زندگی لا یعنی ہے۔۔ ڈاکٹر مجاہد مرزا

میں اپنے دوست امتیاز چانڈیو کے دو دوستوں کو جانتا تھا۔ ایک کا نام پیوتر تھا جسے دوست پیتیا پکارتے تھے۔ ایک کا نام پاویل تھا جسے پاشا کہتے۔
پیتیا سے میں ایک بار ملا تھا جب میں امتیاز کے ساتھ اس کی گاڑی میں ماسکو سے چار ساڑھے چار سو کلومیٹر دور ایک سرکاری ” پرند افزائش گاہ ” میں اس کے گھر گیا تھا۔ سنجیدہ شخص تھا جو اپنی خوش اخلاق بیوی اور بیٹا بیٹی کے ساتھ سرکاری رہائش گاہ میں مقیم تھا جہاں ہم مہمان ہوئے تھے۔
امتیاز نے بتایا کہ آرنیتھولوجسٹ ( ماہر پرندگان ) پیتیا کی زندگی کوئی اتنی آسودہ نہیں تھی چنانچہ میاں بیوی میں اسی طرح جھگڑا رہتا جو نیم آسودہ یا کم آسودہ گھروں میں رہتا ہے۔چار پانچ برس پہلے اس کے حالات بہتر ہوئے۔ اس نے اپنا گھر بھی خرید لیا اور بچوں کو انسٹیٹیوٹ پڑھنے بھی بھیج دیا۔
ایک رات وہ پی کے آیا اور بیوی سے قربت چاہی تو بیوی نے دھتکار دیا کہ دوستوں سے آٹھ کے آئے ہو تو مجھے کیوں ضیق کر رہے ہو۔
صبح بیوی نے دیکھا کہ شوہر بستر پہ نہیں۔ سوچا پرندوں کو خوراک دینے گیا ہوگا مگر پرندے تو خوراک دیکھتے ہی شور کرتے ہیں، ایسا تو نہیں ہوا۔ جب دیر ہوئی تو خاتون نے شوہر کے ہم کار سے کہا۔ ہم کار نے جا کے دیکھا تو پرندوں کے پنجروں کے بیچ پیتیا پھانسی لے کے مر چکا تھا۔ اس کی عمر 57 برس تھی۔
پاشا کو میں تب سے جانتا تھا جب وہ اور امتیاز ماسکو کے معروف سینیمیٹوگرافی انسٹیٹیوٹ میں پڑھتے تھے۔ پاشا سنجیدہ اور پتے کی بات کرنے والا شخص تھا۔ بعد میں ایک عرصہ سے وہ روسی فلموں کی ایڈیٹنگ کرتا رہا۔ ماہر فلم ایڈیٹر شمار ہوتا تھا۔
ایک رات پی کے آ رہا تھا کہ اوباش لونڈوں نے پیٹ ڈالا۔ اس کی بیوی، جو خود بھی کارٹون فلموں کی مصورہ ہے نے بتایا کہ وہ دو روز پیٹ میں درد کی شکایت کرتا اور اینٹھتا رہا۔ بیوی نے کہا بھی کہ ڈاکٹر سے معائنہ کروا لیتے ہیں مگر وہ لاپرواہ فنکار شخص تھا۔ بس تیسرے روز کھڑے کھڑے گرا اور جان دے دی۔ پاشا انچاس پچاس سال کا تھا۔
یہ ہے زندگی کا بے بضاعت پن۔
ان دو اموات کا تفصیل سے سن کے اندوہ ہوا۔

Facebook Comments

ڈاکٹر مجاہد مرزا
ڈاکٹر مجاہد مرزا معروف مصنف اور تجزیہ نگار ہیں۔ آپ وائس آف رشیا اور روس کی بین الاقوامی اطلاعاتی ایجنسی "سپتنک" سے وابستہ رہے۔ سماج اور تاریخ آپکے پسندیدہ موضوع ہیں

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply