابا اور بھیا کے  پاس۔ ۔ خدا حافظ۔ ۔ Goodby۔۔ اب باہر سے آوازیں آ رہی ہیں بیلچوں کی۔ ۔ڈولی کوئی ٹی وی کیمرہ لے کر جب ہماری گاڑی کا دروازہ کھولے گا۔  تو ان انکل سے کہنا۔ ۔۔ آپ کو آپ کے گورنر ہاؤس ، فوجی ریسٹ ہاؤسز۔ ۔ پچاس ہزار کرایے کے ہوٹل اور مدینے کی ریاست مبارک ہوں۔ ۔میں جا رہی ہوں۔۔ خدا کے پاس۔۔۔ اسے سب کچھ بتاؤں گی۔۔  لیکن میں اسے کیا بتاؤں گی۔۔۔خدا تو سب جانتا ہے۔۔۔۔ سب دیکھ رہا ہے۔۔ ۔ مم مم ماما کک کک کہتی تھیں۔ ۔جج  جو خخ خخ  خدا کی  رحمت سے مم مایوس نہیں ہوتے ووووو  انکی مدد کو ض ض  ضرور آتا ہے۔ ۔۔ تت تت تو پھر آیا کک کک کیوں نہیں۔۔۔۔ ؟ جا کر پپ پپ  پوچھتی ہوں خدا سس سے۔۔ ۔۔

Advertisements
julia rana solicitors london

بس آ آآخری بب بب   بات خدا کرے تمہیں کسی گگ گگ گورنر ہاؤس۔۔۔ یا  آرمی رر رریسٹ ہاؤس۔۔۔۔۔ یا ہ ہ  ہوٹل میں لے  جائیں۔۔  تت تت  تاکہ تم بھی کک کک  کہیں بب برف میں ٹھٹھر کر مر نہ جاؤ۔۔۔ میری ڈڈڈڈڈڈول۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اا اچھا اب میں مرتی ہوں۔
(میں چشمِ تصور سے یہ منظر اس لیے دیکھ پایا کہ میری بھی اس معصوم جتنی ہی بچی ہے۔۔ کیا آپ کی بھی۔  ؟)

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply