پدر شاہی کا معمہ۔۔ڈاکٹر ابرار ماجد

مرد اپنے آپ کو گھر کا بادشاہ سمجھے یا شہزادہ مگر ماں کے بغیر کسی کھاتے کا نہیں۔ ماں ایک عورت ہی نہیں گھر کی ملکہ ہے، اس کے کردار سے انکار اور اسکو جائز مقام دئیے بغیر دنیا و آخرت میں سرخرو ہونا ممکن نہیں۔ اگر مرد اپنی سوچ بدلنے سے غافل ہے تو ماں بھی اپنی ذمہ داریاں نبھانے میں کوتاہی ضرور کر رہی ہے۔ ہر مرد کی تربیت کسی ماں نے ہی تو کی ہوتی ہے۔ اگر اس کی تربیت میں کمی رہ گئی ہے تو ماں کو بھی سوچنا پڑے گا کہ کہاں اس سے غلطی ہوئی ہے۔

مرد اور عورت کی حیاتیاتی عوامل کا فرق اپنی جگہ، فرائض اور ذمہ داریاں اپنی جگہ، مگر ان کے احسات تو ایک جیسے ہی ہیں۔ محد سے لے کر لحد تک ہم نے جو اپنی سوچوں کی بنیاد پر غیر مساویانہ تفریق ڈالی ہوئی ہے، اس میں ہماری معاشرتی کارکردگی قصوروار ہے جس میں مرد و عورت دونوں کا حصہ ہے۔ جو امتیازی سلوک ہم نے جینڈر کے نام پر روا رکھا ہوا ہے اس کو درست کئے بغیر مستحکم معاشرہ تشکیل دینا ممکن ہی نہیں۔

جب معاشرے کی آدھی آبادی کو ترقی کے عمل کا حصہ ہی نہ بنایا جائے یا ان کی کارکردگی کو تسلیم ہی نہ کیا یا سراہا جائے تو اس کا مطلب ہوا کہ ہم نے آدھے حصہ کو مفلوج کیا ہوا ہے، توایسے میں معاشرے کے ترقیاتی عمل کو پوری طرح سے مؤثر کیسے بنایا جاسکتا ہے۔ ہمیں سب سے پہلے تو معاشرے کے اندر مرد اور خاص کر عورت کے کردار اور اہمیت کو سمجھنا ہوگا۔ عورت ہی مرد کو طاقتور بناتی ہے اور مرد کی تمام تر طاقتوں کی رعنائی عورت ہی کے وجود سے ہے اور دونوں کی طاقت مل کر وہ طوفان برپا کرتی ہے، جو انسانیت کی بقاء کو دوام بخشتا ہے۔

عورت: ماں ہے تو دنیا کی سب سے بڑی درسگاہ ہے، اسی نے تو ہمیں چلنا، بولنا، مسکرانا، دکھ بانٹنا سکھایا، کیا نہیں سکھایا، قربانی کیا ہوتی ہے کا عملی نمونہ پیش کیا، شفقت کا احساس دیا۔ تب ہی تو اس کے قدموں تلے جنت ہے، اس نے جنت کی مالک بننے کا پہلے حق ادا کیا پھر یہ اختیار ملا جسکو اپنی اولاد پر نچھاور کر دیاعورت: بیوی ہو تو سب سے بڑی رازداں، عورت اور مرد ایک دوسرے کا لباس ہوتے ہیں، کوئی بات بھی ایک دوسرے سے مخفی نہیں ہوتی، بیوی مرد کی ہر کمزوری کو طاقت بنا دیتی ہے اگر اس کو اعتماد دیا جائے تو۔

عورت: بیٹی ہو تو حیا بن جاتی ہے، حیا ہی دنیا کا بہترین تہذیب و تمدن ہے، دنیا کی سب سے اعلیٰ ترین شخصیت حضرت محمد رسول اللہ ﷺ نے فرمایا تھا کہ اگر حیاء نہیں تو جو دل ہے کرتے پھرو، جس کا مطلب ہے کہ حیا ہی انسان کو دوسروں کی نظروں میں عزت والا بناتی ہے۔ جب گھر میں بیٹی ہو تو دوسروں کی بیٹیوں کی قدر سمجھ میں آتی ہے۔ تو معلوم ہوا کہ مرد کی طاقت کی اصل منبہ ہے بلکہ اگر میں یہ کہوں کہ معاشرے اور قوموں کی طاقت کا م عورت ہے تو مبالغہ آرائی نہیں ہوگی! کہا جاتا ہے کہ استاد قوموں کے معمار ہوتے ہیں۔

اس میں کوئی شک نہیں مگر دنیا کے استادوں کا نصف اور پھر استادوں کی بھی استاد ہے۔ ہر بچے کی پہلی درسگاہ ماں کی گود ہوتی ہے اور پھر سکولوں کا ماحول بھی وہ تربیت نہیں کر سکتا، جو گھر کا ماحول کرتا ہے اور گھر کے ماحول کی روح رواں ایک ماں ہی تو ہوتی ہے۔ پھر گھر کی منتظم عورت، گھر کے سربراہ کی مشیر عورت، گھر کے تمام کے تمام افراد کی حکمران عورت، عورت ہی تو معاشروں اور قوموں کی اصل معمار ہوتی ہے۔

خالق کائنات نے انسان کے ہی نہیں بلکہ دنیا کے ہر جاندار کے جوڑے بنائے ہیں، انسان کو بھی جوڑا بنایا اور ان کے درمیان ایک توازن رکھا ہے۔ جس میں طبی، طبعی توازن سے لے کر ضروریات اور ذمہ داریوں تک کو ایک توازن دیا ہے۔ عورت اور مرد میں سے کوئی بھی کم یا بر تر نہیں بلکہ اپنی اپنی خصوصیات اور ذمہ داریاں ہیں۔ یہ کم تری یا برتری کا تصور ہماری سوچوں کا انداز ہے جس نے ہمارے اندر اس چیز کا احساس پیدا کیا اور پھر ہم نے اس کی بنیاد پر اپنے رہن سہن اور معاملات کو طے کر لیا۔ مختصراً انسان کا وجود جوڑے کے بغیر ادھورا ہے۔

عورت اور مرد کے لازم و ملزوم ہونے کی اس سے بڑی دلیل کیا ہوسکتی ہے کہ ادھوری شے کبھی پورا فعل ادا کرنے کے قابل نہیں ہوتی۔ عورت اور مرد کے قدرتی توازن کو ہم نے جب اپنی سوچوں کے مطابق ڈھالنے کی کوشش کی تو پھر اختلافات، خدشات اور تنازعات وجود میں آئے۔ مرد اور عورت کی آزاد حیثیت کو فطرتی ضرورتوں نے رشتوں کے بندھن میں پرو دیا۔ دنیا کے سارے رشتے اعتماد پر قائم ہیں خواہ وہ خونی ہوں، احساسات کے ہوں یا کاروباری۔ اگر اعتماد ختم ہوجائے تو رشتوں کی اصل افادیت ختم ہوجاتی ہے۔

جب تک باہمی افہام و تفہیم ہوتی ہے معامالات خوش اسلوبی سے چلتے رہتے ہیں۔ رشتے جہاں دعوے رکھتے ہیں وہاں قربانیاں بھی مانگتے ہیں۔ جب ہم رشتوں کے درمیاں توازن کو خراب کرتے ہیں تو پھر مسائل پیدا ہوتے ہیں۔ آج جو بھی ہو رہا ہے وہ ہمارے باہمی افہام و تفہیم کے بگاڑ کی وجہ سے ہے۔ یوں سمجھ لیجئے کہ ہمارے آپس میں معاہدے ہیں، ضروری نہیں کہ یہ معاہدے تحریری یا اعلانیہ ہوں بلکہ کچھ معاہدے علامتی مگر عملاً رائج ہوتے ہیں۔ اور ان پر عمل ہماری ذمہ داریوں میں شامل ہوتا ہے مگر کبھی کبھار ہم ان سے فرار حاصل کرنے کی کوشش کرتے ہیں جس سے معاملات میں فرق آجاتا ہے۔

اسی طرح ہمارے کچھ معاہدے ریاست، خاندان، معاشرے اور اقدار کے ساتھ بھی ہوتے ہیں۔ جن کا خیال کرنا بھی ہماری ذمہ داری ہوتا ہے جس کو ہم یکسر نظر انداز کر دیتے ہیں جس سے معاشرے کے اندر اختلافات اور تنازعات جنم لیتے ہیں۔ بعض دفعہ ہم اپنی خواہشات کو ان معاہدات پر فوقیت دینے لگتے ہیں اور سب سے بڑھ کر اپنی ان خواہشات کی بنیاد پر پوری جماعت کی نمائندگی کرنا شروع کر دیتے ہیں جس سے ہماری شخصیت اور کردار مشکوک بن جاتا ہے اور پھر اس پر رد عمل معاشرے کے سکون کی خرابی کی وجہ بنتا ہے۔

کئی معاملات میں یہ توازن اس قدر خراب ہے کہ یہ عورت کے استحصال کی شکل اور جس کا نتیجہ ہمارے تعلقات کی خرابی کی صورت اختیار کر چکا ہے اور یہ خرابیاں کچھ تو انفرادی سطح پر ہیں اور کچھ اجتماعی نوعیت کی ہیں جو معاشروں پر بد نما دھبہ بن چکی ہیں۔ اور اس جدید، تقابلی اور مسابقتی دنیا میں اب ان حقوق کے لئے آوازیں اٹھائی جانے لگی ہیں اور ان حقوق کی خلاف ورزی ایک عالمی مسئلہ بن کر سامنے آرہا ہے۔

اب ہم ایک گلوبل حیثیت رکھنے کی وجہ سے بین الاقوامی برادری سے کٹ کر نہیں رہ سکتے اور ہمارے افعال بین الاقوامی اثرات کے حامل ہیں لہذا ہمیں سوچ کو بدلنے کی ضرورت ہے اور اپنے افعال کے ان اثرات پر بھی غور کرنے کی ضرورت ہے۔ انسان سے غلطی بھی ہو جاتی ہے لیکن نقصان اس وقت ہوتا ہے جب ہم اس کو ماننے سے انکاری ہوتے ہیں یا اس پر مصر رہنے کی کوشش کرتے ہیں، غلطی کو تسلیم کرنا بڑا پن ہے اور اس کو معاف کرنا اس سے بھی بڑا پن اور اس حقیقت کو سمجھ جانا دانش مندی کی علامت ہے۔

میں خود عورت کی خود مختاری اور حقوق کا دعویدار ہوں، اور یہ یوں ہی نہیں کہہ رہا بلکہ میں نے جینڈر اینڈ ویمن سٹڈیز میں ماسٹر کیا ہوا ہے۔ صحت، قانون، سیاسیات اور حقوق بھی میرے پسندیدہ مضامیں ہیں جن کے بارے میری تعیلم ہے اور دینا کی ترقی یافتہ قوموں کی ٰثقافت کو قریب سے دیکھا ہے۔ اور اپنی سٹڈی اور تجربے کی بنیاد پر غورو خوض کے بعد اس نتیجے پر پہنچا ہوں کہ ہر معاشرے کے اندر مسائل موجود ہیں اور ان کی بنیاد ہر معاشرے کے اندر وجوہات موجود ہیں جن میں ثقافت، لا علمی، لا قانونیت، مفادات اور بہت ساری دیگر وجوہات ہیں۔

تو ہمیں ہر معاشرے کا مکمل طور پر مطالعہ کرنے کے بعد ان کی نشاندہی کرنی چاہیے اور اس میں متعلقہ معاشرے کی اقدار اور ثقافت کا بھی خیال رکھنا چاہیے۔ مگر اس سے یہ مراد بھی نہیں کہ ہمارے معاشرے کے اندر جو خرابیاں ہیں ان کو نظر انداز کردیا جائے۔ نہیں قطعاً نہیں مگر چونکہ ان کو معاشرے کے اندر قبولیت کا درجہ رکھتی ہیں لہذا حکمت عملی اور ایسا طریقہ کار اخذ کرنا ہوتا ہے جو معاشرے کے احساسات پر اثر رکھتا ہو چہ جائے کہ مسائل کو ختم کرنے کی بجائے ایک اور مسائل کھڑے کر دئے جائیں۔

میں نے بین الاقوامی سطح کے کئی پروگرامز میں بھی شرکت کی جن میں خیالات اور تجربات کی شراکت کے ساتھ ساتھ بہت کچھ سیکھنے کا موقعہ بھی ملا۔ تو جہاں معاشرے کی ثقافت اور ہماری اقدار کی اچھی چیزوں کی حفاظت ضروری ہے وہاں معاشرتی برائیوں جن میں کس بھی جینڈر کا استحصال ہورہا ہو کے بارے آواز اٹھانا بھی ہمارا فرض ہے۔ عورتیں چونکہ ہمارے معاشرے کے اندر کمزور حالت میں ہیں لہذا ان کے حقوق کے لئے آواز اٹھانا ہمارا اجتماعی فرض ہے۔ تاکہ ہم اپنی اجتماعی اور حقیقی طاقت کو بحال کر سکیں۔ ان کو ان کا جاہز حق دیں گے جو قدرت نے ان کو دیا ہے تب ہی ہماری طاقت مکمل ہوگی اور اگر ہم اپنے آدھے حصے کو مفلوج کئے رکھیں گے تو کبھی بھی پوری طرح سے توانا نہیں کہلا سکتے۔

کچھ غلطیاں چھوٹا جز ہیں جن کا تعلق نفسیات سے بہت گہرا ہے اور جب ہم نفسیاتی طور پر توانا ہوتے ہیں تو جزیاتی توانائیاں خود بخود ہی امنڈ آتی ہیں۔ توانائیاں وہ ہی ہوتی ہیں جو ابھر کر آئیں اور جن کو نفسیاتی ہم آہنگی اور قبولیت بھی ملے جو صرف اور صرف توازن سے مشروط ہے اور یہ توازن دونوں طرف کی باہمی آہنگی سے ہی ممکن بنایا جاسکتا ہے۔ ہر چیز کی خوبصورتی اس کے ساتھ متعین حدود و قیود سے ہوتی ہے۔ جس کا مظہر انسان اور مخزن اس کی جبلت ہے۔

خوبصورتی اور دلکشی محسوسات کا نام ہے جسکا گہرا تعلق دیکھنے والے کی آنکھ اور سوچ سے ہے۔ مختلف اصطلاحات ہمارے اعمال کا بیان اور سوچ کی عکاس ہیں جسے بعض سوچوں اور تعصبات نے ہوا دی ہوئی ہے۔ بات سمجھنے کی ہے۔ سوچ کی کیفیت کو نشانہ بنانے یا اس پر تبصرہ کرنے کی بجائے پورے ماحول کو کوسنا قطعاً جائز نہیں اور یہ عمل بذات خود ایک منفی سوچ کا عکاس ہے۔ جیسے میں نے پہلے بھی عرض کیا کہ کسی کی حق تلفی خواہ وہ عورت ہو، مرد، بچہ یا حتیٰ کہ کوئی بھی جاندار ہو، ظلم ہے۔

مگر کچھ معاملات کا تعلق احساسات سے ہوتا ہے جو مرد عورت کے بارے یا عورت مرد کے بارے رکھتی ہے ان میں مقابلے کی سوچ موزوں نہیں ہے۔ مرد کے احساسات یا رویہ جو ماں، بیوی یا بیٹی کے لئے ہوتا ہے جسے عرف عام میں پدرشاہی کہہ دیا جاتا ہے، کے پیچھے سوچ اور احساس، بشرطیکہ اس میں امتیازی سلوک نہ پایا جائے، کو نظر انداز کر دیا جاتا ہے جو فیمنزم کی اصل طاقت ہے۔ اور یہ سوچیں اور احساسات مختلف افراد، خاندانوں اور معاشروں میں مختلف ہوتے ہیں کہیں یہ پسندیدہ تو کہیں نا پسندیدہ ہوتے ہیں۔

Advertisements
julia rana solicitors london

میں پھر عرض کروں گا کہ میں یہاں کسی جرم یا کسی امتیازی سلوک کے تحفظ یا طرف داری کی بات نہیں کر رہا اور جہاں یہ جرم یا امتیازی سلوک کے ضمرے میں آتے ہوں تو ان کی معاشرے میں قبولیت کی سوچ بھی اتنی ہی قابل تنقید اور گرفت ہے۔ آخر میں صرف اتنا ہی کہوں گا کہ مرد ہو یا عورت کمزور اس وقت ہوتے ہے جب ان کے احساسات کو سہارا دینے والا کوئی نہیں ہوتا۔ جہاں جہاں بھی امتیازی سلوک ہے اس کو ختم کرنے میں مرد اور خاص کر عورت کو سمجھنے اور اس کو ختم کرنے میں اپنا کردار ادا کرنا وقت کی ضرورت ہے۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply